سیاسی جماعتیں اور چیف جسٹس کا مسئلہ

حکومت کی طرف سے بار بار یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے اور اب بھی کہا جاتا ہے کہ چیف جسٹس کے آئینی اور قانونی مسئلہ کو سیاسی جماعتیں سیاسی بنا رہی ہیں اور اس سے اپنی سیاست چمکا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ چیف جسٹس پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بھی سیاست کر رہے ہیں ؟

آئیں ان سوالوں پر غور کریں اور جواب تلاش کریں۔

میرے خیال سے اس کا سادہ اور بالکل واضح جواب یہ ہے کہ چیف جسٹس نے کہیں بھی آئین سے ماورا بات نہیں کی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کا اظہار کیا ہے اور نہ حکومت پر تنقید کی ہے اور نہ قانون کے دائرہ کار سے نکل کر کوئی حرکت کی ہے۔ جنرل مشرف کے برعکس کہیں یہ دعوی نہیں کیا کہ میں حقائق قوم کو بتاؤں‌گا اور نہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم گنوائے ہیں۔ تمام خطبات میں آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے جو تمام عوام کا مطالبہ ہے اور آئینی تقاضہ بھی۔ بار سے خطاب وہ پہلے بھی کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں یہ نہ تو نئی بات ہے نہ سیاسی قدم۔ البتہ اب لوگ بھی ذوق و شوق سے سنتے ہیں انہیں تو حکومتی حلقوں کو یہ سیاسی رویہ لگ رہا ہے۔

دوسری بات کسی کو منوانے کی ضرورت ہی نہیں سیاسی جماعتیں اور جتنے بھی لوگ ہیں وہ اس مسئلے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور بناتے رہیں گے ورنہ عدلیہ کے ساتھ جو سلوک پہلے ہوتا رہا ہے وہ پھر سے ہو جاتا اور دو ہفتوں میں کیس کا فیصلہ چیف جسٹس کے خلاف لے چکے ہوتے۔ وکلا نے شروع سے خود کو سیاسی جماعتوں سے الگ رکھا ہے اور بار کے تمام خطبات میں سیاسی کارکنوں کو باہر ہی رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے وکلا نے کراچی میں بھی اپوزیشن کو استقبال سے علیحدہ رکھا۔

سب سے پہلے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آئین کیا سیاست سے ہٹ کر کوئی چیز ہے ، کیا آئین سیاسی جماعتیں اور سیاسی جماعتوں پارلیمنٹ میں ہی نہیں بناتی اور کیا اس میں ترمیم اور اضافے سیاسی جماعتیں ہی نہیں کرتیں۔کیا آئین اور قانون پر سیاسی جماعتیں خاموش بیٹھا کرتی ہیں اور کیا آئین اور قانون کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنا سیاسی جماعتوں کا اولین فریضہ نہیں ہے۔ کیا عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا کی حمایت اور عوام کے اندر شعور پیدا کرنا سیاسی جماعتوں کا بنیادی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا ایسا کرنا سیاست کو چمکانا ہے
کیا پارلیمنٹ کو ہم مقننہ نہیں کہتے جس کا کام ہی قانون بنانا اور اس پر عملدرآمد کو ییقنی بنانا ہے اور اس پر کسی بھی قسم کے دباؤ کو زائل کرنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہے؟
کیا آئین اور عدلیہ کے آزادی جیسے بنیادی مسائل پر سیاسی جماعتوں کو ہونٹ سی کر بیٹھے رہنا چاہیے اور وکلا کو حکومتی جبر و استبداد کے سامنے کھلا چھوڑ دینا چاہیے ؟

کیا تاریخ اور عوام ان سیاسی جماعتوں کو اس اہم ترین اور نازک موڑ پر جس میں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی جیسے انتہائی ضروری اور بنیادی مسئلہ پر الگ تھلگ کھڑا رہنے اور اپنا کردار ادا نہ کرنے پر معاف کرسکتے ہیں

فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ پہلے چیف جسٹس کے وکلاء نے کیا تھا جسے حکومتی وکلا نے مسترد کردیا اور عدالت نے بھی قبول نہ کیا اس کے بعد حکومتی وکلا نے اس کا مطالبہ کیا اور یہ قائم کر دیا گیا اس ایک بات سے ہی عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اتنا بھرپور احتجاج اور عوام کا ساتھ اور سیاسی جماعتوں کا واویلا نہ ہوتا تو حکومت من چاہا فیصلہ من چاہے وقت میں حاصل کر لیتی ۔
 

آصف

محفلین
محب آپ نے حرف بحرف سچ لکھا ہے۔ حکومت کی ساری بے چینی اور شور شرابا صرف اس لئے ہے کہ اس کیس میں بھی وہ خاموشی سے اپنی مرضی کیوں نہیں کر پا رہی۔

ہمارے وہ احباب جو بار بار چیف جسٹس کو سیاست کا طعنہ دیتے چلے آرہے ہیں وہ شاید دانستہ یا نادانستہ یہ فراموش کر رہے ہیں کہ اگر چیف جسٹس اس معاملے کو میڈیا میں نہ اچھالیں تو ظالم اور خونی حکومت ، مختار بی بی ریپ کیس، ڈاکٹر شازیہ خالد ریپ کیس، اکبر بگتی قتل کیس ، جنرل پرویز مشرف کا پاکستان کے اقتدار پر شب خون کیس، لاپتہ پاکستانی کیس، مقتول اوکاڑہ مزارعین بخلاف پاک فوج کیس، وانا اور باجوڑ میں مقتول پاکستانی کیس، اور دوسرے سینکڑوں کیسز میں بنیادی انسانی حقوق کو پا‌مال کرنے کے بعد چیف جسٹس کے منصب کو بھی بدمست ہاتھی کی طرح اپنے پاؤں تلے روندنا چاہتی ہے۔ چیف جسٹس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس گم کردۂعقل حکومت کے مقابلے کیلئے عوام سے مدد چاہیں اور عین یہی کام وہ کر رہے ہیں۔ اس راہ پر خار میں اگر سیاسی جماعتیں ان کے ہمرکاب ہونا چاہیں تو بسم اللہ۔ اگرچہ مجھے تقریبا تمام سیاسی و مذہبی قائدین پر بالکل بھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ واقعی ملک میں ایک آزاد عدلیہ چاہتے ہیں لیکن صرف اس بنیاد پر چیف جسٹس صاحب کی جدوجہد کو برا بھلا کہنا، ان پر آوازے کسنا، اور بجائے اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ شامل ہونے کے ایک قانون شکن، ناجائز اور مطلق العنان حکمران کے ساتھ کھڑے ہونا!!! ذرا ایسا کرنے والے سوچیں تو سہی کہ وہ کیا کر رہے ہیں!
 

آصف

محفلین
میں نے اوپر اپنے خط میں مشرف حکومت کے کچھ ایسے اقدامات کا ذکر کیا ہے جو صریحا انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ظلم کے ضمن میں آتے ہیں۔ میں آپ تمام احباب سے درخواست کروں گا کہ وہ یہاں مشرف حکومت کے ایسے تمام کارناموں کو ضابطۂ تحریر میں لانے میں میری مدد فرمائیں۔ہمیں ان تمام امور کا ایک ریکارڈ مرتب کرنا چاہئیے تاکہ جب وقت آئے تو ملزم سے عین قانون کے مطابق جواب دہی کی جا سکے۔
 
آصف نے کہا:
محب آپ نے حرف بحرف سچ لکھا ہے۔ حکومت کی ساری بے چینی اور شور شرابا صرف اس لئے ہے کہ اس کیس میں بھی وہ خاموشی سے اپنی مرضی کیوں نہیں کر پا رہی۔

