سُر، ساز، وجد و رقص (دوسرا حصہ)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جیلانی

محفلین
> ماہنامہ منہاج القرآن > جون 2009 ء تحریر : مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

JELLANI:redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose:


آج کے دور میں قرآن و حدیث سے ناآشنا لوگ اور احکامات کی علت و وجوہ سے نابلد احباب کئی جائز چیزوں پر بھی فوراً ناجائز اور حرام کا حکم لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ میں موجود متعلقہ موضوع کے حوالے سے اثبات پر مبنی احادیث سے بھی عمداً چشم پوشی کرتے ہیں۔ وہ موضوعات جو اکثر ان احباب کے فتوؤں کی زد میں رہتے ہیں اُن میں سے ایک موضوع سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص بھی ہے۔ کچھ شرائط اور علل کی بناء پر سُر، ساز اور موسیقی جائز ٹھہرتی ہے اور اگر وہ شرائط و وجوہات نہ پائی جائیں تو یہ موسیقی ناجائز ہے۔ محترم مفتی صاحب نے اپنے اس تفصیلی مضمون میں جن موضوعات پر مدلل جوابات دیئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں مثلاً سُر، ساز اور وجد و رقص کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں۔ ۔ ۔ ؟ کیا موسیقی کا سننا جائز ہے۔ ۔ ۔ ؟ بعض اوقات سُر اور ساز سے لوگوں پر جذب کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ وجد و رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس بارے شریعت کے کیا احکامات ہیں۔ ۔ ۔؟ اسی طرح آج کل دف اور موسیقی کے ساتھ نعت بھی پڑھنے کا رواج عام ہے کیا سُر، ساز اور موسیقی کے ساتھ نعت شریف کا پڑھنا جائز ہے۔ ۔ ۔؟ اور اس طرح کے کئی سوالات اور دیگر کئی موضوعات کے متعلق اصولی وفنی معلومات قرآن و احادیث کی روشنی میں بیان کیں۔ اس مضمون کے پہلے حصے میں (اشاعت مجلہ ماہ مئی 09ء) میں متعدد قرآنی آیات و احادیث کی روشنی میں سُر، ساز اور موسیقی پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ دوسرا حصہ نذرِ قارئین ہے :

مز مار / سُر، ساز

عن ابی موسی ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال له يا ابا موسیٰ لقد اعطيت مز مارا من مزامير ال داؤد.


’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابو موسیٰ! تجھے داؤد علیہ السلام کا ساز و آواز دیئے گئے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)


شعر و شاعری


1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے سمت مشرق سے دو مرد آئے۔ دونوں نے خطاب (گفتگو) کیا۔ لوگوں نے ان کا بیان پسند کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ مِنَ الْبِيَانِ لَسِحْرًا. (بخاری)

’’بلاشبہ کچھ بیان جادو کے سے ہوتے ہیں‘‘۔



2۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان من الشعرحکمة.(بخاری)

’’بے شک کچھ اشعار حکمت سے پُر ہوتے ہیں‘‘۔


لبید کی شاعری کی تعریف



1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَصْدَقُ کَلِمَةٍ قَالَهَا اَلشَّاعِرْ کَلِمَة لَبِيْد.

’’سب سے بڑھ کر سچھی بات جو کسی شاعر نے کہی لبید کا یہ کلام ہے :


اَلاَ کُل شَئٍی مَاخَلاَ اللّٰهُ بَاطِل.


’’سنو اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے‘‘۔ (متفق علیہ)


پورا کلام یوں ہے :


اَلاَ کُل شَئٍی مَاخَلاَ اللّٰهُ بَاطِل
وَکُلُّ نَعِيْم لَا مُحَالَهَ زَائِل

نَعِيْمُکَ فِی الدُّنْيَا غَرُوْرٌ وَ حَسَرَةٌ

وَعَيْشُکَ فِی الدُّنْيَا مَحَال وَبَاطِل.

