سیرت النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ایک پہلو:

ام اویس

محفلین
سیرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بیان کرنا ہردور کے ہر مصنف کے لیے ایک اعزاز ہے۔ بے شمار مصنفین نے اس موضوع پر قلم اٹھایا جن میں اپنے بھی شامل ہیں اور بے گانے بھی اور سیرت نبی کریم ﷺ کے ہر پہلو سے امت کو روشناس کرانے کے لیے حیات نبیﷺ کے واقعات پر قلم آزمائی کی۔
دینِ اسلام میں عقائد کی درستگی اور پختگی کے بعد عبادات کو اہمیت حاصل ہے لیکن کہیں پر اخلاق کا درجہ عبادت سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد اخلاق پر ہے چنانچہ اسلام سے قبل بھی جتنے انبیاء علیھم السلام اصلاح انسانیت کے لیے تشریف لائے سب نے اپنی امت کو اخلاق سنوارنے کی ترغیب دی۔
جس طرح دوسرے تمام مذاہب کی راست تعلیمات کی تکمیل دین اسلام کرتا ہے اسی طرح تمام قسم کے احسن اخلاق کی تکمیل کا بیڑا بھی نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اٹھایا۔ خود آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ
میں تو اسی لیے بھیجا گیا کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں۔
موجودہ منتشر ، تفرقہ بازی اور بے اطمینانی کے دور میں آپ ﷺ کی سیرت کے اس پہلو پر خاص طور پر توجہ مرکوز کرنے اور آپ کے اخلاق طیبہ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ سیرت نبی ﷺ کی طرف نگاہ کریں تو آپ ﷺ اعلان نبوت سے قبل بھی اخلاق و کردار کی بلندی پر نظر آتے ہیں۔ انسانوں کے مجمع میں آپ ﷺ جو بات کہتے گھر کے خلوت کدہ میں اسی طرح دکھائی دیتے، جودوسروں کو سکھاتے خود اس پر عمل کرکے نمونہ پیش فرماتے۔ بیوی سے بڑھ کر انسان کے اخلاق کا کون رازدان ہو سکتا ہے چنانچہ چند صحابہ نے جب حضرت عائشہ رضی الله عنھا سے آپ ﷺ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ آپﷺ کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا۔ ( ابوداود)
الله سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں جابجا آنحضرت ﷺ کی تعریف میں کہا ہے۔

وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
(الجمعہ)
اور یہ پیغمبر ﷺ انکو پاک کرتے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
حکمت کا لفظ قرآن مجید میں علم و عرفان کے معنی میں بھی آیا ہے اور اس کے عملی آثار و نتائج کے معنی میں بھی ، جس کا بڑا حصہ اخلاقی تعلیمات ہیں۔
گویا ایمان کی روح کے بعد دعوت محمد ﷺ کے دو بازو ہیں ایک عبادت اور دوسرا اخلاق ، ایک خالق کا حق اور دوسرا مخلوق کا حق اور ان دونوں کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔
نبی آخر الزماں ﷺ کی زندگی اس مجموعے کی مکمل نمائندہ ہے جس کا بین ثبوت حضرت خدیجہ رضی الله عنھا کے وہ الفاظ ہیں جوانہوں نے زمانہ آغاز وحی میں آپ کی تسلی کے لیے ارشاد فرمائے۔
“ ہرگز نہیں ! الله کی قسم ! الله آپ کو کبھی غمگین نہیں کرے گا ، آپ صلہ رحم کرتے ہیں ، مقروضوں کا بار اٹھاتے ہیں ، غریبوں کی اعانت کرتے ہیں ، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں ، حق کی حمایت کرتے ہیں ، مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں ۔ (بخاری)
حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف نہایت تفصیل سے امت تک پہنچائے۔ فرماتی ہیں : آنحضرت ﷺ کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی، برائی کے بدلہ میں برائی نہیں کرتے تھے بلکہ درگزر کرتے اور معاف فرما دیتے تھے، آپ کو جب دو باتوں کا اختیار دیا جاتا تو ان میں سے جو آسان ہوتی اس کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو ، ورنہ آپ اس سے بہت دور ہوتے۔ آپ نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملے کا انتقام نہیں لیا، لیکن جو احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتا خدا اس سے انتقام لیتا تھا یعنی الله تعالی کے حکم کے مطابق آپ اس پر حد جاری کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے نام لے کر کبھی کسی مسلمان پر لعنت نہیں کی ، آپ ﷺ نے کبھی کسی غلام ، لونڈی ، عورت یا جانور کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا۔ آپ ﷺ کسی کی جائز درخواست کبھی رد نہیں کی، آپﷺ جب گھر آتے تو ہنستے مسکراتے تشریف لاتے ، دوستوں میں پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے۔ باتیں ٹھہر ٹھہر کر اس طرح بیان کرتے کہ کوئی یاد رکھنا چاہیے تو یاد کرلے۔
( بخاری، مسلم و ابوداود )
اخلاق کا سب سے ضروری پہلو یہ ہے کہ انسان جس کام کو اختیار کرے اس پر ہمیشہ عمل کرے یہانتک کہ وہ اس کی پہچان بن جائے۔ آنحضرت ﷺاپنے تمام کاموں میں اسی اصول کی پابندی فرماتے تھے۔ سنت کا لفظ ہماری شریعت میں اسی اصول سے پیدا ہوا ہے۔ اسی لیے جس قدر سنتیں ہیں وہ آپﷺ کی استقامت حال اور مداومت عمل کی ناقابل انکار مثالیں ہیں۔ آپ ﷺ تمام اخلاق و اعمال میں اس قدر پختہ تھے کہ ساری عمر ان میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔
جریر بن عبد الله ایک صحابی ہیں جن کو دیکھ کر آپ ﷺمحبت سے مسکرا دیا کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں اور آپ ﷺ نے مجھے مسکرا کر نہ دیکھا ہو۔(مسلم)
حسنِ خلق کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ پہلے خود سلام و مصافحہ کرتے اور اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک اگلا خود ہی نہ چھوڑ دے۔ اگرکسی کی کوئی برائی ، کمی یا کوتاہی علم میں آتی تومجلس میں نام لے کر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ فرماتے کہ لوگ ایسا کرتے ہیں ، بعض لوگوں کی عادت ہے تاکہ مخصوص شخص شرمندگی یا ذلت محسوس نہ کرے۔
آپﷺ کے ہاں ہرحال میں حسنِ معاملہ کا سخت اہتمام تھا۔ نبوت سے پہلے بھی جن لوگوں کے آپ ﷺ کے ساتھ تاجرانہ تعلقات تھے انہوں نے ہمیشہ آپ ﷺکی دیانت اور معاملات کی عمدگی کا اعتراف کیا۔ اسی لیے آپ مکہ میں صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے۔ اعلان نبوت کے بعد گو قریش بغض و کینہ کے سبب آپ کی جان کے دشمن ہوگئے لیکن ان کے مال کے لیے محفوظ جگہ آپﷺ کا کاشانہ ہی تھا۔ ہجرت کے پرخطر موقع پر جب قریش کے ہر قبیلے کا جنگجو آپ کے خون سے ہاتھ رنگنے کو تیار تھا آپ ان کے مال کی واپسی کا انتظام کیے بغیر گھر سے نہ نکلے اور ان مشکل ترین حالات میں بھی حضرت علی کو امانت لوٹانے کے لیے مقرر کرنا نہ بھولے۔
آپ ﷺ کا عدل و انصاف بھی کل عالم کے لیے مثال ہے۔ آپ کو عرب کے سینکڑوں قبائل سے کام پڑتا جو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ ایک کے حق میں فیصلہ کیا جاتا تو دوسرا دشمن بن جاتا۔
اسلام کی اشاعت و ترویج کے لیے ہمیشہ آپ ﷺ کو تالیف قلوب سے کام لینا پڑتا۔ ان سب مشکلات کے باوجود انصاف کا پلہ کبھی کسی طرف جھکنے نہ پاتا۔ اپنا ہو یا غیر ، قبیلہ قریش سے ہو یا یہود و نصاری سے، صاحبِ ایمان ہو یا کافر عدل و انصاف کے معاملے میں آپ ﷺ کی نگاہ میں سب برابر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہود بھی سخت دشمنی کے باوجود اپنے مقدمات آپ ﷺ کی ہی بارگاہ عدالت میں لاتے تھے اور ان کی شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ ہوتا تھا۔
ایک بار آپ ﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے لوگوں کے ہجوم کے سبب ایک شخص آپ پر منہ کے بل آگرا ۔ دست مبارک میں ایک پتلی سی چھڑی تھی آپ نے اس سے اسے پیچھے ہٹایا تو اس کے چہرے پر خراش آگئی۔ فرمایا مجھ سے ابھی بدلہ لے لو۔ اس نے عرض کی یا رسول الله ! میں آپ پر قربان میں نے آپ کو معاف کیا۔ (ابو داود)
مرض الوفات میں آپﷺ نے مجمع عام میں اعلان فرمایا : اگر میرے ذمہ کسی کا قرض آتا ہو، اگر میں نے کسی کی جان و مال و آبرو صدمہ پہنچایا ہو تو میری جان و مال اور آبرو حاضر ہے اسی دنیا میں وہ انتقام لے لے۔ مجمع میں سناٹا چھا گیا۔ صرف ایک شخص نے چند درہم کا دعوی کیا جو اسی وقت ادا کر دئیے گئے۔
موجودہ دور میں جب کہ پوری انسانیت امن و سکون کی متلاشی ہے۔ طرح طرح کے نظاموں نے انسان کو مشقت میں ڈال رکھا ہے راہ حق کی تلاش میں خلقت خدا در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے آپ ﷺ کی تعلیمات کی پیروی اسے راہ راست پرلا سکتی ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے محبوب نبی ﷺ کی سیرت مبارکہ کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھیں جہاں اسوہ حسنہ ، سنت اور اخلاق نبی آخرالزماں ﷺ پر ہر شخص کا دل و جان سے عمل ہو۔ امن و سکون، امانت و دیانت ، معافی و درگزر، نرمی اور محبت کے ساتھ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو تاکہ بے چین و بے قرار انسانیت سکون پا سکے۔
نزہت وسیم
 
Top