سیاسی قلابازیاں

بےباک

محفلین
حکمران اور سیاسی چٹکلے:
1:سابق صدر پرویز مشرف کے خطاب کے دوران امریکی ریاست فلا ڈیلفیا میں مظاہرہ کیا گیاجسکی وجہ سے وہ کچھ دیر کے لئے محصور ہو کر رہ گئے۔سابق صدر پرویز مشرف امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں ورلڈ افےئرز کونسل سے خطاب کر رہے تھے کہ ان کے خطاب کے دوران تحریک انصاف،مسلم لیگ ن،نیشنل لائرز گلڈ،اور پاکستان وکلااور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنوں نے مظاہرہ کیا۔مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر پرویز مشرف کے خلاف نعرے درج تھے۔مظاہرین نے پرویز مشرف کے پتلے پر جوتے برسائے۔خطاب ختم ہونے کے بعد پرویز مشرف ہال سے باہر نہیں آئے اور کچھ دیر وہیں رکے رہے جس کے بعد پولیس نے مظاہرین کو منتشر کر دیا، (بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے،یعنی صدر بش اور مشرف جوتوں کی جوتوں سے عزت افزائی کی گئی) ،
2:سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے لیکچر کے دوران امن کی ضرورت اور حمایت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئےایک بے ہودہ لطیفہ سنایا کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کچلی جاتی ہے مگر ساتھ ہی اضافہ کیا کہ اگر دو ہاتھی آپس میں محبت (love) بھی کریں تب بھی گھاس کچلی جائے گی۔ سابق صدر نے جب انگریزی میں یہ مزاحیہ جملہ کہا تو اس وقت تقریباً 20۔ ہائی اسکول کے طلبہ و طالبات بھی سامعین میں بیٹھے ہوئے تھے جو قہقہہ مارکر ہنسے، تقریر کے اختتام پر جب امریکیوں کے سابق صدر کی تقریر کے بارے میں تاثرات کے لیے ایک خاتون سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے تقریر کو مفید مگر ہاتھیوں کے مذاق پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ میری بیٹی بھی اسکول کی طالبات میں موجود تھی، پرویز مشرف کو بچوں کی موجودگی میں ایسا لطیفہ سنانے میں احتیاط کرنا چاہیے تھی یہ بےشرم ہے ، واقعی اس خاتون نے سچ کہا یہ بےشرم نہ ہوتا تو ملک کی آن نہ فروخت کرتا،
3:صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ سے پریشان یا گھبرانے کی ضرورت نہیں، دیکھیں میں وکلا سے کیسے نمٹتا ہوں، ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے ایوان صدر میں منعقدہ پی پی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ کیسے وکلاء سے نمٹتا ہوں ، (جیسے میں نے اپنے وعدوں سے نپٹا ہے،جیسے میں نے ملک سے غربت کو نپٹا ہے،جیسے میں نے فاٹا اور سوات سے نپٹا ہے ،جیسے میں نے امریکا کو گارنٹی دی ہے کہ اب امریکا پر ہمارے ہاں سےحملے ھرگز نہیں ہوں گے اور ملک میں ڈارون طیاروں کے حملے بھی نہیں ہوں گے)
4:بھارتی وزیر جو اپنے بیانات سے مکرنے میں تجربہ کار ہیں ان کا مزےدار بیان ، : کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس پر دو رائے ہر گز نہیں ہو سکتیں ، مگر ہم پاکستان کے ساتھ اس مسلہ پر باہمی مذاکرات ( مذاق رات )کریں گے، یعنی گذشتہ ساٹھ سال سے مذاق برداشت کر رہے ہیں ،مزید ایسا ہی کرنا چاہیے،
5: امریکا اور یورپی یونین انصاف پسند حکومتیں ہیں ، آمریت اور ملٹری ڈکٹیٹروں سے نفرت کرتے ہیں اور دنیا میں صرف جمہوریت چاہتے ہیں ، اور دنیا میں انصاف کا بول بالا کا نعرہ لگاتے ہیں
مگر الجزائر ،فلسطین اور جہاں جہاں اسلامی تنظیمیں جیتیں وہاں کی نہ ہمیں جمہوریت قبول ہے نہ ہی ان کا نظام ، کیونکہ یہ دھشت گردی کو فروغ دیتے ہیں ، ان ملکوں کو کسی صورت میں نہ ابھرنے دیا جائے اور ان پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا جائے، اوروہاں انسان سے زیادہ حقوقِ حیوانی پر زور دینا چاہیے،
6:دنیا بھر کی وہ تنظیمیں جو اسلامی نظام کی حمایت کرتی ہیں یا ان کا طریقہ کار اسلامی ہےیا مظلومیں کو سہارا دیتی ہیں وہ مجرمیں اور دھشت گردوں کی تنظیمیں ہیں ، مگر باقی جتنی تنظمیں اور حکومتیں قتل و غارت کریں وہ انصاف کے بول بالا کے لیے کرتی ہیں ۔ مثلا یورپی یونین کے وفد کا بیان غزہ کی تباہی کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ آیا ھے کہ یہ سب حماس کا کیا دھرا ہے ،جس کی وجہ سے یہ سب تباہی آئی ھے ، ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف برسر پیکار تنظیم مجاھدین خلق کو یورپی یونین نے دھشت گرد تنظیموں سے نکال دیا ھے ، اس کے فنڈ بحال کر دیے ہیں اور الحرمین (سعودی عرب ) اور جماعۃ الدعوہ( پاکستان )کو دھشت گرد تنظیموں میں شامل کر دیا ہے اور ان کے فنڈ بھی ضبط کر لیے ہیں ، ہماری سادگی دیکھیں ہمارے نعرے دیکھیں ، ہم دنیا کے انصاف پسندوں اور عالمی طاقتوں کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ وہ انصاف کریں ،
7: یک نہ شد دو شد: پہلے ایک ہی مولانا فضل الرحمن صاحب جن کا اصولی (وصولی) موقف ہوتا رہا ہے ، اب ان کے بھائی عطاء الرحمن بھی اصولی موقف لیے بطورِ وزیر سامنے آگیے ،
8: وزیر اعظم نے کابینہ میں چار وزراء کے اضافہ کے بعد فرمایا کہ ان وزراء کی تعداد 63 ھونے سے خزانے پر ہرگز بوجھ نہیں پڑے گا، کیوں کہ یہ وزراء جتنے زیادہ ہوں گے ان کے مشیر بھی اتنے زیادہ ہوں گے اور وہ اپنی آمدنی کے ذرائع خود تلاش کریں گے ، کہ کہاں کہاں اور کس کس شق سے ان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے ،
9:شوکت ترین صاحب کا ھنستا ہوا بیان سامنے آیا تھا کہ آئ ایم ایف سےکڑی شرائط پر قرضہ لینے میں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہو گا ، اگر نقصان ہوگا تو عوام کا ہوگا جو کمر توڑ مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں وہ یہ بوجھ بھی برداشت کر سکتے ہیں ، ھمیں اپنی قوم کی اس خوبی کا بخوبی ادراک ہے ،اور اسی کو کیش کرا رہے ہیں ،
10:وزیر بجلی و پانی کا کھلکھلاتا بیان سامنے آیا ھے کہ ہم 2015ء سے 2030ء تک بجلی کے بارے خود کفیل ہو جائیں گے اور پھر کبھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی ، 2009 ء سے 2015ء تک عوام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، اس قوم کے آباؤ اجداد کے پاس کون سے چراغ ہوا کرتے تھے ، وہ بھی اندھیروں کے خوگر تھے ،
11: وفاقی وزیر تعلیم میر ہزار خان بجارانی نے کہا ہے کہ فرح حمید ڈوگر کیس کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنا دیا ہے، اس کا ریکارڈ ہماری تحویل میں نہیں تھا تاہم اب ہم حقائق جاننے کیلئے اس کی باقاعدہ تحقیقات کریں گے۔ فرح ڈوگر کی کاپی دوبارہ جانچے جانے پر اسے ایک نمبر کے سوال پر 2 نمبر دیئے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ریکارڈ تو آنے دیں پھر محکمہ تعلیم کی پُھرتیاں دیکھنا ۔ محکمہ تعلیم تمام معاملات کی تحقیقات کرے گا۔ وہ پیر کو وفاقی اردویونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے باوجود ہم ری چیکنگ کی درخواست قبول نہیں کریں گے کیونکہ یہ چیز ہمارے رول میں شامل نہیں اور جب تک یہ ہمارے رولز میں ہے ہم ایک درخواست بھی وصول نہیں کر سکتے۔( مگر کیا کریں عدالت نے اپنا فیصلہ کرکے ھمارے ھاتھ باندھ دیے ہیں اور شاید ہم کچھ نہ کر سکیں ویسے بھی ہم اس معاملے سے مکمل لا علم رھے ہیں)۔
12: صدر زرداری نے کہا ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ کو بتا دیا ھے کہ ان کے ڈارون حملے نقصان دہ ہیں ، وہ ان حملوں کو رکوانے میں تعاون کریں ، لیکن ہم ان حملوں کو روک نہیں سکتے ،البتہ احتجاج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،

