ٹائپنگ مکمل سںکنتلا۔۔ کاظم علی جوان

مقدس

لائبریرین
سکنتلا

صفحہ 57
بسم اللہ الرحمان الرحيم

پری ہو یا انسان کسی کی کیا جان جو اس کے شاہد و حمد و ثنا کے حسن و جمال پر کر سکے نگاہ۔ كلام معجز نظام احمد مجتبی المصطفى صلى اللہ عليہ و سلم کو اس پر ہی گواہ کیا، وہ جلوہ تھا جسے دیکھ موسی آپ نہ رہا۔ عشق ہے اس کے حسن کا کہ کوئی تو دیوانہ ہوا اور کسی نے اپنا جی ہی دیا۔ کون ہے ایسا جس کے دل کو اس کی نہیں ہے لاگ؟ اسی کا سوز و محبت رکھتی ہے آگ!
رباعی
بزم حیرت میں مثال شمع ہر اہل نیاز
اے جواں رکھتا ہے کیا کیا دل میں اپنے سوز و ساز
لب پہ مسہر خامشی بہتر ہے سوز عشق سے
ہو نہ از خود رفتہ بس آگے نہ کر افشائے راز

اب یہ ہیچ مدان ہر صغیر و کبیر کی دریافت کے لیے اس روزگار کے سررشتے سے کہ سرکار میں کمپنی مادر دام اقبالہ کی مقرر ہوا، بیان کرتا ہے۔
کرنیل اسکاٹ صاحب جو لکھنؤ کے بڑے صاحب ییں، انہوں نے حسب الطلب گورنر جنرل برادر دام ملکہ کی 1800ء میں کتنے شاعروں کو سرکار عالی کے ملازموں میں سرفراز فرما کر اشرف البلاد کلکتے کو روانہ کیا۔ انہوں میں احقر بھی یہاں وارد ہوا اور موافق حكم حضور خدمت میں مدرسہ ہندی کے جو صاحب والا مناقب گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہ ہیں،

صفحہ 58
شرف اندوز ہوا -
دوسرے ہی دن انہوں نے نہایت مہربانی و الطاف سے ارشاد فرمایا کہ سنکنتلا ناٹک کا ترجمہ اپنی زبان کے موافق کرو اور للو جی لال کب کو حکم کیا کہ بلاناغہ لكھایا کرے۔ اگرچہ کبھی سواے نظم کے نثر کی مشق نہ تھی لیکن خدا کے فضل سے بخوبی انصرام ہوا کہ جس نے سنا پسند کیا اور اچھا کہا۔ بہت سا پڑھنے لکھنے میں آیا اور کچھ چھپ کر اتفاقات سے رہ گیا۔
ان دنوں میں کہ 1800 عیسوی میں اور احقر قرآن شریف کے ہندی ترجمے کا محاورہ درست کرتا ہے، صاحب ممدوح نے فرمایا "ہم چاہتے ہیں کہ اب اس کتاب کو سر نو چھپواوں، نظر ثانی لازم ہے اور اس کب کو فرمایا کہ تم بھی اسی کتاب سے مقابلہ کرو کہ اگر کہیں مطلب کی کمی بیشی ہوئی ہو، نہ رہے؛ چنانچہ ہم ان کا فرمانا بجا لائے؛ پھر موافق حكم صاحب کے بندے نے تھوڑا سا دیباچہ اور بھی لکھا والسانہ اگلا یہی ہے۔
خدا کا نام لے پہلے زبان پر
لگا پھر دل کو اپنے داستان پر
یہ قصہ فرخ سیر بادشاہ کی سلطنت سنسکرت سے برج بہا کا میں ترجمہ ہوا تھا۔ اب شاہ عالم بادشاہ کے عہد میں اور زبدہ نوئینان عظيم الشان مشیر خاص شاہ کیوان بارگاہ انگلستان اشرف الاشراف ماركويس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام دولتہ کی حکومت میں، 1801ء مطابق 1215 ہجری کے، جناب جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہ کے حسب الحكم كاظم على جوان نے اسے زبان ریختہ میں بیان کیا۔
اس داستان کے لکھنے والے نے یوں لکھا ہے کہ فرخ سیر بادشاہ کے فدویوں میں سے مولی خاں فدائی خاں کے بیٹے نے جب

صفحہ 59
ایک لڑائی ماری، تب حضور پر نور سے اس کا خطاب عظيم خان ہوا۔ انھیں ایام میں اس نے نواز کشور کو حکم کیا کہ سںکنتلا ناٹک جو سنسکرت میں ہے، برج کی بولی میں کہہ۔ اس کبیشر نے یہ کہانی کبت دوھرے میں کہی کہ جس کا ترجمہ یہ یے، اور جو انگریزی میں ہے وہ سنسکرت سے ہوا ہے۔ اگر اس میں اور اس میں کچھ فرق ہو تو ممکن ہے۔
اب صاحبان دانش و بینش کی خدمت میں التماس میرا یہ ہے کہ چشم و گوش انصاف کھولیں اور ٹک منصفی سے بولیں کہ کبت اور دوھرے کا ترجمہ جیسے چاہیے ویسا زبان ریختہ میں کب ہو سکتا ہے۔ اس کے اور اس کے مضمون کی بندش کا فرق کھلا ہوا ہے، بیان کی احتیاج کیا:
طرز اس کی ہے جدا اس کا نرالا طور ہے
اس کا عالم اور ہے اور اس کا عالم اور ہے

قطع نظر اس سے کہ کبت ہو یا دوھرا، نظم کا ترجمہ نثر میں طبیعت کو منتشر کرتا ہے، کیا کیا جائے؟
لکھے یہ اس لیے دو چار فقرے
اگر جائے تامل ہو کسی جا
گرفت اس میں نہ ہو اہل خرد کو
کہ اس مضمون کا یاں طور یہ تھا
وگر دیکھیں خطا تو بھی سمجھ کر
معاف اس کو کریں ہو لطف فرما
کہ خالی ہے بشر کوئی خطا سے؟
کسی کو اس میں طعنے کوئی دے کیا
جواں بس دل لگا تو داستان پر
یہاں سے یوں ہے اب آغاز اس کا

صفحہ 60
آغاز داستان

کہ اگلے زمانے میں وسوا متر نام ایک شخص تھا۔ شہر کو چھوڑ جنگل میں رہا کرتا اور اپنے طور کی عبادت و ریاضت دن رات کیا کرتا۔ اپنے صاحب کی بندگی میں تن بدن کی کچھ ایسے خبر نہ تھی، سوا اسی کے تصور کے کبھی نگاہ ادھر ادھر نہ تھی؛ یہاں تک دبلاپے سے لٹا تھا کہ پہچانا نہ جاتا:
بدن پھول سا سوکھ کانٹا ہوا تھا
ریاضت کے بارے وہ جیتا موا تھا

ان دکھوں سے اس کو کبھی ایک دم آرام نہ تھا۔ سوا اٹھانے ان جفاؤں کے کچھ کام نہ تھا تا کہ اس خاکساری سے آرزو دل کی بر آوے اور درخت مدعا کے پھل پاوے۔ ایسا جوگ کیا اور ایسا آسن باندھ بيٹھا کہ نزدیک تھا کہ بندگی کے زور سے راجا اندر کی سنگھاسن چھین لے۔ جتنے تیرتھ تھے، ان سب میں گیا، شہر شہر دریا دریا، گھاٹ گھاٹ پر کرما کرتا پھرا، نہ چھوڑا کسی ندی کا کنارہ۔
جس جنگل میں کسی درخت تلے وہ بیٹھتا، گردا گرد آگ جلاتا۔ پھر اپنے تئیں الٹا لٹکاتا، دم بدم دھواں منہ میں لیا کرتا، تپسیا اس طرح کیا کرتا۔
غرض اس تپسوی کا یہی حال تھا۔ آٹھوں پہر تپ جپ کا خیال تھا۔ چونسٹھ برس تک وہ بیابان نورد تھا، سر سے لگا کے پاؤں تلک گرد گرد تھا۔ بناسپتی ہی کھاتا رکتا، بھوک پیاس کی ایذائیں سہتا اور رو بہ آفتاب ہو کر:

صفحہ 61
رباعی¹
گرمیوں میں وہ جگر تفتہ جلا کر گرد آگ
بیٹھتا تھا ڈھیر جیسے راکھ کا آوے نظر
اور جاڑوں میں گلے تک پانی میں ہو کر کھڑا
جپ کیا کرتا تھا شوق دل سے ہر شام و سحر

ایسی باتیں سن کر راجا اندر کو بہت سوچ پڑا، ڈر دل میں ہوا۔ اس کے اس جوگ کو توڑنے کے لیے منیکا پری کو بلا کر بہت سی آؤ بھگت کی اور یہ احوال ظاہر کیا۔ وہ راجا کے حسن سلوک سے بہت خوش ہوئی اور اس مطلب کے سنتے ہی یوں بولی کہ میں وہ پری ہوں، اگر میرا سایہ برھمابشن مہادیو پر پڑے، دیوانے ہو جاويں:

ابیات
جو وے ہوویں وحشی تو کر لوں میں رام
میری یاد میں بھولیں سب اپنے کام
یہ ایسی ہیں جادو بھری انکھڑیاں
رہے دیکھ کر ان کو سدھ بدھ کہاں
.
1- فورٹ ولیم کالج کے انتخاب (ناقص الاول والاخر) میں اس رباعی کو نثر کی طرح لکھا گیا ہے، صورت یہ ہے:
"گرمیوں میں وہ جگر تفتہ جلا کر گرد آگ، بیٹھتا تھا ڈھیر جیسے آگ (کا) آوے نظر۔ اور جاڑوں میں گلے تک پانی میں ہو کر کھڑا، جپ کیا کرتا تھا شوق دلی (دل) سے ہر شام و سحر۔"
نسخہ مذکور دی رباعی کے دونوں شعروں کے آخری مصرعے ساقط الوزن ہیں۔ پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ "کا" رہ گیا ہے اور دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ "دل" کی بجائے "دلی" چھپا ہے۔ (مرتب)

صفحہ 62
یہ احوال جب ایسے لوگوں کا ہو
رکھوں پاک دامن میں کب اور کو

وسوامتر کو ایک پل میں اپنے پر دیوانہ کر لوں، تمام عمر کو قشقے کی جگہ یہ کلنک کا ٹیکا ماتھے پر دھر دوں۔ جوگی یا جتی تین طبق میں کون ایسا ہے جو مجھ سے آپ کو بچاوے؟ اس کو تو میں دم میں اور کا کچھ اور کر دوں - قسم ہے مہاراج کی! اگر اسے 'کام' کے بس کر، کر، انگلیوں پر نہ نچاؤں تو نام اینا منیکا نہ رکھاؤں۔
باتیں کتنی ایسی ہی کر کے، بين کاندھے پر دھر وہاں سے اٹھی، بیٹھ اپنے تخت پر ہوائے آسمان سے زمین پر اتری۔
وہ ایسا ایک ستارہ تھی کہ تمام عالم کو جس نے روشن کر دیا؛ تس پر سولہ سنگار، بارہ ابھرن جو اس نے سر سے پاؤں تلک کیے، دن کو تو سورج اس کا جلوہ دیکھ رشک کی آگ سے جلا اور رات کو چاند غیرت سے داغ ہو کر ستاروں کے انگاروں پر لوٹا۔ ویسی موھنی صورت اور وہ بناؤ جو دیکھا جوگ میں آ گیا، تپسیا کا پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا۔ وہ خرمن صبر کی جلانے والی بجلی تھی کہ جس پر اس کی نگاہ گرم پڑی بے تاب ہو کر دل اس کا سینے میں بھسم¹ ہو گیا۔ اگر فرہاد دیکھتا، جان شیریں دیتا، لیلی مجنون ہو جاتی:
نہ بلبل ہی ہوئی تھی اس پہ شیدا
گلوں کے بے کلی تھی دل میں پیدا
بہشت سے نکل کر جو اسے دیکھتی حور، تو يقين ہے کہ جان دینے میں نہ کرتی قصور:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ انتخاب فورٹ ولیم کالج مذکور میں "بھسنت" ہے۔

صفحہ63
دیکھ کر اس کو کافر و دیں دار
کرتے آپس میں تھے یہی تکرار

جہان یہ صنم آوے یا رب نظر
کسے دین و دنیا کی واں ہو خبر

حاصل کلام وہ اس صورت سے اس منی کے موھنے کو اور من بس کرنے کو اٹکھیلیوں کی چال خرام ناز کے انداز سے چلی۔ آچیلاھٹ اور چنچل پنے سے ٹھوکر دامن کی گریبان شکیبائی کو چاک کرتی تھی، آنچل دوپٹے کا سر پر سے کاندھے پر اور کاندھے سے پھسل کر زمین پر آ رہتا تھا۔ اس سرو گل اندام کے اس ناز و انداز پر نسيم و صبا صادقے قربان جاتی تھی۔ مد بھری وے آنکھیں دیکھ کر نرگس پیالہ شراب شوق کا لے کر کھڑی کی کھڑی رہ جاتی تھی، کمر کی لچک سے تار تار سنبل کا پیچ و تاب کھاتا تھا۔
بين بجاتی ہوئی، ہولى گاتی ہوئی، دھیان تالوں پر دھرے، پھول دامن و گریبان میں بھرے ہوئے آکر وہاں جلوہ گر ہوئی جہاں وہ جوگ سادھے تپسیا کر رھا تھا۔ یک بہ یک پازیب کے گھونگروں کی جھنکار، بین کے تاروں کی آواز گانے کی لے سے ملی ہوئی سن کر بے قرار ہوا۔ اس نے جونہیں آنکھیں کھول دیں، ایسی شکل نظر آیی کہ ایک ہی نظارے سے اس کا سب دھیان گیان جاتا رہا، برسوں میں جپ کی جتنی پونجی جمع کی تھی اس کے ناز و غمزے کی فوج نے سب کی سب ایک ہی دم لوٹ لی۔ پھر تو غش کھاتا ہوا اٹھ کر پروانہ وار اس شمع رو کے گرد پھرنے لگا اور بےتابی سے دم بدم قدموں پر گرنے، بلائیں سر سے پاؤں تلک لینے اور صدقے ہو ہو جان اپنی دینے لگا ۔

صفحہ 64
دل اس کا محو جلوہ جانانہ ہو گیا
کرتے ہی یک نگہ کے وہ دیوانہ ہو گیا
تب تو پری دم دلاسا دے، ایسے ہوش میں لا، اپنی بھی چاہت جتا، گرم جوشی کر کے اس مزے میں لائی کہ اس کے دل نے پہلے بوس و کنار سے نہایت لذت پائی، پھر تو 'کام دیو' نے آ کر اپنا کام کیا کہ ایک آن میں اس کا وہ کام تمام کیا۔ اس نے اپنے اس جوگ کا یہ پھل پایا کہ ایک دم کے مزے کی خاطر سب کچھ گنوایا۔ پھر بہت سا پچھتایا کہ میں نے کیا برا کام کیا، اپنے تئیں تمام پھلوں میں بدنام کیا۔
تب تو اس کے سوا کچھ اور بن نہ آیا کہ اس بن کو چھوڑ اور بن کو گیا۔ اور منیکا کو وہیں حمل دریافت ہوا، اس سبب اسے راجا اندر کے دربار میں جانا بار ہوا۔ چار و ناچار نو مہینے تلک دن گنتی رہی۔
جب مدت پوری ہوئی تو ایک ماہ رو لڑکی جنی۔ قہر یہ ہے کہ بے مہری سے نہ چھاتی لگا کر اسے دودھ دیا، بے الفتی سے نہ ایک دم گودی میں لیا۔ نسل انسان کی جان، محبت ذرا نہ کی اور وہیں پٹک کر اس نے اتنی بات کہی کہ جسے ہماری ذات
میں کوئی نہ رکھے، اسے کیوں اللہ نے دیا:
بیت
بات یہ جوں نکلی لب سے کہا وہیں وہ پیچ و تاب
اڑ گئی آئی جدھر سے تھی بہ چندیں اضطراب

وہ تو گئی ادھر یہ رہی ادھر۔
اب آگے داستان کا یوں بیان ہے کہ اس جنگل میں سوا خدا کے اس کا کوئی خبر لینے والا نہ تھا، پر ایک پکھیرو اس پر اپنے پروں کا سایہ کیے تھا، اس سے اس کا نام سکنتلا ہوا۔

صفحہ 65
وہاں پڑی ہوئی وہ روتی تھی، آنسوؤں کے موتی پلکوں پروتی تھی، دودھ کے لیے منہ پسار رہی تھی، ہاتھ پاؤں مار رہی تھی کہ پروردگار عالم نے اپنا فضل کیا۔ جو 'کن منی' کہیں نہانے کو چلے تھے، جوں اس طرف سے ہو نکلے، دیکھا کہ یہ کیا قدرت الہی ہے جو اس صورت سے نظر آتی ہے :

رباعی¹
اس نو گل چمن کو گلستاں سے دور دیکھ
حيران برنگ بلبل تصویر ہو گئے
غلطان در یتیم سی تھی لیک خاک پر
غلطانی اس کی دیکھ وے دل گیر ہو گئے

اس پر انہیں نہایت ترس آیا۔ دوڑ کر خاک پر سے اٹھایا۔ گودی میں لے کر کہنے لگے "یہ پری، جن یا کسی قوم کی ایسی خوبصورت لڑکی ہے کہ دیکھی نہ سنی۔ کچھ کہا نہیں جاتا اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کس نے اس جنگل میں لا کر خاک کے اوپر اس چاند کے ٹکڑے کو ڈال دیا تھا۔"

