سچ، شاعر پاگل لکھتا ہے غزل نمبر 119 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فعلن فعلن فعلن فعلن
الف عین سر کچھ نئے اشعار شامل کئے ہیں اور مقطع بھی تبدیل کیا ہے۔

سچ، شاعر پاگل لکھتا ہے
ہے عقل سے پیدل لکھتا ہے

وہ جُرم ہے کہتا رِشوت کو
وہ سُود کو دلدل لکھتا ہے


وہ جُھوٹے قاضی کے گھر کو
مقتول کا مقتل لکھتا ہے


اکثر وہ اندھیری راتوں کو
محبوب کا آنچل لکھتا ہے


وہ کالی گھٹا کو محبُوبہ
کی آنکھ کا کاجل لکھتا ہے

عاشق تو ہے جانے پھر کیوں
وہ حُسن کو مہمل لکھتا ہے


منطق ہی نِرالی ہے اس کی
بارش کو بادل لکھتا ہے

آوارہ نہیں ہے پر خود کو
آوارہ بادل لکھتا ہے


لِکھ لیتا ہے دِل کی دھڑکن
پیشانی کے بل، لکھتا ہے

کہتا ہے بہاروں کو پت جھڑ
اور شہر کو جنگل لکھتا ہے

وہ چاندنی راتوں کو، روشن
دِن سے بھی افضل لکھتا ہے

کہتا ہے رہبر کو مُرشد
سورج کو مشعل لکھتا ہے

کہتا ہے موت خموشی کو
جیون کو ہلچل لکھتا ہے

کچھ سحر ہے اُس کے لفظوں میں
اشعار وہ امثل لکھتا ہے

وہ فکریں شعر میں ڈھالتا ہے
احساس وہ صندل لکھتا ہے

کیا سوچتا رہتا ہے جانے
وہ دِل میں ہر پل لکھتا ہے


الفاظ ادُھورے ہیں اُس کے
پر بات مکمل لکھتا ہے

بیزار ہیں لوگ بہت اُس سے
وہ پِھر بھی پاگل لکھتا ہے

ہے نام اُس شاعر کا شارؔق

جو شعر مُسلسل لکھتا ہے
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین سر
فعلن فعلن فعلن فعلن
الف عین سر کچھ نئے اشعار شامل کئے ہیں اور مقطع بھی تبدیل کیا ہے۔

سچ، شاعر پاگل لکھتا ہے
ہے عقل سے پیدل لکھتا ہے

وہ جُرم ہے کہتا رِشوت کو
وہ سُود کو دلدل لکھتا ہے


وہ جُھوٹے قاضی کے گھر کو
مقتول کا مقتل لکھتا ہے


اکثر وہ اندھیری راتوں کو
محبوب کا آنچل لکھتا ہے


وہ کالی گھٹا کو محبُوبہ
کی آنکھ کا کاجل لکھتا ہے

عاشق تو ہے جانے پھر کیوں
وہ حُسن کو مہمل لکھتا ہے


منطق ہی نِرالی ہے اس کی
بارش کو بادل لکھتا ہے

آوارہ نہیں ہے پر خود کو
آوارہ بادل لکھتا ہے


لِکھ لیتا ہے دِل کی دھڑکن
پیشانی کے بل، لکھتا ہے

کہتا ہے بہاروں کو پت جھڑ
اور شہر کو جنگل لکھتا ہے

وہ چاندنی راتوں کو، روشن
دِن سے بھی افضل لکھتا ہے

کہتا ہے رہبر کو مُرشد
سورج کو مشعل لکھتا ہے

کہتا ہے موت خموشی کو
جیون کو ہلچل لکھتا ہے

کچھ سحر ہے اُس کے لفظوں میں
اشعار وہ امثل لکھتا ہے

وہ فکریں شعر میں ڈھالتا ہے
احساس وہ صندل لکھتا ہے

کیا سوچتا رہتا ہے جانے
وہ دِل میں ہر پل لکھتا ہے


الفاظ ادُھورے ہیں اُس کے
پر بات مکمل لکھتا ہے

بیزار ہیں لوگ بہت اُس سے
وہ پِھر بھی پاگل لکھتا ہے

ہے نام اُس شاعر کا شارؔق

جو شعر مُسلسل لکھتا ہے
شارق بھائی! نئے شعر نیچے نئے مراسلے میں لکھو۔ پہلے والے (جس میں استاد صاحب اصلاح کر چکے ہیں، اُس) میں تدوین مت کرو۔
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر کچھ نئے اشعار شامل کئے ہیں اور مقطع بھی تبدیل کیا ہے۔
وہ جُھوٹے قاضی کے گھر کو
مقتول کا مقتل لکھتا ہے

وہ کالی گھٹا کو محبُوبہ
کی آنکھ کا کاجل لکھتا ہے

عاشق تو ہے جانے پھر کیوں
وہ حُسن کو مہمل لکھتا ہے

لِکھ لیتا ہے دِل کی دھڑکن
پیشانی کے بل، لکھتا ہے

کہتا ہے بہاروں کو پت جھڑ
اور شہر کو جنگل لکھتا ہے

وہ چاندنی راتوں کو، روشن
دِن سے بھی افضل لکھتا ہے

کہتا ہے رہبر کو مُرشد
سورج کو مشعل لکھتا ہے

کہتا ہے موت خموشی کو
جیون کو ہلچل لکھتا ہے

کچھ سحر ہے اُس کے لفظوں میں
اشعار وہ امثل لکھتا ہے

وہ فکریں شعر میں ڈھالتا ہے
احساس وہ صندل لکھتا ہے

کیا سوچتا رہتا ہے جانے
وہ دِل میں ہر پل لکھتا ہے

ہے نام اُس شاعر کا
شارؔق
جو شعر مُسلسل لکھتا ہے
 
Top