مقدس
لائبریرین
سکنتلا
صفحہ 57
بسم اللہ الرحمان الرحيم
پری ہو یا انسان کسی کی کیا جان جو اس کے شاہد و حمد و ثنا کے حسن و جمال پر کر سکے نگاہ۔ كلام معجز نظام احمد مجتبی المصطفى صلى اللہ عليہ و سلم کو اس پر ہی گواہ کیا، وہ جلوہ تھا جسے دیکھ موسی آپ نہ رہا۔ عشق ہے اس کے حسن کا کہ کوئی تو دیوانہ ہوا اور کسی نے اپنا جی ہی دیا۔ کون ہے ایسا جس کے دل کو اس کی نہیں ہے لاگ؟ اسی کا سوز و محبت رکھتی ہے آگ!
رباعی
بزم حیرت میں مثال شمع ہر اہل نیاز
اے جواں رکھتا ہے کیا کیا دل میں اپنے سوز و ساز
لب پہ مسہر خامشی بہتر ہے سوز عشق سے
ہو نہ از خود رفتہ بس آگے نہ کر افشائے راز
اب یہ ہیچ مدان ہر صغیر و کبیر کی دریافت کے لیے اس روزگار کے سررشتے سے کہ سرکار میں کمپنی مادر دام اقبالہ کی مقرر ہوا، بیان کرتا ہے۔
کرنیل اسکاٹ صاحب جو لکھنؤ کے بڑے صاحب ییں، انہوں نے حسب الطلب گورنر جنرل برادر دام ملکہ کی 1800ء میں کتنے شاعروں کو سرکار عالی کے ملازموں میں سرفراز فرما کر اشرف البلاد کلکتے کو روانہ کیا۔ انہوں میں احقر بھی یہاں وارد ہوا اور موافق حكم حضور خدمت میں مدرسہ ہندی کے جو صاحب والا مناقب گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہ ہیں،
صفحہ 58
شرف اندوز ہوا -
دوسرے ہی دن انہوں نے نہایت مہربانی و الطاف سے ارشاد فرمایا کہ سنکنتلا ناٹک کا ترجمہ اپنی زبان کے موافق کرو اور للو جی لال کب کو حکم کیا کہ بلاناغہ لكھایا کرے۔ اگرچہ کبھی سواے نظم کے نثر کی مشق نہ تھی لیکن خدا کے فضل سے بخوبی انصرام ہوا کہ جس نے سنا پسند کیا اور اچھا کہا۔ بہت سا پڑھنے لکھنے میں آیا اور کچھ چھپ کر اتفاقات سے رہ گیا۔
ان دنوں میں کہ 1800 عیسوی میں اور احقر قرآن شریف کے ہندی ترجمے کا محاورہ درست کرتا ہے، صاحب ممدوح نے فرمایا "ہم چاہتے ہیں کہ اب اس کتاب کو سر نو چھپواوں، نظر ثانی لازم ہے اور اس کب کو فرمایا کہ تم بھی اسی کتاب سے مقابلہ کرو کہ اگر کہیں مطلب کی کمی بیشی ہوئی ہو، نہ رہے؛ چنانچہ ہم ان کا فرمانا بجا لائے؛ پھر موافق حكم صاحب کے بندے نے تھوڑا سا دیباچہ اور بھی لکھا والسانہ اگلا یہی ہے۔
خدا کا نام لے پہلے زبان پر
لگا پھر دل کو اپنے داستان پر
یہ قصہ فرخ سیر بادشاہ کی سلطنت سنسکرت سے برج بہا کا میں ترجمہ ہوا تھا۔ اب شاہ عالم بادشاہ کے عہد میں اور زبدہ نوئینان عظيم الشان مشیر خاص شاہ کیوان بارگاہ انگلستان اشرف الاشراف ماركويس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام دولتہ کی حکومت میں، 1801ء مطابق 1215 ہجری کے، جناب جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہ کے حسب الحكم كاظم على جوان نے اسے زبان ریختہ میں بیان کیا۔
اس داستان کے لکھنے والے نے یوں لکھا ہے کہ فرخ سیر بادشاہ کے فدویوں میں سے مولی خاں فدائی خاں کے بیٹے نے جب
صفحہ 59
ایک لڑائی ماری، تب حضور پر نور سے اس کا خطاب عظيم خان ہوا۔ انھیں ایام میں اس نے نواز کشور کو حکم کیا کہ سںکنتلا ناٹک جو سنسکرت میں ہے، برج کی بولی میں کہہ۔ اس کبیشر نے یہ کہانی کبت دوھرے میں کہی کہ جس کا ترجمہ یہ یے، اور جو انگریزی میں ہے وہ سنسکرت سے ہوا ہے۔ اگر اس میں اور اس میں کچھ فرق ہو تو ممکن ہے۔
اب صاحبان دانش و بینش کی خدمت میں التماس میرا یہ ہے کہ چشم و گوش انصاف کھولیں اور ٹک منصفی سے بولیں کہ کبت اور دوھرے کا ترجمہ جیسے چاہیے ویسا زبان ریختہ میں کب ہو سکتا ہے۔ اس کے اور اس کے مضمون کی بندش کا فرق کھلا ہوا ہے، بیان کی احتیاج کیا:
طرز اس کی ہے جدا اس کا نرالا طور ہے
اس کا عالم اور ہے اور اس کا عالم اور ہے
قطع نظر اس سے کہ کبت ہو یا دوھرا، نظم کا ترجمہ نثر میں طبیعت کو منتشر کرتا ہے، کیا کیا جائے؟
لکھے یہ اس لیے دو چار فقرے
اگر جائے تامل ہو کسی جا
گرفت اس میں نہ ہو اہل خرد کو
کہ اس مضمون کا یاں طور یہ تھا
وگر دیکھیں خطا تو بھی سمجھ کر
معاف اس کو کریں ہو لطف فرما
کہ خالی ہے بشر کوئی خطا سے؟
کسی کو اس میں طعنے کوئی دے کیا
جواں بس دل لگا تو داستان پر
یہاں سے یوں ہے اب آغاز اس کا
صفحہ 60
آغاز داستان
