سیرت کیسے پڑھائی جاتی ہے؟؟

جاہلی تعلیمی اداروں میں
”سیرت“ اور ”تاریخ اسلام“ کا مضمون!
سکولوں سے لے کر کالجوں تک ”سیرت“ اور ”اسلامی تاریخ“ وغیرہ ایسے مضامین کا آغاز بالعموم ”زمانہ¿ جاہلیت“ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ جس کے بعد طالبعلم کو ”زمانہ¿ نبوت“ اور ”قرونِ اولیٰ“ کے مطالعہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ اب یہ پہلا سبق جو ”جاہلیت“ کے مطالعہ سے متعلق ہوتا ہے، کس طرح پڑھایا جاتا ہے؟ سرکاری ادارے ہوں، یا پرائیویٹ یا کوئی اور قسم، بالعموم یہ سبق یہاں پر کچھ اِس طریقے سے شروع ہوتا ہے:
”عرب، جاہلیت میں بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ لڑکیوں کو درگور کر دیتے۔ شراب پیتے۔ جوا کھیلتے۔ لوٹ مار کرتے۔ قبائل ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ اسلام نے آ کر لوگوں کو اِن سب برائیوں سے روکا“۔
”جاہلیت“ یا ”زمانہ¿ جاہلیت“ کا یہ جو وصف بیان ہوا، میں چاہوںگا ذرا میرے ساتھ آپ بھی اِس کا ایک تجزیہ کریں....
اِس عبارت میں بظاہر کوئی غلط بیانی نہیں۔ مگر اِس کی تہہ میں جائیں تو یہ خباثت سے لب ریز ہے....
ظاہر ہے اِس عبارت میں کوئی غلط بیانی نہیں۔ زمانہ¿ جاہلیت میں عرب یقینا ایسے ہی تھے جیسے جاہلی مدارس میں پڑھائے جانے والے اِس سبق میں ذکر ہوا ہے۔ اور یقینا اسلام نے آ کر اِس صورتحال کو تبدیل بھی کیا۔
اِس عبارت میں خباثت کہاں پر ہے؟ خباثت یہ ہے کہ اِس میں جاہلیت کا وہ ”اصل جوہر“ بیان نہیں ہوا جس کو مٹانے اور تبدیل کرنے کیلئے اسلام دنیا میں آیا ہے۔ یہ عبارت محض اور محض جاہلیت کے چند ”مظاہر“ سے بحث کرتی ہے اور وہ بھی اُس جاہلیت کے مظاہر جو عربوں کی تاریخ کے ایک خاص حصے کے اندر پائی گئی اور جبکہ عین ممکن ہے ویسے ”مظاہر“ دوسری جاہلیتوں کے اندر نہ پائے جائیں۔ کیونکہ جاہلیت کا ”اصل جوہر“ ایک ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ ہاں ہر جاہلیت کے ”مظاہر“ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے اسلام اِس لئے نہیں آیا تھا کہ یہ ”عرب جاہلیت کے مظاہر“ کو ختم کرے۔ اسلام اِس لئے آیا ہے کہ یہ جاہلیت کے ”اصل جوہر“ ہی کو نیست و نابود کرے۔ اسلام کسی ایک جاہلیت کو ختم کرنے بھی نہیں آیا۔ یہ ہر جاہلیت کو ختم کرنے آیا ہے اور اس کی جگہ خدا کی فرماں برداری پر قائم زندگی کا پورا ایک تصور دینے آیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں .. جب ہم طالبعلم کے ذہن میں اسلام کا کردار اِسی ایک بات کے اندر محصور کر دیں گے کہ اِسلام کو جاہلیت کے یہ خاص ”مظاہر“ ختم کرنا تھے، تو پھر اس طالبعلم کے اپنے زمانہ میں اسلام کاکیا کردار باقی رہ جاتا ہے اور وہ کونسی مہمات ہیں جو اسلام کو خود اِس کے دور میں سر کرنا ہیں؟
طالبعلم اب یہ سبق پڑھ کر باہر معاشرے میں آتا ہے تو اُس کو ”بتوں“ کی پرستش کہیں نظر نہیں آتی۔ اچھا تو اسلام دنیا میں جو مہات کو سر کرانے آیا ہے ان میں سے پہلا بند تو ساقط ہوا، ”بت“ تو یہاں دور دور تک کہیں نہیں پوجے جا رہے!!!
پھر وہ دیکھتا ہے، یہاں تو لڑکیاں بھی کہیں درگور نہیں ہوتیں! بلکہ معاملہ سراسر الٹا ہو چکا ہے۔ لڑکیاں تو یہاں ’دندناتی‘ پھر رہی ہیں!اِن لڑکیوں کو تو وہ ’آزادی‘ حاصل ہے کہ الامان والحفیظ!!! اچھا تو پھر اسلام کو جو مہمات سر کرنا تھیں، اُس کا دوسرا بند بھی ساقط ہوا!!!
ہاں کچھ لوگ، اور وہ بھی ظاہر ہے کچھ ہی ہیں، کہیں کہیں شراب پی لیتے ہوں گے۔ بعض جگہوں پر جوا بھی کھیل لیا جاتا ہے۔ بہر حال اسلام نے اِن لوگوں کو یہ بتا کر کہ شراب حرام ہے اورجوا کھیلنا کتنی بری بات ہے، اپنا ”اخلاقی فرض“ تو ادا کر ہی دیا ہے۔ اتنے سارے لوگ ہیں جو معاشرے میں شراب نہیں پیتے اور جوا کھیلنے ایسے واقعات بھی ان کی زندگی میں پیش نہیں آتے۔ آخر یہ بھی تو اسلام کی اِن ہدایات کو مانتے ہی ہیں۔ اب کچھ لوگ برائیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور اسلام کی بات ان پر بے اثر ہو رہی ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ ’گناہگار‘ تو بہرحال دنیا میں ہوتے ہی ہیں۔ زیادہ لوگ تو بہرحال ایسے ہیں جو اِن دونوں برائیوں میں نہیں پڑتے!.... یعنی یہ بند بھی سمجھو ختم ہی ہوا!
