سویلین عہدوں پر فوج؟

نبیل

تکنیکی معاون
بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر اس وقت پاکستان میں سویلین عہدوں پر فوجیوں کی تقرری پر بحث جاری ہے۔ مسلم لیگ نواز گروپ کے احس اقبال کے مطابق اس وقت چھ سو اہم ترین سویلین عہدوں پر فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران قابض ہیں جس سے سول بیوروکریسی اور سول سوسائٹی تباہی کا شکار ہے۔

جیسا کہ پاکستانی بھائیوں کی عادت ہے، حقائق پر نظر رکھنے کی بجائے ایک جذباتی بحث شروع ہو گئی ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک فوج ہی تمام لوٹ مار کی ذمہ دار ہے جبکہ دوسری جانب لوگ فوج کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں اور انہیں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ جانتے ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں کی خیر ہے۔

کچھ لوگ متوازن گفتگو بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ عام طور پر فوجیوں کی سویلین عہدوں پر تقرری کے حق میں یہ آرگیومنٹ دیا جاتا ہے کہ فوجی منیجمنٹ کے ماہر ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا ہے کہ فوج میں منیجمنٹ کا سٹائل linear management ہے جس کے مطابق حکم چلا کر کام نکلوایا جاتا ہے اور اس میں مشورہ لینے کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی۔ یہ طرز عمل سویلین اداروں کے مزاج کے بالکل خلاف ہوتا ہے اور ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ فوجی سٹائل کے ذریعے شارٹ‌ ٹرم کے لیے کچھ مثبت نتائج برآمد کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔

فوجیوں کی منیجمنٹ کی مہارت کی دلیل کے ساتھ ساتھ فوجی اقتدار کی طوالت بھی ملک کے ہر شعبے پر فوجیوں کے چھانے کا باعث بنتی ہے۔ انڈونیشیا میں تو عرصہ دراز تک پارلیمنٹ کی سو سیٹیں فوج کے لیے مخصوص رہی ہیں۔
 

زیک

مسافر
فوجیوں کی مینجمنٹ Yes sir پر انحصار کرتی ہے۔ اس پر کئی لطیفے اور واقعات یاد آ رہے ہیں۔
 

دوست

محفلین
پنجاب میں پچاس پولیس عہدوں پر میجروں کو تعینات کرنے کا منصوبہ زیر غور تھا۔
وہ تو اللہ بھلا کرے آئی جی کا جو خود بھی سابق فوجی ہیں جنھوں نے کہہ سن کر اسے رکوا دیا۔
ایک تو فوج کی ریپوٹیشن خراب ہوتی اور ساتھ میں اب میجر کرنل جب ایس ایچ او تعینات ہونگے تو الیکشن میں خاک “احکامات“ کی بجاآوری کریں گے!!!
 
جواب

یار بہتی گنگا میں کون ہاتھ نہیں‌دھوتا ان کو بھی دھونے دو فوج کی اپنی حکومت ہے پتہ نہیں پھر یہ سنہرے دن انہیں‌نصیب ہوں گے یا نہیں۔
 
Top