سید انصر (لگتا ہے کوئی جلوہ نما ہے چراغ میں)

لگتا ہے کوئی جلوہ نما ہے چراغ میں


لگتا ہے کوئی جلوہ نما ہے چراغ میں
اک رنگ روشنی سے جدا ہے چراغ میں


لو تھرتھرائی تھی کہ میں سجدے میں گر پڑا
اک وہم سا ہوا تھا خدا ہے چراغ میں


سینے میں جگمگاتا ہے دل دل میں تیرا عشق
گویا کوئی چراغ رکھا ہے چراغ میں


ڈٹ تو گیا ہے تیز ہواؤں کے سامنے
اب دیکھنا ہے کتنی انا ہے چراغ میں


شعلے کی ہر لپک میں جھلک ہے جمال کی
یہ کون آ کے بیٹھ گیا ہے چراغ میں


کھنچتے ہیں شام ہی سے دل و دیدہ اس طرف
اعجاز ہے کرشمہ ہے کیا ہے چراغ میں


انصرؔ کچھ اس طرح سے لپکتی ہیں آندھیاں
جیسے کوئی خزانہ چھپا ہے چراغ میں


سید انصر
 
آخری تدوین:
Top