رہ گئی لوٹ مار اور قبائل میں آپس کی خونریزی.... تو مار دھاڑ اور قتل و خونریزی کی روک تھام کیلئے آج کے دور کے اندر ’سسٹم‘ وجود میں آ گئے ہیں۔ یہاں پولیس ہے۔ امن عامہ کے ادارے ہیں۔ سول حکومتیں ہیں۔ امن خراب کرنے والے عناصر کو پکڑنے کا پورا پورا بندوبست ہے۔ ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے انتظامات بھی خوب ہیں۔ کوئی بے قاعدگی ہو جاتی ہو گی تو یہ ’مس مینج منٹ‘ کا مسئلہ ہے، جوکہ لا ینحل نہیں....!
اچھا تو پھر اسلام کو اب دنیا میں کیا کرنا ہے؟؟؟ آج کے اِس دور میں وہ کونسا کردار ہے جو اسلام کو ہر حال میں ادا کرنا ہے اور وہ کونسی مہمات رہ جاتی ہیں جنہیں از روئے اسلام یہاں سر کرایا جانا ہے؟؟؟
سچ پوچھئے تو کچھ بھی نہیں!!!
یعنی اسلام کو جو کرنا تھا وہ صدیوںپہلے انجام پا چکا....!!! اب کیا باقی ہے جسے اسلام اِن معاشروں کے اندر انجام دے؟!!!
یہ وہ پیغام ہے جو ”اسلامی تاریخ“ اور حتی کہ ”سیرت“ ایسے مضمون کے پہلے ہی سبق سے یہاںکے ایک نونہال کو دینا مقصود ہوتا ہے۔ اب یہ طالبعلم خود ہی سمجھ لے گا کہ اسلام ایک خاص زمانے کیلئے آیا تھا جب اسلام کی دنیا میں ’بہت ضرورت‘ تھی! اسلام کی ”ضرورت“ بھی تب بہت زیادہ تھی اور اسلام کیلئے ”کرنے کے کام“ بھی بہت زیادہ تھے! ہاں البتہ آج معاملہ مختلف ہے! کام بہرحال چل رہا ہے! مختصریہ کہ اسلام جس زمانے کیلئے آیا تھا وہ تاریخ کا ایک خاص دور تھا، یعنی قدیم کا ایک زمانہ، اور بس....!
ظاہر ہے معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہوتا اگر یہاں جاہلیت کے ”اصل جوہر“ کا تعارف کرانے پر زوردیا جاتا اور اسلام کے دنیا میں آنے کی ”اصل وجہ“ پر بھی اِس نونہال کی توجہ مرکوز کرا دی جاتی۔ اگر اس کو یہ بتایا جاتا کہ ”دین“ آدم علیہ السلام سے لے کر محمد ﷺ کی نبوت تک یہی تھا اور یہی ہے کہ انسانوں کو خدائے واحد کی عبادت پر لے کر آیا جائے۔ مخلوق کے آگے بجا لائی جانے والی بندگی اور عبادت کی ہر ہر صورت سے نکال کر انسان کو اللہ کی بندگی اور عبادت میں دیا جائے۔ یہاں تک کہ انسانی معاشروں میں صرف اور صرف اللہ کی عبادت ہو اور اُس کے ماسوا کسی کی عبادت نہ ہو۔ اور ”عبادت“ بھی اپنے جامع ترین معنی میں، یعنی ”اعتقاد“ کے اندربھی اللہ کی تنہا و بلا شرکت غیرے عبادت، ”شعائر عبادت“ پیش کرنے میں بھی اللہ کی تنہا وبلا شرکت غیرے عبادت، زندگی کے ہر ہر معاملہ میں اُس کی ”شریعت کی تحکیم“ کے حوالہ سے بھی اُس کی تنہا وبلا شرکت غیرے عبادت۔ ان سب پہلو¶ں سے زمین میں کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرانے دینا اور اِن سب پہلو¶ں سے اللہ کے ماسوا کسی کی ہدایت پر نہ چلنا (جبکہ ان میں سے کسی بھی پہلو سے اللہ کا شریک کھڑا کرنا اور اُس کے ماسوا کسی کی ہدایت پہ چلنا ہی جاہلیت کا ”اصل جوہر“ ہے)۔ یہ وہ ”دین“ ہے جو آدمؑ تا محمد مشروع ٹھہرا رکھا گیا ہے۔ علاوہ اِس خصوصی اضافہ کے کہ یہ آخری رسالت، جوکہ خاتم النبیین ﷺ کی رسالت ہے، پچھلی تمام رسالتوں کے برعکس، پوری انسانیت کیلئے ہے، ہر دور، ہر زمانے اور ہر معاشرے کیلئے ہے، اور قیامت تک کیلئے ہے۔
کتنا فرق ہوتا اگر اِس نونہال کو اسلام اور جاہلیت کی یہ تصویر اِس انداز سے دکھائی جاتی! وہ ”جوہری حقیقت“ جس کیلئے ”دین“ آیا ہے اُس پر یوں عیاں کی جاتی اور وہ خصوصیت جو اِس آخری آسمانی رسالت کو حاصل ہے اِس انداز سے اُس پر واضح کی جاتی!
یقینا یہ ایک زمین آسمان ایسا فرق ہوتا!
