اقبال سیدة النساء فاطمة الزہراء

اکمل زیدی

محفلین
مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نور چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین و آخرین
بانوی آن تاجدار ’’ہل اتے‘‘
مرتضی مشکل گشا شیر خدا
مادر آن مرکز پرگار عشق
مادر آن کاروان سالار عشق
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول
رشتۂ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفی است
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی

ترجمہ:
حضرت مریمؑ تو حضرت عیسٰیؑ سے نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزاھرہؑ ایسی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ پہلی نسبت یہ کہ آپؓ رحمتہ للعالمینﷺ کی نورِنظر ھیں، جو پہلوں اور آخروں کے امام ہیں۔ دوسری نسبت یہ کہ آپؓ " ہل اتی " کے تاجدار کی حرم ھیں۔ جو اللہ کے شیر ہیں اور مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔ تیسری نسبت یہ کہ آپؓ اُن کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کے مرکز بنے اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار بنے۔ حضرت فاطمہؓ تسلیم کی کھیتی کا حاصل تھیں اور آپ مسلمان ماوں کے لئے اسوہ کامل بن گئیں۔ اللہ تعالٰی کی قانون کی ڈوری نے میرے پاوں باندھ رکھے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے فرمان کا پاس مجھے روک رہا ہے، ورنہ میں حضرت فاطمہؓ کے مزار کا طواف کرتا اور اس مقام پر سجدہ ریز ہوتا۔
 

سیما علی

لائبریرین

عظمت زہرا سلام اللہ علیہا


جولان جس قدر ہو مگر دائرہ تو ہے
فکرِ بشر کی حد میں نہ آئیں گی عظمتیں
عیسیٰ قدم میں مہدی کے پڑھتے ہوں جب نماز
مریم کے ذہن میں نہ سمائیں گی عظمتیں
 

سیما علی

لائبریرین
سلام
پوچھتے کیا ہو مسلمانو کہ کیا ہیں سیدہ
بزمِ نسواں میں جمالِ مصطفےٰ ہیں سیدہ
چار سو جسکے نجاست کا تصور تک نہیں
آیۂ تطہیر کا وہ دائرہ ہیں سیدہ
عالمِ نسوانیت میں ہیں رسالت کی شریک
یوں پیمبر کے لیے مشکل کشا ہیں سیدہ
مریم و سارہ فضیلت میں سرِ فہرست ہیں
اور فضیلت خود کہے ان سے سوا ہیں سیدہ
ہو رہی ہیں آیتیں نازل اترتے ہیں درود
آج اِس انداز سے زیرِ کساء ہیں سیدہ
ہیں دعُائے فاطمہ زہرا عزادارِ حسین
اور پیمبر کی دعاؤں کا صلہ ہیں سیدہ
زخمِ پہلو، آگ، دروازہ ،غمِ داغ ِ پدر
آپ اپنی ذات میں اک کربلا ہیں سیدہ
دیں کو مشکل میں نہیں چھوڑا کسی بھی دور میں
شِکل زینب میں سرِ کرب و بلا ہیں سیدہ
رد کیا زہرا کا دعویٰ ٔ فدک سو چا نہ یہ
صادقہ ہیں صادقہ یہ سیدہ ہیں سیدہ
اے ظفر کس کی صدا ابھری ہے بیت الحُزن سے
آج کس کے سوگ میں محوِ بکا ہیں سیدہ
ظفرعباس ظفر
 

سیما علی

لائبریرین
مرثیۂ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا

کیا پیشِ خدا صاحبِ توقیر ہے زہرا
خاتونِ جناں مالکِ تطہیر ہے زہرا
ام الحسن و مادر شبیر ہے زہرا
سرتابہ قدم نور کی تصویر ہے زہرا
شوہر کو جو پوچھو تو شہنشاہِ عرب ہے
بیٹی ہے نبی کہ یہ حسب ہے یہ نسب ہے