ہمارے وہ احباب جو بار بار چیف جسٹس کو سیاست کا طعنہ دیتے چلے آرہے ہیں وہ شاید دانستہ یا نادانستہ یہ فراموش کر رہے ہیں کہ اگر چیف جسٹس اس معاملے کو میڈیا میں نہ اچھالیں تو ظالم اور خونی حکومت ، مختار بی بی ریپ کیس، ڈاکٹر شازیہ خالد ریپ کیس، اکبر بگتی قتل کیس ، جنرل پرویز مشرف کا پاکستان کے اقتدار پر شب خون کیس، لاپتہ پاکستانی کیس، مقتول اوکاڑہ مزارعین بخلاف پاک فوج کیس، وانا اور باجوڑ میں مقتول پاکستانی کیس، اور دوسرے سینکڑوں کیسز میں بنیادی انسانی حقوق کو پا‌مال کرنے کے بعد چیف جسٹس کے منصب کو بھی بدمست ہاتھی کی طرح اپنے پاؤں تلے روندنا چاہتی ہے۔ چیف جسٹس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس گم کردۂعقل حکومت کے مقابلے کیلئے عوام سے مدد چاہیں اور عین یہی کام وہ کر رہے ہیں۔ اس راہ پر خار میں اگر سیاسی جماعتیں ان کے ہمرکاب ہونا چاہیں تو بسم اللہ۔ اگرچہ مجھے تقریبا تمام سیاسی و مذہبی قائدین پر بالکل بھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ واقعی ملک میں ایک آزاد عدلیہ چاہتے ہیں لیکن صرف اس بنیاد پر چیف جسٹس صاحب کی جدوجہد کو برا بھلا کہنا، ان پر آوازے کسنا، اور بجائے اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ شامل ہونے کے ایک قانون شکن، ناجائز اور مطلق العنان حکمران کے ساتھ کھڑے ہونا!!! ذرا ایسا کرنے والے سوچیں تو سہی کہ وہ کیا کر رہے ہیں!

بالکل آصف میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ اگر مکمل خاموشی اختیار کی جاتی تو صدر صاحب وہی کرتے جو وہ پہلے کرتے آئے ہیں یعنی طاقت اور مرضی کا استعمال۔
میڈیا کے لیے یہ اہم ترین خبر ہے اور رہے گی وہ اس کی بھرپور کوریج کریں گے اس کے لیے چیف جسٹس صاحب کو معاملہ اچھالنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی اب بھی وہ اچھال رہے ہیں البتہ عوام میں اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے وہ خوش ضرور ہیں اور یہ عین فطری بات ہے اس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس صاحب کا ایک بھی بیان سیاسی نہیں ہے اور انہوں نے صرف قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کی بات کی ہے جو ان کا حق اور تمام عوام کا مطالبہ ہے۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کا سوال رہا وہ ماضی میں یا اب بھی چاہے جتنی بھی غلط ہوں اس وقت ایک اصولی موقف کی حمایت کر رہی ہیں اور صرف اس وجہ سے کہ وہ سیاسی جماعتیں ہیں اور ان کا سیاسی مقصد ہے یا ان کی گذشتہ روایت اچھی نہیں ہم اس اصولی موقف پر ان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اب تک ان کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ عدلیہ کو آزاد کیا جائے اور شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے جو کہ سب مانتے ہیں حتی کہ حکومت بھی۔
 
آصف نے کہا:
میں نے اوپر اپنے خط میں مشرف حکومت کے کچھ ایسے اقدامات کا ذکر کیا ہے جو صریحا انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ظلم کے ضمن میں آتے ہیں۔ میں آپ تمام احباب سے درخواست کروں گا کہ وہ یہاں مشرف حکومت کے ایسے تمام کارناموں کو ضابطۂ تحریر میں لانے میں میری مدد فرمائیں۔ہمیں ان تمام امور کا ایک ریکارڈ مرتب کرنا چاہئیے تاکہ جب وقت آئے تو ملزم سے عین قانون کے مطابق جواب دہی کی جا سکے۔

بالکل صحیح کہہ رہے ہیں آصف، میں کوشش کرتا ہوں کہ ان معاملات پر مواد اکھٹا کروں۔

سٹیل مل کی نجکاری سے شروع کرتا ہوں۔
 

محسن حجازی

محفلین
بہت ہی اعلی! واقعی ضروری ہے کہ اس شاندار دور حکومت میں ہونے والے کارناموں پر ایک ریکارڈ مرتب کیا جائے۔
لیکن اس بات کیا ضمانت ہے کہ ہمیں اٹھوا نہیں لیا جائے گا۔۔۔۔
 