اسے چھاتی سے لگائے ہوئے وے دل میں سوچ بچار کرتے گھر کو پھرے۔ مکان میں پہنچتے ہی اپنی بہن گوتمی کو اس کی صورت دکھا کر پیار سے کہا کہ جی لگا کر بہت اچھی طرح پرورش کرتی رہيو، ایسا نہ ہو کہ کسی طور سے کوتاہی ہو۔
لڑکی کی جو وہ صورت اس نے دیکھی اور بھائی کی اس کے

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں اس رباعی کو نثر کی شکل میں لکھا گیا ہے۔

صفحہ 66
حق میں یہ مہربانی کی باتیں سنیں، پہلے اس کی بلائیں لیں، پھر گود سے لے کر اپنے گلے لگا پالنے لگی۔ دن رات چھاتی پر اسے لٹاتی تھی، مہر و محبت سے دودھ پلواتی تھی۔
وہ اس صورت سے پلتی تھی اور جتنے اس جنگل کے تپسوی تھے، اس کو پیار کرتے تھے، سب کی وہ پیاری تھی۔ ان سبھوں میں یہ مشہور تھا کہ یہ 'کن منی' کی بیٹی ہے۔ دن بدن وہ بڑی ہوتی تھی اور تخم محبت ہر دل میں ہوتی تھی۔
اور بھی دو لڑکیاں وہاں تھیں، ایک کا نام آنسویا تھا اور دوسری کا نام پریم ودا۔ تینوں پرورش پا کر جب بڑی ہوئیاں، آٹھ پہر ساتھ کھیلنے لگیاں۔ ان سبھوں کو آپس میں ایسا پیار و اخلاص تھا، گویا ان کی ایک جان اور جدا جدا قالب تھا ۔

ابیات
ہر ایک آن میں تھی زہرہ و مہر و ماہ
جنہیں دیکھ کر ہوئے یوسف کو چاہ
اگر چاہے شاعر کرے شاعری
بیاں ان کی ہووے نہ خوبی ذری

خدا نے اپنے دست قدرت سے ان تینوں کے سراپا میں سراپا خوبیاں بھر دیں تھیں:
بھویں جب کہ غصے میں تھیں تانتیں
جگر تیر مژگاں سے تھیں چھانتیں
تلطف سے جس دم کہ وی ہنستیاں
تو زاہد کو بھی سوجھتیں مستیاں

ہر ایک کا وہ پری سا چہرہ جو نظر آتا، کوئی تو غش کھاتا اور کوئی دیوانہ ہو جاتا:

صفحہ 67
جو زلفیں تھیں زنجیر پاے جنوں
کف پاے رنگیں تھی سر گرم خوں

اگرچہ ظاہر میں وے سبھی سر سے پاؤں تک تمام حسن و جمال اور ناز و ادا تھیں، لیکن حقیقت میں وہ شعلہ بھبھوکا کہ جس کا نام سکنتلا تھا، اپنے ایک جلوے سے دل و جان دونوں اس جہان کا پھونک دیتی تھی۔ شہرہ اس کی گرم بازاری کا، دھوم کے حسن عالم سوز کی ایسی تھی کہ آفتاب عالم تاب کو ایک ذرہ اس کے آگے تجلی نہ تھی:
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں
سراپا تھیں اس میں خوش اسلوبیاں

القصہ کن منی نے ایک دن اس نازنین سے یہ بات کی کہ اب میں تیرتھ کو جاتا ہوں، تھوڑے سے دنوں میں نہا کر پھر آتا ہوں، تب تک تو چین و آرام سے خوش رہيو، جو کچھ مطلوب ہو گوتمی سے کہا کریو، وہ تیری خاطر حاضر کیا کرے گی اور جان و دل سے صدقے قربان ہو کر سر سے پاؤں تلک تیری بلائیں لیا کرے گی۔ پر جو کوئی تپسوی یہاں آوے، آ در کر پاؤں پڑیو اور اس کی خد مت کیجیو، جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوتاہی مت کیجیو۔
پس اس طرح وہ اسے سمجھا سمجھا، نصیحت دلاسا دے روانہ ہوا۔ اور وہ آتش کا پرکالا، اندھیرے گھر کا اجالا، شیریں منش، لیلی روش، طلسم حسن و جمال کے گنج کا، یعنی سکنتلا برنگ گل جس کی جگہ چاہیے تھی چمن میں، رہی اسی بن میں:
شروع جوانی اور اس کا وہ جوبن
يا عالم اپنا دکھاتا تھا بن بن

صفحہ 68
جتنے اس دشت کے چرند و پرند تھے، وے اس کے دام محبت کے پابند تھے اور وہ خدمت میں بھی لوگوں کی مشغول تھی۔
جب کتنے دن گذرے، ایک تازی وحشت آ اس سے دو چار ہوئی۔ چار و ناچار اپنے دل کو یوں بہلاتی تھی؛ کبھی ہرن کے بچوں کو دانہ، کبھی درختوں کو پانی دیا کرتی اور خاطر اس کی ہر آن گوتمی ہر ہر طور سے کیا کرتی۔ کن کی سفارش کے سوا وہ خود اس کی فرماں بردار بلکہ جان نثار تھی اور وے دونوں سکھیاں اس کا منہ دیکھتی ہی رہتیاں تھیں۔
جب جوانی کی امنگ نے عالم کچھ اور دکھایا، شوخیاں نئے نئے طور کی اس نازنین میں سمانے لگیں، دل داری اور دل ربائی کے اختلاط ان ہمجولیوں سے شروع کیے۔ ترچھی نگاہوں، تیکھی نظروں سے اشاروں میں ان کے دلوں کو بے چین کرتی تھی، بگڑ بگڑ کر ہزاروں طرح چن چن کے ان کو نام دھرتی تھی:
کبھی ہنس بول کر مال کیا
کبھی ٹھوکر سے پائے مال کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ تھا دل ربائی کا اک طور کچھ
یر اک آن میں آن تھی اور کچھ

وہ قامت قیامت کا نمونہ بلکہ آمد میں اس سے بھی دونا ؛ اس پر تمام وہ ترکیب بدن کی جیسا پھولوں کا گڑوا، آفت غضب وہ چھاتیوں کا ابھار، چمن حسن کی اس سے تر و تازہ بہار۔ عالم کچھ کا کچھ نظر آتا تھا جسے دیکھ کر عالم کا جاتا تھا۔ کمر کی بھی لچک سے رگ جاں تلک پیچ و تاب تھا اور ہر روز جوبن اس کا اس اس چمک سے بڑھتا تھا کہ چودھویں رات کے چاند
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 69
کو بھی مکھڑا دیکھ کے چکا چوند آتی تھی۔ اس جنگل میں اس کے حسن کی یہ جھلک تھی کہ ہزار پردوں میں چھپائے نہ چھپے۔
اس حسن و جمال پر اب بیان اس کے پہناوے کا جو کیجیے تو سن کر گل چمن میں اپنے گریبان پھاڑیں اور گلا ننگا دیکھ کر معدن و دریا میں جہاں تلک گوہر ہیں، حسرت سے اپنے تئیں جوہر کریں۔
اگرچہ حسن خدا داد لباس و زیور کے بند سے آزاد ہے کہ اس سے اس کی خوبی ہے، نہ اس سے اس کی محبوبی، لیکن بہ ظاہر خوش نما ہے اور باطن میں تو دل کی لبھانے والی ہر آن ادا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس کے بدن کی پوشش ہرن کی کھال تھی اور پوت کا بھی گلے میں ہار نہ تھا، تب بھی گویا ہزاراں ہزار بناؤ تھا۔ لیکن جوں جوں وہ جوانی پر آتی تھی توں توں خوبصورتی اور سماں دکھاتی تھی۔ جس کسی کی آنکھ اس کے چاند سے مکھڑے پر پڑتی، بے اختیار وہ یوں کہتا تھا:
مصور گر تری تصویر کو چاہے کہ اب کھینچے
لگاوے چاند سارا ایک چہرے کے بنانے کو

یہاں اس کی یہ صورت تھی اور منی وہاں جو راہ چلا جاتا تھا، یہی اس کے دل میں سوچ و بچار تھا "جیسی وہ قبول صورت ہے ویسا ہی کوئی مقبول پری پیکر ماہ جمال اس کا جوڑا ہو تو دونوں ماہ و مشتری کے مانند وصل کے برج میں قران پاویں:"

یکایک سنو اور قدرت خدا کی

ایک دن راجا دشمنت کسی جنگل میں شکار کو نکلا تھا۔ ہرن کے پیچھے گھوڑا دوڑا اپنی فوج سے ایسا آگے نکل گیا کہ اس کی سپاہ جو گرد و پیش تھی، بہت پیچھے رہ گئی۔ جب

صفحہ 70
آس پاس اپنے آدمیوں میں سے کوئی اس کو نظر نہ آیا اور دوپہر کی دھوپ سر پر پڑی اور وہ ہوائے گرم بدن کو لگی۔ تب بے تاب و بے قرار ہوا اور وہ ہرن کہ چھلاوے کی طرح نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا، اس جنگل میں (کہ سکنتلا کی جہاں بود وباش تھی) نمودار ہوا۔ راجا نے جھنجھلا اور طیش کھا، تیر کو کمان کے چلے سے جوڑ کر چاہا کہ اسے نشانہ کرے، ہنوز تیر قبضے سے کمان کے سرکنے نہ پایا تھا کہ آواز آئی "تم راجا ہو اور ہم جتنے جنگل کے جوگی، تپسوی اور جتنے رہنے والے ہیں، کیا چرند کیا پرند، تمہارے سائے میں بستے ہیں، سبھوں کے تم رکھوالے ہو، ہا ہا! مہاراج! ہمارے تپ بن کا ہرن شکار مت کرو۔"
جب جوگیوں منیوں تپسیوں کی راجا نے یہ بات سنی، ہاتھ رکھ گھوڑے کی باگ لی، ان سب رشیوں نے اشیر باد دیا۔
راجا نے ان کو ڈنڈوت کر کے پہ پوچھا "کن کا یہاں مكان کون سا ہے؟ ہم جا کر درشن کریں اور ان کے قدم لیں۔"
یہ سن کر وے سب خوش ہوئے اور استہان ان کا پاس بتایا اور کہا "تھوڑے سے دن ہوئے ہیں، کن منی تیرتھ کو گئے ہیں۔ انہوں نے ایک لڑکی کو بیٹی کر کے پالا ہے، سو وہ ان کے مکان میں ہے۔ جو مہاراج اب وہاں تلک جاویں گے تو کن منی تیرتھ سے آن کر سکنتلا سے یہ بات سن بہت خوش ہوویں گے۔"
راجا کے دل میں آ گئی، گھوڑے کو وہیں چھوڑ پاؤں پاؤں ان کے استہان تلک گیا۔ اس میں داہنی آنکھ جوں پھڑکی، دل میں شاد ہوا "یہ شگون اچھا ہے۔" پاؤں جب آگے دھرا، اس کا یہ پھل پایا کہ چھوٹی چھوٹی عمروں کی تین نارنینیں نظر آئیں لیکن انہوں میں:

صفحہ 71
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
حسن و جمال و خوبی ایک ایک کی شہرہ عالم، جور و جفا و ستم میں ایک سے ایک اظلم، لیکن جب دیدۂ غور و چشم تحقیق سے دیکھا، ایک ان میں ایسی نازنین ہے کہ جس کے گل سے چہرے پر زلفيں جو سنبل سی ہوا سے جنبش میں ہیں، تو
کمر لچکی جاتی ہے۔ اس سے سے چمن رعنائی میں عجب بہار ہے اور ہر ایک ان دونوں میں سے نسیم و صبا سی اس پر نثار ہے:
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
میں رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
وہ اس کا ایسا محو دیدار ہوا کہ لبے خود ہو کر خاک پر گرا اور اپنے تن بدن کی کچھ خبر نہ رہی - کتنی ایک دیر کے بعد جس تس طرح سے جو آپ کو سنبھالا تو دیکھا کہ وہ نازنین اپنے ہاتھوں سے گھڑے پانی کے بھر بھر پودوں میں دے رہی ہے۔
وے دونوں اس کے ساتھ کی سکھیاں بھی اسی طرح پیڑوں کو سینچتی ہیں۔ جان کر یہ بھی ایک طور کی بندگی، خدمت اور پرورش درختوں کی کرتی ہیں۔ ان گل انداموں کے موے سر سے کہ سراسر غیرت سنبل ہیں، قطرے شبنم کے سے لپک رہے ہیں اور تمام پسینے پسینے ہو رہیاں ہیں؛ گویا حسن کے دریا میں غوطے مار نکلیاں ہیں۔ وے صورتیں مورتوں سی بار بار سر، کاندھے، کمر پر گھڑے لے لے آئیاں ہیں، سانسیں چڑھ جاتیاں ہیں اور منہ اتر اتر جاتا ہے۔ چہروں پر ان کے ایک رنگ جاتا اور ایک رنگ آتا ہے۔ کبھی نزاکت سے پاؤں رپٹ جاتا ہے، کبھی بوجھ سے بید کے مانند سارا بدن تھرتھراتا ہے:
نہ تھا ان کو وہ رنج راحت سے کم
ہر اک آن کرتی تھیں چہلیں بہم

صفحہ 72
درختوں کی چھاؤں میں کھڑی ہو ہو کر اپنے اپنے جوبن پر ایک ایک مغرور تھی، لیکن ان سبھوں میں سکنتلا اپنے حسن خدا داد میں بہت دور تھی۔ چمکاوٹ اس کے چہرے کی عجب جلوے دکھاتی تھی اور زلفیں بکھری ہوئیں منہ پر اس کے اس رنگ سے نظر آتیاں تھیں جیسے نمود دھویں کی شعلے پر ہوتی ہے یا جیسے کچھ کچھ گھٹا سورج پر آ جاتی ہے۔ نگاہ بجلی تھی کہ نظروں میں کوندھ جاتی تھی۔ اس تپ بن میں اس رنگ روپ سے سماں بندھا تھا:
خجل دیکھ کر اس کو ہوتا تھا ماہ
ٹھہرتی نہ تھی مہر می بھی نگاہ
غرض کہ وہ کن کے مکان میں بہ ایں جلوہ افروزی، ہر روش سے نونہالوں کو نہال کرتی تھی۔
راجا نے اسے دیکھ کر تعجب سے کہا کہ اگر ہم اسے سرستی کہیں تو بین اس کے کاندھے پر کہاں ہے؟ اگر گورا پاربتی کہیں تو بھی نہ کہہ سکیں کہ آدھا انگ مہا دیو کا، آدھا انگ اس کا ہے! یا لچھمی کہیں تو کیوں کر کہیں؟ وہ چھاتی پر بشن کی رہتی ہے، ایک دم ان سے جدائی نہیں سہتی۔ اگر رنبھایا، منیکا یا رت سوچیں تو وے جوانیں ہیں، یہ جو اس کے نئے جوبن کا سن و سال ہے، وہ کب رکھتی ہیں۔
راجا یہ باتیں سوچ سوچ کر حیران تھا اور دل میں بھی کہتا تھا "مگر یہ کوئی حور ہے جو سراپا عیب سے دور ہے۔" جان و دل سے اس پر فریفتہ ہوا، ہوش و حواس سب گم ہوئے، اس کے حسن کے سمندر میں ڈوب گیا۔ نگہ کے دام میں، زلفوں کے جال میں دل یوں پھنسا کہ پھر رہائی جنجال ہوئی۔ نقشہ اس کی صورت کا لوح دل پر کھنچ گیا۔ آئینے کے مانند یہ سراپا

صفحہ 73
محو کے عالم میں تھا، جدھر جدھر نگاہ اس کی پھرتی تھی اس کا جی چلا جاتا تھا۔
فرض کہ یہ بن داموں کے غلام ہوا اور تیغ عشق سے کام تمام ہوا۔ کبھی مجنوں کے مانند اس لیلی منش کا شیفتہ تھا اور کبھی فرہاد سا اس شیریں اداکا فریفتہ:
قطعہ
تیغ مزگاں سے جو سينہ سر بسر غربال تھا
دل برنگ نقش پا ہر ہر قدم پامال تھا
اشک تھے آنکھوں سے جاری لب پہ تھا شور و فغاں
آہ اس دل دادہ الفت کا یہ احوال تھا

جب کبھی ہوش میں آتا، اتنی بات زبان پر لاتا "آنکھوں نے تو اس کے حسن کی دید کی اور کان آواز پر لگے رہے لیکن سخن کے موتی جو وہ زبان سے پرووے، كان صدف سے پر در ہوویں۔ سو یہ کیوں کر آرزو دل کی بر آوے۔" درختوں کی آڑ اور آوٹ میں چھپا چھپا وہ تو گرفتار دام محبت اس سوچ میں کھڑا تھا، دید اس کے حسن کی کرتا تھا، سرد آہیں حسرتوں سے بھرتا تھا لیکن ان میں کسی کی نگاہ اس پر نہ گئی۔
اتنے میں سکنتلا سے دونوں سکھیاں پوچھنے لگی کہ تو جو ان درختوں کو سینچتی رہتی ہے، کیا منی کو یہ تجھ سے بھی بہت پیارے ہیں؟ جو تو ان کو¹ جان سے بھی چاہتی ہے زیادہ، بھلا² تجھ کو انہوں نے کیوں ان کی خدمت کو مقرر کیا ہے؟ خدا نے۔

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں فقرہ اس طرح ہے "تو تو ان کو جان سے بھی چاہتی زیادہ ہے۔"
2- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "سو" ہے۔