کہ اگلے زمانے میں وسوا متر نام ایک شخص تھا۔ شہر کو چھوڑ جنگل میں رہا کرتا اور اپنے طور کی عبادت و ریاضت دن رات کیا کرتا۔ اپنے صاحب کی بندگی میں تن بدن کی کچھ ایسے خبر نہ تھی، سوا اسی کے تصور کے کبھی نگاہ ادھر ادھر نہ تھی؛ یہاں تک دبلاپے سے لٹا تھا کہ پہچانا نہ جاتا:
بدن پھول سا سوکھ کانٹا ہوا تھا
ریاضت کے بارے وہ جیتا موا تھا
ان دکھوں سے اس کو کبھی ایک دم آرام نہ تھا۔ سوا اٹھانے ان جفاؤں کے کچھ کام نہ تھا تا کہ اس خاکساری سے آرزو دل کی بر آوے اور درخت مدعا کے پھل پاوے۔ ایسا جوگ کیا اور ایسا آسن باندھ بيٹھا کہ نزدیک تھا کہ بندگی کے زور سے راجا اندر کی سنگھاسن چھین لے۔ جتنے تیرتھ تھے، ان سب میں گیا، شہر شہر دریا دریا، گھاٹ گھاٹ پر کرما کرتا پھرا، نہ چھوڑا کسی ندی کا کنارہ۔
جس جنگل میں کسی درخت تلے وہ بیٹھتا، گردا گرد آگ جلاتا۔ پھر اپنے تئیں الٹا لٹکاتا، دم بدم دھواں منہ میں لیا کرتا، تپسیا اس طرح کیا کرتا۔
غرض اس تپسوی کا یہی حال تھا۔ آٹھوں پہر تپ جپ کا خیال تھا۔ چونسٹھ برس تک وہ بیابان نورد تھا، سر سے لگا کے پاؤں تلک گرد گرد تھا۔ بناسپتی ہی کھاتا رکتا، بھوک پیاس کی ایذائیں سہتا اور رو بہ آفتاب ہو کر:
صفحہ 61
رباعی¹
گرمیوں میں وہ جگر تفتہ جلا کر گرد آگ
بیٹھتا تھا ڈھیر جیسے راکھ کا آوے نظر
اور جاڑوں میں گلے تک پانی میں ہو کر کھڑا
جپ کیا کرتا تھا شوق دل سے ہر شام و سحر
ایسی باتیں سن کر راجا اندر کو بہت سوچ پڑا، ڈر دل میں ہوا۔ اس کے اس جوگ کو توڑنے کے لیے منیکا پری کو بلا کر بہت سی آؤ بھگت کی اور یہ احوال ظاہر کیا۔ وہ راجا کے حسن سلوک سے بہت خوش ہوئی اور اس مطلب کے سنتے ہی یوں بولی کہ میں وہ پری ہوں، اگر میرا سایہ برھمابشن مہادیو پر پڑے، دیوانے ہو جاويں:
ابیات
جو وے ہوویں وحشی تو کر لوں میں رام
میری یاد میں بھولیں سب اپنے کام
یہ ایسی ہیں جادو بھری انکھڑیاں
رہے دیکھ کر ان کو سدھ بدھ کہاں
.
1- فورٹ ولیم کالج کے انتخاب (ناقص الاول والاخر) میں اس رباعی کو نثر کی طرح لکھا گیا ہے، صورت یہ ہے:
"گرمیوں میں وہ جگر تفتہ جلا کر گرد آگ، بیٹھتا تھا ڈھیر جیسے آگ (کا) آوے نظر۔ اور جاڑوں میں گلے تک پانی میں ہو کر کھڑا، جپ کیا کرتا تھا شوق دلی (دل) سے ہر شام و سحر۔"
نسخہ مذکور دی رباعی کے دونوں شعروں کے آخری مصرعے ساقط الوزن ہیں۔ پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ "کا" رہ گیا ہے اور دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ "دل" کی بجائے "دلی" چھپا ہے۔ (مرتب)
صفحہ 62
یہ احوال جب ایسے لوگوں کا ہو
رکھوں پاک دامن میں کب اور کو
وسوامتر کو ایک پل میں اپنے پر دیوانہ کر لوں، تمام عمر کو قشقے کی جگہ یہ کلنک کا ٹیکا ماتھے پر دھر دوں۔ جوگی یا جتی تین طبق میں کون ایسا ہے جو مجھ سے آپ کو بچاوے؟ اس کو تو میں دم میں اور کا کچھ اور کر دوں - قسم ہے مہاراج کی! اگر اسے 'کام' کے بس کر، کر، انگلیوں پر نہ نچاؤں تو نام اینا منیکا نہ رکھاؤں۔
باتیں کتنی ایسی ہی کر کے، بين کاندھے پر دھر وہاں سے اٹھی، بیٹھ اپنے تخت پر ہوائے آسمان سے زمین پر اتری۔
وہ ایسا ایک ستارہ تھی کہ تمام عالم کو جس نے روشن کر دیا؛ تس پر سولہ سنگار، بارہ ابھرن جو اس نے سر سے پاؤں تلک کیے، دن کو تو سورج اس کا جلوہ دیکھ رشک کی آگ سے جلا اور رات کو چاند غیرت سے داغ ہو کر ستاروں کے انگاروں پر لوٹا۔ ویسی موھنی صورت اور وہ بناؤ جو دیکھا جوگ میں آ گیا، تپسیا کا پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا۔ وہ خرمن صبر کی جلانے والی بجلی تھی کہ جس پر اس کی نگاہ گرم پڑی بے تاب ہو کر دل اس کا سینے میں بھسم¹ ہو گیا۔ اگر فرہاد دیکھتا، جان شیریں دیتا، لیلی مجنون ہو جاتی:
نہ بلبل ہی ہوئی تھی اس پہ شیدا
گلوں کے بے کلی تھی دل میں پیدا
بہشت سے نکل کر جو اسے دیکھتی حور، تو يقين ہے کہ جان دینے میں نہ کرتی قصور:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ انتخاب فورٹ ولیم کالج مذکور میں "بھسنت" ہے۔
صفحہ63
دیکھ کر اس کو کافر و دیں دار
کرتے آپس میں تھے یہی تکرار
جہان یہ صنم آوے یا رب نظر
کسے دین و دنیا کی واں ہو خبر
