سید الشہداء حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ایک شعر

محترم پاركھ تو نہيں طالبہ علم ضرور ہوں ۔جو تعليم يافتہ افراد حوالے اور استناد كا فہم ركھتے ہيں ان كو غير مستند روايات کے متعلق كيا رويہ اختيار كرنا زيبا ہے؟ آيات اور احاديث كى درست نسبت كا معاملہ كيا اشعار كى درست نسبت جيسا اہم بھی نہيں؟ ان معاملات ميں ہمارى حب نبي (صلى اللہ عليہ وسلم ) كہاں سو جاتى ہے؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ میں بھی
مدت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے!
اقبال
 

شاکرالقادری

لائبریرین
درنوائے زندگی سوز ازحسین
اہل حق حریت آموز ازحسین
سیرت فرزندہا از امہات
جوہر صدق و صفا از امہات
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
===========
اگر پندے ز درویشے بگیری
ہزار امت بمیرد تو نہ میری
بتولےؑ باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری
=======
اقبال
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری
میراث مسلمانی‘ سرمایہ شبیری
اقبال
 

فہیم

لائبریرین
میری یاد داشت میں بھی یہی تھا لیکن اقبال کا نام دیکھ کر انٹرنیٹ پر تلاش و تصدیق شروع کی کیونکہ کلیات اقبال سردست موجود نہیں ۔ بیشتر سائٹس پر اس شعر کے خالق مولانا جوہر کو بتایا گیا ہے ایک جگہ اقبال کا نام بھی ملا ۔ ان کی کلیات پر کام کرنا چاہیے تاکہ مستند ذریعہ موجود رہے ۔

اقبال کا نام یہی ہوسکتا ہے کہ کسی نے درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے نیٹ پر لکھ دیا ہو۔
باقی اس شعر کو لے کر مولانا محمد علی جوہر کا نام میں نے ایک پروگرام میں بھی سنا
اور نیٹ پر بھی اگر سرچ کیا جائے تو زیادہ تر حوالہ مولانا جوہر کا ہی ملتا ہے۔

اور جہاں تک مولانا کے متعلق میری معلومات ہیں تو مولانا کوئی باقاعدہ شاعر نہیں تھے۔ لیکن ان کو شاعری کا شوق ضرور تھا۔
اور انہوں نے کئی ایک غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شہرت ایک شاعر کے حوالے سے نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یذید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد
(اقبال)

یہ شعر مولانا محمد علی جوہر کا ہے بحوالہ نقوش غزل نمبر 1985ء جس میں محمد علی جوہر کی مکمل غزل موجود ہے اور یہ شعر اس غزل کا آخری شعر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مکمل غزل یوں ہے

دور حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

لذت ہنوز مائدہء عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنا سزا کے بعد

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

محمد علی جوہر
 

محمد وارث

لائبریرین
میری یاد داشت میں بھی یہی تھا لیکن اقبال کا نام دیکھ کر انٹرنیٹ پر تلاش و تصدیق شروع کی کیونکہ کلیات اقبال سردست موجود نہیں ۔ بیشتر سائٹس پر اس شعر کے خالق مولانا جوہر کو بتایا گیا ہے ایک جگہ اقبال کا نام بھی ملا ۔ ان کی کلیات پر کام کرنا چاہیے تاکہ مستند ذریعہ موجود رہے ۔

مولانا جوہر کا ایک شعر یہ بھی ہےمیری یاد داشت میں ۔

انسان کو بیدار توہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

میری معلومات کے مطابق یہ شعر جوش ملیح آبادی کا ہے۔
یہ شعر جوش کا ہی ہے بلکہ انکی ایک رباعی ہے، جوش کے کلیات میں موجود ہے، شاید یادوں کی برات میں بھی ہے کہیں، دیگر کئی ایک کتب میں بھی جوش کے نام سے ہے جیسے ڈاکٹر تقی عابدی کی عروس سخن میں ایک مقالہ ہے اس میں

کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین
چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
خاکسار کے بلاگ پر جوش کی چند رباعیوں کے ساتھ موجود ہے۔
 

کاشفی

محفلین
اے چراغِ دُو دمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب گاہ
تیرے خاروخَس پہ ہے تابندہ خونِ بے گناہ
تیری جانب اُٹھ رہی ہے اب بھی یزداں کی نگاہ
آرہی ہے ذرّے ذرّے سے صدائے لاالٰہ
اے زمیں! خوش ہو کہ تیری زیب وزینت ہے حسین علیہ السلام
تیرے سناٹے میں محوِ خوابِ راحت ہے حسین علیہ السلام
(جوش ملیح آبادی)​
 