صفحہ 74
تجھے یہ شکل شمائل دی ہے کہ کوئی حسن و ادا میں تیرے مقابل نہیں۔ یہ نزاکت اور کامنی پن تیرا کہ لوگ چشم و دل اپنے تیری راہ میں فرش کرتے ہیں، پاؤں تیرے اپنے سر پر دھرتے ہیں۔ تیرا بدن اس محنت اور مشقت کے لائق نہیں۔
سکھیوں نے جب ایسی باتیں کہیں سکنتلا نے جواب دیا "میں آپ دل و جان سے پرورش کرتی ہوں، آخر ایک دن اس کا پھل پاؤں۔ جو کوئی چھاؤں میں انہوں کی آن کر بیٹھے گا مجھے یاد کرے گا؛ منی کے کہنے سے خدمت ان کی نہیں کرتی ہوں بلکہ میں آپ دھیان ان پر دھرتی ہوں، مجھ کو خود الفت ہے۔" اور¹ ہرن کے چمڑے کی وہ انگیا جو چھاتیوں پر کسی ہوئی تھی اور پھول سے اس کے بدن میں گڑ گئی تھی، جب ہاتھ سے کھولنے لگی نہ کھلی، تب انسویا سے وہ بولی "پریم ودا نے کس کر میری انگیا باندھی ہے، ٹک تو اسے ڈھیلا کر دے۔"
جوں اس نے بندوں کو ڈھیلا کر دیا، پريم ودا کھسیا² کر اور جھنجلا کر بولی "گھڑی گھڑی کی کھول موند کیا کریں۔ جوانی کے زور سے بدن تیرا بڑھتا ہے اور ابھار چھاتیوں کا ہوتا جاتا ہے۔ ہمارا گلہ تو کرتی رہتی ہے، اپنی طرف نہیں دیکھتی کہ تیرا بدن کچھ کا کچھ ہوا جاتا ہے۔"
یہ بات سن کر وہ نہایت شرمائی، پھر اسی اپنے کام میں لگی۔ تب ایک بھونرا پھول پر سے اڑ کر منہ پر منڈلانے لگا اور خوشبو پا کر اس کے نازک نازک ہونٹھوں پر جو گلاب کی

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں عبارت اس طرح ہے: "یہ کہا اور ہرن کے چمڑے ----"
2۔ فورٹ ولیم کالج کے انتخاب میں "کھنسا" ہے۔

صفحہ 75
پتی سے تھے، پھرتا تھا۔ وہ سسکیاں لے لے کر جھڑکتی تھی، اڑ جا تا تھا، پھر آ بیٹھتا تھا، تب جھجک کر اور گھونگھٹ کر کے سکھیوں کی طرف دوڑی اور وہ بھونرا بھی گونجتا ساتھ ساتھ لگا رہا:
دیکھ کر بھونرا برنگ گل وہ اس کا روئے خوش
گرد تھا اور لے رہا تھا اس کی ہر دم بوئے خوش
راجا یہ تماشا دیکھ رہا تھا اور من ہی من میں بھونرے سے یہ کہا "تیرے سے کہاں طالع میرے
کہ اس کے گرد پھروں اور آن آن لب و دھن سے اس کے مزے لوں! کاش میں بھی تجھ سا ہوتا اور جو آرزو میرے دل کی ہے، خاطر خواہ بر آتی اور تجھ کو دور سے بھی بو باس نہ لینے دیتا۔ کیا کروں جو بے بال و پر ہوں، اسی حسرت سے نقش پا کی طرح پامال ہوں! تو اڑ کر پاس جاتا ہے، گویا خوشی کی باتیں کہہ اس سے لگن لگاتا ہے، وہ تجھے ناز و ادا سے جھڑک جھڑک دیتی ہے اور خفا ہو ہو منہ پر گھونگھٹ لیتی ہے۔ تو وہیں منڈلاتا پھرتا ہے اور اس کے ہونٹوں سے رس ليتا ہے، ہم دور سے چھپ چھپ کر یہ رنگ دیکھ رہے ہیں، آگے جاتے ہوئے خاطر نازک سے ڈر آتا ہے۔ دھن تجھے، ہم کس کام کاج کے ہيں؟

ابیات
ترے سے کہاں ہیں ہمارے نصیب
یہ ممکن نہیں جا سکیں ہم قریب


صفحہ 76
کھڑے تکتے ہیں دور سے آن آن
ہر اک آن پر گو نکلتی ہے جان
قصہ کوتاہ اپنے دل کی باتیں رشک کے بارے کر رہا تھا اور وہ معشوقیت سے اس بھونرے کو بہ ہزار عشوہ و کرشمہ دور کر رہی تھی، پر وہ اس کی بو باس پر پاس سے نہیں سرکتا تھا۔ پھر کہنے لگی "مجھے اس جنگل میں اس بھنور نے ستایا۔" پھر چلائی کہ سکھیو! تم میرے پاس آؤ، اس بدبخت سے میرے تئیں چھڑاؤ، یہ ہونٹوں پر میرے منڈلاتا ہے، ٹالے سے نہیں ٹلتا، اس سے میرا بس نہیں چلتا۔ سنتے ہی سکھیاں دوڑی گئیں اور یہ رنگ دیکھ ہنس ہنس کہنے لگی کہ ہمیں تو نے ناحق بلایا ہے، اس بیری سے ہم کیوں کر بچاویں۔ راجا دشمنت سے فریاد کر، وہ اس تپ بن کا رکھوالا ہے۔
راجا کا نام سنتے ہی پکار اٹھی اور وہ ان درختوں سے نکل کر پاس آ کر کہنے لگا "یہ کہو تمہیں کس نے ستایا۔" راجا کو دیکھتے ہی بن مول یک گیاں اور شرم کے مارے گھونگھٹ کر کے جھک جھک گئیں۔ کچھ ڈریں گھبرائیں، بے قراری سے ایک جگہ کھڑی نہ رہ سکیں، حیرت سے آگے بھی پاؤں نہ پڑ سکا، بھونچک¹ سی ہو گئیں، کچھ بول نہ سکیں۔ تب ان میں سے انسويا نے دل کرخت کر راجا کو جواب دیا کہ جس کی دہشت سے ظلم کا تو نام نہیں ہے اور عدل یہ ہے کہ گائے اور شیر ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں، اس تپ بن میں شوق و ذوق سے تپسوی لوگ جب تپ کرتے ہیں، کوئی درند

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "بھیچک"ہے۔

صفحہ 77
گزند نہیں دیتا، کسی نے کسی کو آج تک نہیں ستایا؛ یہ بھولی نادان ہے، نادانی اور بھولے پن سے بھونرے کو دیکھ پکار اٹھی؛ ہم اس کے راج میں نڈر ہیں، کون ہمیں ستا سکے اور کون آنکھ دکھا سکے؟
یہ سن کر راجا نے کچھ اپنے تئیں بتا¹ اور مسکرا اور سکنتلا کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ تمہارے نونہال درخت سرسبز اور ہرن کے بچے اچھے ہیں؟

اتنی بات کے سنتے ہی اس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور سارا بدن شرم کے مارے کانپنے لگا۔ منہ سے کچھ بات نہ نكلی، حیا کے مارے نیچے نظریں کر لیں۔
تب انسويا نے اسی قرینے سے تھوڑا سا دریافت کرکے بہ خاطر داری اس کی طرف سے یہ کہا "کیوں نہ ہو اب خیر ہماری جو تم سے نیک بخت رکھوالے ہوں۔ تم جو² پاؤں پاؤں یہاں دوڑے آئے ہو، پسینا تمہارے منہ پر آ گیا ہے، درختوں کی چھاؤں تلے دم لو۔ ہم تمہارے ہاتھ پاؤں دھو دیں۔ ہم نے قسمت سے تمہارے قدم دیکھے، آج کے دن تم ہمسرے مہمان ہو۔"
سکنتلا سے کہا "تو کیوں نادان بنی ہے، ٹھنڈا پانی لا، اس اپنے مہمان کو پلا۔"
راجا نے مسکرا کر کہا "ہمیں کچھ درکار نہیں، تمہیں دیکھ کر ہمارا کلیجا ایسا ٹھنڈا ہوا کہ بھوک پیاس سب جاتی رہی۔ تمہاری میٹھی میٹھی باتوں سے یہ ہم نے مزہ پايا کہ یہی ہماری

1۔ انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "جتا" ہے۔
2۔ انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "جو" سے پہلے "تم " بھی ہے جو زیادہ صحیح ہے۔

صفحہ 78
مہمانی تھی۔ تم بھی پانی سینچتی سینچتی تھک رہی ہو۔ سب مل کر ان درختوں کی چھاؤں میں بیٹھو اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لو۔"
تب ہنس کر انسویا سکنتلا کی طرف دیکھ کر بولی "ہمارے یہاں انوٹھے مہمان آئے ہیں، ان کا ڈر کچھ مت کر، ان کی باتوں پر کان دھر"
سکھیوں کی سن کر یہ باتیں، حسن و ادا کی کر کر گھاتیں، راجا اور سکنتلا چھاؤں میں درختوں کی بیٹھے۔ ایک کی طبیعت ایک کی طرف آئی ہوئی اور مہر و محبت دل میں سمائی ہوئی، قسمت سے ان دونوں کی اس جنگل میں ملاقات ہوئی، دونوں کی دل کی گرہ کھلنے لگی، کیا اچھی بات ہوئی!

اشعار
گرہ جوں غنچہ ہر دل کی ہوئی وا
بہم دونوں گل و بلبل تھے گویا
وہاں بیٹھے جو تھے وہ خرم و شاد
بہم قید دو عالم سے تھے آزاد
نظارے میں تھا گو سر گرم دیدہ
ولے آپس میں تھا ہر اک ندیدہ

ایک ایک سکھی انہیں دیکھ دیکھ محو دیدار تھی، بلكہ كام ديو اور رتی¹ سی کڑوڑ کڑوڑ ان پر وار کر آپ ان پر نثار تھی۔ ظاہر میں سکنتلا دزدیدہ نگاہوں اور نیچی نظروں سے راجا کو دیکھ رہی تھی؛ تب راجا نے ان سے یہ بات کہی "تم تینوں کا بھلا سنجوگ

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "رت" ہے۔

صفحہ 79
ہوا ہے، رنگ و روپ ایک سا، عمریں برابر، جانیں ایک، بدن جدا جدا ہے۔"
يہ راجا کی ان مول باتیں سن کر انسویا بولى "دھن ہے اس دیس کو جہاں سے تم آئے ہو! منیوں کی جگہوں¹ میں جو دیو خلل کرتے ہیں تم نے بچایا۔ صاف کہو تم کون ہو؟ دیو یا گندھرب یا کام دیو ہو۔ کچھ تو ہمیں بتاؤ، مہربانی کر کے ہمارے دل کی دبدھا مٹاؤ اور اپنا نام جتاؤ۔"
راجا نے کہا "ہمیں راجا دشمنت نے بھیجا ہے اور یہ فرمايا ہے کہ رکھی لوگوں کی خدمت اور رکھوالی کیا کرو۔ رات دن ہم تپ بن میں پھرتے ہیں، راجا دشمنت کے چاکر ہیں۔"
بہ بات کہہ کر راجا چپ رہا۔ اگرچہ اس نے صاف اپنا نام نہ بتايا، در پردہ یہ بات کہی پر انسویا کو يقين ہوا کہ راجا یہی ہے؛ تب ہنس کر کہنے لگی "اب منی سب نچنت ہوئے کہ اپنا رکھوالا اور خاوند² سر پر رکھتے ہیں۔ تم جیسا رکھوالا جو سر
پر آیا، بھلا تم نے آ کر ہمیں درشن³ دکھایا، ہم لوگوں کو نوازا۔"
اس کی باتوں سے اس نے بہت مزا اٹھایا اور لفت پا کر اس سے اور دوسری سکھی سے کہا "سکنتلا کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ یہ جو ایسی نازک اندام، قبول صورت ہے، منی اس کی شادی کر دے گا یا صاحب کی بندگی کرا وے گا؟ ریاضت کیوں کر ہو گی اس سے، اٹھ نہ سکے بار نزاکت جس سے۔"

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "جگیہ" ہے۔
2۔ "خاوند" مالک اور آقا کے معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ "خداوند" کا مخفف ہے۔
3- انتخاب فورٹ ولیم کالج "درسن" ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 80
بیت
یہ ایسی نظر آئی نازک بدن
گرانی کرے جس پہ بوئے سمن

انسویا نے جواب دیا کہ منی نے اپنے دل میں ٹھانا ہے جیسی سکنتلا ہے، جو کوئی ویسا ملے گا اور یہ بھی اسے قبول کرے گی، اس سے ہم شادی کردیں گے:

شعر
بات جب بہ زبان پر آئی
وہ گل اندام سن کے شرمائی

راجا بولے "سکنتلا جیسی ہے ویسا تو ملنا اس کا معلوم، اس کا ثانی دنیا سے ہے معدوم۔ جس گل بدن سے اس کے دل کا کنول کھلے گا، ایسا باغ جہان میں بر کہاں سے ملے گا۔ تمام ملکوں میں منی ڈھونڈھا کرے گا اور ساری عمر اسی آرزو
میں مرے گا:

شعر
نہ پاوے گا کوئی ایسا جہاں میں
زمیں سے جانے گا گر آسماں میں

سکنتلا دکھ تنہائی کے سہے گی اور زندگی بھر بن بیاہی رہے گی۔"
پھر انسويا ہنس کر اس شعور داری سے بولی اور اس کے غنچۂ دل سے سے گرہ کھولی کہ جب خدا اچھے دن لاتا ہے، دل کا مقصد گھر بیٹھے ہی مل جاتا ہے۔ تم جیسے لوگوں کا جب یہاں

صفحہ 81
قدم آیا، کن کے من کا مطلب پورا ہوا۔

راجا یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور سکنتلا نہایت شرمائی۔ پريم ودا مسکرائی اور اس کے کان سے جا لگی۔ چپکے چپکے کہتی تھی "تم آج ہی بیاہی جاتیں، کیا کریں کن می آج کے دن گھر نہیں۔" وہ شرمائی جاتی تھی اور یہ باتیں ایسی ہی سناتی تھی، ترچھی نظروں سے راجا کو دیکھ رہی تھی۔
راجا کی آنکھ سکنتلا سے اٹکی۔ وہاں فوج ڈھونڈھتی ہوئی جنگل میں بھولی بھٹکی۔ آخرش ڈھونڈتے ڈھونڈھتے سپاہ کا وہاں گذر ہوا جہاں یوں بہم ناز و ادا کی فوجیں تل رہی تھیں اور آپس میں یہ رد و بدل ہو رہی تھی۔ فوج کے پرے کے پرے جب نزدیک آئے اور ہر ایک نے گھوڑے ادھر کو اٹھائے، گرد زمین سے آسان تلک گئی۔ شور چاروں طرف بلند ہوا، جنگل کے جانوروں کو
گھیرنے کو قراول دوڑے۔ اس طور سے اور اس طریق سے وہ سپاہ اس کی شکار کرتی ہوئی وہاں پہنچی۔ تپسوی لوگوں نے فریاد مچائی کہ اپنے اپنے جانوروں کی رکھوالی کرو۔ پہ شور و غل سن
کر سکھیاں اپنے جی میں گھبرائیاں، دل دھڑکنے لگے، ہر ایک کا چہرہ پھول سا کملایا۔
راجا خوشی کی باتیں کرنے نہ پایا، دل میں اپنے اس فوج کے آنے سے بہت رکا - انسويا دہشت کھا کر راجا سے بول اٹھی "تم بیٹھو یا جاؤ ہمارا کلیجا تھرتھراتا ہے، ہم اپنے مکان میں جاتیاں ہیں، تم مہربانی کرکے ہمارے مکان میں آئیو¹۔ تمہاری خدمت میں لازم تھی سو ہم خدمت کیے بن رخصت ہوتی ہیں۔ یہ بات کہتے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔ ہم سے رکاوٹ دل میں مت

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "آئیو" ہے اور یہی صحیح ہے۔

صفحہ 82
کیجیو، پھر ایک بار ہمیں درشن دیجیو۔"
سکنتلا کو تھام اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر وہاں سے
گھر کو چلیاں، جدائی سے دونوں کے دل میں بے کلیاں ہوگیاں۔ وے ادھر چلیں اور راجا فوج کی طرف چلا، جوں جوں وہ آگے جاتا تھا دل اس کا پیچھے رہا جاتا تھا:

شعر
وہ جب پاؤں رکھتا تھا آگے بڑھا
کشش دل کی لاتی تھی پیچھے پھڑا

ہر ہر قدم پر اس کا تو یہ حال تھا اور سکنتلا کا عجب احوال تھا۔ اپنی کف پا سے جو برگ گل سے نازک تر تھی، کانٹے نکالنے کے بہانے جا بجا ٹھہر جاتی تھی، اور کبھی آنچل اس کا بے قراری سے جو خاکی پر گرتا تھا، کھڑی ہو ہو اور سنبھال
سنبھال آپ کو اٹھاتی تھی، اور کبھی بال سر کے جو آشفتہ سری سے منہ پر بکھر جاتے تھے، سنبل کا سا دستا بنا کر اسی حیلے سے باندھ کر جوڑا آگے پاؤں بڑھاتی تھی، کبھی نظریں بچا کر سکھیوں کے پیچھے پھر کر راجا کو دیکھ لیتی تھی:

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں اس شعر کو نثر کی صورت میں لکھا گیا ہے، یعنی:
"پاؤں وہ جب رکھتا تھا آگے بڑھا، دل کی کشش لاتی تھی پیچھے پھرا۔"

صفحہ 83
شعر
اسی طرح ہر ہر قدم راہ تھی
کبھی نالہ تھا اور کبھی آہ تھی

يوں ہی لگن لگائے ہوئے وہ اپنے استھان میں گئی، قالب میں گویا جان نہ تھی:

شعر
نہ تھا دن کو آرام، نے شب کو خواب
شب و روز تھا اس کے جی کو عذاب

شرم کے مارے سکھیوں سے بھی نہ کچھ کہہ سکتی تھی، دل کا درد دل ہی دل میں رکھتی تھی۔ تیر کاری یا تیز کٹاری کلیجے پر لگے تو سورما سہتے ہيں پر نئی جدائی کا دکھ کسی سے سہا نہیں جاتا۔ کون کہے سے بات پہ مانے، جس پر بیتے وہی¹ جانے۔ جہاں وہ اکیلی جا کر بیٹھتی، ساون کی سی جھڑی لگاتی۔ اس کی یہ حالت تھی کہ سب رنگ بدن کا زرد تھا، دل اور جگر میں درد تھا۔ داغ سے سینہ سارا جلا تھا، شور جنوں سے سر میں اٹھا تھا:

شعر
خوں ناب جگر دیدۂ گریاں سے بہے تھا
اور نالہ جان سوز ہی دمساز رہے تھا

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "سوہی" ہے۔

صفحہ 84
بہ آگ جو اس کے بدن میں لگ رہی تھی، رو رو کر آنسو بجھاتی تھی۔ اس کا تو ہر دم یہی حال تھا اور راجا کا بھی عجب احوال تھا۔ دھیان میں وہ اس کے حیران رہتا تھا اور ایسا دم بخود تھا کہ کسی سے درد دل کا بھی نہیں کہتا تھا:

شعر
حسرت سے ہر اک سو وہ حیرت زدہ تکتا تھا
سکتے کا سا عالم تھا کچھ کہہ نہیں سکتا تھا

سکنتلا سے جو اس نے دل اٹكايا، پل مارتے وہ راج اپنا سب جلایا بھلایا۔ رات دن میں کل ایک دم بھی نہیں پڑتی تھی، اسی کا دم بھرتا تھا۔ نئی لگن نے اسے گھر جانے نہ ديا، تپ بن کے پاس ڈیرہ کیا۔ خاک پر سر اپنا پٹکتا تھا، منی لوگوں سے ڈر کر بول نہیں سکتا تھا کہ کہیں یہ بد دعا نہ دیں۔
عشق کی آگ سے جلتا تھا اور دل میں اپنے کام دیو سے کہتا تھا "تو بڑا کم بخت ہے، نہایت بے انصافی تو نے یہاں آ کر کی۔ من سے تو ایجا اس لیے تیرا نام منوج ہے، اس من کو تو کیا جلاتا ہے؟"
اس طرح کام دیو سے گلہ کر کے، چاندنی رات کا عالم دیکھ کے، کہنے لگا "وہ مہ پارہ مجھ سے جدا ہے۔ تو اے چاند! اپنے جلوے دکھاتا ہے، عاشقوں کو آتش حسرت سے جلاتا ہے، ان کی آہ جان سوز سے نہیں ڈرتا؟ سمندر سے تیری پیدائش ہے، کیوں
دل میں تو آگ لگاتا ہے؟ سمندر بھی تیری ان حرکتوں سے نہیں شرماتا؟ دل میں تو جو جلن ڈالتا ہے، پہ تیرا قصور نہیں بلکہ یہ گناہ راہو کا ہے جو تجھے نگل کر چھوڑ دیتا ہے۔ جو تجھے

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں صرف "بھلایا" ہے "جلایا" نہیں۔

صفحہ 85
آب حیات کا چشمہ کہتے ہیں، وے دیوانے ہيں۔"
خیال میں اس کے بے قراری سے یہ باتیں کر رہا تھا کہ کسی منی نے دو چیلے اس کے پاس بھیجے۔ راجا نے سنتے ہی بلا لیا۔ ان دونوں نے اسیس دی۔ راجا نے ڈنڈوت¹ کر آؤ بھگت کی۔ تب وے بولے۔ "بنا 'کن' بن سونا ہے، ہمارے یہاں ہوم ہوتا ہے، دیو آن کر خلل کرتے ہیں۔ پہ عرض منیوں نے کی ہے۔"
وہ آپ ادھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا، یہ بات سن کر بہت شاد ہوا اور خوشی خوشی تیر و کمان ہاتھ میں لے تپ بن میں گیا۔ رکھیوں² کی رکھوالی کرنے لگا، بروگ اس کے دل میں سکنتلا کا بڑھا، بن میں اسے ڈھونڈنے لگا۔ از بس کہ گرمی کے دن تھے۔ جب دوپہر کو سورج تپنے لگا، اس کے دل میں یہ سوچ ہوا "سکنتلا مدھو مالتی ندی کے کنارے اس کڑی دھوپ میں کھڑی ہوگی:

شعر
جب اس داغ سے اس کا سینہ جلا
نہ آئی اسے تاب آگے چلا

ڈھونڈتے ڈھونڈتے جو اس طرف گزر ہوا، دیکھا کہ تالابوں میں کنول پھول رہے ہیں۔ ہر ہر پھول پر بھونرے منڈلانے اور گونجتے ہیں:


1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "ڈنڈوت" ہے۔
2۔ انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "رکھوں" ہے۔

صفحہ 86
شعر
ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی چلی¹ ہے یہاں
جہاں تک کہ جائے نظر ہے سماں

مور بول رہے ہیں، کوئل کوک رہی ہے، درختوں کی گھنی گھنی ڈالیاں جھک جھک رہی ہیں، گھڑی گھڑی چھاؤں چھا رہی ہے، کنول کی پتیوں کی سیج بچھا کر سکنتلا لیٹی ہے، پر وے تمام² کانٹے ہیں جو تلے بچھے ہیں، ایک کروٹ اسے چین نہیں، برہ³ کے درد سے بے کلی ہے، درد سر سے صندل ماتھے پر لگا ہے، سکھیاں کنول کی پتیوں کا پنکھا بنا ہلاتياں ہیں۔ اگرچہ سخت بے تاب ہے پر نزاکت سے بہانہ کرتی ہے۔ کبھی دھوپ کی تپش سے، کبھی سموم کی شدت سے گلہ ہے؛ سکھیوں سے تس پر بھی چھپاتی ہے۔ بے کلی دل کی زبان پر نہیں لاتی، کبھی کہتی ہے "گرمی سے میرا عجب احوال ہے، جنگل سے دل وحشت کرتا ہے اور جی میرا نہایت ڈرتا ہے۔"
سکھیوں سے وہ یوں کہہ رہی تھی۔ اتنے میں راجا آئے، جدھر سے یہ صدا آتی تھی، ادھر كان لگائے۔ نگاہ جب اس پر کی دیکھا لباس بدن کا میلا ہے، گریبان بہ رنگ گل سراسر چاک، تن پر جمی ہوئی جنگل کی خاک، لب خشک، چشم تر، اشک ارغوانی، چہرہ زعفرانی، بے تاب، بے قرار، پریشان خاطر، عجب احوال سے نالہ و زاری کر رہی ہے۔
راجا کے دل میں یہ آئی "ابھی اسے دکھائی نہ دیجیے، پہلے

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "چلے" ہے۔
2- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "گویا تمام" ہے۔
3۔ برہ، يعنی جدائی۔

صفحہ 87
اس کی سب باتیں سن لیجیے۔"

یہ کہہ کر گو کہ راجا ان درختوں کے اوجھل کھڑا تھا، پر سکنتلا سکھیوں سے اپنے دل کی لاگ ظاہر نہ کرتی تھی۔ انسويا نے شعور داری سے دریافت کر کے کہا "جس بن کا رکھوالا منہ دکھا کر پھر نہ آیا، اسی دن ہنسنا بھول گئی اور دن رات اداس رہتی ہے۔ ہر چند آتش ہجر سے جلتی ہے پر شرم کے مارے کچھ نہیں کہتی۔"

پريم ودا اس کی یہ باتیں سن، افسوس کر، سںکنتلا سے واشگاف¹ بھید پوچھنے لگی کہ سوا ہمارے تمہارے یہاں کوئی اور نہیں، ہم سے کیوں درد دل چھپایا ہے:

قطعہ
أحوال دل زار کو لا اب تو زباں پر
باقی نہیں کچھ آئی ہے غافل تری جاں پر
بس جانے دے اب کام نہ تع شرم کو فرما
رکھ مہر خموشی نہ لب و کام و دھاں پر

گو کہ نہیں کہتی تو پر بہ چشم تر، رنگ زرد اور آه سرد جو تو دم بدم بھرتی ہے، تمام آثار عشق کے ان طوروں سے ظاہر ہیں۔ صاف اگر تو زبان سے بیان کرے تو شاید کچھ ہم سے تدبیر ہو، اس کا ہم علاج کریں۔ تیرا یہ رنگ دیکھ کر جان میں جان ہماری بھی نہیں۔ دل گھبراتے ہیں، ہوش و حواس اڑے جاتے ہیں، رونا چلا آتا ہے، دم نکلا جاتا یے۔ خدا کے واسطے نادان

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "بهید صاف صاف" ہے۔

صفحہ88
مت ہو، اپنے حسن و جوانی کو دیکھ، کیوں خاک میں اپنے کو ملاتی ہے؟

جو کچھ ہم کو کہنا تھا ہم نے کہا
نہ اک بار اب بلکہ وہ بارہا

ایک رو رو بلائیں لیتی تھی، دوسری صدقے ہو ہو جاتی تھی۔ دیکھ دیکھ ان کا منہ وہ آئینہ رو جو سراپا حیرت کی شکل بن گئی تھی، دم سرد بھر کر کہنے لگی "تم دونوں میری جان سے زیادہ عزیز ہو اور سر پاؤں تلک عقل و ہوش و تمیز ہو۔ کیا کہوں میں اور کیا سنوں میں؟ جو کچھ میری جان پر گزرتی ہے اسے خدا یا میرا دل ہی جانتا ہے۔ ہر چند تم میرے دکھ کی شریک ہو لیکن اس واسطے نہیں کہتی کہ ایک تو میں آپ مرتی ہوں، تس پر تم دونوں کو بھی کڑھاؤں:"

گذرتی ہے جو کچھ گذرنے دو مجھ پر

یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے گریبان چاک کیے اور خاک پر ہر ایک نے اپنے تئیں پٹک پٹک دیا اور کہنے لگیں ہماری زیست تیرے دم کے ساتھ ہے۔ جب تیری یہ حالت ہوئی، ہم جی کر کیا کریں گے۔"

تب وہ اور بے حواس ہوئی، چار و ناچار بیان کرنے لگی "جب سے صورت دکھا کر گیا ہے وہ بن کا رکھوالا، تب سے زخم جگر کا میرے ہے آلا۔ کل ایک پل نہیں پڑتی دل کو۔ بے کلی سے جان لبوں پر آ رہی ہے، شكل اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں پڑی پھرتی ہے۔ یا اسے کسی صورت سے دکھاؤ یا میری زیست سے ہاتھ اٹھاؤ۔"

کچھ اور کہنے نہ پائی تھی کہ اشک کی آنکھوں میں یہ

صفحہ 89
طغیانی ہوئی، دم بند ہوگیا، ہچکی لگ گئی: مصرع

دم بخود ہوکے پھر ہوئی خاموش

سکھیوں نے اسے خاک سے اٹھا، ہاتھ منہ دھلا، بہت دلاسا تسلی دے کر کہا "سب آرزوئیں خاطر خواہ تیری ابھی بر آتی ہیں۔ اچھے وقت تو نے اپنے راز دل سے آگاہ کیا۔ وہ راجا، بن کا رکھوالا، جس کی چاہت سے تیری یہ حالت بنی ہے، اسے نگہبانی کے لیے رکھیوں نے بلوایا ہے۔ پھر وہ اس تپ بن میں آیا ہے اور ایسے ہم نے دیکھا ہے کہ آثار تیرے عشق کے اس کے حالات¹ سے ظاہر ہیں، راہ گھر کی بھولا ہے، وحشت زدہ پھرتا ہے، نہ وہ رنگ و روپ، نہ وہ طرح طور ہے، سوکھ کر کانٹا ہوگیا ہے۔"
یہاں یہ باتیں ہوتیاں تھیں کہ وہ چھپا کھڑا سنتا تھا۔ دیدہ حسرت سے دیکھ رہا تھا کہ وہ معشوق عاشق مزاج اس طرح ناشاد خاطر بیٹھی ہے کہ اس کے مہتابی مکھڑے پر آہ کی ہوائیاں چھٹ رہی ہیں۔ سکھیاں اسے بہلا بہلا کہتیاں ہیں کہ ہمیں یہ تدبیر سوجھتی ہے کہ "تم اسے اپنے ہاتھ سے خط لکھو، سب اپنے دل کی حالت جو گذرتی ہے، زبان قلم پر لاؤ۔ دیکھتے ہی خط کو اور مطلع ہو کر اس کے مضمون سراپا درد سے یہاں آوے گا۔ کام تغافل کو نہ فرماوے گا، اب ڈھیل اس میں مت کرو۔"
بہ ظاہر وہ شرمائی اور باطن میں خوش ہوئی۔ پھر سکھیوں سے کہا "یہ بات بہت اچھی ہے، میرا بھی دل گواہی دیتا ہے، یہی کیا چاہیے، پر یہ ڈر ہے کہ اگر خط کو پڑھ کر تغافل کرے اور نہ آوے تو ہمیں حسرت سے اور اس غیرت سے دینی پڑے۔

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "اس کی حالت" ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 90
تب انسویا نے جواب دیا سکنتلا! تو کیوں دیوانی ہوئی ہے جو ایسا خیال کرتی ہے۔ گھر میں کوئی دولت آئی ہوئی نہیں لیتا اور دروازہ بند کر دیتا ہے؟ جسے ایک چاہے اسے دوسرا کیوں کر نہ چاہے۔ تمہاری محبت کا جو راجا کو یقین ہووے گا¹ تو اپنی قسمت سرا ہے گا،

وہ عاشق زار پھر کہنے لگی "یہاں کاغذ و دوات و قلم کہاں ہے جو میں نام لکھوں۔" تب سکھیوں نے کہا "کنول کی پنکھڑیوں پر خون دل سے لکھ کر پیک صبا کے ہاتھ جلدی روانہ کر۔"

کنول کی پاتی اس نے لکھ کر بنائی اور سکھیوں کو پڑھ سنائی۔ انھوں نے جی لگا کر سنی، لکھا تھا:

"ہم کیا علاج کریں، مہر تمہارے دل میں ذرا نہیں، دل ہمارا نظروں ہی نظروں میں چرا لے گئے، پھر دکھائی نہ دیے؛ سراپا تمہارا برگ گل سے بھی نازک تر برہما نے بنایا ہے، ایسے بے درد اور سنگدل ہو!"

یہ احوال سكنتلا نے سکھیوں کو سنایا اور راجا درختوں سے نکل آیا۔ جلوہ اپنا دکھا کر سکنتلا سے بولا "جنگل میں رات دن وحشی سا پھرتا ہوں، تمہاری محبت سے گھر بار تج کر بن باسی بنا ہوں۔"

جوں راجا ان کے پاس آ کر یہ باتیں کرنے لگا، وے سب شاد ہوئیں۔ سكنتلا تعظم کو اٹھنے لگی، دبلاپے سے نا طاقت

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج اور نسخہ مطبوعہ نول کشور 1857 میں "یقین" کو مونت استعمال کیا گیا ہے۔ عبارت اس طرح ہے: "راجا کو یقین ہووے گی۔"

صفحہ 91
دیکھ کر راجا بولے "یہ جو حالت نظر آئی تمہاری، معاف تمہیں تعلم ہماری، دیکھ کر یہ جلنا تمہارا، سلگ گیا سب کلیجا ہمارا۔ ہاتھ لاؤ! تمھاری نبض دیکھیں، مرض دریافت کرکے تدبیر کریں۔"
پریم ودا بولى "اچھی ساعت تم آئے، تم نے ہمارے سب دکھ بھلائے، سکنتلا کا بھی کوئی درد نہ رہے گا؛ دیکھو نبض اس کی اور جو علاج چاہو کرو، دیکھیں ہم حکمت تمہاری۔"
راجا مسکرا کر پاس جا بیٹھا اور سکنتلا بھی شرمائی۔ دونوں کی ایک سی محبت دیکھ آنسویا راجا سے بولی "گو کہ آج تمہیں اس کی چاہ ہے لیکن اس کا تمہارے ہاتھ نباہ ہے۔ تم راجا ہو، عورتیں تمہارے یہاں ان گنت ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی الفت دل سے بھلا دو، اور یہ¹ جان واحد رکھتی ہے، کوئی اس کا اتنا² مونس و غم خوار نہیں۔ جو کبھی تم اس سے غافل ہو گئے اور اس کی خاطر نہ کرو گے، پھر اس کا کیا حال ہو گا؟ کیوں کر اس کی زندگی ہو گی؟"
اتنا کہہ کر وہ چپ ہو رہی۔
راجا نے کہا "افسوس کہ میں نے اس کی خاطر یہ حالت اپنی بنائی لیکن تمہیں میری چاہت باور نہیں آئی۔ تم بدگمانی سے میرے حق میں یہ باتیں کہتی ہو:

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "یہ" کا اضافہ ہے۔
2- فورٹ ولیم کالج کے انتجاب میں "اتنا" کی جگہ "اپنا" ہے۔

صفحہ 92
ابیات
نہ ہو گی کبھی کوئی مجھ سے وہ بات
جو کوئی کہے گا یہ کی اس نے گھات
کروں گا دل و جان اس پر فدا
رہے یاد تم کو یہ میرا کہا