’’سن لو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فانی ہے اور ہر نعمت کو لازمی طور پر ختم ہونا ہے۔ دنیا میں تیری نعمت غرور و حسرت ہے اور دنیا میں تیری دائمی زندگی ناممکن و باطل ہے‘‘۔ (متفق علیہ / باضافہ یسیرۃ)


2۔ عمرو بن الشرید اپنے والد (شرید) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا۔ فرمایا :
هل معک من شعر امية بن ابی الصلت شئی قلت نعم قال هيه.

’’تیرے پاس امیہ بن ابی لصلت کا کوئی شعر ہے؟ میں نے عرض کی جی حضور! فرمایا سناؤ میں نے ایک شعر سنا دیا۔ فرمایا : اور سناؤ، میں نے ایک اور شعر سنا دیا فرمایا : اور سناؤ یہاں تک کہ میں نے آپ کو 100 اشعار سنا دیئے‘‘۔ (مسلم)



3۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
غزوہ خندق کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مٹی اٹھا کر خندق سے باہر لائے یہاں تک کہ پیٹ مبارک غبار سے اٹ گیا۔ ساتھ ہی یہ اشعار پڑھتے۔

وَاللّٰهِ لَوْلَا اللّٰهُ مَا اهْتَدَيْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا

’’خدا کی قسم اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز ادا کرتے‘‘۔

فَاَنْزِلْنَ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا
وَثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقيْنَا

’’سو ہم پر سکون نازل فرما اور دشمن سے آمنا سامنا ہو تو ہمارے قدم جما دے‘‘۔

اِنَّ الْاُوْلیٰ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا
اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَةً اَبيْنَا

’’ان لوگوں نے ہم پر حملہ کیا ہے۔ جب انہوں نے فتنہ کا ارادہ کیا ہم نے انکار کیا۔
ابینا۔ ابینا کا لفظ بلند آواز سے فرماتے‘‘۔ (متفق علیہ)


3۔ حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ (غزوہ احد) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلی مبارک زخمی ہوگئی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ شعر پڑھا۔
هَلْ اَنْتَ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمِيْت
وَفِی سَبِيْلِ اللّٰه مَا لَقِيْت

’’تیری ایک انگلی ہی تو زخمی ہوئی ہے اور یہ صدمہ اللہ کی راہ میں تجھے پہنچا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)


4۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بنی قریظہ سے جنگ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کے خلاف شعر کہو۔ جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔ اور یونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کرتے۔
اَللّٰهُمَّ اَيِّدْه بِرُوْحِ الْقُدُس.

’’اے اللہ روح القدس (جبریل علیہ السلام) سے اس کی مدد فرما‘‘۔ (متفق علیہ)



5۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سیدنا حسان بن ثابت سے فرمایا کرتے :
اُهْجُوْا قَرَيْشًا فَاِنَّه اَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ رَشْقِ الْنَبل.

’’قریش کی ہجو کرو! یہ ان پر تیر اندازی سے زیادہ سخت ہے‘‘۔ (مسلم)



6۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا حسان ثابت رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے :
لاَ يَزَالُ يُؤَ يِّدُکَ مَانَا فحت عَنِ اللّٰهِ وَرَسُوْله.

’’جب تک تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے ہو، روح القدس (جبریل علیہ السلام) تمہاری مدد و تائید میں رہتے ہیں اور یہ بھی فرمایا :


هَجَاهُمْ حَسَّان فَشَفٰی وَاشْتَفٰی.