اِس دین کا کام نہ ماضی میں کبھی ختم ہوا تھا۔ نہ آج ختم ہوا ہے اور نہ مستقبل میں کبھی ختم ہوگا۔ اِس دین کا کام کبھی ختم نہیں ہو گا۔ جب تک دنیا کے اندر ایک بھی شخص ایسا ہے جو رب العالمین کے ساتھ شرک کرتا ہے، اِس دین کا کام باقی ہے۔ جب تک دنیا کے کسی ایک بھی گوشے میں اللہ کے سوا الٰہ کھڑے کئے جاتے ہیں، جب تک دنیا میں اللہ کے ما سوا ہستیوں کے آگے شعائر عبادت پیش کئے جاتے ہیں، اللہ کے ماسوا کسی کی شریعت اور کسی کے قانون کو حَکَم ٹھہرایا جاتا ہے، تب تک اِس دین کی مہم باقی ہے۔
یہی نہیں، اگر یہ بھی تصور کر لیا جائے کہ بفرض محال سب کے سب اہل زمین ایمان لے آئے ہیں (اور جوکہ ممکن نہیں، کیونکہ یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی قدر کے خلاف ہے) تب بھی اِس دین کا کام ختم نہیں ہو جاتا۔ کیونکہ اُس صورت میں اِس دین کا کردار یہ ہوگا کہ لوگ اپنے اُس ایمان پر اور اللہ کے ساتھ بندگی کے خاص اس رشتے پر دلجمعی کے ساتھ باقی رہیں۔ تب بھی یہ دین اُن کو اُن کا فرض بتانے اور یاد دہانی کرانے کیلئے باقی رہے گا، کہ خدائی حکم ہے کہ لوگوں کو اپنے مالک کی بابت اُن کے فرائض اور ذمہ داریاں یاد دلائی جاتی رہیں:
وَذَکِّر´ فَÊِنَّ الذِّک´ریٰ تَن´فَعُ ال´مُ¶´مِنِی´نَ (الذاریات: ۵۵)
یہ ہم اُس مفروضہ صورت کی بات کر رہے ہیں جب پوری دینا ایمان لا چکی ہو۔ اب اِس حالیہ صورت میں کیا خیال ہے جب دنیا شرک سے بھری پڑی ہے! شرک کی کوئی نوع نہ ہوگی جو آج پائی نہ جاتی ہو! چاہے وہ بت پرست قوموںاور تہذیبوں کا شرک ہو، چاہے وہ تحریف زدہ آسمانی رسالتوں کے حاملین مانند یہود ونصاریٰ کا شرک ہو، یا وہ شرک ہو جو غیر اللہ کی اتباع کے معاملہ میں ہو اور جس کی رو سے اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر جاہلی شرائع و قوانین کی تحکیم ہوتی ہے۔
باقی دنیا کا معاملہ تو رہا ایک طرف، خود عالم اسلام ہی کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں آسمان سے اتری ہوئی شریعت بے دخل ٹھہرائی جا چکی ہے اور اُس کی جگہ جاہلی قوانین کو حَکَم ٹھہرایا جا چکا ہے؟!
کتنی بڑی مہم ہے جو دین اسلام کو دنیا کے اندر آج درپیش ہے۔ اِس سے بڑھ کر آخر کیا مہم ہو سکتی ہے کہ انسانیت کو آج اِس شرک سے نکال کر توحید کی روشنی میں لایا جائے۔
مگر یہی تو وہ بات ہے جس کو اِن نونہالوں کے اذہان سے دور رکھا جانا مقصود ہے! اِسی بات کا تو خیال رکھا جانا ہے کہ مسلم بچوں کا ذہن کہیں اِس طرف کو نہ چلا جائے....!!!
امت کے بچوں کا ذہن کہیں اِس طرف کو نہ چلا جائے کہ مصر میں، پاکستان میں، بلکہ عالم اسلام کے قریب قریب ہر گوشے میں اسلام کی شریعت کو دیس نکالا دے رکھا گیا ہے۔ اندازہ کیجئے، ”عالم اسلام“، جس سے ”اسلام“ بے دخل ہے!!! ”اسلام“ کی سرزمین، جس پر ”جاہلی قوانین“ کی فرماں روائی ہے!!! کیونکہ امت کے بچے اگر یہ سبق پڑھنے لگے تو اِس سے لازم آئے گا کہ مصر میں، پاکستان میں، بلکہ عالم اسلام کے قریب قریب ہر گوشے میں، امت پر یہ فرض ہو کہ وہ اسلام کی سرزمین کو جاہلی قوانین کی فرماںروائی سے چھڑانے کیلئے برسر جہاد ہو جائے اور صلیبیوں کو ان کے قانون اور ان کی تہذیب سمیت عالم اسلام سے نکال باہر کیا جائے!
انگریز یہاں تھے تو بھی ان کے پروردہ نظام تعلیم میں ”سیرت“ اور ”تاریخ اسلام“ کے حوالے سے پہلا سبق یہی پڑھایا جاتا تھا اور آج بھی یہ سبق ویسے کا ویسے پڑھایا جاتا ہے! یعنی ”جاہلیت“ جس کو ”اسلام“ ختم کرنے آیا تھا وہی تھی جو بڑی دیر ہوئی دنیا سے ناپید ہو چکی! اب اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہاں انگریز ہو یا انگریز کا قانون ہو۔ جاہلی تہذیب، جاہلی آئین، جاہلی شریعت، جو مرضی ہو، ”جاہلیت“ ایک دور کا نام تھا سو ختم ہوا، اب ”اسلام“ کو کسی بات، کسی آئین، کسی شریعت، کسی رسم اور کسی دستور سے کیا پرخاش؟!!!
ایک نہایت سوچے سمجھے مقصد کے تحت فکر و نظر کا یہ مسخ عمل میں لایا جاتا ہے۔ کفر کے اِن مدارس سے ہر سال ہزاروں دماغ جو فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں، کہیں یہ سبق نہ پڑھ لیں کہ ”اسلام“ کا کام دنیا میں ابھی باقی ہے اور وہ خود اِن کے اپنے عہد کے اندر بھی انجام دیا جانا ہے!!!
٭٭٭٭٭
 