"میں اس کے ہاتھ جب آپ بک گرا، سب اس کی چیریاں ہوں گی۔ جب سے میں نے اسے دیکھا ہے ہوش و قرار یک لخت جاتا رہا ہے۔ گھر چھوڑ کر جنگل میں پھرتا ہوں، اسی کا دھیان آٹھ پہر رہتا ہے۔ میں اس کا دل و جان سے عاشق زار ہوں اور آن آن اس کے حسن و ادا پر نثار ہوں۔ غلام اس کا جانو، میری اس بات کو یقین مانو۔"
انسویا بولی "راجا! تم نے میرے دل کی اب دبدھا مٹا دی، ہماری خاطر جمع ہوئى۔"
بہت خوش ہوئیاں، پھر ہنس کر انسویا نے پریم ودا سے کہا "ہرن کے بچے بھوکے ہوں گے اور اپنی ماؤں کی طرف حسرت سے تكتے ہوں گے۔ اٹھ چل جلدی اے سکھی! جو انھوں¹ کی ماؤں سے انھیں ملا دیں۔"
یہ چھل کر کے دونوں سکھیاں چلیں؛ تب خوف کھا کر سكنتلا بولی "تم خدا سے نہیں ڈرتیاں جو مجھے اکیلا چھوڑ کر جاتیاں ہو۔"
وے کہنے لگیں "تم ایک گھڑی اپنے پی کے پاس اکیلی رہو اور اپنے اپنے من کی باتیں کہو۔" یہ کہہ کر دونوں ٹل گیاں، پھر سکنتلا وہاں سے گھبرا کر اٹھی۔

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "ان کی" ہے۔

صفحہ 93
راجا نے مسکرا کر اس کی بانہہ گہہ کر کہا "اس دوپہر کی گرمی میں سورج ایسا تپتا ہے جو پرند پر نہیں مار سکتے اور چرند بھی رکھوں کی چھاؤں میں سے باہر نہیں نکلتے۔ تم اٹھ کر یہاں سے کہاں چلی ہو۔ تمھیں میرے پاس سونپ گئیں ہیں جو تمہاری پیاری سکھیاں ہیں۔ جو وے کاج کرتی تھیں مجھے فرماؤ۔ کہو تو ممصندل گھس لاؤں۔ تمہاری پیشانی پر لگاؤں، کہو تو پنکھا ہلاوں۔"
یہ کہہ کر راجا نے ڈھٹائی کی اور ہاتھ پکڑ کر سکنتلا کو بٹھایا۔ چھاتی اس کی دھک دھک کرنے لگی، ہاتھ لگانے سے اس کے بہت ڈری:

خفا ہو کچھ اک پھر یہ¹ باتیں کہیں
مہاراج پہ تم کو لازم ہیں
مجھے مت چھوو دیکھو مانو کہا
نہیں خوب یہ اختلاط آپ کا

"پاپ ہمارا گھر نہیں اور اب تلک بیاہی بھی نہیں گئی۔ آنچل بھی نہیں کیا کسی نے میرا، تمہیں آ کر اب کس خیال نے گھیرا:

1- انتخاب فورث ولیم کالج میں "یے" ہے۔

صفحہ 94
بیت
کرو در گزر ایسی باتوں سے تم
نہ پیش آؤ اس طرح گھاتوں سے تم
"باپ میرا جب گھر آوے، تم سے میرا بیاہ کر دے گا۔ كلنک مجھے مت لگاؤ، میری بدنامی دھیان میں لاؤ۔ نہ کروں گی سوا تمہارے شادی۔ تمہیں میں پہلے ہی قبول کر چکی اور تمہارے عشق کی آگ میں سراسر پھکی۔ جلدی کیوں کرتے ہو، لوگوں کے طعنوں سے کیوں نہیں ڈرتے۔"
وہ بولا "راجوں کی کتنی کنواری لڑکیاں بر پا کر گندھرو¹ بیواہ کر بیاہی گئیں، دنیا میں ان کی تعریف ہوتی ہے۔"
پھر اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ لے کر کہا "آج سے ہم تمہارے ہو چکے اور تم ہماری ہوچکیں۔ ہمارا کندھروبیواہ² ہوا۔ کن منی کی دہشت دل میں کچھ مت کرو؛ وہ بہت اچھا نپٹ سیانا ہے۔ تیرتھ کر کے جب آوے گا، یہ بات سن کر دل اس کا بہت سکھ پاوے گا۔"
جب کام دیو نے راجا کو بے کل کیا، کام کی باتوں سے اس کی حالت اور ہونے لگی۔ سكنتلا شرمائی، تب اس نے اسے پھینچ کر ایسا گلے لگایا، گویا وہ ایک جان اور ایک ہی قالب تھے۔ حجاب کا پردہ درمیان سے اٹھا اور کام دل حاصل ہوا۔ ادهر سے نیاز ادھر سے طرز دشنام، ادھر سے سوال بوسہ اور دل کا کام، ادهر سے ادا و ناز سے ہر آن سسکیاں، ادھر سے اختلاط کی گرمیاں۔ اس نے گلے میں ہاتھ ڈالا، اس نے جھک کر چھڑا دیا۔
وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور درختوں کی گہری گہری

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "گند ھرب بواء" ہے۔

صفحہ 95
چھائیں کہ جہاں یہ چکور سا اس چاند سے مکھڑے پر والہ تھا، وہ کوئل سی کوک رہی تھی، خوشیاں باہم ہو رہی تھیں۔
اس رنگ رس میں شام ہونے کو آئی، گوتمی ڈھوںڈتے ڈھونڈتے وہاں وارد ہوئی۔ آواز اس کی سن کر سکھیاں دوڑی آئیں۔ کہا "راجا کو جلد رخصت کرو۔" شکنتلا نہایت ڈری، راجا سے کہا "کہیں تم ان درختوں میں چھپو۔ بوا ہماری گوتمی یہاں اب آوے گی، یہاں سے مجھے گھر کو لے جاوے گی. مجھے پھر کب دیدار دکھاؤ گے؟ اب کچھ نشانی اپنی دیتے جاؤ جو اسے ہم دیکھ کر تسلی دل کو دیں۔"
جب یہ سکنتلا نے بات کہی، راجا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، نشانی اسے اپنی انگوٹھی دی۔ اتنے میں گوتمی پاس آئی۔ آواز اس کے پاؤں کی سن کر راجا درختوں کی آڑ میں ہو گیا۔ سکنتلا بہت رک کر منہ لپیٹ لیٹ رہی۔
گوتمی نے اسے اٹھایا اور یہ پوچھنے لگی کہ تیرے دل کی گھبراہٹ گھٹی یا نہیں؟ تب اس نے یہ بات کہی "کچھ درد اور بڑھا۔" ہاتھ پکڑ کر اس کا¹ استھان کو لے چلی۔ جب سکنتلا اپنے مکان میں گئی، راجا کو دکھ کے سمندر میں تھاہ نہ ملی۔ جسبجگہ سکنتلا کے ساتھ مزے اٹھائے تھے، وہ پھر وہاں آیا اور خالی سیج کنول کی پتیوں کی دیکھ خار جدائی دل میں کھٹکنے لگے۔ برہ کی تپ سے جلنے لگا اور دل ہی دل میں یوں کہنے لگا "کیا کروں، کدھر جاؤں، کیوں کر کل پڑے مجھے، یہ دکھ اپنا کسے سناؤں، پھر کس شکل سے اسے دیکھنے پاؤں۔"

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں عبارت اس طرح ہے: "وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر استھان کو لے چلی"۔

صفحہ 96
جیوں جیوں¹ وہ سیج سونی دیکھتا تھا تیوں تیوں² نیا درد دل دونا بڑھتا تھا۔ ادھر راجا کے دل میں محبت نے غم بڑھایا ادھر سے منیوں نے یوں شور مچایا "مہاراج نے کیوں ہماری سدھ بھلائی، جدھر تدھر سے دیو دیتے ہیں دکھائی اور دیکھنے سے انہوں کی پرچھائیں ہمارے جگیہ³ میں خلل پڑتا ہے۔"
منیوں نے منت و زاری سے جب یہ بات کی، وہ بروگی جو راجا تھا، سن کر وہاں دوڑا گیا: پھر اس بن میں رکھوالی کرنے لگا۔

اور احوال سكنتلا کا سنو:
گوتمی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تو مکان میں لائی پر اس سے برہ کا درد بھاری نہ آماٹھایا گیا۔ سدھ بدھ اپنی بھلا دی، سکھیوں کا ساتھ خوش نہ آیا، اکیلی بیٹھ کر آنسوؤں کا مینہ برسایا اور بنا دیکھے اپنے پیتم کے ذرا بھی کل نہ پڑی۔ ایک ایک گھڑی اس کو ایک ایک برس تھی۔ از بس کہ وہ اس کی نظروں میں سمایا تھا، تمام جہان آنکھوں میں سونا نظر آتا تھا۔ جب کچھ ہوش میں آتی، راجا کی انگوٹھی دیکھ کر پھر بے حواس ہو جاتی۔ سونے مکان میں سر جھکائے ہوئے سوچ میں بیٹھی اور مانند نقش پا کے حیرت زدہ ہو کر نہ جاگہ سے ہلتی نہ کہیں اٹھتی۔ اس نے پہاڑ دکھ سر پر اٹھایا، جس طرح جان سے بدن خالی ہو ویسا حال بنایا:

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "جوں جوں" ہے۔
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "توں توں" ہے۔
3- فورٹ ولیم کالج کے انتخاب میں "جگیہ" ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ نسخہ مطبوعہ نول کشور 1875ء میں "جگینہ" ہے۔

صفحہ 97
شعر
کروں اور کیا اس کی حالت رقم
کہ عاجز ہوئی یاں زبان قلم
وہ اسی تصور میں اپنی جان لگائے بیٹھی تھی کہ دریاسا ایک رکھی¹ وہاں آیا۔ دیکھا اس نے کہ یہ من مارے کسی کے دھیان میں مردے کی حالت بنائے بیٹھی ہے:

شعر
خبر دین و دنیا کی رکھتی نہیں
ہوا کیا خدا جانے اس کے تئیں
تحقیق کہ اس کی یہی صورت تھی۔ نہ رکھی² کے آنے سے اسے آگہی ہوئی، نہ آنکھ اٹھا کر اسے دیکھا کہ یہ کون ہے اور کہاں آیا ہے۔ نہ بستر بیٹھنے کو دیا، نہ کچھ تعظیم و تواضع کی۔ وہ دل میں اپنے بہت رکا اور خفا ہو كر ہاتھ اٹھا کر یوں سراپا کہ سراپا تیرا آتش عشق سے چلے گا اور جس کے دھیان میں تو بیٹھی ہے، وہ تیری خبر نہ لے گا۔
یہ سراپ دے کر رکھی³ تو وہاں سے چلا، پر اس محو خیال جاناں نے نہ جانا کہ وہ کب آیا تھا اور کب گیا۔ بد دعا اس کی سن کر دونوں سکھیاں دوڑیاں اور جلد دریاسا منی کے پاس آئیاں۔ انہوں کے دل میں اس کے سراہنے سے بڑا ڈر ہوا۔
از بس کہ انہوں کو سکنتلا سے محبت نہایت تھی، سمجھ بوجھ کر

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "رکھ" ہے۔
2,3- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "رکھ" ہے۔

صفحہ 98
منت و زاری بہت کی، پاؤں پر گر پڑیاں۔ ہاتھوں کو جوڑ کر بولیاں "اتنا غصہ تمہارے لائق نہیں، اور یہ جو اس کی تتصیر ہے اسے معاف کرو۔ تم دریا کرم کے ہو، اس پر مہربانی کرو۔ اسے بد دعا جو کی ہے، بدلے اس کے نیک دعا دو۔ یہ عاجزی ہماری قبول ہو، جیسی یہ کن کی بیٹی ہے ویسی تمہاری ہے۔"
دونوں سکھیوں نے جب یہ باتیں کی ہیں، درد سا کو ان کی منت کرنے سے رحم آیا۔ كہا کہ انگوٹھی راجا اسے دے گیا ہے، جب وہ اسے دیکھے گا تب اسے یاد کرے گا۔
یہ کہہ کر اس دعائے بد کو رد کر کے وہ چلا گیا۔ سکھیاں خوش ہوئیاں، پھر آپس میں بولیاں "جو کچھ منی نے اس کے حال سے خبر دی ہے جھوٹ نہ ہو گی۔ اس سے کسی طرح انگوٹھی لیا چاہیے کہ کہیں کھو نہ دے۔ وہ راجا کی یاد میں بے اختیار ہو گی، تب اسے ہم دکھا دیں گے۔ اس بھید سے ہمیں تمہیں واقف ہیں، اسے ظاہر مت کرو، اسے اور غم ہو گا، کسی طرح جیتی نہ رہے گی۔"
یہ آپس میں باتیں کر کے سکنتلا کے پاس آئیں، دیکھا کہ فراق نے اس کی یہ صورت بنائی ہے، نہ کچھ آنکھوں سے سوجھتا ہے، نہ کچھ کانوں سے سنتی ہے، بے خود تصویر کی شکل ہو گئی ہے؛ اس طرح سے اس کی اوقات گزرتی ہے:

اشعار
نہ وہ نور سے دن کے آگاہ ہے
تصور میں اس کے وہی ماہ ہے

صفحہ 99
نہ کچھ شب کی تاریکی پر ہے نظر
وہی شكل ہے دھیان میں جلوہ گر
اگرچہ اس نے اپنی یہ حالت بنائی پر راجا کو اس کی کچھ یاد بھی نہ آئی۔ منیوں نے اسے رخصت گھر کو کر دیا تھا۔ وہ اپنے راج میں مشغول تھا۔ درباسا رکھی کی بد دعا نے ایسی تاثیر کی تھی کہ راجا نے اس کی سرت بہلا دی۔
کئی¹ دنوں سکنتلا نے اسی طرح مصیبت کاٹی، پھر حمل نمود ہوا، نہ اسے کچھ بھاتا تھا نہ کچھ خوش آتا تھا، دن بدن سوکھی جاتی تھی، بدن سارا زرد ہوا جاتا تھا، نقاہت اور سستی غالب ہوتی تھی۔ پچھلی باتیں یاد کر کے رو رو کہتی تھی کہ راجا تو نے ہماری الفت بھلائی، جا کر اور کسی سے آنکھ لگائی۔
اس حالت میں یکا یک تیرتھ نا کر کن منی آن پہنچے اور وہ انھیں دیکھ کر حمل کے سبب نہایت شرمائی۔ اور منی جب ہوم کرنے لگا، آگ میں سے تب یہ آواز آئی کہ یہاں راجا دشمنت آیا، سکنتلا سےکندھرو بيواہ² کر لیا، اسی دن اسے پیٹ ریا۔ آگ سے یہ صدا سن کے منی دل میں بہت خوش ہوا اور وہ جب ہوم کر چکا، سکنتلا کو بلایا۔ سر سے پاؤں تلک لجائے ہوئے اور نہوڑائی³ ہوئی وہ آئی۔ منی نے اپنے پہلو میں بٹھایا اور بہت سراہا؛ پھر کہنے لگا "تو نے مجھے اس سے بہت خوش کیا اور


1-انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "کچھ" ہے۔
2- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "گندھرو بواہ" ہے۔ یہی لفظ اس سے پہلے "گندھرب بواہ" کی صورت میں گذر چکا ہے۔
3- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "نہوڑائے ہوئے" ہے۔

صفحہ 100
بڑی فراغت بخشی کہ جہاں میں تیری شادی کیا چاہتا تھا وہیں تو نے گندھرو بيواہ کیا، اب بن میں اکیلا رہوں گا۔ صبح تجھے سسرال بھیجوں گا۔"
وہ شرمائی اور سکھیاں بہت اداس ہوئیں۔ سکنتلا سکھیوں کے چہرے اس غم سے اترے ہوئے دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔
اتنے میں رات تمام ہوئی اور دن نکلا۔ اسے نہلایا دھلايا اور جتنی رکھیوں کی عورتیں تھیں ملنے کو آئیاں، گھیرے ہوئے بیٹھیاں، اسیس اسے دیتی تھیں کہ تم اپنے دولہے کی پیاری رہو، دیکھ دیکھ سوتیں تمہاری ڈاہ کی آگ میں جلتی رہیں، تم سکھ کے مندر میں ہمیشہ بسو!
ایسی ایسی پیاری اخلاص کی باتیں کہہ، دعائیں دے اور بلائیں لے کر رخصت ہو ہو اپنے اپنے مکان کو گئیاں۔ سوا ان دونوں سکھیوں کے سکنتلا کے پاس اور کوئی نہ رہا۔ گوتمی اور وہی دو سکھیاں کام خدمت اس کی بجا لاتیاں تھیں۔
جدائی کی کوئی دم میں جو گھڑی ہوا چاہتی تھی، یہ سوچ کر سکنتلا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ تب گوتمی نے پیار محبت سے اپنی گود میں بٹھا، کنگھی کر، مانگ نکال، زلفیں بنا، چوٹی گوندھی اور سکھیوں نے پھولوں کے ہار ڈال، بدی¹ پہنائی اور کہنے لگیاں "کس سے کہیں، کہاں سے لاویں، جو بنا سنوار گہنا اسے سر سے پاؤں تلک پہنا دیں۔" اس ناداری سے آنسو آنکھوں میں بھر آئے۔
سکھیوں پر یہ حالت تھی کہ دو لڑکے کسی منی
کے آئے،