حاصل کلام وہ اس صورت سے اس منی کے موھنے کو اور من بس کرنے کو اٹکھیلیوں کی چال خرام ناز کے انداز سے چلی۔ آچیلاھٹ اور چنچل پنے سے ٹھوکر دامن کی گریبان شکیبائی کو چاک کرتی تھی، آنچل دوپٹے کا سر پر سے کاندھے پر اور کاندھے سے پھسل کر زمین پر آ رہتا تھا۔ اس سرو گل اندام کے اس ناز و انداز پر نسيم و صبا صادقے قربان جاتی تھی۔ مد بھری وے آنکھیں دیکھ کر نرگس پیالہ شراب شوق کا لے کر کھڑی کی کھڑی رہ جاتی تھی، کمر کی لچک سے تار تار سنبل کا پیچ و تاب کھاتا تھا۔
بين بجاتی ہوئی، ہولى گاتی ہوئی، دھیان تالوں پر دھرے، پھول دامن و گریبان میں بھرے ہوئے آکر وہاں جلوہ گر ہوئی جہاں وہ جوگ سادھے تپسیا کر رھا تھا۔ یک بہ یک پازیب کے گھونگروں کی جھنکار، بین کے تاروں کی آواز گانے کی لے سے ملی ہوئی سن کر بے قرار ہوا۔ اس نے جونہیں آنکھیں کھول دیں، ایسی شکل نظر آیی کہ ایک ہی نظارے سے اس کا سب دھیان گیان جاتا رہا، برسوں میں جپ کی جتنی پونجی جمع کی تھی اس کے ناز و غمزے کی فوج نے سب کی سب ایک ہی دم لوٹ لی۔ پھر تو غش کھاتا ہوا اٹھ کر پروانہ وار اس شمع رو کے گرد پھرنے لگا اور بےتابی سے دم بدم قدموں پر گرنے، بلائیں سر سے پاؤں تلک لینے اور صدقے ہو ہو جان اپنی دینے لگا ۔
صفحہ 64
دل اس کا محو جلوہ جانانہ ہو گیا
کرتے ہی یک نگہ کے وہ دیوانہ ہو گیا
تب تو پری دم دلاسا دے، ایسے ہوش میں لا، اپنی بھی چاہت جتا، گرم جوشی کر کے اس مزے میں لائی کہ اس کے دل نے پہلے بوس و کنار سے نہایت لذت پائی، پھر تو 'کام دیو' نے آ کر اپنا کام کیا کہ ایک آن میں اس کا وہ کام تمام کیا۔ اس نے اپنے اس جوگ کا یہ پھل پایا کہ ایک دم کے مزے کی خاطر سب کچھ گنوایا۔ پھر بہت سا پچھتایا کہ میں نے کیا برا کام کیا، اپنے تئیں تمام پھلوں میں بدنام کیا۔
تب تو اس کے سوا کچھ اور بن نہ آیا کہ اس بن کو چھوڑ اور بن کو گیا۔ اور منیکا کو وہیں حمل دریافت ہوا، اس سبب اسے راجا اندر کے دربار میں جانا بار ہوا۔ چار و ناچار نو مہینے تلک دن گنتی رہی۔
جب مدت پوری ہوئی تو ایک ماہ رو لڑکی جنی۔ قہر یہ ہے کہ بے مہری سے نہ چھاتی لگا کر اسے دودھ دیا، بے الفتی سے نہ ایک دم گودی میں لیا۔ نسل انسان کی جان، محبت ذرا نہ کی اور وہیں پٹک کر اس نے اتنی بات کہی کہ جسے ہماری ذات
میں کوئی نہ رکھے، اسے کیوں اللہ نے دیا:
بیت
بات یہ جوں نکلی لب سے کہا وہیں وہ پیچ و تاب
اڑ گئی آئی جدھر سے تھی بہ چندیں اضطراب
وہ تو گئی ادھر یہ رہی ادھر۔
اب آگے داستان کا یوں بیان ہے کہ اس جنگل میں سوا خدا کے اس کا کوئی خبر لینے والا نہ تھا، پر ایک پکھیرو اس پر اپنے پروں کا سایہ کیے تھا، اس سے اس کا نام سکنتلا ہوا۔
صفحہ 65
وہاں پڑی ہوئی وہ روتی تھی، آنسوؤں کے موتی پلکوں پروتی تھی، دودھ کے لیے منہ پسار رہی تھی، ہاتھ پاؤں مار رہی تھی کہ پروردگار عالم نے اپنا فضل کیا۔ جو 'کن منی' کہیں نہانے کو چلے تھے، جوں اس طرف سے ہو نکلے، دیکھا کہ یہ کیا قدرت الہی ہے جو اس صورت سے نظر آتی ہے :
رباعی¹
اس نو گل چمن کو گلستاں سے دور دیکھ
حيران برنگ بلبل تصویر ہو گئے
غلطان در یتیم سی تھی لیک خاک پر
غلطانی اس کی دیکھ وے دل گیر ہو گئے
اس پر انہیں نہایت ترس آیا۔ دوڑ کر خاک پر سے اٹھایا۔ گودی میں لے کر کہنے لگے "یہ پری، جن یا کسی قوم کی ایسی خوبصورت لڑکی ہے کہ دیکھی نہ سنی۔ کچھ کہا نہیں جاتا اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کس نے اس جنگل میں لا کر خاک کے اوپر اس چاند کے ٹکڑے کو ڈال دیا تھا۔"
اسے چھاتی سے لگائے ہوئے وے دل میں سوچ بچار کرتے گھر کو پھرے۔ مکان میں پہنچتے ہی اپنی بہن گوتمی کو اس کی صورت دکھا کر پیار سے کہا کہ جی لگا کر بہت اچھی طرح پرورش کرتی رہيو، ایسا نہ ہو کہ کسی طور سے کوتاہی ہو۔
لڑکی کی جو وہ صورت اس نے دیکھی اور بھائی کی اس کے
1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں اس رباعی کو نثر کی شکل میں لکھا گیا ہے۔
صفحہ 66
حق میں یہ مہربانی کی باتیں سنیں، پہلے اس کی بلائیں لیں، پھر گود سے لے کر اپنے گلے لگا پالنے لگی۔ دن رات چھاتی پر اسے لٹاتی تھی، مہر و محبت سے دودھ پلواتی تھی۔