اِس کے بعد زمانہ¿ نبوت اور اسلام کے عہد اول کی بابت اسباق شروع ہوتے ہیں۔ ”تفصیلات“ بے شک خاصی زیادہ دے دی جاتی ہوں، مگر جس طرح ”دورِ جاہلیت“ سے متعلقہ اسباق میں جاہلیت کا ”اصل جوہر“ بتانے سے گریز کیا گیا تھا تاکہ خود ان کی اپنی جاہلیت پر زد نہ پڑے، عین اُسی طرح ”دورِ اسلام“ سے متعلقہ اسباق کے دوران اسلام کا ”اصل جوہر“ اِس پورے تعلیمی عمل سے روپوش رہتا ہے۔ آخر وہ کیا چیز تھی جس کو اسلام نے آ کر ختم کیا تھا؟ وہ کیا چیز تھی جس کو اسلام نے آ کر قائم کیا تھا؟ زمانہ¿ نبوت کا مطالعہ پیش نظر ہے، تو آخر کیا بات تھی جس کے بیان پر رسول اللہ ﷺ نے اپنا پورا زور صرف کر دیا تھا؟ کس چیز کے ساتھ آپ دنیا کے اندر مبعوث ہوئے تھے؟ کس چیز کی طرف دعوت دینے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی بتا دی؟ کس چیز کو زمین کے اندر تمکین دلانے کیلئے نبی ﷺ نے ایک جہادِ عظیم برپا کروایا؟.... سب کچھ ’گول‘ کردیا جانا آخری حد تک ضروری ہے!!!
وائے افسوس! مستشرقین کا عالم اسلام کے نونہالوں کیلئے ترتیب دیا گیا نظام تعلیم! مشتشرقین کا وضع کردہ ”اسلامیات“ اور ”تاریخ اسلام“ کا مضمون! عالم اسلام کے وسط میں بیٹھ کر مسلم بچوں کو اُن کے دین کے اسباق پڑھا جانا!
”زمانہ¿ نبوت“ اور ”اسلام کے عہد اول“ کی بات ہے اور سامنے مسلمانوں کے بچے بیٹھے ہیں تو ”دورِ نبوت“ کی کچھ روشنی تو چھوڑنا ہی پڑے گی۔ مگر یہ روشنی بہت تھوڑی دیر کیلئے رہنے دی جاتی ہے۔ ”دورِ نبوت“ اور ”اسلام کے عہد اول“ (قرونِ اولیٰ) کے مطالعہ کے دوران تھوڑی ہی دیر گزرتی ہے کہ یکایک ’روشنی‘ گل کر دی جاتی ہے۔ لیجئے اسلام کی ’سیاسی تاریخ‘ شروع ہوتی ہے! بلکہ یوں کہئے، اسلام کے عہد اول کے وہ حصے ”بالتفصیل“ سامنے لے آنا ضروری ہو جاتا ہے جن میں واقعتا انحراف کا حملہ ہو جاتا رہا ہے۔ قرونِ اولیٰ کا تمام تر حسن اور تابناکی چھوڑ کر محض اور محض اُس دور کی ”سیاست“ کے کچھ ابواب، یہ ہے ”قرونِ اولیٰ کی تاریخ“ پڑھانے کا استشراقی منہج!
اِس میں کیا شک ہے کہ انحراف اِس امت میں بھی بہرحال آیا ہے، خصوصاً مسلمانوں کی سیاسی زندگی میں اِس کا ایک بھر پور حملہ ہوا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ یہ انحراف خاصا پہلے سے شروع ہو گیا تھا، یعنی دورِ اموی سے ہی۔ اقتدار پر قبضہ کرنے یا اقتدار برقرار رکھنے کیلئے مسلم ایوانوں میں یقینا وہ ہتھکنڈے استعمال ہوئے جن کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے اور نہ وہ کسی مسلمان کے لائق ہیں۔ یہ اعتراف کرنے میں یقینا ہمیں کوئی مانع نہیں۔
ہاں مگر اسلام کے اس عہد اول میں صرف اور صرف یہ انحراف اور یہ بگاڑ ہی نمایاں سے نمایاں کر کے دکھانا گویا اُس عہد کے دامن میں ایک سیاسی انحراف اور بگاڑ کے سوا کچھ ہے ہی نہیں، اور اس کے ماسوا ہر چیز کو روپوش کرا دینا، قرونِ اولیٰ کی سب خیر کو کمال چالاکی کے ساتھ معدوم کر جانا.... یہ البتہ ایک خاص منصوبہ بند عمل ہے جس کا زہر یہاں کے پڑھے لکھے ذہنوں میں پوری شیطنت کے ساتھ اتارا گیا ہے۔ یقینا اس کے پیچھے ایک دور رس ذہنیت کار فرما رہی ہے اور آج عالم اسلام کے اچھے اچھے مخلص ذہنوںکو قرون اولیٰ کی تاریخ سے برگشتہ کرا دینے اور ان میں اسلام کے عہد اول کی بابت ایک طرح کی ’شرمندگی‘ پیدا کر دینے میں مشتشرقین کا یہ کمال کا ایک ابلیسی حربہ رہا ہے۔
