الم
محفلین
آج 27 نومبر 2011 کو پاکستان میں اسلامی سال کا آغاز ہوا۔ خبروں پہ نظر لگائی نیٹو نے پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر دیا پاکستانی فوج کے مطابق قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں افغان سرحد کے قریب سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو نے بلااشتعال فائرنگ کی ہے جس میں 24 جوان شہید اور 13 زخمی ہوئے۔۔۔اس طرح کی شہادت کو دیکھ کر غم بھی ہوا اور تھوڑا فخر بھی کے جوانوں نے حیاتِ جاوداں حاصل کر لی اللہ پاک ہمیں بھی شہادت نصیب فرمائیں آمین۔ اس واقعے کو دیکھا اور ساتھ ہی اسلامی سال کا قربانیوں والا مہینہ آیا تو فورا خیال آیا کہ اسلام سال تو شروع ہی شہادتوں سے ہوتا جن میں سے ایک سرکارِ دو عالم محمد مصطفیٰ ﷺ کے ایک انتہائی پیارے، عشرہ مبشرہ میں سے ایک صحابی اور اسلام کے جاہ و جلال سے دنیا کے22/25 لاکھ مربع میل کے رقبے پہ حکومت کرنے والے خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ جنکی حکومت، عدل وانصاف، جاہ و جلال،سادہ طبیعت، پرہیزگاری کو نا صرف مسلمانوں نے مانا بلکہ کفار اور یہاں تک کے دریاؤں تک نے مانا ہے ،انکی شہادت سے ہی اسلام کا سال شروع ہوتا۔ سوچا کہ ایسے جلیل القدر صحابی کا تھوڑا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کروں۔۔لہذا اس سلسلے میں کافی کتب کو پڑھا اور سب کو ملا کہ جو اخذ کیا وہ بیان کروں گا انشااللہ۔ لبیک!
نوٹ:
اس سے پچھلا موضوع ایڈمن سے درخواست ہے کہ ڈیلیٹ کر دیں ۔ لنک
نام و نسب:
آپ کا نام عمر کنیت ابو حفص اور لقب آپکو سرورِ کائنات محمد ﷺ سے ملا جو کے فاروقِ ہے۔اسی نسبت سے آپکو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جسکے معنی حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہیں۔ آپکا سلسلہ نسب کچھ اس طرح سے ہے:
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی
کعب کے دو بیٹے تھے ایک عدی دوسرا مرہ، اور مرہ نبی کریم ﷺ کے آباؤ اجداد میں سے ہیں لہذا اسطرح آپکا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔آپ ہجرتِ نبوی سے چالیس سال پہلے پیدا ہوئے۔
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ اشرافِ قریش میں سے تھے اور آپکا خاندان سفارت سے منسوب تھا جب بھی قریش کی کسی قبیلے سے لڑائی ہوتی آپ کے قبیلے کے بزرگوں کو معاملات سنبھالنے کے لئیے بھیجا جاتا تھا۔
آپکی والدہ ابوجہل کی بہن تھیں اس طرح ابوجہل آپکے ماموں تھے۔
علم ، پیشہ ،شوق و شجاعت:
آپ رضی اللہ عنہ کو لڑکپن میں اونٹوں کے چرانے کا شوق تھا۔جوان ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق سپہ سالاری، شہسواری، نسب کی تعلیم، پہلوانی کی تعلیم حاصل کی۔ نبی کریم کی بعثت کے وقت قریش میں صرف سترہ آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے جن میں سے ایک آپ تھے۔ پہلوانی کا شوق تھا اور اتنی مہارت تھی کے آپ عرب کے بڑے پہلوانوں میں سے تھے۔ پورے عرب میں آپکا رعب اور دبدبا اتنا تھا کے بڑے بڑے دلیر انسان کانپنے لگتے تھے آپکے ساتھ مقابلے پہ آنے پہ ۔ گھڑ سواری میں بھی کمال حاصل تھا۔ جاہلیت کے دور میں اور اس کے بعد بھی تجارت کا پیشہ جاری رکھا۔539 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔
حلیہ اور فضائل:
آپکی رنگت سفید تھی لیکن سرخی اس پہ غالب تھی۔ قد نہایت لمبا تھا۔رخساروں پہ گوشت کم تھا داڑھی گھنی تھی۔ اور صحت ماشااللہ بہت بہترین تھی۔