حقا کہ شرافت میں وہ مریم سے سوا ہے
زینت کے لیے عرش پہ نام اس کا لکھا ہے
بابا کا یہ رتبہ ہے کہ محبوب خدا ہے
وارث وہ ہے سب خلق کا جو عقدہ کشا ہے
بیٹے ہیں وہ دونوں کہ شفیع دوجہاں ہیں
اس طرح کے رتبے کسی بی بی کے کہاں ہیں

اوصاف میں سب خلق اگر ایک زباں ہو
زہرا کی بزرگی نہ بیاں ہو نہ بیاں ہو
گر چاہیں کہ عصمت کا کچھ احوال عیاں ہو
تو شاہدِ مضموں پسِ پردہ ہی نہاں ہو
جس طرح کہ حیراں ہیں بشر حمد خدا میں
عاجز ہیں اسی طرح سے زہرا کی ثنا میں

تشویش یہی طبع کو ہنگامِ رقم ہے
تعریف جو کچھ ذہن میں آتی ہے وہ کم ہے
اک نور الہٰی کی ثنا بسکہ اہم ہے
سجادۂ قرطاس پہ سجدے میں قلم ہے
توصیف نہ خامے سے ہے ممکن نہ زباں سے
تحریر سے افزوں ہے زیادہ ہے بیاں سے

ماں باپ پہ واجب نہیں اولاد کی تکریم
اس امر میں سب خلق پہ زہرا کو ہے تقدیم
لکھا ہے کہ جب آتی تھیں زہرا پئے تسلیم
خود اُٹھ کے رسولِ عربی کرتے تھے تعظیم
الطاف محمد ہو یہ جس بابِ کرم پر
دروازہ گرا دیں اسی بی بی کے شکم پر

کیا حضرتِ خاتونِ قیامت کا ہے رُتبا
وہ زاہدہ ہے فخر محمد کو ہے جس کا
کھاتے ہیں محمد قسم ِحضرت زہرا
ہے دامنِ پاک اس کا محمد کا مصلا
وہ روح سے طاہر ہے تو پاکیزہ ہے جاں سے
کوثر سے وضو کرلے تو لے نام زباں سے

آفاق میں زہرا کا نہیں ہے کوئی ہمسر
زوجہ اسد اللہ کی اور بنت پیمبر
حوا کا شرف نورِ خدا عرش کا زیور
قرآں میں جسے یاد کرے خالقِ اکبر
ثانی کوئی زہرا کا نہ ہوگا نہ ہوا ہے
ہاں حضرت زینب کو جو کہیے تو بجا ہے

میر انیس
 

سیما علی

لائبریرین
مہر سپہرِ عزّ و شرافت ہے فاطمہ
شرحِ کتاب عصمت و عفّت ہے فاطمہ
مفتاحِ بابِ گلشن جنت ہے فاطمہ
نورِ خدا و آیۂ رحمت ہے فاطمہ
رُتبے میں وہ زنانِ دو عالم کا فخر ہے
حوا کا افتخار ہے مریم کا فخر ہے

زہرا کو کیا خدانے دیے رتبۂ جلیل
خدمت گزار جن کے سرافیل و جبرئیل
اس سیدہ کا کوئی جہاں میں نہیں عدیل
جس کی کفیل فاطمہ اس کا خدا کفیل
ہے فوق اس کے مرتبے کو مہر و ماہ پر
لکھا ہے نامِ فاطمہ عرشِ الہ پر
 

سیما علی

لائبریرین
بی بی زہراء سلام اللہ علیہا کے بارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں، اس عظیم شخصیت کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے صاحب عصمت اور عالی بصیرت کا حامل ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے بغیر آپؑ کے وجود کو کوئی ا درک نہیں کرسکتا۔ آپ کے فضائل اور مناقب خداوند متعال، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں۔
کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم
سمندر سیاہی، درخت قلم اور جن و انس لکھنے والے بن جائے تب بھی آپ ؑ کے فضائل بیان نہیں کرسکتے۔ علامہ اقبال انہی افراد میں سے تھے، جنہیں خدا نے عالی بصیرت عطا کی انہوں نے بی بی زہراء سلام اللہ علیہا کی شان میں نظم کہہ کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے
 
آخری تدوین:
Top