قرونِ اولیٰ کی تاریخ پڑھانے کے دوران اگر پوری تصویر دکھائی جاتی، اور جیسی خوبصورت وہ تصویر ہے اتنی ہی خوبصورت کر کے دکھائی جاتی، پھر بے شک حکمرانوں کا یہ بگاڑ بھی اِس تصویر کے ایک بد نما حصہ کے طور پر دکھایا جاتا، تو آپ سوچ سکتے ہیں معاملہ کس قدر مختلف ہوتا!
امت میں بگاڑ آنے کا عمل یقینا شروع ہوا تھا، خصوصاً سیاسی شعبوں کے اندر، مگر ”اسلام“ اپنی اُس تمام تر تابناکی کے ساتھ جو اُس نے جاہلیت کو ختم کر کے قائم کی تھی، وجود سے ختم نہیں ہو گیا تھا! مسلم معاشروں کے کثیر جوانب میں اسلام اپنی بے حد و حساب برکات کے ساتھ پھر بھی قائم تھا۔ ایمان کے بے شمار حقائق مسلم سماج پر پھر بھی راج کر رہے تھے۔ خلق خدا اس کے ثمرات سے پھر بھی محظوظ ہو رہی تھی۔ شوکت و عظمت کے بے شمار پہلو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پھر بھی باقی تھے۔ صحابہ والی بلندی سے خاصا نیچے آ جانے کے باوجود مسلم معاشرے پھر بھی وہ تصویر پیش کر رہے تھے جس پر مسلمان جتنا فخر کریں کم ہے۔
مگر لارڈ میکالے کے تاسیس کردہ نظام میں ”تاریخ اسلام“ کا جو مطالعہ کروانا مقصود ہے، اُس کا یہ مقصد تھوڑی ہے کہ مسلمان اپنی ابتدائی صدیوں پر فخر کرنا سیکھے۔ قرونِ اولیٰ کے ساتھ مسلم نونہال کی یہ وابستگی اور عہد اول پر فخر کرنے کا یہ احساس ہی تو وہ چیز ہے جس کو کچلنے کیلئے مطالعہ تاریخ کا یہ نظام وضع کیا گیا ہے۔
پس نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں، خصوصاً قرون اولیٰ کے سب تابناک صفحات اپنے اِس مطالعہ نگار سے روپوش کرا دیے جائیں۔ یا یوںکہیے، تاریخ اسلام کا پورا ایک روشن تابناک صفحہ اُس کی نگاہ سے چھپا دیا جائے اور اس صفحہ پر پائی جانے والی ایک باریک سیاہ لکیر ہی نمایاں طور پر نظر آنے دی جائے، کہ دیکھو یہ ہے ”تاریخ اسلام“!
نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مطالعہ نگار کے سامنے یہ بات نمایاں نہ ہونے دی جائے کہ اُس عہد میں اِس امت نے آدھی دنیا کا اعتقاد درست کرایا تھا۔ بحر اوقیانوس سے لے کر کوہِ ہمالیہ اور اس سے بھی پرے تک بسنے والی انسانی مخلوق کو خدا کا درست تعارف کرایا تھا۔ اِس کے دم سے براعظموں کے براعظم خدائے واحد کو پوجنے لگے تھے۔ ملکوں کے ملک تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں لے آئے گئے تھے۔ شرق تا غرب اُس عدلِ ربانی کو قائم کرایا گیا تھا جو آسمانی شریعت کے نفاذ کا طبعی تقاضا ہے۔ معمورہ¿ ارض کے بڑے حصے میں اِس امت نے تب شریعت خداوندی کو بہرحال قائم کر رکھا تھا۔ خاص طور پر اسلام کے اِن وسیع و عریض خطوں میں رہنے والے وہ لوگ جو اِس دین میں داخل نہیں ہوئے تھے، اُن کو جو عدل اور جو احسان میسر کرایا تھا، اُس کی مثال کہیں مل ہی نہیں سکتی!
”توسیع اسلام“ کے اِس تاریخی واقعے کو یوں دکھانے کی بجائے کچھ اِس طرح دکھایا جانا ضروری تھا کہ محض یہ ’کشور کشائی‘ کا ایک عمل تھا۔ یہ کچھ ’جنگی کارروائیاں‘ تھیں جن کی بابت زیادہ سے زیادہ کوئی چیز نمایاں کی جا سکتی ہے تو وہ مسلمانوں کی دلیری کے کچھ حیرت انگیز واقعات ہیں اور ’مسلم کمانڈروں‘ کی کمال کی عبقریت اور جنگی چالوں پر ایک حیران کن قدرت کا مالک ہونا!!! البتہ تھی یہ قوموں کو محکوم بنانے اور ملکوں کو زیر کرنے کی ایک نہایت کامیاب مہم!