آپ رضی اللہ عنہ بعض روایات کے مطابق چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد اسلام لائے بعض کے مطابق انتالیس مردوں اور تینتیس عورتوں اور بعض کے مطابق پینتالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایمان لائے (واللہ علم) آپ سابقین اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جسکی حدیث روایت کا آگے آحادیث کے حصے میں بیان کروں گا (انشااللہ) ۔آپ نبی کریم ﷺ کے خسر ہیں آپکا شمار نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی نہایت جید علما میں ہوتا تھا۔ قرآ ن میں پردہ کا حکم بھی آیا تو اس پہ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی تھی۔ آپ نہایت غیرت مند اور دلیر تھے۔ اسلام پہ سختی سے خود عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے آپ کے دبدبے کے بارے میں صحیح بخاری میں حدیث نقل کی ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے کہا کے آپکو دیکھ کے تو شیطان بھی رستہ بدل لیتا ہے (آگے تفصیلا ذکر آئے گا انشا اللہ)۔ آپ رضی اللہ عنہ کو اس لئیے بھی فضیلت حاصل کہ آپکی ہدایت کے لئے رسول اکرم ﷺ نے خود خاص الخاص دعا فرمائی کہ دونوں عمر (ابوجہل اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) میں سے ایک کو ہدایت دے اور آپ کے حق میں اللہ نے دعا قبول کی اور آپکو مشرف بااسلام کیا ۔ ابن مسعود روایت کرتے کہ آپکا اسلام لانا تھا کہ اس کے بعد اسلام عزت ہی پاتا گیا۔ گویا کے آپکا اسلام فتح تھی آپ کی ہجرت نصرت تھی اور آپ کی امامت رحمت۔ جب آپ رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو مسلمانوں نے کھلے عام نماز پڑھنا شروع کیا اور کسی کفارِ مکہ میں اتنی جرائت نا تھی کہ کچھ کہتا۔ اس لئیے کہتے آپ کے ایمان لانے پہ کفار نے کہا کے مسلمانوں نے ہم سے سارا بدلہ لے لیا۔ ایک آپ کے دبدے کی جھلک پیشِ خدمت کے جب عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا قصد کیا تو آپ برہنہ تلوار لائے دوسرے ہاتھ میں تیر اور پشت پہ کمان کو لگا کر خانہ کعبہ میں آئے تلوار کو زمیں میں گاڑا سات مر تبہ طواف کیا اور دو رکعت مقامِ ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کے پڑھیں ، پھر قریش کے سرداروں کو (ابو سفیان اور ابو جہل خصوصاً)مخاطب کر کے کہا جو قرب و جوار میں تھے کہ جو شخص اپنی ماں کو بے فرزند اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہو، جسکو میری عبادت کرنے پہ اعتراض ہو وہ مجھ سے آکے مدمقابل ہو۔ لیکن ان شیطان کے چیلوں کو کیا ہمت ہوتی جو جذبہ ایمان سے خالی تھے کسی میں چوں چراں کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔یہی نہیں آپ رضی اللہ عنہ کا مشرکین پہ اتنا رعب و دبدبا تھا کہ مسلمانوں تک کو مشرکین کو نماز پڑھنے کی اجازت دینا پڑی۔
جاری ہے۔۔۔
نوٹ:
اس سے پچھلا موضوع ایڈمن سے درخواست ہے کہ ڈیلیٹ کر دیں ۔ لنک
نام و نسب:
آپ کا نام عمر کنیت ابو حفص اور لقب آپکو سرورِ کائنات محمد ﷺ سے ملا جو کے فاروقِ ہے۔اسی نسبت سے آپکو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جسکے معنی حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہیں۔ آپکا سلسلہ نسب کچھ اس طرح سے ہے:
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی
کعب کے دو بیٹے تھے ایک عدی دوسرا مرہ، اور مرہ نبی کریم ﷺ کے آباؤ اجداد میں سے ہیں لہذا اسطرح آپکا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔آپ ہجرتِ نبوی سے چالیس سال پہلے پیدا ہوئے۔
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ اشرافِ قریش میں سے تھے اور آپکا خاندان سفارت سے منسوب تھا جب بھی قریش کی کسی قبیلے سے لڑائی ہوتی آپ کے قبیلے کے بزرگوں کو معاملات سنبھالنے کے لئیے بھیجا جاتا تھا۔
آپکی والدہ ابوجہل کی بہن تھیں اس طرح ابوجہل آپکے ماموں تھے۔
علم ، پیشہ ،شوق و شجاعت:
آپ رضی اللہ عنہ کو لڑکپن میں اونٹوں کے چرانے کا شوق تھا۔جوان ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق سپہ سالاری، شہسواری، نسب کی تعلیم، پہلوانی کی تعلیم حاصل کی۔ نبی کریم کی بعثت کے وقت قریش میں صرف سترہ آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے جن میں سے ایک آپ تھے۔ پہلوانی کا شوق تھا اور اتنی مہارت تھی کے آپ عرب کے بڑے پہلوانوں میں سے تھے۔ پورے عرب میں آپکا رعب اور دبدبا اتنا تھا کے بڑے بڑے دلیر انسان کانپنے لگتے تھے آپکے ساتھ مقابلے پہ آنے پہ ۔ گھڑ سواری میں بھی کمال حاصل تھا۔ جاہلیت کے دور میں اور اس کے بعد بھی تجارت کا پیشہ جاری رکھا۔539 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔
حلیہ اور فضائل:
آپکی رنگت سفید تھی لیکن سرخی اس پہ غالب تھی۔ قد نہایت لمبا تھا۔رخساروں پہ گوشت کم تھا داڑھی گھنی تھی۔ اور صحت ماشااللہ بہت بہترین تھی۔
آپ رضی اللہ عنہ بعض روایات کے مطابق چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد اسلام لائے بعض کے مطابق انتالیس مردوں اور تینتیس عورتوں اور بعض کے مطابق پینتالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایمان لائے (واللہ علم) آپ سابقین اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جسکی حدیث روایت کا آگے آحادیث کے حصے میں بیان کروں گا (انشااللہ) ۔آپ نبی کریم ﷺ کے خسر ہیں آپکا شمار نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی نہایت جید علما میں ہوتا تھا۔ قرآ ن میں پردہ کا حکم بھی آیا تو اس پہ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی تھی۔ آپ نہایت غیرت مند اور دلیر تھے۔ اسلام پہ سختی سے خود عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے آپ کے دبدبے کے بارے میں صحیح بخاری میں حدیث نقل کی ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے کہا کے آپکو دیکھ کے تو شیطان بھی رستہ بدل لیتا ہے (آگے تفصیلا ذکر آئے گا انشا اللہ)۔ آپ رضی اللہ عنہ کو اس لئیے بھی فضیلت حاصل کہ آپکی ہدایت کے لئے رسول اکرم ﷺ نے خود خاص الخاص دعا فرمائی کہ دونوں عمر (ابوجہل اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) میں سے ایک کو ہدایت دے اور آپ کے حق میں اللہ نے دعا قبول کی اور آپکو مشرف بااسلام کیا ۔ ابن مسعود روایت کرتے کہ آپکا اسلام لانا تھا کہ اس کے بعد اسلام عزت ہی پاتا گیا۔ گویا کے آپکا اسلام فتح تھی آپ کی ہجرت نصرت تھی اور آپ کی امامت رحمت۔ جب آپ رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو مسلمانوں نے کھلے عام نماز پڑھنا شروع کیا اور کسی کفارِ مکہ میں اتنی جرائت نا تھی کہ کچھ کہتا۔ اس لئیے کہتے آپ کے ایمان لانے پہ کفار نے کہا کے مسلمانوں نے ہم سے سارا بدلہ لے لیا۔ ایک آپ کے دبدے کی جھلک پیشِ خدمت کے جب عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا قصد کیا تو آپ برہنہ تلوار لائے دوسرے ہاتھ میں تیر اور پشت پہ کمان کو لگا کر خانہ کعبہ میں آئے تلوار کو زمیں میں گاڑا سات مر تبہ طواف کیا اور دو رکعت مقامِ ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کے پڑھیں ، پھر قریش کے سرداروں کو (ابو سفیان اور ابو جہل خصوصاً)مخاطب کر کے کہا جو قرب و جوار میں تھے کہ جو شخص اپنی ماں کو بے فرزند اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہو، جسکو میری عبادت کرنے پہ اعتراض ہو وہ مجھ سے آکے مدمقابل ہو۔ لیکن ان شیطان کے چیلوں کو کیا ہمت ہوتی جو جذبہ ایمان سے خالی تھے کسی میں چوں چراں کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔یہی نہیں آپ رضی اللہ عنہ کا مشرکین پہ اتنا رعب و دبدبا تھا کہ مسلمانوں تک کو مشرکین کو نماز پڑھنے کی اجازت دینا پڑی۔
جاری ہے۔۔۔