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "بدھی" ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 101
کہا کہ ہم خاصے خاصے اور اچھے اچھے گہنے اور سنگھار کی چیزیں لائے۔ اور آگے رکھ کر کہا کہ کچھ سوچ مت کرو، ابھی پہناؤ۔
سکھیاں بہت خوش ہوئياں۔ كہا کہ یہ کہاں سے آیا۔ ان کواچنبھے میں دیکھ کر چیلوں نے ظاہر کیا "ہمیں کن منی نے بھیجا تھا کہ تم بن میں جا کر سکنتلا کے لیے پھول پھل توڑ لاؤ۔ ہم جو گئے تو وہاں اور بھی گت دیکھی۔ معلوم ہوا کہ یہ گرو کا تصرف ہے کہ کہیں سندور، کہیں کاجل پایا، کہیں مہاوڑ¹ اور پان پائے اور بن ديوتوں نے درختوں سے ہاتھ نکال گہنا کپڑے ہمیں دیے۔"
گوتمی نے شگون² نیک ٹھہرا، وے سوھے سونے چٹکیلے کپڑے اور گہنا پہنایا۔ سکھیوں نے مانگ میں سیندور بھر، کاجل آنکھوں میں دے، پاؤں میں مہاوڑ لگا، پان کھلائے۔ اس رنگ سے بنی بنائی۔
جب تلک اور سنگھار سکھیوں نے کیا تب تلک کن منی آیا، سکنتلا جدائی کے غم سے جو بے تابی و بے قراری کر رہی تھی، دیکھ کر اسے بہت گھبرایا۔ جی رندہ³ گیا، آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ خاطر ناشاد سے کہنے لگا "تن من بے چین ہے، یہ دکھ سہا جاتا نہیں اور اب بغیر اس کے بن میں رہا جاتا نہیں۔ اسے بھی میری مفارقت سے تاب نہیں، شرم سے کچھ بول نہیں سکتی،

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں عبارت اس طرح ہے: "کہیں مہاوڑ پان پائے۔"
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم میں "شگن" ہے۔
3- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "روندھ" ہے۔

صفحہ 102
عجب سوچ میں ششدر کھڑی ہے، جی نہیں سنبھلتا، آنسو آنکھوں سے جاری ہیں، اس طرح سسرال کو چلی ہے۔ اس کی جدائی سے میرے بن باسیوں کو یہ غم ہوا ہے جیسے دنیاداروں کو مصیبت ہوتی ہے۔"
منی اس کی الفت سے یہ باتیں کر رہا تھا کہ سکنتلا باپ کا یہ حال دیکھ کر بے اختیار ہو رونے لگی۔
منی نے پیار سے آنسو پونچھ کر اسے گلے سے لگایا اور اتنی بات زبان پر لایا "بس اب مت رو، جی کو اپنے بے تاب ہو کر مت کھو۔ تیرا اس دم رونا ٹھیک نہیں۔" پھر کہا "گوتمی تو اسے کیوں نہیں سمجھاتی؟ یہ جو رو رہی ہے اسے منع کر، یہ اچھی ساعت ہے، ابھی اسے ساتھ لے کر جا۔" پھر اپنے دو چیلوں کو بھی بلا، سکنتلا کے ساتھ جانے کو مقرر کیا۔
گوتمی نے دلاسا دلبری سے سمجھایا اور آپ بھی ساتھ ہوئی آنسو آنکھوں سے پونچھتی اور ہچکیاں لیتی ہوئی سسرال کو چلی۔
تب سب جنگل کے درختوں اور جانوروں سے منی نے پکار پکار كہا "تمہارے پھولنے سے یہ خوش ہوتی تھی اور بے کلی سب جاتی رہتی تھی۔ جب تلک تمہیں یہ نہ سینچتی تھی، پانی بھی نہ پیتی، کیاریاں اور تھالے دن پھر بناتی۔ جو اس طرح تمہاری خدمت کرتی تھی، سنو! اب وہ سسرال چلی ہے۔"
جب منی نے درختوں سے یہ بات کہی، تب درختوں پر کویلوں نے کوک مچائی۔ وے جو کوکتی تھیں گویا درخت نالہ و زاری کرتے تھے۔ یہ شورش اور اپنے ان درختوں کو دیکھ دیکھ وہ آنسو بھر لاتی تھی اور سکھیوں سے کہتی چلی جاتی تھی "اگرچہ راجا کی الفت میرے دل میں ہے پر اس بن کی بھی ہوا میرے جی سے جاتی نہیں۔ اپنے ہاتھوں کے درخت لگائے ہوئے دیکھ کر

صفحہ 103
چھاتی بھری آتی ہے۔ میں تو چلی پر انہيں تمہیں سونپے جاتی ہوں۔"
رو رو کر سکھیاں بول اٹھیاں "تو ہمیں کس لیے سونپے جاتی ہے۔ ان درختوں کو بن تیرے کون دیکھے گا اور کسے حواس آویں گے۔" نالہ و زاری آپس میں ہوتی تھی اور سکھیوں کی چاہت سے رو رو کر جان اپنی کھوتی تھی کہ منی نے پھر اسے سمجھايا: تب سکنتلا نے آگے پاؤں بڑھایا۔
جدائی سے اس کی بن نے خاک اڑائی۔ مور ناچنا بھولے، ہرنوں نے سبزے کا پھرنا چرنا چھوڑا، چکاروں نے ادهر سے منہ موڑا، پرندوں کے ہوش اڑے، بھونرے گونجنا بھولے اور جتنے جانور تھے، سبھوں پر اس بن میں اداسی چھا گئی، جنگل کے رہنے ہاروں کو بے حواسی آگئی۔
جب وہ کوس ایک وہاں سے آگے بڑھی، تب منی نے یہ بات کہی "دن بہت چڑھ گیا ہے، اب یہاں سے اسے رخصت کرو اور تم اپنے اپنے گھر پھر چلو۔ جو کچھ سمجھانا ہے اب یہیں سمجھاؤ، آگے جانا مناسب نہیں۔"

شعر
کسی کو جدائی گوارا نہ تھی
قلق سے ہر اک کا نكلتا تھا جی
منی نے سنبھال سنبھال سبھوں کو وہاں رکھا۔ پھر اپنے چیلوں سے کہا "راجا دشمنت کو سمجھا کر ہمارا سندیسا ديجيو۔ ہم تمہارے پوجنے کے لائق ہیں اورتم ہمارے سبوک¹ ہو۔ سکنتلا

1- نسخہ مطبوعہ نول کشور (1875ع) میں لفظ "سبوک" نہیں ہے۔

صفحہ 104
ہماری بیٹی ہے، اسے جی سے پیاری جاننا۔ ہمیں تم نے مکان میں نہ آنے دیا، آپ ہی شادی کر لی۔ اب ایسا کیجیو سكنتلا آرام سے رہے، کیوں کہ اس کی بے چینی سے ہمیں چین نہ ہو گا۔"
راجا کو یہ پیغام دے کر سکنتلا کے تئیں نصیحت کرنے لگا: "ساس نند کی خدمت کرنا، خاوند کے اخلاص میں ان کی فرماں برداری نہ بھولنا، سوتوں میں ہلى ملى رہنا، اپنا بھید کبھی نہ کہنا، اپنی قسمت پر مغرور نہ ہوجيو، خاوند کے حکم میں رہيو، ایسا کام کیجیو جو گھر باہر کے لوگ تجھے نیک بخت کہیں۔ میں نے جو یہ نصیحت کی ہے اسے دل سے یاد رکھنا۔ ہمیں اب رخصت دے، ہم اپنے بن کو جاویں اور سکھیوں کو بھی وداع کر، گوتمی کو ساتھ لے۔"
وہ اتنا سن کر منی کے گلے سے لگ رونے لگی، تب اس نے دلاسا دے رخصت کیا۔ پھر سکھیوں سے مل کر روئی۔ تب انھیں سراپ درباسا منی کا یاد آیا۔ انسويا نے چترائی سے کہا "راجوں کو راج کاج کے سبب یاد بہت کم رہتی ہے اور مدت بھی گذری، شاید وہ یاد تیری بھول گیا ہو۔ انگوٹھی جو تجھے دے گیا ہے، اسی کو تو راجا کو دکھانا، وہ اپنی نشانی دیکھ کر بھولی الفت یاد کرے گا، پر اس انگوٹھی کی بہت سی خبرداری کرنا ایسا نہ ہو کہیں گر جائے۔"
یہ سن کر سکنتلا سن ہو گئی۔ پھر سکھیوں سے کہا "تم نے جو مجھے یہ بات سنائی اس کا بھید میں نہیں پاتی۔ تم نے بات بہت بے ڈھب کہی، میرا دل دھڑکتا ہے۔"
سکھیوں نے کہا "دیکھ دوپہر دن آیا ہے، ہمیں رخصت کر، تو بھی آگے پاؤں دھر۔"

صفحہ 105
گوتمی اور وے دونوں چیلے رکھی¹ کے ساتھ ساتھ گئے، يہ سبگھر کو پھر آئے، پیچھے پھر پھر دونوں طرف سے آپس میں دیکھتے جاتے تھے۔
سکھیاں کہتی آئیاں² "ہمیں اس بنا بن سونا دکھائی دیتا ہے۔" ہاتھوں کو مل کر پھر یوں بولی "اب سکنتلا دکھائی نہیں دیتی۔"
اس طرح منی تو سکھیوں کو لے مکان میں آیا اور سکنتلا جب آگے گئی، ایک تالاب راہ میں دیکھا؛ پیاس کی شدت سے تالاب کے کنارے گئی، پانی پی کر پیاس بجھائی، پر ایک پل میں بڑا غضب ہوا کہ انگوٹھی انگلی میں سے نکل کر پانی میں گر پڑی اور اسے کچھ سدھ نہ رہی۔
وہاں سے اٹھ کر دونوں چیلوں کے ساتھ ساتھ راجا کے یہاں پہنچی۔ وہ خلوت میں تھا، ڈیوڑھی پر جا کر چیلوں نے خبر دی۔ خوجوں نے ان کی زبانی عرض کی کہ مہاراج! كن منی نے دو چیلے بھیجے ہیں اور ساتھ ان کے دو عورتیں کر دیں ہیں۔ ایک جو ان میں جوان ہے، سو آپ کے لیے نذر ہے۔
نام عورتوں کا سن کے راجا کو³ اچنبھا آیا۔ بہت فکر و اندیشے میں گیا اور دیوان عام میں نکل آیا۔ منی کے چیلوں کو بلایا۔ آگے چیلے پیچھے گوتمی، تس پیچھے سکنتلا۔ اس طرح سب کے سب آئے۔ راجا نے بڑی عزت سے پاس بلایا۔ اور سکنتلا شرم سے گویا

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں میں "رکھ"۔
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "کہتی آتیاں" ہے۔
3- التخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "راجا کو" نہیں ہے۔

صفحہ 106
زمین میں گڑی جا رہی تھی، پر گھونگھٹ کیے کھڑی تھی۔ کم بختی جو آئی تو دہنی آنکھ اس کی پھڑکنے لگی۔ وسواس اس کے دل میں ہوا کہ خدا خیر کرے، دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ اس بد شگونی سے اس کا دل بہت کڑھا -
جب غور کر کے سکنتلا کو راجا دیکھنے لگا، ایک تعجب سا اسے ہوا۔ اپنے دل میں کہا "یہ کون ہے اور کہاں سے آئی! منیوں نے بن میں کیوں کر پائی! سمجھا نہیں جاتا! اسے یہاں کیوں لائے!
یہ بچار راجا نے جب اپنے دل میں کیا، تب منی کے چیلوں نے آشیر باد دیا۔ راجا نے مسند سے اتر کر انہیں ڈنڈوت کی اور سب کام اپنے چھوڑ کر انہوں سے خیر و عافیت پوچھی۔ کہا "تمہارے بن باسیوں کی کیا خبر ہے؟ تمہارے گرو بھلے چنگے ہیں؟"
وے چترائی کر کے بولے "مہاراج کے راج میں ایسا دکھ کا نام نہ رہا جیسے سورج کی روشنی سے اندھیرا جاتا رہے۔ جن کی دعا سے لوگ ہمیشہ سلامت رہیں، ان رکھیوں کی کھیم کسل ہم کیا کہیں۔ مہاراج کے پاس ہم آئے ہیں، یہ سندیسا گرو کا لائے ہیں! "جانی ہم نے سب محبت تمہاری، اور سکنتلا ہے یہ بیٹی ہماری۔ جو گندھرو بیواہ تم نے یہاں کیا، پہ سن کر ہم نے برا نہیں مانا۔ مہاراج میں جتنے گن ہیں اتنے ہی سکنتلا میں بھی ہیں۔ ہمارا جی بہت سکھ پایا¹، خدا نے بھلا سنجوگ بنایا۔ اور یہ پیٹ سے ہے، سن کر جلد یہاں بھیجا۔ سکنتلا کو اپنے پاس

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں یہ جملہ اس طرح ہے "ہمارے جی نے بہت سکھ پایا۔"

صفحہ 107
رکھیو، ہم نے منی کا سندیسا کہہ دیا، سکنتلا کو ہم نے یہاں پہنچایا، ہمیں اب رخصت کرو۔"
درباسا منی کے سراپ سے راجا تو اس کی طرف سے غافل تھا، کہنے لگا "تم منی کے چیلے بڑے چترے، یے کیا باتیں کہتے ہو۔ سکنتلا سے کس نے شادی کی ہے، میں اسے نہیں جانتا۔"
یہ باتیں اس سے سن کر چیلے تو بہت خفا ہوئے اور سکنتلا بے حواس ہو دل میں کانپنے لگی۔ راجا کی بے دھرمی سے دونوں چیلے رک کر بولے "مہاراج! کچھ تم دھرم کو جانو، ایسا خیال فاسد دل میں مت لاؤ؛ تب تو بیاہ کیا، چھل کی کر گھاتیں، اب تم کہنے لگے یہ باتیں۔ سچ ہے کہ راجا وہی کرتے ہیں کہ جو ان کے جی میں آتا ہے، اور کسی کا درد نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر چیلے چپ رہے اور گوتمی گھبرا کر سکنتلا کو سمجھانے لگی "ایک دم شرم کو چھوڑ راجا کو منہ دکھا، تیرا منہ دیکھ کر اسے سدھ آوے گی۔"
یہ کہہ کر سکنتلا کا گھونگھٹ کھلوایا، راجا کو اس کا منہ دکھایا۔ دیکھ کر تب بھی اس نےہاں ناہ کچھ نہ کی، حیرت زدہ سا رہ گیا۔ تب منی کے چیلوں نے جھنجھلا کر کہا مہاراج! کچھ دل میں سوچو، سمجھ بوجھ کر ہمیں جواب دو۔
راجا بولے "میں نے بہت دیر تک غور سے نظر کی۔ جاگتے تو معلوم مگر خواب میں بھی کبھی شکل اس کی نہیں دیکھی۔ میرے اس کے جو تم لگن لگاتے ہو کیوں ناحق کلنک چڑھاتے ہو؟ حمل سے یہ عورت کسی اور کے ہے، اپنے گھر میں رانی بنا کر کیوں کر رکھوں؟
وے دونوں چیلے آتش غضب میں جلے۔ پھر راجا سے یوں کہنے لگے "ایسی باتیں جو تم زبان پر لاتے ہو، منی لوگوں کا

صفحہ 108
خوف دل میں نہیں کرتے؟ کن مہا منی جب خفا ہو گا، تمہارا احوال کیا ہو گا۔" ان باتوں سے راجا کو ڈرا کر بہت غصہ کر کے سکنتلا سے بولے "تب کسی سے تو نے نہ پوچھا، آپ ہی گندھرو بیواہ کیا، جیسا کیا اس کا ویسا مزہ چکھا، منہ اپنا کھول، راجا سے کچھ بول۔"
شرم کا پردہ رخ سے اٹھا کر وہ بولی مہاراج! یہ ریت کیا ہے، اس میں بڑا ظلم ہوتا ہے، تمہارے ہاتھ کیا آوے گا؟ کس لیے مجھے عیب لگاتے ہو؟ تب تو پہلےہم نے تمہیں ایسا نہ جانا تھا، جو کچھ تم نے کہا ہم نے مانا۔ تب ویسی چھل کی کر گھاتیں اب تم کہتے ہو کیا یہ باتیں۔ رخصت ہوتے تم نے دی تھی انگوٹھی، اس سے میں نہیں ہوں تمہارے آگے جھوٹی۔ اور آگے کیا بھید بتاؤں، کہو تو وہی انگوٹھی دکھاؤں۔"
سکنتلا یہ کہہ کر چپ رہی۔
راجا نے پھر یوں بات کہی "یہ تم نے بات بناؤ کی کی، اب تک کیوں نہ انگوٹھی دی۔ جو میں انگوٹھی اپنی دیکھوں تو تمھیں سچا جانوں۔"
تب اس نے گھبرا کر نگاہ کی، انگوٹھی ہاتھ میں نہ پائی، رنگ چہرے کا زرد ہوا، بے قرار ہو کر ہائے ہائے مچائی۔ وہ حیرت سے گوتمی کی طرف دیکھنے لگا، سكنتلا تب شرمندہ ہوئی۔
راجا نے ہنس کر یہ بات کہی "تریا چرترہم کانوں سے سنتے تھے سو آنکھوں دیکھا۔ میں نے تجھے کب دی تھی انگوٹھی؟ ایسی بات کیوں کرتی ہے جھوٹی۔ غیر رنڈی¹ سے ہم نے

1- رنڈی بہ معنی "عورت"۔

صفحہ 109
کبھی ملاقات نہیں کی، تمہارا فن¹ یہاں نہ چلے گا۔"