وہ اس صورت سے پلتی تھی اور جتنے اس جنگل کے تپسوی تھے، اس کو پیار کرتے تھے، سب کی وہ پیاری تھی۔ ان سبھوں میں یہ مشہور تھا کہ یہ 'کن منی' کی بیٹی ہے۔ دن بدن وہ بڑی ہوتی تھی اور تخم محبت ہر دل میں ہوتی تھی۔
اور بھی دو لڑکیاں وہاں تھیں، ایک کا نام آنسویا تھا اور دوسری کا نام پریم ودا۔ تینوں پرورش پا کر جب بڑی ہوئیاں، آٹھ پہر ساتھ کھیلنے لگیاں۔ ان سبھوں کو آپس میں ایسا پیار و اخلاص تھا، گویا ان کی ایک جان اور جدا جدا قالب تھا ۔
ابیات
ہر ایک آن میں تھی زہرہ و مہر و ماہ
جنہیں دیکھ کر ہوئے یوسف کو چاہ
اگر چاہے شاعر کرے شاعری
بیاں ان کی ہووے نہ خوبی ذری
خدا نے اپنے دست قدرت سے ان تینوں کے سراپا میں سراپا خوبیاں بھر دیں تھیں:
بھویں جب کہ غصے میں تھیں تانتیں
جگر تیر مژگاں سے تھیں چھانتیں
تلطف سے جس دم کہ وی ہنستیاں
تو زاہد کو بھی سوجھتیں مستیاں
ہر ایک کا وہ پری سا چہرہ جو نظر آتا، کوئی تو غش کھاتا اور کوئی دیوانہ ہو جاتا:
صفحہ 67
جو زلفیں تھیں زنجیر پاے جنوں
کف پاے رنگیں تھی سر گرم خوں
اگرچہ ظاہر میں وے سبھی سر سے پاؤں تک تمام حسن و جمال اور ناز و ادا تھیں، لیکن حقیقت میں وہ شعلہ بھبھوکا کہ جس کا نام سکنتلا تھا، اپنے ایک جلوے سے دل و جان دونوں اس جہان کا پھونک دیتی تھی۔ شہرہ اس کی گرم بازاری کا، دھوم کے حسن عالم سوز کی ایسی تھی کہ آفتاب عالم تاب کو ایک ذرہ اس کے آگے تجلی نہ تھی:
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں
سراپا تھیں اس میں خوش اسلوبیاں
القصہ کن منی نے ایک دن اس نازنین سے یہ بات کی کہ اب میں تیرتھ کو جاتا ہوں، تھوڑے سے دنوں میں نہا کر پھر آتا ہوں، تب تک تو چین و آرام سے خوش رہيو، جو کچھ مطلوب ہو گوتمی سے کہا کریو، وہ تیری خاطر حاضر کیا کرے گی اور جان و دل سے صدقے قربان ہو کر سر سے پاؤں تلک تیری بلائیں لیا کرے گی۔ پر جو کوئی تپسوی یہاں آوے، آ در کر پاؤں پڑیو اور اس کی خد مت کیجیو، جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوتاہی مت کیجیو۔
پس اس طرح وہ اسے سمجھا سمجھا، نصیحت دلاسا دے روانہ ہوا۔ اور وہ آتش کا پرکالا، اندھیرے گھر کا اجالا، شیریں منش، لیلی روش، طلسم حسن و جمال کے گنج کا، یعنی سکنتلا برنگ گل جس کی جگہ چاہیے تھی چمن میں، رہی اسی بن میں:
شروع جوانی اور اس کا وہ جوبن
يا عالم اپنا دکھاتا تھا بن بن
صفحہ 68
جتنے اس دشت کے چرند و پرند تھے، وے اس کے دام محبت کے پابند تھے اور وہ خدمت میں بھی لوگوں کی مشغول تھی۔
جب کتنے دن گذرے، ایک تازی وحشت آ اس سے دو چار ہوئی۔ چار و ناچار اپنے دل کو یوں بہلاتی تھی؛ کبھی ہرن کے بچوں کو دانہ، کبھی درختوں کو پانی دیا کرتی اور خاطر اس کی ہر آن گوتمی ہر ہر طور سے کیا کرتی۔ کن کی سفارش کے سوا وہ خود اس کی فرماں بردار بلکہ جان نثار تھی اور وے دونوں سکھیاں اس کا منہ دیکھتی ہی رہتیاں تھیں۔
جب جوانی کی امنگ نے عالم کچھ اور دکھایا، شوخیاں نئے نئے طور کی اس نازنین میں سمانے لگیں، دل داری اور دل ربائی کے اختلاط ان ہمجولیوں سے شروع کیے۔ ترچھی نگاہوں، تیکھی نظروں سے اشاروں میں ان کے دلوں کو بے چین کرتی تھی، بگڑ بگڑ کر ہزاروں طرح چن چن کے ان کو نام دھرتی تھی:
کبھی ہنس بول کر مال کیا
کبھی ٹھوکر سے پائے مال کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ تھا دل ربائی کا اک طور کچھ
یر اک آن میں آن تھی اور کچھ
وہ قامت قیامت کا نمونہ بلکہ آمد میں اس سے بھی دونا ؛ اس پر تمام وہ ترکیب بدن کی جیسا پھولوں کا گڑوا، آفت غضب وہ چھاتیوں کا ابھار، چمن حسن کی اس سے تر و تازہ بہار۔ عالم کچھ کا کچھ نظر آتا تھا جسے دیکھ کر عالم کا جاتا تھا۔ کمر کی بھی لچک سے رگ جاں تلک پیچ و تاب تھا اور ہر روز جوبن اس کا اس اس چمک سے بڑھتا تھا کہ چودھویں رات کے چاند
صفحہ 57
بسم اللہ الرحمان الرحيم
پری ہو یا انسان کسی کی کیا جان جو اس کے شاہد و حمد و ثنا کے حسن و جمال پر کر سکے نگاہ۔ كلام معجز نظام احمد مجتبی المصطفى صلى اللہ عليہ و سلم کو اس پر ہی گواہ کیا، وہ جلوہ تھا جسے دیکھ موسی آپ نہ رہا۔ عشق ہے اس کے حسن کا کہ کوئی تو دیوانہ ہوا اور کسی نے اپنا جی ہی دیا۔ کون ہے ایسا جس کے دل کو اس کی نہیں ہے لاگ؟ اسی کا سوز و محبت رکھتی ہے آگ!