اِس مطالعہ نگار سے یہ حقیقت روپوش کرا رکھنا بھی بے حد ضروری ہو جاتا ہے کہ اتنا طویل عرصہ مسلم معاشرے کس پاکیزگی کا نقشہ پیش کرتے رہے تھے۔ یہ تمام تر صدیاں، مسلم معاشرے کیونکر فواحش کی غلاظت سے پاک رکھے گئے تھے۔ عزتیں اور آبروئیں کیونکر محفوظ و مامون تھیں۔ کیونکر ایسا تھا کہ نہ کسی کو عصمتوں کے لٹنے کا خطرہ اور نہ نسب برباد ہو جانے کا خوف۔ جہاں بھی دولت اسلامی کا اقتدار محکم ہوتا وہاں امن و چین کا وہ راج ہوتا جو اِن اقوام نے اِس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ سنا۔ آسمانی شریعت کی تحکیم کے سائے میں ہر کسی کی جان بھی محفوظ اور مال بھی، راحت بھی اور ذرائع رزق بھی!
یہ بھی بہت ضروری تھا کہ اُس بھاری بھرکم تحریک کو بھی اِس ’مطالعہ‘ کے دوران روپوش کرا دیا جائے جس نے اسلام کی عقلی و فکری جہتوں سے جنم پا کر کائنات کے معروضی طریقہ¿ مطالعہ کا آغاز کرایا تھا۔ عقل انسانی کو حقیقی سائنسی جہتوں سے ہمکنار کرایا تھا۔ اور آدھی دنیا کے دماغوں کو خدا کی اِس کائنات کے مطالعہ و تحقیق کی نئے سرے سے ایک دعوت دی تھی، بلکہ عقل انسانی کا ہاتھ پکڑ کر ایک راہ پر ڈال دیا تھا، جس سے بعد ازاں یورپ کو بھی بہرہ مند ہونے کا موقعہ ملا۔ یورپ کی پوری نشÉة ثانیہ کی پوری بنیاد مسلم عقل کی دی ہوئی انہی سائنسی جہتوں پر اٹھائی گئی، اور یورپ کو یہ خیر اُسی وقت ملی جب زمین کے کچھ خطوں میں اُس کو مسلمانوں کے ساتھ گھلنا ملنا نصیب ہوا۔
یہ بھی بہت ضروری تھا کہ وہ دیو ہیکل تہذیبی عمل بھی اِس مطالعہ نگار سے روپوش کرا رکھا جاتا جس کو اسلام کی اِن ابتدائی صدیوں نے جنم دیا تھا۔ یہ حیرت انگیز تہذیبی ترقی اپنے دونوں پہلو¶ں سے کسی بھی مطالعہ نگار کی نگاہوں کو خیرہ کر دینے کیلئے کافی تھی: اپنے روحانی و اخلاقی پہلو¶ں سے بھی کہ کیونکر جہان میں اِس امت کے دم سے بہترین اخلاقی قدریں راج کرنے لگیں یہاں تک کہ انسانیت اپنی ترقی کی اوج پر پہنچ گئی۔ اور مادی پہلو¶ں سے بھی کہ کیونکر اِس امت کے دم سے انسان نے زمین پر آبادکاری گویا ایک نئے سرے سے سیکھی، شہر بسانے اور بستیاں آباد کرنے کی انتظامی و عمرانی جہتیں بھی یہی امت دینا کو سکھاتی رہی۔ سماجی علوم میں جو گہرائی اِس امت کی علمی شخصیات کو نصیب ہوئی اور ’انسان‘ کے مطالعہ کی جو تاسیس اِس امت کے عباقرہ کے ہاتھوں ہوئی،بعد کی تمام تر پیش قدمی اُسی کی مرہون منت رہی۔
اور خاص طور پر، یہ بات اوجھل رکھی جانا تو بے حد ضروری تھا کہ اسلامی غلبہ و اقتدار کے زیر سایہ، عقل انسانی وحی خداوندی کے ساتھ عدم تصادم ایسی نایاب ترین نعمت سے کیونکر محظوظ ہوتی رہی تھی! ظاہر ہے یہ تو خصوصیت ہی وحی محفوظ سے جنم پانے والی تہذیب کو حاصل ہو سکتی تھی۔ اِس کے دم سے ایک آدھی دنیا کے باشندے اپنی روح اور اپنے ضمیر کے ساتھ بر سر جنگ رہنے کی آزمائش سے بچے رہے تھے اور یہ نعمت ان کو بڑی صدیوں تک حاصل رہی تھی۔ اِس کی بدولت وہ اپنے سامنے روحانی و مادی ہر دو ترقی کے راستے بیک وقت کھلے پاتے تھے۔ دنیا اور آخرت ہر دو میدان میں بیک وقت پیش قدمی کی سہولت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ یوں ”انسان“ کو روح اور مادہ کے مابین دو لخت ہونے کی اذیت ناک صورتحال سے بڑی صدیوںتک چھٹکارا ملا رہا تھا! ایک ہی خوبصورت لڑی میں انسانوں کی ”دنیا“ بھی پروئی جاتی اور ”آخرت“ بھی!
”تاریخ اسلام“ پڑھنے والے شاگردِ رشید کی نگاہ سے یہ اتنی ساری خیر اوجھل کرا دی گئی تو پھر پیچھے بچا کیا؟
 