’’حسان (رضی اللہ عنہ) نے دشمنوں کی ہجو کر کے مسلمانوں اور خود اپنے دل کو ٹھنڈا کیا‘‘۔ (مسلم)


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے مہاجرین و انصار (صحابہ کرام) خندق کھودتے اور مٹی باہر منتقل کرتے اور یہ اشعار پڑھتے۔


نَحْنُ اَلَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدًا

عَلَی الْجَهَادِ مَابَقِيْنَا اَبَدًا

’’ہم لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بھر جہاد کرنے کی بیعت کی ہے‘‘۔


جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے :


اَللّٰهُمَّ لَا عَيْشَ اِلَّا عَيْشَ الْاٰخِرَة
فَاغْفِرِ الْاَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرة

’’اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، سو انصار و مہاجرین کو بخش دے‘‘۔ (متفق علیہ)


7۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شعر کی مذمت ان الفاظ میں کی ہے :
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَO أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَO وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَO إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَO (الشعراء : 24 تا 27)

’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیںo کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعراء) ہر وادئ (خیال) میں (یونہی) سرگرداں پھرتے رہتے ہیں (انہیں حق میں سچی دلچسپی اور سنجیدگی نہیں ہوتی بلکہ فقط لفظی و فکری جولانیوں میں مست اور خوش رہتے ہیں)o اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیںo سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدح خواں بن گئے) اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعے اسلام اور مظلوموں کا دفاع کیا بلکہ ان کاجوش بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)، اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ (مرنے کے بعد) کونسی پلٹنے کی جگہ پلٹ کر جاتے ہیںo‘‘۔


معلوم ہوا کہ شیطان صفت، شعراء کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر وہ شعراء جو ایماندار اور نیک صالح کردار ہیں، نہ وہ گمراہ نہ ان کے پیروکار گمراہ، نہ ان کی شاعری گمراہ۔ لہذا ہر گانا نہ معیوب ہے نہ منع۔


سیدنا کعب بن مالک انصاری خزرجی دربار رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معروف شاعر تھے۔ ان کے درج بالا سوال کے جواب میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


اِنَّ الْمُوْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِه وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِيَدِه لَکَاَنَّمَا ترمونهم به نضح النبل.


’’مومن اپنی تلوار (اسلحہ) اور زبان دونوں سے جہاد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم (اپنے اشعار سے) گویا ان (دشمنوں) پر تیر برسا رہے ہو‘‘۔ (شرح السنہ / استیعاب لابن البر۔ مشکوۃ ص 410)



8۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
اِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا وَاِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جهْلًا وَاِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمًا وَاِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عَيَالًا.

’’بعض بیان جادو کے سے ہوتے ہیں، کچھ علم جہالت کے سے ہیں (جو دنیا کے کام کے نہ آخرت کے) اور بعض اشعار حکمت کا خزانہ ہوتے اور بعض گفتگو و بال جان ہوتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)


بقول سعدی


علمی کہ راہ حق نہ نماید جہالت است

شاعر اسلام۔ منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر


1۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَضَعُ لِحَسَّانٍ مِنْبَرًا فِی الْمَسْجِدِ يَقُوْمُ عَلَيْهِ قَائِمًا يُفَاخِرُ عَنْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم اَوْيُنَا فِحُ وَيَقُوْلُ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم اَنَّ اللّٰهَ يُؤَيِّدُ حَسَّان بِرُوْحِ الْقُدس مانا فح اَوْ فَاخَرَ عَنْ رَسُوْلُ اللّٰهَ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر رکھتے جس پر کھڑے ہو کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف و تعریف یا مخالفین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اللہ تعالیٰ روح القدس (جبریل) علیہ السلام کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک یہ حضور کا دفاع یا آپ کی تعریف و توصیف کرتے ہیں‘‘۔ (بخاری)


گانے میں احتیاط


1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک (حدی خوان دوران سفر سریلی آواز میں ایسا گانا گانے والا جس سے اونٹ مست ہو جاتے تھے) جن کا نام تھا انجشہ (خوبصورت سریلی آواز والے) تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انجشہ ذرا ٹھہر جاؤ! آبگینے (شیشے) توڑ نہ دینا۔ (کمزور دل والی جذباتی ہمراہی مستورات کے جذبات کا خیال رکھنا)‘‘۔ (متفق علیہ)

2۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور شعر و شاعری کا ذکر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
هُوَ کَلَامٌ حَسَنُه حَسَنٌ وَقَبِيْحُه قَبِيْحٌ.