13: صدر زرداری کا بیان : صدر بش کا دور گزر چکا ، وہ سفید فام صدرِ امریکا تھا ، اب اوباما امریکا کا نیا صدر ہے ، جو سیاہ فام ہے ، اس کو پاکستان کے مسائل کا ادراک ہے ،
( پہلے سفید رنگ کے میزائلوںسے حملے ہوا کرتے تھے اب کالے رنگ کے میزائلوں سے حملے کر رہے ہیں ، آخر فرق بالکل واضع ہے ،)
14: رضا ربانی کا سینیٹ میں بیان :جماعت اسلامی کے پروفیسر خورشید نےجب سینیٹ میں سوال کیا کہ ھمارے قبائلی علاقوں پر 85 حملے ہوئےہیں تو رضا ربانی نے کہا پروفیسر صاحب آپ جھوٹ بولتے ہیں حملے اتنے نہیں ہوئے جتنے آپ کہتے ہیں کچھ تعداد کم کریں ہاں ہم کسی کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے ، ہم خود حملے کرکے اپنے علاقوں سے دھشت گرد ختم کریں گے ، البتہ امریکا کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے نہ ہی انڈیا کو ایسا کرنے دیں گے ، لیکن ہم امریکا کے ان حملوں کو روکنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ، انڈیا کی بات دوسری ہے وہ ہمارا ازلی دشمن ہے ، امریکا ھمیں جب ایک میزائل مارتا ہے تو اس کا نعم البدل بھی دیتا ھے ڈالروں کی شکل میں ، آپ لوگوں نے نہیں دیکھا جب عراق پر امریکا نے حملہ کیا تھا تو امریکا کے طیارے بمبوں کے ساتھ ساتھ ان کو روٹی اور کھانے پینے کا سامان بھی پھینکتے رہے تھے، ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے،

پڑھیے اور ھنسیے ، لیکن کھسیانی ہنسی ہونی چاہیے
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آپ کا چھوٹا بھائی: بےباک
 

بےباک

محفلین
شکریہ طالوت صاحب: آپ کی محبت ہے ،
ملکی حالات کو ایک بہتی رو میں جاتا ہوا دیکھ کر بے حس اور خاموش ہیں۔ اللہ نہ کرے ، ورنہ ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں
 
Top