سَبۡعًا مِّنَ الۡمَ۔ثَانِىۡ: ایک مزید زاویہ

ابن آدم

محفلین
سوره الحِجر کی آیت ٨٧ میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں
اور ہم نے تم کو مثانی میں سے سات اور عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے (٨٧)
اس آیت کے متعلق مختلف آرا پیش کی جاتی ہیں،جن میں سے نمایاں درج ذیل ہیں:
١. سبع طوال یعنی سات طویل سورتیں
٢. طوال، مئین، مفصلات کے علاوہ دیگر سورتیں
٣. سات امور جن کا قرآن کریم میں بار بار ذکر ہوا ہے
٤. پورے قرآن کے مکی اور مدنی سورتوں پر مشتمل سات گروپ
۵. سوره فاتحہ کی سات آیتیں
سورۃالحجر ایک مکی سورت ہے جب کہ قرآن کریم کی سات طویل سورتوں میں سے اکثریت مدنی سورتوں کی ہے، چنانچہ اس آیت کے نزول کے وقت مسلمان سبع طوال کو تو اس آیت سے متصف نہیں کر سکتے تھے۔ دوسری رائے کے مطابق یہ وہ سورتیں ہیں جو طوال، مئین، مفصلات کے علاوہ ہیں اور جن کو زبور کا قائم مقام مانا جاتا ہے تاہم وہ گنتی میں سات سے زیادہ ہیں. لہٰذا سبع من المثانی میں یہ بات پھر خود وضاحت طلب ہو جاتی ہے کہ ان میں سے کون سی سورتیں مراد لی گئی ہیں اور کیوں، مزید یہ کہ سورتوں کی اس تقسیم کا اعلان تو تبھی ہوسکتا ہے کہ جب تمام قرآن نازل ہوچکا ہو, جو کہ ظاہر ہے کہ سورہ الحجر کے نزول کے وقت نہیں ہوا تھا۔

سوره الزمر آیت ٢٣ میں کیونکہ قرآن کریم کے لئے مثانی کا لفظ استعمال ہوا ہے تو سورہ الحجر کی اس آیت میں بھی بعض لوگوں نے مثانی کے لفظ کو پورا قرآن مانا ہے حالانکہ اسی آیت میں قرآن کریم کا ذکر نام کے ساتھ ہوا ہے۔ لہٰذا صفاتی اور ذاتی نام عطف 'واو' کے ساتھ آنا درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم کو مثانی مانتے ہوئے بھی بعض تشریحات پیش کی گئی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق ان سے مراد وہ سات امور ہیں جن کا قرآن میں بار بار ذکر ہے یعنی کہ امر، نہی، انذار، ضرب الامثال، بشارت، نعمتوں کا بیان اور اخبار امم۔ لیکن ان سات امور کی وجہ ترجیح بیان نہیں کی جاتی جب کہ قرآن میں تو ان امور کے علاوہ دیگر امور بھی بار بار زیر بحث آئے ہیں۔

ایک دوسری رائے کے مطابق کیونکہ قرآن کریم میں مکی و مدنی سورتوں پر مشتمل سات گروپ ہیں، لہذایہاں وہ مراد لئے گئے ہیں۔ لیکن سوال یہی اٹھتا ہے کہ کہ آیا اس آیت کے یہ معنی اولین مخاطبین لے بھی سکتے تھے یا نہیں، کیونکہ اس آیت کے نزول کے وقت تک تو مدنی قرآن کا نزول شروع ہوا ہی نہیں تھا اور مکی قرآن کا بھی ایک بڑا حصہ جس میں سوره الانعام، سورہ الأعراف بھی شامل ہیں جو کہ ان سات گروپوں میں سے دوسرے گروپ کا مکمل مکی حصہ ہیں وہ بھی نازل نہیں ہوئی تھیں،یعنی سات گروپوں میں سے ایک گروپ تو مکمل طور پر موجود ہی نہیں تھا جبکہ بقیہ گروپ بھی بڑی حد تک نامکمل ہی تھے، تو آخر آیت کے نزول کے وقت سمجھنے والے اس آیت سے یہ معنی کیونکر لے سکتے تھے۔

آخری لیکن سب سے زیادہ مقبول رائے یہ ہے کہ اس سے مراد سوره فاتحہ کی سات آیات ہیں، اور اس بات کی تائید بعض مضبوط سندوں کی روایات سے بھی ہو جاتی ہے۔ سوره فاتحہ میں کل چھ آیات ہیں اور اس میں بسم اللہ کو شامل کر کے آیات کی تعداد ۷ ہوجاتی ہے۔ مثانی کے معنی اگر دہرانے کے لیے جائیں (جیسا کہ عموماً لیے گئے ہیں) تو یہ آیات لازمی ہر نماز میں دھرائی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ معنی لینا پچھلے تمام معنوں کے مقابلے میں زیادہ درست ہے، تاہم سوره الحجر کی اس آیت میں وارد 'مِن' کو زائدہ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

اہل علم میں سے بعض کو لفظ مثانی کے معنی دہرائے جانے یا تکرار کو لینے میں اعتراض ہے۔ کیونکہ مثانی لفظ مثنٰی یا جوڑا جوڑا ہونے کی جمع ہے، اس لیے ان کو سبع من المثانی کو سورہ فاتحہ کو لینے میں تردد ہے کیونکہ اس صورت میں ساتوں آیات میں مضمون کو جوڑا جوڑا ہونا چاہیے، جو کہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ اس طرف جاتے ہیں کہ یہاں دراصل مکی مدنی سورتوں کے سات جوڑے مراد ہیں جن پر پورا قران بطور مثانی مشتمل ہے تاہم یہ بات پہلے ہی واضح کردی گئی ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت سامع یہ معنی مراد لے ہی نہیں سکتا تھا۔