رباعی
بزم حیرت میں مثال شمع ہر اہل نیاز
اے جواں رکھتا ہے کیا کیا دل میں اپنے سوز و ساز
لب پہ مسہر خامشی بہتر ہے سوز عشق سے
ہو نہ از خود رفتہ بس آگے نہ کر افشائے راز
اب یہ ہیچ مدان ہر صغیر و کبیر کی دریافت کے لیے اس روزگار کے سررشتے سے کہ سرکار میں کمپنی مادر دام اقبالہ کی مقرر ہوا، بیان کرتا ہے۔
کرنیل اسکاٹ صاحب جو لکھنؤ کے بڑے صاحب ییں، انہوں نے حسب الطلب گورنر جنرل برادر دام ملکہ کی 1800ء میں کتنے شاعروں کو سرکار عالی کے ملازموں میں سرفراز فرما کر اشرف البلاد کلکتے کو روانہ کیا۔ انہوں میں احقر بھی یہاں وارد ہوا اور موافق حكم حضور خدمت میں مدرسہ ہندی کے جو صاحب والا مناقب گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہ ہیں،
صفحہ 58
شرف اندوز ہوا -
دوسرے ہی دن انہوں نے نہایت مہربانی و الطاف سے ارشاد فرمایا کہ سنکنتلا ناٹک کا ترجمہ اپنی زبان کے موافق کرو اور للو جی لال کب کو حکم کیا کہ بلاناغہ لكھایا کرے۔ اگرچہ کبھی سواے نظم کے نثر کی مشق نہ تھی لیکن خدا کے فضل سے بخوبی انصرام ہوا کہ جس نے سنا پسند کیا اور اچھا کہا۔ بہت سا پڑھنے لکھنے میں آیا اور کچھ چھپ کر اتفاقات سے رہ گیا۔
ان دنوں میں کہ 1800 عیسوی میں اور احقر قرآن شریف کے ہندی ترجمے کا محاورہ درست کرتا ہے، صاحب ممدوح نے فرمایا "ہم چاہتے ہیں کہ اب اس کتاب کو سر نو چھپواوں، نظر ثانی لازم ہے اور اس کب کو فرمایا کہ تم بھی اسی کتاب سے مقابلہ کرو کہ اگر کہیں مطلب کی کمی بیشی ہوئی ہو، نہ رہے؛ چنانچہ ہم ان کا فرمانا بجا لائے؛ پھر موافق حكم صاحب کے بندے نے تھوڑا سا دیباچہ اور بھی لکھا والسانہ اگلا یہی ہے۔
خدا کا نام لے پہلے زبان پر
لگا پھر دل کو اپنے داستان پر
یہ قصہ فرخ سیر بادشاہ کی سلطنت سنسکرت سے برج بہا کا میں ترجمہ ہوا تھا۔ اب شاہ عالم بادشاہ کے عہد میں اور زبدہ نوئینان عظيم الشان مشیر خاص شاہ کیوان بارگاہ انگلستان اشرف الاشراف ماركويس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام دولتہ کی حکومت میں، 1801ء مطابق 1215 ہجری کے، جناب جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہ کے حسب الحكم كاظم على جوان نے اسے زبان ریختہ میں بیان کیا۔
اس داستان کے لکھنے والے نے یوں لکھا ہے کہ فرخ سیر بادشاہ کے فدویوں میں سے مولی خاں فدائی خاں کے بیٹے نے جب
صفحہ 59
ایک لڑائی ماری، تب حضور پر نور سے اس کا خطاب عظيم خان ہوا۔ انھیں ایام میں اس نے نواز کشور کو حکم کیا کہ سںکنتلا ناٹک جو سنسکرت میں ہے، برج کی بولی میں کہہ۔ اس کبیشر نے یہ کہانی کبت دوھرے میں کہی کہ جس کا ترجمہ یہ یے، اور جو انگریزی میں ہے وہ سنسکرت سے ہوا ہے۔ اگر اس میں اور اس میں کچھ فرق ہو تو ممکن ہے۔
اب صاحبان دانش و بینش کی خدمت میں التماس میرا یہ ہے کہ چشم و گوش انصاف کھولیں اور ٹک منصفی سے بولیں کہ کبت اور دوھرے کا ترجمہ جیسے چاہیے ویسا زبان ریختہ میں کب ہو سکتا ہے۔ اس کے اور اس کے مضمون کی بندش کا فرق کھلا ہوا ہے، بیان کی احتیاج کیا:
طرز اس کی ہے جدا اس کا نرالا طور ہے
اس کا عالم اور ہے اور اس کا عالم اور ہے
قطع نظر اس سے کہ کبت ہو یا دوھرا، نظم کا ترجمہ نثر میں طبیعت کو منتشر کرتا ہے، کیا کیا جائے؟
لکھے یہ اس لیے دو چار فقرے
اگر جائے تامل ہو کسی جا
گرفت اس میں نہ ہو اہل خرد کو
کہ اس مضمون کا یاں طور یہ تھا
وگر دیکھیں خطا تو بھی سمجھ کر
معاف اس کو کریں ہو لطف فرما
کہ خالی ہے بشر کوئی خطا سے؟
کسی کو اس میں طعنے کوئی دے کیا
جواں بس دل لگا تو داستان پر
یہاں سے یوں ہے اب آغاز اس کا
صفحہ 60
آغاز داستان
کہ اگلے زمانے میں وسوا متر نام ایک شخص تھا۔ شہر کو چھوڑ جنگل میں رہا کرتا اور اپنے طور کی عبادت و ریاضت دن رات کیا کرتا۔ اپنے صاحب کی بندگی میں تن بدن کی کچھ ایسے خبر نہ تھی، سوا اسی کے تصور کے کبھی نگاہ ادھر ادھر نہ تھی؛ یہاں تک دبلاپے سے لٹا تھا کہ پہچانا نہ جاتا:
