ای بک تشکیل سید منیف اشعر ۔۔۔۔۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین
حد ِنگاہ میں کوئی شجر تو آنے دو
کوئی پڑاؤ کی صورت نظر تو آنے دو

ہمیں بھی آتا ہے قسمت کو ڈھونڈنا لیکن
ہمارے شہر میں اِک دن سحر تو آنے دو

ذرا تو صبر کرو اے مری تمناؤ
دعا کروں گا ،مقام اثر تو آنے دو

سر ِنیاز تو ازخود ہی جھک پڑے گا، مگر
جو سر بلند کرے گا وہ دَر تو آنے دو

قبولیت کی گھڑی ڈھونڈتی پھرے گی مجھے
مری دعاؤں میں سحرِ اثر تو آنے دو

کہیں تو آہی ملے گا وہ ایک دن مجھ سے
پر اُس کو یاد مری رہ گزر تو آنے دو

کریں گے خواہش ِجلوہ بھی ایک دن، لیکن
ہماری آنکھ میں وصفِ بصر تو آنے دو

کریں گے قتل بھی، مظلوم بھی ہمیں ہوں گے
ہمارے ہاتھوں میں اُن کا ہنر تو آنے دو

کماں میں تیر ابھی کیا سجائیں ہم اشعر
جو آبروئے ہدف ہے، نظر تو آنے دو​
 

شیزان

لائبریرین

تمہارا جوَر و سِتم کچھ بیاں نہیں کرتے
دلِ حزیں کو کِسی پر عیاں نہیں کرتے

لبوں پہ اپنے تبسم سجائے رکھتے ہیں
جو عشق کرتے ہیں، آہ و فغاں نہیں کرتے

یہ اور بات کبھی آنکھ سے چھلک جائے
ہم آرزُو کو رہین ِزباں نہیں کرتے


نصاب ِعشق میں سود و زیاں کا سارا حساب
زیاں ہے وقت کا ،ایسا زیاں نہیں کرتے

ہمیں کوئی نہ ملا دہر میں دُکھوں کے بغیر
سو اپنے درد کو نذر ِجہاں نہیں کرتے

زمانہ لاکھ مجھے بے وفا کہے اشعر
خوشا کہ آپ کوئی بدگماں نہیں کرتے​
 

شیزان

لائبریرین

اگرچہ کہنے کو بے شک سبھی کے ساتھ رہا
میں جان و دل سے مگر روشنی کے ساتھ رہا

جو میری روح، مری زندگی کے ساتھ رہا
میں ایک عمر اُسی اجنبی کے ساتھ رہا

ہمارے درد کا ساتھی بھی جس کو ہونا تھا
وہ اپنی خواہشِ لذت کشی کے ساتھ رہا


بس ایک رات ہی مہماں رہا تھا چاند مرا
میں ساری عمر مگر چاندنی کے ساتھ رہا

نہ بھول جاتا میں کیسے عداوتیں تیری
تیرا خیال ہی بس دوستی کے ساتھ رہا

وطن میں اب کے سکونت کا دائمی تھا خیال
میں چار دن بھی مگر بے کلی کے ساتھ رہا

رہا ہے ظلم کی وادی میں پر دل اشعر
لگے ہے ایسا کہ بس آشتی کے ساتھ رہا​
 

شیزان

لائبریرین
زندگی بھر زندگی سے یوں وفا کرتے رہے
جیسے اپنے حق میں کوئی بدعا کرتے رہے

اور تنگ ہوتا گیا کچھ اُس کی یادوں کا حصار
جس قدر ہم بھول جانے کی دعا کرتے رہے


آرزوئے وصل پر لب بستگی کے جرم میں
وہ ہمارے نام فرقت کی سزا کرتے رہے

وہ ہمیں دیتے رہے مایوسیوں کی تیرگی
ہم نئی امید کا روشن دیا کرتے رہے

قصہ ویرانئ دل ہم بھی کہتے تو ،مگر
وہ بہارِ زندگی کا تذکرہ کرتے رہے

ہاتھ میں تھا جن کے اشعر کچھ مداوائے جُنوں
وہ مری آشفتہ سامانی سوا کرتے رہے
 

شیزان

لائبریرین
یادیں تمہاری آج بھی یوں دشتِ جاں میں ہیں
آباد جیسے بستیاں خالی مکاں میں ہیں

رکھیں مزاجِ عشق کو ہم کِس کے سامنے
مدہوش عام لوگ بھی سود و زیاں میں ہیں

دستِ جہاں سے لینے مصائب نہ جائیے
درماں تمام درد کے اپنے جہاں میں ہیں

کیا منصفی ہے ،بے کس و مفلس ہے دار پر
اور قاتلوں کے نام پس ِزر اماں میں ہیں


ہے آزمائشوں کا تسلسل کچھ اس طرح
جیسے ازل سے تا بہ ابد امتحاں میں ہوں

بس فرقت و وصال نہیں اس کی داستاں
دنیا کے اور غم بھی دل بے کراں میں ہیں

دیکھی ہوئی ہیں آتشِ عارض کی سرخیاں
شعلے بھی دیکھ لیں گے جو برقِ تپاں میں ہیں

جب سے لٹی بہار ِچمن دیکھتے ہیں ہم
اشعر ترے سخن بھی حصار خزاں میں ہیں
 

شیزان

لائبریرین
کیا کروں موسم کوئی اے زندگی تیرے بغیر
سب رُتیں ہیں اجنبی، اے زندگی تیرے بغیر