ان آراء کے علاوہ سورہ الحجر کا مضمون اور اسکا دور نزول ایک اور جانب بھی اشارہ دیتے ہیں ۔ دراصل یہ ایک مکی سورت ہے جس کا آغاز ہی مشرکین مکہ کے لئے دنیاوی عذاب سے ہوا ہے۔ آیت نمبر ۲ تا ٤ میں ارشاد ہوتا ہے:
"بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آ جائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج (دعوت اسلام کو قبول کرنے سے) انکار کر دیا ہے پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش ہم نے سر تسلیم خم کر دیا ہوتا (۲)چھوڑو اِنہیں کھائیں، پییں، مزے کریں، اور بھلاوے میں ڈالے رکھے اِن کو جھوٹی امید عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا(۳) ہم نے اِس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لیے ایک خاص مہلت عمل لکھی جاچکی تھی (٤)"

اس کے بعد پچھلی قوموں کے حوالے سے خطاب شروع ہوتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجرم قوم کے پاس کوئی رسول آیا ہو اور اس کا مذاق نہ اڑایا گیا ہو، اور پھر مشرکین مکہ کے سب سے بڑے اعتراض یعنی کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ لازمی ہو گا (آیت ۲۵)اور پھر اسکے بعد آدم اور ابلیس کے قصے میں بھی اس بات کی دوبارہ وضاحت کی گئی کہ جب ابلیس نے کہا کہ مجھے تو اس دن تک مہلت دے جب کہ انسان دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے(آیت ۳٦)۔ اس کے بعد کچھ قوموں کے احوال بتائے گئے ہیں کہ جنھوں اپنے رسولوں کی تکذیب کی اور پھر دنیاوی عذاب کے حقدار ٹھہرے، جن میں قوم لوطؑ، قوم شعیبؑ اور قوم صالحؑ کا ذکر ہے۔ اور یہ ذکر آیت ۸٤ میں ختم ہوتا ہے، اور آیت ۸۵ میں فرمایا گیا کہ مشرکین مکہ کے حوالے سے بھی فیصلے کے گھڑی آنے والی ہے، اس کے بعد آیت ۸۷ میں سبعا من المثانی کا تذکرہ قرآن کریم کے ساتھ کیا گیا ہے۔اور ان مثانی کو اگر سورت کے عمود پر پرکھا جائے تو یہ سات استیصال کے قصے بنتے ہیں جو کہ جوڑوں کی صورت میں قرآن میں اس طرح بیان ہوئے کہ پہلے کسی قوم نے رسول کی تکذیب کی اور پھر رسول کی موجودگی میں ہی اس قوم پر الله کا عذاب نازل ہوا۔ اگرچہ قرآن میں اصحاب الرس، اور قوم سبا کا بھی عذاب کے حوالے سے تذکرہ ہے لیکن اس عذاب کے وقت رسولوں کی موجودگی کا ذکر نہیں ہے۔ دوسری جانب حضرت ابراہیمؑ اورحضرت الیاسؑ کے تذکرے بھی قوموں کے حوالے سے ہیں تاہم وہاں قوموں کے عذاب کا ذکر نہیں ملتا۔ حضرت یونسؑ کا قصہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ وہاں قوم پر عذاب ٹلنے کا استثنیٰ کے ساتھ ذکر ہے۔

قرآن کریم میں رسول وقت کی تکذیب کے سلسلے میں شرک کے علاوہ ایک بنیادی قومی گمراہی کا بیان اور پھر نبی وقت کی موجودگی میں ہی استیصال کا ذکر سات قوموں کے حوالے سے ہی ہوا ہے۔
نمبر ۱: قوم نوح: طبقاتی تفریق
نمبر ۲: قوم هود: گھمنڈ اور نسلی تفاخر
نمبر ۳: قوم صالح: رہزنی اور فساد
نمبر٤: قوم شعیب: معاشی استحصال
نمبر ۵: قوم لوط: جنسی بے راہ روی
نمبر ٦: آل فرعون: ربوبیتِ فرد
ان تمام قوموں کے واقعات سے ہم لوگ پوری طرح سے آشنا ہیں تاہم اس کے علاوہ بھی اسی اصول پر قران میں ایک اور قوم کا بھی ذکر ہے۔
نمبر ۷: ایک بے نام قوم جو کہ عقیدہ آخرت پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ جس کا ذکر سوره المومنون کی آیت ۳۱ سے آیت ٤۱ میں ہوا ہے جو کہ مشرکین مکہ کی طرح ہی سے دوبارہ زندہ ہونے کے منکر تھے اور پھر وہ اپنے رسول کے سامنے ہی ہلاک کر دیے گئے۔

سوره الحجر کے نزول کے وقت تک یہ ساتوں قصے نازل ہو چکے تھے۔ اگر مثانی کے معنی بار بار دہرائے جانے والے لئے جائیں تو یہاں یہ معنی بنتے ہیں کہ یہی چیز اے رسول ﷺ آپکی قوم کے کافروں کے ساتھ بھی دہرائی جائے گی، اور اگر اس کے معنی جوڑے جوڑے کی صورت میں بیان کے لیے جائیں تو قرآن میں انہی سات قوموں کا ذکر اس جوڑ میں آیا ہے کہ پہلے قوم کے کفر کرنے کا ذکر ہوا ہے اور پھر وہ قوم نبی وقت کے سامنے ہی عذاب سے دوچار ہوئی۔
 
Top