بدن پھول سا سوکھ کانٹا ہوا تھا
ریاضت کے بارے وہ جیتا موا تھا
ان دکھوں سے اس کو کبھی ایک دم آرام نہ تھا۔ سوا اٹھانے ان جفاؤں کے کچھ کام نہ تھا تا کہ اس خاکساری سے آرزو دل کی بر آوے اور درخت مدعا کے پھل پاوے۔ ایسا جوگ کیا اور ایسا آسن باندھ بيٹھا کہ نزدیک تھا کہ بندگی کے زور سے راجا اندر کی سنگھاسن چھین لے۔ جتنے تیرتھ تھے، ان سب میں گیا، شہر شہر دریا دریا، گھاٹ گھاٹ پر کرما کرتا پھرا، نہ چھوڑا کسی ندی کا کنارہ۔
جس جنگل میں کسی درخت تلے وہ بیٹھتا، گردا گرد آگ جلاتا۔ پھر اپنے تئیں الٹا لٹکاتا، دم بدم دھواں منہ میں لیا کرتا، تپسیا اس طرح کیا کرتا۔
غرض اس تپسوی کا یہی حال تھا۔ آٹھوں پہر تپ جپ کا خیال تھا۔ چونسٹھ برس تک وہ بیابان نورد تھا، سر سے لگا کے پاؤں تلک گرد گرد تھا۔ بناسپتی ہی کھاتا رکتا، بھوک پیاس کی ایذائیں سہتا اور رو بہ آفتاب ہو کر:
صفحہ 61
رباعی¹
گرمیوں میں وہ جگر تفتہ جلا کر گرد آگ
بیٹھتا تھا ڈھیر جیسے راکھ کا آوے نظر
اور جاڑوں میں گلے تک پانی میں ہو کر کھڑا
جپ کیا کرتا تھا شوق دل سے ہر شام و سحر
ایسی باتیں سن کر راجا اندر کو بہت سوچ پڑا، ڈر دل میں ہوا۔ اس کے اس جوگ کو توڑنے کے لیے منیکا پری کو بلا کر بہت سی آؤ بھگت کی اور یہ احوال ظاہر کیا۔ وہ راجا کے حسن سلوک سے بہت خوش ہوئی اور اس مطلب کے سنتے ہی یوں بولی کہ میں وہ پری ہوں، اگر میرا سایہ برھمابشن مہادیو پر پڑے، دیوانے ہو جاويں:
ابیات
جو وے ہوویں وحشی تو کر لوں میں رام
میری یاد میں بھولیں سب اپنے کام
یہ ایسی ہیں جادو بھری انکھڑیاں
رہے دیکھ کر ان کو سدھ بدھ کہاں
.
1- فورٹ ولیم کالج کے انتخاب (ناقص الاول والاخر) میں اس رباعی کو نثر کی طرح لکھا گیا ہے، صورت یہ ہے:
"گرمیوں میں وہ جگر تفتہ جلا کر گرد آگ، بیٹھتا تھا ڈھیر جیسے آگ (کا) آوے نظر۔ اور جاڑوں میں گلے تک پانی میں ہو کر کھڑا، جپ کیا کرتا تھا شوق دلی (دل) سے ہر شام و سحر۔"
نسخہ مذکور دی رباعی کے دونوں شعروں کے آخری مصرعے ساقط الوزن ہیں۔ پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ "کا" رہ گیا ہے اور دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ "دل" کی بجائے "دلی" چھپا ہے۔ (مرتب)
صفحہ 62
یہ احوال جب ایسے لوگوں کا ہو
رکھوں پاک دامن میں کب اور کو
وسوامتر کو ایک پل میں اپنے پر دیوانہ کر لوں، تمام عمر کو قشقے کی جگہ یہ کلنک کا ٹیکا ماتھے پر دھر دوں۔ جوگی یا جتی تین طبق میں کون ایسا ہے جو مجھ سے آپ کو بچاوے؟ اس کو تو میں دم میں اور کا کچھ اور کر دوں - قسم ہے مہاراج کی! اگر اسے 'کام' کے بس کر، کر، انگلیوں پر نہ نچاؤں تو نام اینا منیکا نہ رکھاؤں۔
باتیں کتنی ایسی ہی کر کے، بين کاندھے پر دھر وہاں سے اٹھی، بیٹھ اپنے تخت پر ہوائے آسمان سے زمین پر اتری۔
وہ ایسا ایک ستارہ تھی کہ تمام عالم کو جس نے روشن کر دیا؛ تس پر سولہ سنگار، بارہ ابھرن جو اس نے سر سے پاؤں تلک کیے، دن کو تو سورج اس کا جلوہ دیکھ رشک کی آگ سے جلا اور رات کو چاند غیرت سے داغ ہو کر ستاروں کے انگاروں پر لوٹا۔ ویسی موھنی صورت اور وہ بناؤ جو دیکھا جوگ میں آ گیا، تپسیا کا پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا۔ وہ خرمن صبر کی جلانے والی بجلی تھی کہ جس پر اس کی نگاہ گرم پڑی بے تاب ہو کر دل اس کا سینے میں بھسم¹ ہو گیا۔ اگر فرہاد دیکھتا، جان شیریں دیتا، لیلی مجنون ہو جاتی:
نہ بلبل ہی ہوئی تھی اس پہ شیدا
گلوں کے بے کلی تھی دل میں پیدا
بہشت سے نکل کر جو اسے دیکھتی حور، تو يقين ہے کہ جان دینے میں نہ کرتی قصور:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ انتخاب فورٹ ولیم کالج مذکور میں "بھسنت" ہے۔
صفحہ63
دیکھ کر اس کو کافر و دیں دار
کرتے آپس میں تھے یہی تکرار
جہان یہ صنم آوے یا رب نظر
کسے دین و دنیا کی واں ہو خبر