جب وہ راجا کے دل سے یوں بھولی تب جھنجھلا کر یوں بولی کہ قسمت نے مجھ کو برا دن دکھایا، جس طرح سے چاہا ناچ نچایا۔ نہیں ہے انگوٹھی کیا میں دکھاؤں، کہو تو کچھ اور بھید بتاؤں۔ ہم تم جو بن میں باتیں چاہت کی کر رہے تھے اور کیا کیا آہیں² دل میں بھر رہے تھے۔ جو ایک ہرن کا بچہ وہاں آیا، تم نے اسے کس کس پیار سے بلایا۔ جب وہ وحشی بھاگا رم کر کے، پاس نہ آیا پھر وہاں ڈر کے۔ جب میں نے اسے بلایا تب وہ دوڑا آیا۔ تم نے ہنس کر کہا مجھ کو، تم دونوں بن باسی ہو۔ ہرن کا بچہ رہتا ہے ساتھ تمہارے، بھاگے ہے یہ سائے سے ہمارے۔ یہ کہہ کر تم نےہنسی مچائی، اب وہ سدھ بدھ سب بھلائی۔"
یہ سن کر بھی اسے کچھ یاد نہ آیا۔ ایسی ہی باتیں پھر وہ زبان پر لایا کہ دغا سے میٹھی میٹھی باتیں کر کے رنڈی دل مردوں کا چھین لیتی ہے۔ ایسی باتیں کر رھی ہے گویا جھوٹ کہیں چھو نہیں گیا۔ تب خفا ہو کر گوتمی نے کہا "مہاراج! تم ٹھٹہول ہو، ہم بن باسی ہیں، باتیں بنا کیا جانیں۔ کپٹ کہاں سیکھی ہم نے بن میں، دغا ہوتی ہے راجوں کے من میں۔"
یہ کہہ کر گوتمی چپ رہی۔ پھر راجا بولا "عقل سبھاؤ سےہوتی ہے۔ کوئل چترائی کر کے انڈے کوے کی جھونجھ³ میں دے آتی ہے۔ جب وہ سیتا ہے اور بچے نکل کر بڑے ہوتے ہیں،

1- "فن" بہ معنی مکر۔
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "اماہے" ہے۔
3 - انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "کوے کے جھونجھ"ہے۔

صفحہ 110
اب اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتی ہے۔
راجا نے جب ایسی کڑی بات کہی، سکنتلا خفا ہو بولی "ارے بے انصاف! تو کیا کہتا ہے۔ تو نے مجھ سے کی ٹھگی، تب میں نے تجھے ٹھگ نہ جانا، جو تو نے کہا سو میں نے مانا۔"
یہ کہا اور سر نیچے کر لیا۔ آنکھوں سے ایسی جھڑی لگائی، پل مارتے میں اس نے ندی بہائی۔
تب خفا ہو کر دونوں چیلے اس سے کہنے لگے "شروع الفت میں تو نے کسو کو نہ جتایا، جیسا کیا ویسا اس کا پھل پایا؛ بغیر امتحان کیے کی آخر یہی سزاہوتی ہے۔"
سکنتلا سے کہہ کر پھر راجا سے کہا "سن تو اب یوں بات ہماری، بھلی بری یہ عورت ہے تمہاری؛ چاہو اسے رکھو، چاہو اسے نکال دو، ہم سے کچھ مت کہو۔"
پھر ہاتھ پکڑ گوتمی کا دونوں چیلے گھر کو پھر چلے۔ سکنتلا بھی روتی ہوئی ان کے پیچھے یہ کہتی چلی "تم نے بھی چھوڑا اور راجا نے بھی۔ اب میں بے شرم بے کس کہاں جاؤں۔ مجھے تم چھوڑ کر جو اب چلے ہو، میں دوں گی جان اپنی غم سے رو رو:

شعر
نہ کوئی مونس و غم خور مرا ہے
ہے اک دل سو بالا میں مبتلا ہے

وے خفا ہو کر بولے "اے کم بخت! تو ادھر کہاں آتی ہے، اب کر جو تیرے دل کو اچھا لگے۔ جیسا راجا کہتا ہے۔ اگر تو ویسی ہی ہے تو منی ایسی لڑکی کو کیا کرے گا، اور جو
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 111
سچ ہے تیرا کہنا تو لازم ہے تجھے پی کے گھر رہنا - منی کے یہاں تو جا کر رہے گی تو تجھے ساری دنیا کلنک لگاوے گی۔ جو خاوند کی لونڈی بھی ہو کر رہے گی تو بھی تجھ پر ہنسی نہ ہو گی۔"
یہ کہہ کر چیلے چلے۔ تب راجا نے انہوں کو پکارا "کہاں اسے چھوڑے جاتے ہو؟ اس کے باپ کو لے جا کر سونپو۔"
چیلوں نے پھر کر جواب نہ دیا۔ وے چلے گئے، یہ باہر روتی رہ گئی۔
یہ اس کی بیت دیکھ کر سوم راج پروہت نے ترس کھا، راجا کے پاس آ کر کہا "لڑکا جب تلک اس سےہوے، تب تلک یہ رہے۔ اگر تمہارا بیٹا ہو گا تو سب راجوں کا راجا ہو گا۔ تمام پنڈت پکارے کہتے ہیں، جب یہ لڑکا جنے گی اور لچھن راجوں اس میں پائے جاویں گے تو اسے سچا جاننا اور اپنے محل میں داخل کرنا۔ جو اس میں جوہر ذاتی پائے نہ جائیں تو کن منی کے گھر بھیج دینا۔ منی اور رکھی لوگوں کی بد دعا سے لوگ بےہوش ہو جاتے ہیں اور سراپ مٹنے سے سدھ میں آتے ہیں، تب پیچھے پچھتاتے ہیں۔"
یہ سن کر راجا نے کہا "کرو جو تمہارے دل میں آوے۔ یہ حکم راجا سے لے کر سکنتلا سے کہا "تو ہمارے گھر چل۔"
چیلے تو اس طرح چھوڑ گئے، راجا نے یوں چھوڑا، سکنتلا روتی ہوئی سوم راج کے ساتھ چلی۔ اتنے میں ایک آگ کا شعلہ پیدا ہوا اور سکنتلا سے لپٹ کر اٹھا۔ زمین سے آسمان پر لیے گیا۔ وہ شعلہ اس کی ماں تھی کہ جس کا نام منیکا پری کہتےہیں وہ ان باتوں سے جل بل کر اسے یوں لے گئی۔

صفحہ 112
جب وہ بجلی سی چمک کر نظروں سے غائب ہوئی، تب پروہت راجا پاس دوڑا آیا۔ کہا "مہاراج! تعجب کی بات ہے! ایک اچنبھا دیکھا میں نے اپنی آنکھوں سے۔ آنسوؤں کی مالا پروتی ہوئی جب وہ میرے ساتھ چلی اور بے اختیار ہو کہنے لگی "میں بے کس ہوں، میرا کوئی نہیں" تب ایک آگ کا شعلہ سا آیا اور اسے آسمان پر لے گیا۔
یہ سن کر راجا نے خوش ہو کر کہا "ہم نے پہلے ہی اسے پہچانا تھا، خدا نے اچھی بات کی۔"
یہ کہہ کر پروہت اپنے گھر کو آیا، راجا اٹھ کر اپنے سونے کے مکان میں گیا۔ تب بھی اسے سرت نہ آئی لیکن دل میں فکر مند ہوا۔ رات کی نیند، دن کی بھوک جاتی رہی، نہایت اداس رہنے لگا۔
اور جو انگوٹھی سکنتلا نے تالاب میں گرا دی تھی، اسے کسی دھینور نے پایا اور بازار میں بیچنے لے گیا - جوہریوں نے راجا کا نام کھدا دیکھ کر اسے چور جان کر پکڑا، کوتوال کے یہاں لے جا کر قید کروا دیا۔
کوتوال نے اسے مارا باندھا اور پوچھا "تو نے پہ انگوٹھی کیوں کر چرائی اور کہاں سے پائی اور کس طرح تیرےہاتھ آئی؟"
اس نے کہا "صاحب! میں نے نہیں چرائی مگر تالاب میں سے پائی؛ جال میں نے تالاب میں ڈالا تھا، اس میں لگ آئی۔"
یہ سن کر انگوٹھی لے کوتوال نے چھوڑ دیا اور راجا کے پاس آ، انگوٹھی دکھائی؛ تب اس کو سکنتلا کی یاد آئی۔ انگوٹھی ہاتھ میں لیتے ہی درد نے دل میں گھر کیا، آرام چین یک لخت جا تا رہا، رونے لگا سر پر دونوں ہاتھ مار ہائے ہائے

صفحہ 113
کر پکارا، خوشی نام کو نہ رہی۔ دل میں سوچنے لگا "کس سے کہوں، پہ میں نے کیا کیا، اپنے گلے پر چھری دی۔ وہ دوست میرے پاس آئی تھی، میں نے دشمنی کی، مجھ سے رکھی نہ گئی۔ تب تو بھول گیا تھا، اب وہ سب باتیں یاد آئیں۔ اس نے تو حجاب کا پردہ درمیان اٹھا کر سب بھید بتایا، تب بھی میرے دل میں کچھ نہ آیا۔ ادھر سے میں نے اس نازنین کو چھوڑا، ادهر سے وہ چیلے اسے چھوڑ گئے۔ شور کر کے وہ راہ میں رونے لگی، تب بھی محبت میرے دل میں نہ آئی۔ اب کانٹا جدائی کا دل میں کھٹکے ہے، چھاتی پھٹتی ہے، سانس دم بہ دم اٹکے ہے۔"
جب سے کوتوال نے لا انگوٹھی دی، تب سے عجیب حالت اس فراموش کار پر ہونے لگی۔ دل میں درد، رنگ زرد، نہ دن کو بھوک، نہ رات کو نیند؛ زاری اور بے قراری سے سروکار۔ بیراگ سے راگ بھی خوش نہ آتا، آٹھ پہر درد دل سے کڑھتا تھا۔ اگر جوں توں دن کاٹتا تو رات نہ کٹتی اور رات کاٹتا تو دن نہ کٹتا۔
راجا کے اس غم سے شادی شہریوں کے دلوں سے ایسی جاتی رہی کہ کوئی خوشی کا خیال بھی نہ لاتا۔ لڑکوں نے کھیلنا بھلا دیا، جوانوں کی حالتیں بوڑھوں سے بدتر ہو گئی تھیں۔ کسی کے لب سے ہنسی آشنا نہ تھی، ہر ایک کے منہ پر اداسی چھا رہی تھی۔ وہ جو سکھ کا دینے والا راجا سكنتلا کے دکھ کے دریا میں ڈوب گیا تھا، عورت و مرد کے دلوں سے آرام رم کر گیا تھا۔ بدلی غم کی تمام شہر میں چھا رہی تھی، خوشی بے کار تھی۔ فراق زدہ مہاراج کے راج میں بسنت رت کی آمد ذرا بھی کہیں نظر نہ آتی تھی۔ کوئل کو بولنے نہ دیتے بلكہ درختوں

صفحہ 114
سے مار مار اڑاتے تھے¹۔ خوشبوئی بازار میں بکنے نہ پاتی۔ رنگین کپڑوں کا پہننا تو معلوم، اگر بندھے بندھانے پاتے تو انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے۔ پھولوں کا تو مذکور کیا، کچی کلیاں جو ٹہنیوں پر دیکھتا توڑ توڑ کر خاک پر پھینک دیتا۔
یہ احوال² تو شہر کے لوگوں کا تھا، اور راجا بیمار سا دن بدن زرد ہوا جاتا تھا۔ من ہارے ہوئے بے کل رہتا، بار بار چھاتی بھر آتی اور آنکھ آنسوؤں کی جھڑیاں لگاتی۔ راج کاج سے دل اٹھائے اکیلا بیٹھا رہتا۔ بھرا جہان اسے خالی معلوم ہوتا، کچھ اچھا نہ لگتا۔ دل میں خیال اس کا کر کے آنکھیں بند کر لیتا اور اس کے دھیان میں پہروں باتیں کر کے دل بے تاب کو تسلی دیتا۔ کبھی اس کو خیال میں سامنے³ کر کے کہتا "تم سختی دل سے دور کرو، ظاہر ہو⁴ مجھ غمگین کو دکھائی دو، تب مجھے تمہاری یاد نہ آئی، جیسی کی ویسی میں نے اب سزا پائی۔ کدورت اپنے دل سے صاف کرو، خدا کے واسطے ایک تقصیر میری معاف کرو۔ میں جیسا ہوں ویسی ہی مجھ سے بن آئی، تم اپنی بھلائی نہ چھوڑو غصہ جانے دو، دل میں رحم کر کے ادهر منہ موڑو۔"
یہ کہہ کر راجا کو غش آ گیا، منہ پر زردی چھا گئی، بدن پسینا پسینا ہو گیا، ہاتھ پاؤں سے حرکت جاتی رہی۔ اتنے میں چتر⁵ نام ایک چیری راجا کے پاس دوڑی آئی۔ یہ حالت دیکھ کر

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "تھے" نہیں ہے۔
2-انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "یہ تو احوال" ہے۔
3-انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "سامنھے" ہے۔
4- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "ہو کر" ہے۔
5- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "چتر کا" ہے۔

صفحہ 115
بے اختیار روئی اور پنکھا جھلنے لگی۔ جب کچھ ہوش اسے آیا، غفلت سے آنکھ کھول دی سر پر لونڈی کو روتے دیکھا، آہ کر کے بولا "تجھے کیا کام تھا جو تو ادھر آئی؟ میں کس آرام میں تھا، کیوں مجھے جگا کر بے چن کیا؟ پھر تو نے نئے سر سے یاد دلائی۔"
غم کی ایک کتاب جب اس نے کھولی تب وہ چتری لونڈی بولی "مہاراج! معلوم نہ ہوا کہ سکنتلا کو یک بیک راہ میں سے کوئی چھلاوہ تھا جو یوں چھل کر لے گیا، پھر ظاہر نہ ہوا کہ کیا ہو گئی؟"
تب راجا نے کہا "منیکا پری جو اس کی ماں تھی، اڑا کر لے گئی۔ جب اس نے اسے اس حالت سے دیکھا کہ ادهر میں نے منہ نہ لگایا اور بے مروتی سے پیش آیا۔ ہر چند وہ منت و زاری کس کس طرح جتا جتا کر اور یاد دلا دلا کر کہتی رہی، آنسوؤں کی ہر ایک آنکھ سے اس کی ندیاں بہتی رہیں، تب بھی میں نے غفلت سے کچھ پروا اس کے احوال پر نہ کی۔ ادھر منی کے دونوں چیلوں نے یہ حالت دیکھ، چھوڑ کر گھر کی راہ لی، مہر مادری سے اس ماہ لقا کو اس کی ماں نے اس بلا سے نجات دی۔"
چیری اس بھید سے آگاہ ہو کر بولی "اختیار کی باگ ہاتھ سے نہ دیجیے اور تھوڑے دنوں صبر کیجیے۔ امید قوی ہے کہ تمہارا اس کا ملاپ ہو گا۔ وہ تمہاری عاشق زار ہے اور تمہارے دام الفت میں گرفتار ہے۔ جس کی یہ حالت بیان کی، کیوں کر اسے بغیر تمہارے کل پڑے گی۔ جب تمہارے عشق میں اس کی بے قراری اور

1- نسخہ مطبوعہ نول کشور 1875ع اور انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "ما" ہے۔


صفحہ 116
نالہ و زاری اس کی ماں دیکھے گی کب اسے گوارا ہو گا کہ وہ¹ بسمل تیغ عشق کی تڑپ تڑپ² کر یوں جان دے۔ علاج اس جاں بلب آمدہ کا تمہارے لب جاں بخش سے کرے گی۔ خاطر پریشان کو جنع کیجئے اور جو میں نے خدمت عالی میں عرض کی ہے، وہ شدنی ہے، ہو جانیے۔"
وہ کہنے لگا "ایسی قسمت میری نہیں! میں یہاں خاک پر وہ وہاں افلاک پر۔ میرے اس کے زمین و آسمان ³ در میان ہے، ملاپ ممکن نہیں کہ ہو گا:

قطعہ
درد میرے دل سے سے کب یہ جائے گا
چین یک دم مجھ کو کیوں کر آئے گا
کاش تو جلدی نکل جا تن سے جی
ورنہ اب ایذائیں کیا کیا پائے گا
پھر چیری نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی "میں نہیں کہتی تم سے بات جھوٹھی، یہ کیوں کر مل گئی انگوٹھی، کب یہ پانی میں گری تھی؟ کس وقت ملاح نے پائی، پھر کہاں سے مہاراج کےہاتھ میں آئی؟"
اسے چترائی سے اس نے یوں سمجھایا اور اس الفت کے دیوانے

1- لفظ "وہ" نسخہ مطبوعہ نول کشور میں نہیں ہے۔
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "تڑپھ تڑپھ" ہے۔
3- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں عبارت اس طرح ہے:
"میرے اس کے فرق زمین و آسمان کا درمیان ہے۔"

صفحہ 117
نے یہ بھید انگوٹھی کا سن پایا۔ وہ جو برہ کے دریا میں ڈوبا ہوا تھا، اسی انگوٹھی سے یوں کہنے لگا "میں سمجھا تھا دنیا میں ایک میں ہی کم بخت ہوں پر تو بھی بڑی بے نصیب ہے۔ تجھے وہ معشوقیت سے ہاتھ میں رکھتی تھی، تو چھوٹ اس سے جدا ہوئی اور میں بھی¹ ڈھونڈتا ہوں کہ وہ میری آرام جاں کیا ہوئی؟ ہم دونوں کو پچھتاوا ہے۔ مجھے اس کی دوری نے مرنے کے نزدیک پہنچایا اور تیرے لیے یہ حلقہ تیرا بس گرداب ہے۔ کہاں مجھے ویسی صورت نظر آوے گی اور کب تو ویسا ہاتھ پاوے گی؟"
وہ بے حواسی میں دیوانہ سا ہے کل رہتا تھا اور جی میں جو کہتا تھا۔
اب سکنتلا کا احوال سنو! جب مینکا اسے وہاں سے اٹھا کر لے گئی، کشیپ² منی کے استھان میں جا کر اتارا، بود و باش اس کی وہیں مقرر کی، رات دن وہاں رہنے لگی۔ جب حمل کے دن پورے ہوئے، ایک لڑکا صاحب جمال پیدا ہوا اور اس کے سوئے طالع جاگے۔ بھرت نام اس لڑکے کا رکھا اور پرورش پانے لگا۔
جب کچھ ایک بڑا ہوا، منی نے ایک گنڈا بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا۔ گن اس میں یہ تھا کہ اس کے ماں باپ سوا کوئی اسے چھوئے، کالا سانپ ہو کر اسے ڈسے۔
یہاں کا تو یہ ماجرا، اور کتنے ایک دنوں کے بعد منیکا پری نے راجا اندر سے جا کر کہا " تم راجا دشمنت کو یہاں بلا بھیجو: وقت ملاقات کے سمجھا، سکنتلا کے احوال کی یاد دہی کر، ہاتھ