کاشفی

محفلین
جو دہکتی آگ کے شعلوں پہ سویا، وہ حسین علیہ السلام
جس نے اپنے خون سے عالم کو دھویا ، وہ حسین علیہ السلام
جو جواں بیٹے کی میت پر نہ رویا، وہ حسین علیہ السلام
جس نے سب کچھ کھو کے، پھر بھی کچھ نہ کھویا، وہ حسین علیہ السلام
مرتبہ اسلام کا جس نے دوبالا کر دیا
خون نے جس کے دو عالم میں اُجالا کر دیا
(جوش ملیح آبادی)
 

کاشفی

محفلین
نُطق جس کا نغمہء سازِ پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وہ حسین علیہ السلام
تھا جو شرحِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تفسیرِ حیدر علیہ السلام ، وہ حسین علیہ السلام
تشنگی جس کی جوابِ موجِ کوثر، وہ حسین علیہ السلام
لاکھ پر بھاری رہے جس کے بہتّر، وہ حسین علیہ السلام
جو محافظ تھا خدا کے آخری پیغام کا
جس کی نبضوں میں مچلتا تھا لہو اسلام کا
(جوش ملیح آبادی)
 

کاشفی

محفلین
ہَنس کے جس نے پی لیا جامِ شہادت، وہ حسین علیہ السلام
مرگیا، لیکن نہ کی فاسق کی بیعت، وہ حسین علیہ السلام
ہے رسالت کی سَپر جس کی امامت، وہ حسین علیہ السلام
جس نے رکھ لی نوعِ انسانی کی عزّت، وہ حسین علیہ السلام
وہ کہ سوزِ غم کو، سانچے میں خوشی کے ڈھال کر
مُسکرایا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
(جوش ملیح آبادی)
 

کاشفی

محفلین
اَے حُسین علیہ السلام ! اب تک گُل افشاں ہے تری ہمّت کا باغ
آندھیوں سے لڑ رہا ہے آج بھی تیرا چراغ
تُونے دھو ڈالے جبینِ ملّتِ بیضا کے ڈاغ
تیرے دل کے سامنے لرزاں ہے باطل کا دماغ
فخر کا دل میں دریچہ باز کرنا چاہیئے
جس کا تُو آقا ہو، اُس کو ناز کرنا چاہیئے
(جوش ملیح آبادی)
 

کاشفی

محفلین
خَلق میں محشر بپا ہے اور تُو مصروفِ خواب
خُون میں ذِلّت کی موجیں کھا رہی ہیں پیچ و تاب
تیری غیرت کو خبر بھی ہے، کہ دشمن کا عتاب
تیری ماں بہنوں کی راہوں میں اُلٹتا ہے نقاب
اب تو زخمی شیر کی صورت بپھرنا چاہئے
یہ اگر ہمت نہیں، تو ڈوب مرنا چاہئے
دیکھ تو کتنی مُکدّر ہے، فضائے روزگار
کس طرح چھایا ہوا ہے، حق پہ باطل کا غبار
نرمِ یزدانی میں، رُوحِ اَہرمن ہے، گرمِ کار
مِیان سے باہر اُبل پڑ، اے علی علیہ السلام کی ذوالفقار
نقشِ حق کو اب بھی او غافل! جَلی کرتا نہیں
اب بھی تقلیدِ حُسین علیہ السلام ابن علی علیہ السلامکرتا نہیں!
 

کاشفی

محفلین
اِنقلابِ تُندخُو جس وقت اُٹھائے گا نظر
کَروٹیں لے گی زمیں، ہوگا فلک زیر وزبر
کانپ کر ہونٹوں پر آجائے گی رُوحِ بحرو بر
وقت کا پیرانہ سالی سے بھڑک اُٹھے گا سر
موت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ جائے گا
ہاں مگر نامِ حسین علیہ السلام ابن علی علیہ السلام رہ جائے گا
 

کاشفی

محفلین
کون؟ جو ہستی کے دھوکے میں نہ آیا، وہ حسین علیہ السلام
سَر کٹا کر بھی نہ جس نے سر جھکایا ، وہ حسین علیہ السلام
جس نے مر کر غیرتِ حق کو جِلایا، وہ حسین علیہ السلام
موت کا منہ دیکھ کر جو مُسکرایا، وہ حسین علیہ السلام
کانپتی ہے جس کی پیری کو جوانی دیکھ کر
ہنس دیا جو تیغِ قاتل کی رَوانی دیکھ کر
 
Top