کوئی صحرا ہو، چمن ہو، دشت یا وادی کوئی
کس جگہ ہے دلکشی اے زندگی تیرے بغیر

رات دن یلغار ہے یادوں کی،درماں کچھ نہیں
درد کی پھر کیا کمی اے زندگی تیرے بغیر

دامنِ فرقت کو دیتی ہے اُمیدوں کے چراغ
آنکھ میری شبنمی اے زندگی تیرے بغیر

موت کیا ہوگی، نہیں معلوم ،لیکن زندگی
آج کل ہے موت سی اے زندگی ،تیرے بغیر

شہر کی رنگینیاں پہلی سی ہیں اب بھی ،مگر
دل میں ہے تیرہ شبی اے زندگی تیرے بغیر


تیرا اشعر کیا کرے تنہائیوں کی بھیڑ میں
کھو گئی ہے زندگی، اے زندگی تیرے بغیر​
 

شیزان

لائبریرین
دل کا ہر داغ لہو دے کے جلا لیتا ہوں
میں شب ِغم کو ستاروں سے سجا لیتا ہوں

کوئی پل جب کِسی پہلو مجھے دیتا ہے قرار
درد کی لو میں اُسی سمت بڑھا لیتا ہوں

آتشِ عشق تو اشکوں سے بھڑکتی ہے، مگر
اک ذرا آتش ِجذبات بُجھا لیتا ہوں

شبِ ڈھلے صبح کے تارے نے یہ پوچھا اکثر
کیا تری آنکھ سے میں نیند چرا لیتا ہوں

سرگراں تم نہ پھرو ایذا رسانی کو مری
میں تو خود گردشِ ایام کو جا لیتا ہوں

نا خدا تجھ پہ ہی اک تکیہ نہیں ہے، میں تو
موج ِبرہم سے بھی ساحل کا پتا لیتا ہوں


کون دیتا ہے تجھے طرز ِمسیحائی نئے
میں ہی ہر درد ترا جاں سے لگا لیتا ہوں

ایک مانوس مہک جب بھی صبا لاتی ہے
ان کو انفاس کی آغوش میں پالیتا ہوں

ڈال کر چہرے پہ اشعر میں تبسم کی نقاب
کربِ تنہائی کو دنیا سے چُھپا لیتا ہوں​
 

شیزان

لائبریرین
نباہ تجھ سے کیا ہے ہنسی خوشی ہم نے
تجھے برَت کے دکھایا ہے زندگی ہم نے

ملا ہے دل کی لگی کا مرض بطورِ سزا
سمجھ رکھا تھا محبت کو دل لگی ہم نے


بس اس لئے کہ کبھی دوست کہہ دیا تھا تجھے
بھلائے رکھی سدا تیری دشمنی ہم نے

خیال تھا کہ یہ مغرب تو مثل ِجنت ہے
اسی بہانے جہنم بھی دیکھ لی ہم نے

لباسِ فکر و نظر جان کر تجھے اب تک
اک اہتمام سے بَرتا ہے شاعری ہم نے

سبب نہ پوچھئے ان آنسوؤں کا اے اشعر
کسی کو یاد کیا تھا ابھی ابھی ہم نے​
 

شیزان

لائبریرین
درد ،تقسیم کے اِمکاں سے بچا رکھا ہے
اپنا سرمایۂ کل دل میں چھپا رکھا ہے

وہ پلٹ آیا تو سینے سے لگا لیں گے اُسے
جانِ من چھوڑئے ،اِن باتوں میں کیا رکھا ہے

آؤ ،آرائشِ جاں کچھ تو بدل دیں مل کر
کتنی مدت سے غمِ ہجر بسا رکھا ہے

بُھولنا چا ہوں تو کچھ اور اُلجھ جاتا ہوں
اُس نے یادوں کا عجب جال بچھا رکھا ہے

تاکہ دنیا تری آمد کا نہ پا جائے سراغ
نام آہٹ کا تری، بادِ صبا رکھا ہے

دل کو میرے دلِ ویراں تو نہ کہئے صاحب
میں نے تو درد کا اک شہر بسا رکھا ہے

شامل زاد ِسفر رکھتے تو آساں تھا سفر
رات کا ساتھ ہے اور گھر میں دِیا رکھا ہے

کیا بجھا پائے گی تُو میری محبت کا چراغ
اے ہوا دیکھ تری زَد پہ جلا رکھا ہے

بے وفا کیسے کہوں میں کہ سرِ بزم ابھی
کل ہی تو نام ترا رشکِ وفا رکھا ہے

کوئی مُنصف نظر آئے تو میں پوچھوں اشعر
کیوں مرے شہر کو مقتل سا بنا رکھا ہے
 

شیزان

لائبریرین
خواہشِ گریہ کو پلکوں تک نہ آنا چاہئے
آبروئے غم بکھرنے سے بچانا چاہئے

تاکہ پسپائی پہ ہو مجبور، شرمندہ رہے
درد جب حد سے بڑھے تو مسکرانا چاہئے

فرصتِ فکر رفوئے چاک دل کس کو، مگر
سب کو بہرِ داستاں کوئی فسانہ چاہئے

قافیہ بندی کا فن ہی تو نہیں ہے شاعری
شعر کو فکر و نظر بھی شاعرانہ چاہئے

عشق کا لمحہ بھی آتا ہے محبت میں ضرور
ہاں مگر اس ایک لمحے کو زمانہ چاہئے


بے سبب تو کوئی ہستی بھی عدم ہوتی نہیں
انتہائے زیست کو بھی اِک بہانہ چاہئے

گو کہ اب تا دیر مشکل لگ رہا ہے اُن کا ساتھ
پھر بھی اے اشعر جہاں تک ہو ،نبھانا چاہئے​
 
Top