’’شعر (حمد، نعت، غزل، نظم، مرثیہ، مدح، گیت، گانا وغیرہ) کلام ہے، اچھا ہے تو اچھا، برا ہے تو برا‘‘۔

(دار قطنی، شافعی، بحوالہ مشکوۃ ص 411)

گھٹیا اور فحش شعر و شاعری کی مذمت

گھٹیا، باطل، فحش، جھوٹ پر مشتمل شعر و شاعری ہو یا نثر، کلامِ مذموم ہے۔ قرآن و سنت میں اسی کی مذمت کی گئی ہے۔



1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
ہم لوگ مدینہ منورہ سے باہر عَرج نامی بستی سے دوران سفر گزر رہے تھے اچانک سامنے سے ایک شاعر صاحب اشعار گنگناتے تشریف لا رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

خُذُوْا اَلشَّيْطَان. ’’اس شیطان کو پکڑو‘‘!۔ یا یہ فرمایا اِمْسِکُوْا اَلشَّيْطَان.’’اس شیطان کو روکو‘‘!۔


لان يمتلی جوف رجل قيحا خير من ان يمتلی شعرا.


’’آدمی کا پیٹ پیپ سے بھرنا اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھرے‘‘۔ (مسلم)



2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْغِنَاءُ يَنْبِتُ النِّفَاق فِی الْقَلْبِ کَمَا يَنْبِتُ الْمَآءُ اَلزَّرْعَ.

’’گانا دل میں نفاق ایسے اگاتا ہے جیسے پانی فصل / کھیتی‘‘۔ (بیہقی، شعب الایمان)



3۔ نافع کہتے ہیں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ سفر میں تھا۔
فَسَمِعَ مِزْمَارًا فَوَضَعَ اِصْبَعِيْهِ فِی اُذُنَيْهِ وَنَاَعَنِ الطَّرِيْقِ اِلَی الْجَانِبِ الْاٰخر.

’’انہوں نے ساز بجنے کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور راستے سے ایک طرف ہوگئے‘‘۔


دور جا کر مجھے فرمایا : نافع! آواز آ رہی ہے؟ میں نے عرض کی نہیں۔ تو اپنے کانوں سے انگلیاں اٹھائیں۔ فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا فسمع صوت يراع فصنع مثل ماصنعت. آپ نے ساز کی آواز سنی اور ویسا ہی کیا جیسا میں نے کیا۔ (احمد ابوداؤد)


توجیہہ و تطبیق

اسلامی ہدایات و تعلیمات کا طرہ امتیاز توازن و اعتدال ہے، نماز حکم شرعی ہے فرض ہے مگر ایک حد تک یہاں تک کہ طلوع، غروب و استواء کے وقت نماز ادا کرنا گناہ و حرام ہے۔ ۔ ۔ زکوۃ و خیرات فرض ہے، نیکی ہے، حکم شرعی ہے مگر ایک حد تک۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :


وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًاO (الفرقان : 67)


’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہےo‘‘۔


دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے مال خرچ کرو! مگر یہاں بھی حد اعتدال سے نہ بڑھو! ارشاد ہوا :


وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًاO (بنی اسرائيل 17 : 29)


’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑےo‘‘۔


اسی طرح ارشاد فرمایا :


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO (الجمعة : 62 : 9)


’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہوo‘‘۔


ساتھ ہی فرمادیا :


فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَO (الجمعة 62 : 10، 11)


’’ پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤo اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہےo‘‘۔


آپ نے دیکھا کبھی کاروبار چھوڑنا عبادت اور کبھی مسجد سے نماز ادا کر کے باہر آنا اور کاروبار کرنا عبادت کہ دونوں خالق و مالک کے حکم ہیں، جن کی تعمیل عبادت ہے۔ اس کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر سمجھدار کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔


وجد و رقص

اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اللہ والوں کے عشق و محبت کی باتیں سن کر دوسروں پر حال طاری ہو جاتا ہے۔ جذب کی کیفیت آ جاتی ہے۔ یہ کیفیت انسانوں پر ہی نہیں حیوانوں اور جمادات و نباتات پر بھی طاری ہو جاتی ہے۔ جو شخص اس حال کے طاری ہونے اور اللہ کے عشق و محبت میں رجد و رقص کرنے کا انکار کرے یا شرعاً ناجائز کہے، وہ ناجائز ہونے کے شرعی دلیل پیش کرے۔ جائز ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ شریعت میں ممانعت نہیں۔


اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجزن ہے۔ یہ محبت جب پورے شباب پر ہو تو جذب و کیف کی کیفیت طاری ہونا انہونی بات نہیں۔ پہاڑ پتھر اور خشک لکڑیاں، اونٹ، بکرے اور دیگر جانور وجد میں آتے اور آسکتے ہیں۔

جانوروں پر حال و وجد کی کیفیت


1۔ حضرت عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ
قرب لرسول الله صلی الله عليه وآله وسلم بدنات خمس اوست فطفقن يزدلفن اليه بايتهن يبدا. . . الخ

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پانچ یا چھ اونٹ پیش کئے گئے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہونا شروع کر دیا کہ دیکھیں آپ کس کو پہلے ذبح کرتے ہیں‘‘۔ (سنن ابو داؤد، بحوالہ مشکوۃ ص 232)


سر بوقت ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے
کیا نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے

دیکھا جانور بھی آقا علیہ السلام کی محبت سے سرشار رقص کرتے، وجد کرتے اور محبوب کے ہاتھوں ذبح ہونے کی آرزو کر رہے ہیں۔


2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم اذا خطب استند الی جذع نخلة من سواری المسجد.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے وقت کھجور کے ستون سے ٹیک لگا لیتے‘‘۔


فلما صنع له المنبر فاستوی عليه صاحت النخلة التی کان يخطب عندها حتی کادت ان تنشق.


’’جب آپ کے لئے منبر بنایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر چڑھ گئے، وہ کھجور کا ستون دھاڑیں مار مار کر رویا جس سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لگتا تھا پھٹ جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اتر کر اس کے پاس تشریف لائے اور اسے سینے سے لگایا‘‘۔


فجعلت تان انين الصبی الذی يسکت حتی استقرت.


’’وہ اس بچے کی طرح رو رہا تھا جسے چپ کرایا جائے یہاں تک کہ اسے سکون آگیا‘‘۔ جابر فرماتے ہیں وہ اس ذکر کی وجہ سے رویا جو سنتا تھا‘‘۔ (بخاری)


علامہ فرماتے ہیں :


من چہ گویم از تولایش کہ چیست
خشک چوبے در فراق او گریست

’’میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی کیا بات کروں کہ وہ کیا ہے؟ سرکار کی جدائی میں تو خشک لکڑی بھی روئی ہے‘‘۔
جمادات و حیوانات پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا یہ اثر ہوتا ہے تو انسان پر بھلا کیوں نہ ہوگا۔ لہذا جذب و کیف کا غلبہ ہو، سرکار کا تصور قلب و نظر میں ہی نہیں بلکہ انسان کے تمام بدن پر غالب ہو اور آدمی بیخودی میں وجد کرنے لگے تو اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے اور کس دلیل شرعی سے اسے حرام وناجائز کہا جاسکتا ہے؟ بقول اعلیٰ حضرت قدس سرہ

بیخودی میں سجدۂ در یا طواف
جو کیا اچھا کیا پھر تجھ کو کیا؟

(جاری ہے)
سُر، ساز، وجد و رقص (دوسرا حصہ)
> ماہنامہ منہاج القرآن > جون 2009 ء تحریر : مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

JELLANI:redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose:


 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top