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "ہی" ہے۔ 2 - انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "کشپ منی" ہے۔

صفحہ 118
پکڑ ملاؤ۔ آپ کی توجہ سے آپس میں ان دونوں کا ملاپ یوں نظر آتا ہے۔"

راجا نے قبول کر اس کے بلانے کے لیے ماتل رتھ بان کو حکم کیا کہ تخت لے جا اور دشمنت کو ہماری طرف سے پیغام دے کر جلد سوار کر کے لے آ۔
ماتل بہ موجب اڑ کے¹ روانہ ہوا۔ جب وہاں سے راجا کی ڈیوڑھی پر پہنچا، وہ تو دکھ میں تھا کہ رتھ بان نے اہل کاروں اور عرض بیگیوں سے ظاہر کیا "مجھے راجا اندر نے بھیجا ہے، خبر کرو۔"
چوب داروں نے سنتے ہی راجا سے عرض کی "مہاراج! راجا اندر نے ماتل رتھ بان کو بھیجا ہے اور ایک خوبصورت تخت² واسطے آپ کی سواری کے لیے آیا ہے۔"
راجا نے وہیں بلا لیا۔ ماتل نے سلام کیا، تب راجا نے پہ پوچھا "کہو سب کے سکھ دینے والے راجا اندر خیر و عافیت سے رہتےہیں؟" اس نے صحت و سلامتی بیان کرکے عرض کی کہ مجھے مہاراج نے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ دیو ہم سے لڑتے ہیں، ہماری کمک کو آئیے اور انہیں سزا کو پہنچائیے۔
راجا نے اس کی خیر و عافیت پوچھی۔ پھر راجا اندر کی تعریف کرنے لگا "زہے نصیب ہمارے کہ راجوں کا راجا مہاراج ہمیں اس مہربانی سے یاد فرماوے! یہ محض بندہ نوازی ہے، وگرنہ ہماری کمک کے کب محتاج ہیں۔ جس بندے کو حکم کریں، ایک

1- نسخہ مطبوعہ نول کشور میں "کے" نہیں ہے۔
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں عبارت اس طرح ہے:
"اور ایک خوبصورت تحت آپ کی سواری کے واسطے لایا ہے۔"

صفحہ 119
دن میں ان کا کام تمام کر دے۔"
پھر اچھی اچھی پوشاک پہن کر، تمام ہتھیار بدن پر سج کر تخت پر بیٹھ، خدمت میں راجا اندر کی روانہ ہوا۔ جب آدھی راہ طے کر کے نصف آسمان تک پہنچا، ایک پہاڑ اچھا نظر پڑا۔ رتھ بان سے پوچھا "یہ کوہ بہ ایں شکوہ کون سا ہے اور کیا نام اس کا ہے¹؟" اس نے عرض کی "ہم کوٹ ایسے کہتے ہیں۔ اس کشیپ منی رہتےہیں۔"
راجا نے کشیپ منی کا نام سن کر اس سے کہا "تخت کو اس طرف پھیر، ہم ان کا درشن کریں گے۔"
وہ تخت اس طرف چلا۔ جب نزدیک جا پہنچا، تخت سے اتر وہاں کی سیر کرنے لگا۔ پھول رنگ بہ رنگ کے تمام اس پر کھلے ہوئے دیکھے، پانی چشموں سے جاری، درخت سب میوہ دار، ہر ایک ٹہنی پر جانور بول رہے اور چہچہے کر رہے۔
اس کے سوا اور ایک تماشا دیکھا کہ ایک لڑکا خوبصورت چھوئی سی عمر کا، شجاعت کے تمام آثار اس کی پیشانی سے روشن ہیں، شیر کے بچے سے کھیل رہا ہے۔ گردن و بازو اس کا پکڑ کر² زور کرتا ہے۔ اور دو تپشنیں اس کے ساتھ ساتھ ہیں، ہر چند وے منع کرتی ہیں وہ نہیں مانتا، کلا جبڑا اس کا چیر چیر کر دانت گنتا ہے۔
راجا کو اس کی بہادری سے تعجب ہوا اور جی میں محبت پیدا ہوئی۔ اپنے دل میں کہنے لگا "جیسے اپنے لڑکے کو دیکھ کر

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں عبارت اس طرح ہے:
"اور اس کا نام کیاہے؟"
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "پکڑ پکڑ" ہے۔

صفحہ 120
پیار آتا ہے، ویسی ہی اس لڑکے کی مجھے الفت ہوئی۔ اللہ نے مجھے بے اولاد رکھا، پرائے بیٹے کو حسرت سے دیکھتا ہوں۔"
پھر ان تپشنوں سے پوچھنے لگا کہ چھوٹی سی عمر اس کی اور یہ جرأت و دلاری! کس کا یہ بیٹا ہے؟ اس کے باپ کا کیا نام ہے؟"

بولیں "کیا کہیں اور کیا بتاویں۔ اس کے باپ کم بخت کا یہاں کوئی نام نہیں لیتا۔ ماں اس کی خوبصورت اور خوش سیرت، سر سے پاؤں تلک شرم و حیا! سو اس بے تقصیر کو اس کے باپ نے حمل سے بھی گھر میں نہ رکھا، بے عزتی سے نکال دیا۔"
یہ سن کر راجا کے جی میں شک ہوا اور فکر کے دریا میں ڈوب گیا۔ پوچھنے لگا کہ باپ تو اس کا گنہ گار ہے لیکن اس کی ماں کون ہے؟ اس کا احوال ظاہر کرو۔"
راجا نے جب یوں پوچھا، تپشنوں نے جواب دیا "اس بہادر کی ماں کا نام سکنتلاہے۔ جب راجا نے اسے نکال دیا تب اس کی ماں منیکا پری اسے اس احوال میں دیکھ کر وہاں سے یہاں لے آئی۔"
سنتے ہی جتنا شک جی میں تھا جاتا رہا۔ چھاتی بھر آئی اور جی میں کہنے لگا کہ منزل مقصود کو ہم پہنچے۔ بے اختیار ہو کر لڑکے کو گود میں اٹھا لیا اور چھاتی سے لگا کر تپشنوں سے کہا "جس کا نام زبان پر نہیں لاتیں¹ وہ گنہ کار میں ہی ہوں۔ جو کچھ قصور ہوا مجھ سے ہوا، اس بے تقصیر کا تقصیر وار میں ہوں۔ اب میری تقصیریں معاف کرو اور میرا آنا جا سناؤ اور اس آرام جان کو مجھ سے ملاؤ۔"
لڑکے کو گلے سے لگائے وہ یہ کہتا تھا۔ اور گنڈے کی تاثیر

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "نہیں لیتی" ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 121
سے ظاہر تھا کہ کوئی غیر ایسے اگر ہاتھ لگاتا تو وہ گنڈا اسے سانپ ہو کر ڈستا۔ اس سبب سے انہیں بھی یقین ہوا کہ یہ اس کا باپ ہے۔ وہ دوڑ کر سکنتلا کے پاس گئیں اور سارا وہ احوال بیان کیا اور ساتھ لائیں¹۔ ہر چند اس نے سن کر تغافل کی لیکن کشش محبت کی کھینچ لائی۔
راجا نے خجالت سے اس حجاب زدی کو دیکھا کہ درد فراق اس کے دل میں کارگر ہے اور احوال اس کا نوع دگر ہے؛ منہ اترا ہوا، بال سر کے چکٹے ہوئے، کپڑے بدن کے میلے۔
وہ جو اس صورت سے نظر آئی، زار زار رونے لگا اور وہ شرم سے سر نہوڑائے ہوئے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اس وقت راجا کو اور بات کچھ بن نہ آئی، پاؤں پر گر پڑا۔ سکنتلا بولی "کیوں مجھے گنہ کار کرتے ہو؟" آپ بھی رونے لگی اور سر کو پاؤں پر سے اٹھا کر کہا "مہاراج! اب تمہیں کیوں کر ہوش آیا؟"
راجا نے کہا "تقصیر میری معاف ہو! کچھ مجھے معلوم نہیں کہ مجھے کیا ہو گیا تھا جو میں نے بے نالائق باتیں کیں، لیکن اتنا دریافت ہوتا ہے کہ یہ انگوٹھی جب میں نے پائی تب مجھے سدھ بھولی ہوئی یاد آئی۔ تب سے جان وبال تن ہے، ایک دم کی دوری ہزار طرح کا رنج و محن ہے۔ جو کچھ مجھ سے گنہ ہواہے، معلوم نہیں ہوتا کیا اسرار تھا! خفگی جانے دو، میں اپنے گناہ کا آپ اقرار کرتا ہوں، اس سے در گزرو، جو جو بے مروتیاں اور سختیاں میں نے کیں ہیں، لطف و مہربانی سے انہیں بھول جاؤ، خاطر میں ہر گز نہ لاؤ۔ مجھے سخت پشیمانی حاصل ہوئی ہے۔ پس اب

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "لے آئیں" ہے۔
2- نسخہ مطبوعہ نول کشور 1875ء میں "اور" نہیں ہے۔

صفحہ 122
رنجیدگی دور کرو، میرے دل غمگین کو مسرور کرو۔" یہ كہا اور ہزار ہزار منت و سماجت کی۔
سکنتلا نے کہا "مہاراج! گناہ تمہارا کچھ نہیں، یہ میری قسمت کی برائی ہے۔" آپس میں وے دونوں عاشق و معشوق یے باتیں کر رہے تھے جو کشیپ¹ منی نے راجا کے آنے کی خبر سن کر بلایا۔ وہ لڑکے کو اپنے گلے سے لگائے ہوئے جب پاس گیا، پہلے ڈنڈوت کر کے قدم لیے، پھر ہاتھ باندھ کر گناہ گاروں کی طرح آگے کھڑا رہا۔ سکنتلا بھی سر نیچے کیے ہوئے حاضر ہوئی۔ انہوں کی طرف غور و تامل سے دیکھ کر منی نے کہا کہ "راجا! یہ اپنے خاندان کی بہت نیک ہے اور یہ بیٹا اس کے ہاں اچھی ساعت میں پیدا ہوا ہے۔ لچھن اس میں سب خوب ہیں اور تم بھی نیک ذات اور نیک صفات ہو، سنجوگ تمہارا نیک ہوا ہے۔ جب اس نے یہ خوبیاں بیان کیں، تب راجا نے ہاتھ جوڑ کر کہا "میرے دل میں جو گمان بد اور خیال² ہوا تھا سبب اس کا مجھے کچھ دریافت نہیں ہوتا، اس سے مجھے آگاہ کرو، کیا باعث اس کا تھا؟ اور تم سے کچھ چھپا نہیں، گذشتہ و حال و آئندہ کا سب احوال تم پر روشن ہے۔ اور میں تم سے اس لیے پوچھتا ہوں کہ میں نے گندھرو بیواہ³ کر کے سر رشتہ الفت کا بڑھایا کہ کبھی تار دوستی کا نہ ٹوٹے۔ کیا سبب ہے کہ برعکس اس کے مجھ سے عمل میں آیا؟ خبر کچھ نہ رہی، اپنے قول و اقرار پر میں نہ رہا جب یہ یار وفادار میرے گھر میں آئی، سوز و گداز اپنا شمع کی مانند

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "کشپ" ہے۔
2۔ انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "خیال فاسد" ہے۔
3- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "گندھرب بواہ" ہے۔

صفحہ123
زبان پر لائی، تب بھی مجھے کچھ پروا نہ ہوئی اور اس کے جدا ہونے سے بھی کچھ خیال نہ گذرا کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آئی تھی اور کدھر گئی؟ پھر دیکھتے ہی انگوٹھی کے کیوں کر یاد آئی؟ پہ بڑا تعجب ہے؟"
راجا نے جب اپنے دل کا یہ شبہ بیان کیا، تب منی نے ہنس کر جواب دیا "سكنتلا کو منیکا جس وقت یہاں لائی تھی، اسی آن سوچ کر میں نے دھیان کیا تو پردہ اس راز کا تمام مجھ پر کھل گیا۔ دربارسا منی نے غصے سے سکنتلا کو سراپا تھا کہ راجا کو تیری طرف سے ایسی غفلت ہووے گی کہ تجھے بھول جاوے گا، بہت دنوں تک روے گی۔
غرض جو کچھ اس کے حق میں بد دعا دی تھی، اس کے آثار سب کچھ نظر آئے۔ اس میں تقصیر تمہاری کچھ نہیں۔ اور وہ سراپ سکھیوں نے سنا تھا، سکنتلا کو اس سے خبر نہ تھی اور انہوں نے بھی مناسب وقت نہ جانا جو کہتیں¹ مگر درباسا رکھی² کے ہاتھ پاؤں پڑ کے انہوں نے بہت عاجزی اور منت و زاری کی، تب اس منی کے جی میں کچھ رحم آیا اور یہ بھید بتایا کہ راجا اس کی طرف سے غفلت کرے گا۔ جب انگوٹھی اپنی پاوے گا تب اس کو سکنتلا کی بھولی ہوئی یاد پھر آوے گی لیکن کتنی مدت یہ ایذائیں اٹھائے گی۔ یہ کہہ کر وہ منی چلا گیا تھا اور اس کی بد دعا نے یہ اثر کیا تھا کہ تم نے دل سے اس کی یاد بھلائی تھی اور انگوٹھی لیتے ہی سدھ آئی۔ کچھ اور تم دل میں

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "کہتیاں" ہے۔
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "رکھ" ہے۔
3- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "ملتے" ہے۔

صفحہ 124
اندیشہ نہ کرو، میری بات یقین جانو۔ اور کن منی نے بھی بدسلوکی تمہاری چیلوں کی زبانی سن کر تمہیں تقصیروار نہ ٹھہرایا، سراپ درباسا منی کا دھیان میں لایا۔
تمہاری بدسلوکی کی باتیں منیکا سے سن کر راجا اندر نے تمہیں بلایا ہے۔ منیکا نے عرض کی تھی، تم راجا دشمنت کو بلا کر سکنتلا کو ملا دو۔ سو یوں اتفاق ہوا، اب سکنتلا کو اور اپنے بیٹے کو لے کر گھر پھر¹ جاؤ۔ خوشی و خرمی سے عیش و عشرت کرو۔"
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک وکیل راجا اندر کا وہاں پہنچا - اظہار کیا کہ راجا اندر نے کہا ہے جوہمیں منظوم تھا وہ مقصد راہ میں پورا ہوا، اب تم اپنے مکان کی طرف پھر جاؤ۔
یہ سنتے² ہی ڈنڈوت کر کے اور تخت پر سکنتلا اور لڑکے کو بیٹھا کے آپ سوار ہوا اور ساتھ لے کر انہیں گھر آیا۔
اس طور آلان مشتاقوں کی آپس میں ملاقات ہوئی، طالع سوتے ہوئے دونوں کے جاگے، دکھ درد ان کے دلوں سے یک لخت بھاگے، دونوں خوش و خرم ہوئے۔ سکنتلا رانی ہوئی اور راجا اپنے راج میں حکمرانی کرنے لگا، تمام رعیت ان کی خوشی سے شاد ہوئی، وہ نگری پھر سر نو آباد ہوئی۔ سب مطالب و مقاصد ان کے دلوں کے بر آئے، اپنے³ حسن و جوانی کے خوب مزے اٹھائے۔

1- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں "پھر" نہیں ہے۔
2- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں عبارت اس طرح ہے:
"اور تخت پر سکنتلا اور لڑکے کو بٹھا، آپ بھی سوار ہو، ساتھ لے کر انہیں گھر آیا۔"
3- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں "اپنے اپنے" ہے۔

صفحہ 125
اب پہ کہانی تمام ہوئی، لفظ¹ معانی سے بخوبی سر انجام ہوئی۔ از بس کہ زبان ریختہ میں لکھی، سال ہجری کے موافق ریختہ² تاریخ ہوئی:

بیت³
سکنتلا کا ہے احوال اس میں بس مذکور
سکنتلا کے اسے نام سے کیا مشہور

1- انتخاب مطبوعہ فورٹ ولیم کالج میں ایک فقرہ زائد ہے۔ پوری عبارت اس طرح ہے۔
"اب یہ کہانی یہاں تمام ہوئی۔ اے جوان! لفظ و معنی سے خوب سرانجام ہوئی۔"

2- لفظ ریختہ کے اعداد 1215 ہیں۔ اس لحاظ سے کتاب 1215ھ شد مطابق 1801ع میں ترجمہ ہوئى (مرتب)

3- انتخاب فورٹ ولیم کالج میں آخری شعر کی صورت بدلی ہوئی ہے:
سکنتلا کا جو احوال اس میں ہے مذکور
سکنتلا کے اسے نام سے کیا مشہور
 
Top