محسن حجازی نے کہا:
بہت ہی اعلی! واقعی ضروری ہے کہ اس شاندار دور حکومت میں ہونے والے کارناموں پر ایک ریکارڈ مرتب کیا جائے۔
لیکن اس بات کیا ضمانت ہے کہ ہمیں اٹھوا نہیں لیا جائے گا۔۔۔۔

محسن فکر نہ کریں اب یہ کیس بھی عدالت میں ہے کہ لاپتہ افراد کہاں ہیں۔ ایک باقاعدہ لسٹ مہیا کی گئی ہے اور کچھ نہیں تو ہمارا نام اس میں شامل ہو جائے گا اور بعد میں بازیاب ہو جائیں گے۔
 

باسم

محفلین
لاہور ................وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤنے کہا ہے کہ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ دہشت گردی نہیں بلکہ اس میں سیاسی عنصر شامل ہے ؟؟؟؟
آپ کے ساتھ ہوتو دہشت گردی اور عوام کے ساتھ ہو تو سیاسی عنصر۔
 
حکومت کی حالت انتہائی مضحکہ خیز ہو چکی ہے اور انہیں اب ہر کام میں سیاست نظر آ رہی ہے جیسے ساون کے اندھے کو ہر شے ہری ہی نظر آتی ہے چاہے وہ ہری ہو یا نہ۔
اب ہر بری شے کو بھی اچھی ثابت کرنا کا جنون چڑھ گیا ہے حکومت کو ، کبھی عدلیہ بری لگنے لگتی ہے ، کبھی وکلا ، کبھی سیاست دان ، کبھی میڈیا ، کبھی صحافی اب صرف عوام ہی رہ گئے ہیں ۔
افسوسناک خبر یہ تھی کہ شوکت عزیز نے کراچی جا کر رینجرز اور پولیس کے کردار کی تعریف کی 12 مئی کے حوالے سے اور کہا کہ ان کی وجہ سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں جتنی ہو سکتی تھیں۔

اسی طرح رینجرز کے چیف نے ڈھٹائی کی حد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اہم ٹاسک پورے کیے ، ائیر پورٹ‌ کی حفاظت ہمارا ذمہ تھا وہ پورا ہوا ، اس کے علاوہ سرکاری دفاتر ، اہم بینک اور دیگر اہم عمارتیں محفوظ رہیں۔ سچ کہا ہے شاید اس دن ان کی ذمہ داری اتنی ہی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اب دیکھ لیں کہ چیف جسٹس کا ایشو کہاں چلا گیا؟ مشرف سے زیادہ ڈاہڈا اور مکار سیاستدان ہے کوئی ہمارے پاس؟
 
قیصرانی مشرف کی انہی چالبازیوں پر پردہ اٹھانے کے لیے ہی تو ہم سب یہاں حقائق لکھ رہے ہیں اور آئیندہ آنے والوں کے لیے جمع بھی کر رہے ہیں۔

ویسے فکر نہ کرو چیف جسٹس کا مسئلہ چل رہا ہے اور روز پیشیاں ہو رہی ہیں ، بہت زیادہ پریشر بنایا جائے تو پھر کراچی جیسے افسوسناک واقعات بھی کروا دیتی ہے حکومت توجہ ہٹانے کے لیے ۔ اب تم دیکھنا لال مسجد کے ایشو کو پھر سے اٹھائیں گے تاکہ مشرف کی اہمیت کو برقرار رکھا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے مشرف کا رہنا بہت ضروری ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
کل رات اسلام آباد میں افواہ گرم تھی کہ لال مسجد کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے شیلنگ اور فائرنگ کی اطلاعات بھی تھیں۔ وللہ اعلم۔۔۔
 
قیصرانی میں تو مشرف کو مکار سے زیادہ بے وقوف انسان تصور کرتا ہوں۔ جس نے چوہدریوں کے جھانسے میں آکر اپنی رہی سہی ساکھ بھی تباہ کر دی ہے۔ اور مزید ایسے اقدامات سرانجام دے رہا ہے جو کہ اس کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتے ہیں۔
 

باسم

محفلین
23052007b.gif

امت
 
Top