سید انصر (رکھنا تھا لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی)

رکھنا تھا لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی

رکھنا تھا لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی
گرنے نہ دیا خاک پہ دشمن کا علم بھی

تنہا بھی نظر آؤں تو تنہا نہ سمجھنا
ہوتے ہیں مرے ساتھ کئی اہل عدم بھی

جانا ہے جدھر جس کو چلا جائے خوشی سے
اب سامنے موجود خدا بھی ہے صنم بھی

اک روز دبے پاؤں چرا لے گئی دنیا
ہونٹوں کا تبسم ہی نہیں آنکھ کا نم بھی

پھیلائے نہیں ہاتھ نوالے کی طلب میں
ہر چند کئی روز سے خالی ہے شکم بھی

کھینچے لئے جاتی ہے مدینے کی محبت
کچھ شامل احوال ہے قدرت کا کرم بھی

وہ لوگ جنہیں لوٹ کے آنا ہی نہیں تھا
جاتے ہوئے کیوں چھوڑ گئے نقش قدم بھی

ہنگامہ طلب شہر کی پر شور فضا میں
چپ رہتے ہوئے لگ گئے دیوار سے ہم بھی

سید انصر​
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
رکھنا تھا لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی
گرنے نہ دیا خاک پہ دشمن کا علم بھی
خدا جانے مجھے ہی غلطی محسوس ہو رہی ہے یا واقعتاً غلطی ہے۔
ایک طرف تو "رکھنا تھا" کہا جا رہا ہے اور دوسری طرف "گرنے نہ دیا"۔
"رکھا ہے لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی"
مطلع کہیں اس طرح تو نہیں؟
 
خدا جانے مجھے ہی غلطی محسوس ہو رہی ہے یا واقعتاً غلطی ہے۔
ایک طرف تو "رکھنا تھا" کہا جا رہا ہے اور دوسری طرف "گرنے نہ دیا"۔
"رکھا ہے لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی"
مطلع کہیں اس طرح تو نہیں؟
"رکھنا تھا" بصورت ماضی شرطی و تمنائی ہے یعنی کہ تجھے یوں کرنا چاہیے تھا۔
اور "گرنے نہ دیا" میں شرط کو پورا کر دیا گیا ہے۔
 
Top