حماد

محفلین
کفر کے اِن مدارس سے ہر سال ہزاروں دماغ جو فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں، کہیں یہ سبق نہ پڑھ لیں کہ ”اسلام“ کا کام دنیا میں ابھی باقی ہے اور وہ خود اِن کے اپنے عہد کے اندر بھی انجام دیا جانا ہے!!!
٭٭٭٭٭
"کفر کے مدارس" سے آپکی کیا مراد ہے؟
 
اتنا لمبا چوڑا مضمون پڑھنے کے بعد جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں(تقریباّ تمام 'اصلاحی اسلامی ' تحریکوں کے پرجوش کارکنان کی طرح) کہ اصل اسلام آپکی دانست میںیہ نہیں کہ انسان اپنے کردار کو اسوہء رسول سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمت کے مطابق زندگی گذار کر عرفانِ ذات اور عرفانِ کائناتت، عرفانِ رسول اورعرفانِ خدا تک پہنچے۔۔۔بلکہ یہ ہے کہ مسلمان من حیث القوم شرک کی کسی بھی متخیلہ و متوہمّمہ و متصوّرہ صورت کو مٹا کر دم لے اورپوری دنیا کے اعتقاد کو درست کرکے دم لیں اور اگر اس کارِ محال میں کامیاب ہوجائیں تو پھر بعد میں اس توحید پر دلجمعی سے قائم رہیں۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟
 

متلاشی

محفلین
اتنا لمبا چوڑا مضمون پڑھنے کے بعد جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں(تقریباّ تمام 'اصلاحی اسلامی ' تحریکوں کے پرجوش کارکنان کی طرح) کہ اصل اسلام آپکی دانست میںیہ نہیں کہ انسان اپنے کردار کو اسوہء رسول سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمت کے مطابق زندگی گذار کر عرفانِ ذات اور عرفانِ کائناتت، عرفانِ رسول اورعرفانِ خدا تک پہنچے۔۔۔ بلکہ یہ ہے کہ مسلمان من حیث القوم شرک کی کسی بھی متخیلہ و متوہمّمہ و متصوّرہ صورت کو مٹا کر دم لے اورپوری دنیا کے اعتقاد کو درست کرکے دم لیں اور اگر اس کارِ محال میں کامیاب ہوجائیں تو پھر بعد میں اس توحید پر دلجمعی سے قائم رہیں۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟

جناب محمود غزنوی صاحب۔۔۔۔کیا آپ کے خیال میں ۔۔۔۔ اسوہ ء رسول پر عمل ، اور اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمات کے مطابق زندگی گذار کر عرفانِ ذات ، اور عرفانِ کائنات ، عرفانِ رسول اور عرفانِ خدا تک پہنچنا۔۔۔۔۔توحید کے بغیر کے ممکن ہے۔۔۔۔؟
کچھ خدا کا خوف کریں۔۔۔۔اس طرح توحید کا مذاق نہ اڑائیں۔۔۔۔! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کیا تھا۔۔۔۔۔؟ آپ نے شرک میں ڈوبی اپنی قوم کو کس طرف بلایا۔۔۔۔۔؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کی وادیوں میں پتھر کس لے کھائے ۔۔۔۔۔؟ اگر توحید کے ماسوا کچھ تھا تو عرض کردیں۔۔۔ تاکہ ہم فقیروں کے علم میں بھی کچھ اضافہ ہو سکے۔۔۔۔!
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے​
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کونجات​
 
متلاشی بھائی مشورے کا شکریہ۔۔۔پہلے آپ اپنی ریڈنگ سکلز میں اضافہ کریں پھر بات کریںگے۔۔۔اور ریڈنگ سکلز ہی نہیں بلکہ بات کرنے کی تمیز بھی کہیں سے سیکھ سکیں تو کام چل جائے گا۔:-(
 

متلاشی

محفلین
متلاشی بھائی مشورے کا شکریہ۔۔۔ پہلے آپ اپنی ریڈنگ سکلز میں اضافہ کریں پھر بات کریںگے۔۔۔ اور ریڈنگ سکلز ہی نہیں بلکہ بات کرنے کی تمیز بھی کہیں سے سیکھ سکیں تو کام چل جائے گا۔:-(
محمود غزنوی صاحب۔۔۔ آپ تو مفت میں ہی سیخ پا ہو رہے ہیں۔۔۔۔! اگر میں نے کچھ غلط کہا ہو تو برائے مہربانی نشاندہی کر دیں۔۔۔۔! انسان خطاؤں کا پتلا ہے ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے فقیر نادانستگی میں کچھ غلط لکھ گیا ہو۔۔۔۔! مگر آپ نے یہ لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ آپ دوسروں پر تنقید کرنا تو خوب جانتے ہیں مگر کوئی آپ پر تنقید کر ے تو وہ آپ سے برداشت نہیں ہوتی۔۔۔!
دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ اگر فقیر سے نا دانستگی میں آپ کی شان عالیہ میں کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو اس کی معذرت۔۔۔۔۔!
 
حضرت میں قطعا سیخ پا نہیں ہورہا۔۔۔اگر میں نے کوئی غلط مشورہ دیا ہو تو بتائیے۔۔۔میں نے تو آپکے قیمتی مشورے کا شکریہ اداکیا ہے، اور شکرگذاری کے طور پر آپ کو بھی ایک اچھا اور قیمتی مشورہ دیا ہے۔:sad:
 

شمشاد

لائبریرین
حضرات ابھی اس دھاگے کے چند پیغام ہوئے ہیں اور مجھےابھی سے ماحول بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون میرا اپنا نہیں بلکہ اخذکردہ ہے۔ بہر حال محمود غزنوی صاحب بعثت نبوی کے مقصد پر غور فرما ئیں۔
اگر یہ مضمون اخذ کردہ ہے تو آپ نے اس کے ماخذ کا حوالہ کیوں نہیں دیا؟

براہ مہربانی حوالہ دیں، دوسری صورت میں حقوق محفوظ کے تحت اس کو حذف کر دیا جائے گا۔
 
بہر حال محمود غزنوی صاحب بعثت نبوی کے مقصد پر غور فرما ئیں۔
شکریہ شہریار صاحب۔۔۔۔بہت عمدہ بات ہے۔ بعثت نبوی کے مقاصد کو اگر ہم سمجھ جائیں تو زندگی گوناگوں قسم کی الجھنوں اور ابہامات سے کافی حد تک پاک ہوجائے۔۔۔آپ کے پیش کردہ مضمون سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بعثت نبوی کا مقصد محض یہ ہے کہ مسلمان من حیث القوم توحید کو اطراف و اکناف عالم میں پھیلا کر دم لیں۔۔۔میری مختصر سی پوسٹ اسی لئے تھی کہ براہ کرم اپنے مضمون کا لب لباب اپنے لفظوں میں مختصر اور جامع انداز سے پیش کردیجئے تاکہ اگر ہم اس مضمون سے کوئی اور مطلب اخذ کررہے ہیں تو صاحبِ مضمون اس کی وضاحت کردیں۔
 
اگر یہ مضمون اخذ کردہ ہے تو آپ نے اس کے ماخذ کا حوالہ کیوں نہیں دیا؟

براہ مہربانی حوالہ دیں، دوسری صورت میں حقوق محفوظ کے تحت اس کو حذف کر دیا جائے گا۔
معافی چاہتا ہوں بھائی، یہ مضمون سہ ماہی ایقاظ کی ویب سائٹ سے رسالہ جولائی 2010 سے لیا گیا ہے۔
 
Top