حاصل کلام وہ اس صورت سے اس منی کے موھنے کو اور من بس کرنے کو اٹکھیلیوں کی چال خرام ناز کے انداز سے چلی۔ آچیلاھٹ اور چنچل پنے سے ٹھوکر دامن کی گریبان شکیبائی کو چاک کرتی تھی، آنچل دوپٹے کا سر پر سے کاندھے پر اور کاندھے سے پھسل کر زمین پر آ رہتا تھا۔ اس سرو گل اندام کے اس ناز و انداز پر نسيم و صبا صادقے قربان جاتی تھی۔ مد بھری وے آنکھیں دیکھ کر نرگس پیالہ شراب شوق کا لے کر کھڑی کی کھڑی رہ جاتی تھی، کمر کی لچک سے تار تار سنبل کا پیچ و تاب کھاتا تھا۔
بين بجاتی ہوئی، ہولى گاتی ہوئی، دھیان تالوں پر دھرے، پھول دامن و گریبان میں بھرے ہوئے آکر وہاں جلوہ گر ہوئی جہاں وہ جوگ سادھے تپسیا کر رھا تھا۔ یک بہ یک پازیب کے گھونگروں کی جھنکار، بین کے تاروں کی آواز گانے کی لے سے ملی ہوئی سن کر بے قرار ہوا۔ اس نے جونہیں آنکھیں کھول دیں، ایسی شکل نظر آیی کہ ایک ہی نظارے سے اس کا سب دھیان گیان جاتا رہا، برسوں میں جپ کی جتنی پونجی جمع کی تھی اس کے ناز و غمزے کی فوج نے سب کی سب ایک ہی دم لوٹ لی۔ پھر تو غش کھاتا ہوا اٹھ کر پروانہ وار اس شمع رو کے گرد پھرنے لگا اور بےتابی سے دم بدم قدموں پر گرنے، بلائیں سر سے پاؤں تلک لینے اور صدقے ہو ہو جان اپنی دینے لگا ۔
صفحہ 64
دل اس کا محو جلوہ جانانہ ہو گیا
کرتے ہی یک نگہ کے وہ دیوانہ ہو گیا
تب تو پری دم دلاسا دے، ایسے ہوش میں لا، اپنی بھی چاہت جتا، گرم جوشی کر کے اس مزے میں لائی کہ اس کے دل نے پہلے بوس و کنار سے نہایت لذت پائی، پھر تو 'کام دیو' نے آ کر اپنا کام کیا کہ ایک آن میں اس کا وہ کام تمام کیا۔ اس نے اپنے اس جوگ کا یہ پھل پایا کہ ایک دم کے مزے کی خاطر سب کچھ گنوایا۔ پھر بہت سا پچھتایا کہ میں نے کیا برا کام کیا، اپنے تئیں تمام پھلوں میں بدنام کیا۔
تب تو اس کے سوا کچھ اور بن نہ آیا کہ اس بن کو چھوڑ اور بن کو گیا۔ اور منیکا کو وہیں حمل دریافت ہوا، اس سبب اسے راجا اندر کے دربار میں جانا بار ہوا۔ چار و ناچار نو مہینے تلک دن گنتی رہی۔
جب مدت پوری ہوئی تو ایک ماہ رو لڑکی جنی۔ قہر یہ ہے کہ بے مہری سے نہ چھاتی لگا کر اسے دودھ دیا، بے الفتی سے نہ ایک دم گودی میں لیا۔ نسل انسان کی جان، محبت ذرا نہ کی اور وہیں پٹک کر اس نے اتنی بات کہی کہ جسے ہماری ذات
میں کوئی نہ رکھے، اسے کیوں اللہ نے دیا:
بیت
بات یہ جوں نکلی لب سے کہا وہیں وہ پیچ و تاب
اڑ گئی آئی جدھر سے تھی بہ چندیں اضطراب
وہ تو گئی ادھر یہ رہی ادھر۔
اب آگے داستان کا یوں بیان ہے کہ اس جنگل میں سوا خدا کے اس کا کوئی خبر لینے والا نہ تھا، پر ایک پکھیرو اس پر اپنے پروں کا سایہ کیے تھا، اس سے اس کا نام سکنتلا ہوا۔
صفحہ 65
وہاں پڑی ہوئی وہ روتی تھی، آنسوؤں کے موتی پلکوں پروتی تھی، دودھ کے لیے منہ پسار رہی تھی، ہاتھ پاؤں مار رہی تھی کہ پروردگار عالم نے اپنا فضل کیا۔ جو 'کن منی' کہیں نہانے کو چلے تھے، جوں اس طرف سے ہو نکلے، دیکھا کہ یہ کیا قدرت الہی ہے جو اس صورت سے نظر آتی ہے :
رباعی¹
اس نو گل چمن کو گلستاں سے دور دیکھ
حيران برنگ بلبل تصویر ہو گئے
غلطان در یتیم سی تھی لیک خاک پر
غلطانی اس کی دیکھ وے دل گیر ہو گئے
اس پر انہیں نہایت ترس آیا۔ دوڑ کر خاک پر سے اٹھایا۔ گودی میں لے کر کہنے لگے "یہ پری، جن یا کسی قوم کی ایسی خوبصورت لڑکی ہے کہ دیکھی نہ سنی۔ کچھ کہا نہیں جاتا اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کس نے اس جنگل میں لا کر خاک کے اوپر اس چاند کے ٹکڑے کو ڈال دیا تھا۔"
اسے چھاتی سے لگائے ہوئے وے دل میں سوچ بچار کرتے گھر کو پھرے۔ مکان میں پہنچتے ہی اپنی بہن گوتمی کو اس کی صورت دکھا کر پیار سے کہا کہ جی لگا کر بہت اچھی طرح پرورش کرتی رہيو، ایسا نہ ہو کہ کسی طور سے کوتاہی ہو۔
لڑکی کی جو وہ صورت اس نے دیکھی اور بھائی کی اس کے
1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں اس رباعی کو نثر کی شکل میں لکھا گیا ہے۔
صفحہ 66
حق میں یہ مہربانی کی باتیں سنیں، پہلے اس کی بلائیں لیں، پھر گود سے لے کر اپنے گلے لگا پالنے لگی۔ دن رات چھاتی پر اسے لٹاتی تھی، مہر و محبت سے دودھ پلواتی تھی۔
وہ اس صورت سے پلتی تھی اور جتنے اس جنگل کے تپسوی تھے، اس کو پیار کرتے تھے، سب کی وہ پیاری تھی۔ ان سبھوں میں یہ مشہور تھا کہ یہ 'کن منی' کی بیٹی ہے۔ دن بدن وہ بڑی ہوتی تھی اور تخم محبت ہر دل میں ہوتی تھی۔
اور بھی دو لڑکیاں وہاں تھیں، ایک کا نام آنسویا تھا اور دوسری کا نام پریم ودا۔ تینوں پرورش پا کر جب بڑی ہوئیاں، آٹھ پہر ساتھ کھیلنے لگیاں۔ ان سبھوں کو آپس میں ایسا پیار و اخلاص تھا، گویا ان کی ایک جان اور جدا جدا قالب تھا ۔
ابیات
ہر ایک آن میں تھی زہرہ و مہر و ماہ
جنہیں دیکھ کر ہوئے یوسف کو چاہ
اگر چاہے شاعر کرے شاعری
بیاں ان کی ہووے نہ خوبی ذری
خدا نے اپنے دست قدرت سے ان تینوں کے سراپا میں سراپا خوبیاں بھر دیں تھیں:
بھویں جب کہ غصے میں تھیں تانتیں
جگر تیر مژگاں سے تھیں چھانتیں
تلطف سے جس دم کہ وی ہنستیاں
تو زاہد کو بھی سوجھتیں مستیاں
ہر ایک کا وہ پری سا چہرہ جو نظر آتا، کوئی تو غش کھاتا اور کوئی دیوانہ ہو جاتا:
صفحہ 67
جو زلفیں تھیں زنجیر پاے جنوں
کف پاے رنگیں تھی سر گرم خوں
اگرچہ ظاہر میں وے سبھی سر سے پاؤں تک تمام حسن و جمال اور ناز و ادا تھیں، لیکن حقیقت میں وہ شعلہ بھبھوکا کہ جس کا نام سکنتلا تھا، اپنے ایک جلوے سے دل و جان دونوں اس جہان کا پھونک دیتی تھی۔ شہرہ اس کی گرم بازاری کا، دھوم کے حسن عالم سوز کی ایسی تھی کہ آفتاب عالم تاب کو ایک ذرہ اس کے آگے تجلی نہ تھی:
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں
سراپا تھیں اس میں خوش اسلوبیاں
القصہ کن منی نے ایک دن اس نازنین سے یہ بات کی کہ اب میں تیرتھ کو جاتا ہوں، تھوڑے سے دنوں میں نہا کر پھر آتا ہوں، تب تک تو چین و آرام سے خوش رہيو، جو کچھ مطلوب ہو گوتمی سے کہا کریو، وہ تیری خاطر حاضر کیا کرے گی اور جان و دل سے صدقے قربان ہو کر سر سے پاؤں تلک تیری بلائیں لیا کرے گی۔ پر جو کوئی تپسوی یہاں آوے، آ در کر پاؤں پڑیو اور اس کی خد مت کیجیو، جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوتاہی مت کیجیو۔
پس اس طرح وہ اسے سمجھا سمجھا، نصیحت دلاسا دے روانہ ہوا۔ اور وہ آتش کا پرکالا، اندھیرے گھر کا اجالا، شیریں منش، لیلی روش، طلسم حسن و جمال کے گنج کا، یعنی سکنتلا برنگ گل جس کی جگہ چاہیے تھی چمن میں، رہی اسی بن میں:
شروع جوانی اور اس کا وہ جوبن
يا عالم اپنا دکھاتا تھا بن بن
صفحہ 68
جتنے اس دشت کے چرند و پرند تھے، وے اس کے دام محبت کے پابند تھے اور وہ خدمت میں بھی لوگوں کی مشغول تھی۔
جب کتنے دن گذرے، ایک تازی وحشت آ اس سے دو چار ہوئی۔ چار و ناچار اپنے دل کو یوں بہلاتی تھی؛ کبھی ہرن کے بچوں کو دانہ، کبھی درختوں کو پانی دیا کرتی اور خاطر اس کی ہر آن گوتمی ہر ہر طور سے کیا کرتی۔ کن کی سفارش کے سوا وہ خود اس کی فرماں بردار بلکہ جان نثار تھی اور وے دونوں سکھیاں اس کا منہ دیکھتی ہی رہتیاں تھیں۔
جب جوانی کی امنگ نے عالم کچھ اور دکھایا، شوخیاں نئے نئے طور کی اس نازنین میں سمانے لگیں، دل داری اور دل ربائی کے اختلاط ان ہمجولیوں سے شروع کیے۔ ترچھی نگاہوں، تیکھی نظروں سے اشاروں میں ان کے دلوں کو بے چین کرتی تھی، بگڑ بگڑ کر ہزاروں طرح چن چن کے ان کو نام دھرتی تھی:
کبھی ہنس بول کر مال کیا
کبھی ٹھوکر سے پائے مال کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ تھا دل ربائی کا اک طور کچھ
یر اک آن میں آن تھی اور کچھ
وہ قامت قیامت کا نمونہ بلکہ آمد میں اس سے بھی دونا ؛ اس پر تمام وہ ترکیب بدن کی جیسا پھولوں کا گڑوا، آفت غضب وہ چھاتیوں کا ابھار، چمن حسن کی اس سے تر و تازہ بہار۔ عالم کچھ کا کچھ نظر آتا تھا جسے دیکھ کر عالم کا جاتا تھا۔ کمر کی بھی لچک سے رگ جاں تلک پیچ و تاب تھا اور ہر روز جوبن اس کا اس اس چمک سے بڑھتا تھا کہ چودھویں رات کے چاند