سوچ کا سفر

نور وجدان

لائبریرین

ابھی ٹھہر کہ جلوے کے انداز باقی ہیں



میں خاموش ہوں ، طلب بڑھتی جائے ہے ، ہواؤں کی سنگت دھوپ میں ہستی جلتی جائے ، اتنی آہ و زاری کی ہے ، اتنی کہ زمین بھی حیرت سے گرنے والے قطروں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ فلک سے گر رہے ہیں یا دل سے ، جی ! دل کیوں ہوں نالاں ، عاجز ، پاگل ، دیوانہ ، روتا ہے اتنا کہ صبر نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جلوہ ِ ہست ------ نمود کب ہوگی ، جلوہ جمال سے صورت کامل کب ہوگی ، جلوہ پرستی کی انتہا ہے ، جلوہ سے بڑھ کے کیا ہوگا ! دید سے بڑھ کے کیا ہوگا ! یہی ہوگا کہ قریب اتنا کرلے کہ نہ رہے کہ کوئی فاصلہ ، نہ رہے کوئی سلسلہ ، بس تو رہے !

عشق میں بندگی نے خاموشی اختیار کی مگر تیری اجازت نے لہروں کو شور دیا ہے ! مجھے پلا پلا کے مدہوش کیا! اے بادشاہ اے ذو الجلال! الجمیل ، اے عالی حشمت ، اے صاحب الرحیم ، اے میرے پیا ! میرے دل کے دربار پہ ایک دیے نے سو نئے دیے جلا لیے ، دل چاند کی مانند روشن ہے اور رات ناچ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

''وہ جو تشریف لائے ہیں شہباز کو پرواز ملے
پارہ آئنے سے نکلے تو کام بنے ، بات بنے ''
روشنی ہماری ہے ، جلال ہمارا ہے ،کمال کیا ہے
عشق پروانہ ، موم کے اڑے رنگ ، اک میں ہی بچا
قربتیں ---فرقتیں --وقت کی قید سے عشق نکلا
''نور کو شہِ ابرار کے در سے نوری نگینہ ملا
یہ سرمئی ، نیلا ، شفاف سا نگینہ کیا تھا
یہ صاحب ِ جمال کے دل کے آئنہ کے آئنہ
جس پہ لکھا: کالا رنگ اترنے میں کتنی دیر باقی
دل کے ساتھ نگینہِ سرمئی، شفاف لگایا جب
نور کی شعاعوں میں خود کو گھرا پایا تب
سب پردے ازل کے اٹھنے لگے ہیں
کالے حجاب کا کلمہ لا ہے ، لا لا لا لا لا لا
دل پر مکین نے دیا ہے اسم اعظم الا اللہ
شاہِ حجاز، شاہِ نجف ، شاہِ ہند سب کھڑے ہیں
دل جھکا ،مقام ادب ہے ، روح میں نوری شعلے ہیں
ادب نے کہا دل سے: سرخی کہاں سے آئی ہے
فلک سے اتری یا زمین نے گلابوں کی چادر تانی
کمال کی شرافت سے حسن کی بات مانی
دِل نے قلب کے گردش کی پھر ٹھانی
سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو!
نم ڈالتے ہیں ہم ، وصل کرتے ہیں ہم
نور دیتے ہیں ہم ، جلوہ کرتے ہیں ہم
''آئنے کو آئنے میں سجانے والے النور
آئنے کو قلب سے نکالنے والے النور
آئنے کو چمکانے ، ضو دینے والے النور
دل طور تھا ، کعبہ بنانے والے النور
قلندر کو دنیا میں بٹھانے والے النور
مطلب دنیا سے نَے خاکی جسد سے
یہ مٹی کیا ہے ، اسکو ہٹانے والے النور
لا الہ الا اللہ ھو الرحمن الرحیم
زمانے کو خاکی لباس دینے والے النور
کب ہوگا جلوہ تیرا ، سرمہِ ہستی ہے
سوال کرنے والی نبی ﷺ کی امتی ہے
فانوس جس پہ الباری کا نام لکھا ہے
وہ روشنی جس پر النور کا چشمہ ہے
قلب معطر ہے اس پر محمدﷺ لکھا ہے
قلب کے قلب پہ علی ؑ کا نام ہے
نامِ علی سے پرے بی بی فاطمہ کا نام
جن کے در سے ملنے ہیں بڑے کام
سیارہِ حسینی اس ہالے کے گرد گردش میں
یا حسین ! یا حسین ! یا حسین ! یاحسین!
حسینی چراغ ہوں ! ان کے در کی ادنی غلام
جامِ لبالب ہیں ، پیمانہ منتظر ہے
دِل نے قلب کے گرد کی گردش
شعرِ رجزیہ ان کی خدمت میں کہے
ابھی کہ ٹھہر کہ وقت اس محفل کا نہیں
ابھی کہ ٹھہر وقت ابھی حمد کا بھی نہیں
ابھی کہ ٹھہر ، خلعت سے نوازا جانا ہے
ابھی کہ ٹھہر بیعت کا حلف اٹھانا ہے
ابھی کہ ٹھہر تیرا ذکر اٹھایا جانا ہے
ابھی کہ ٹھہر تیری فکر سے پردہ اٹھے
ابھی کہ ٹھہر حجاب ازل کے سب اٹھیں
ابھی کہ ٹھہر کچھ نقاب ڈالنا سیکھ لے
ابھی کہ ٹھہر زبان پر تالے ڈالنا سیکھ
ابھی کہ ٹھہر طوفِ والہانہ سیکھ
ابھی کہ ٹھہر سرخ چولا پہننا سیکھ
ابھی کہ ٹھہر جوش ، ہوش کا یارانہ سیکھ
ابھی کہ ٹھہر ، تیرے ذمے بڑے ہیں کام
ابھی کہ ٹھہر ، ذکر میں گزرے صبح و شام
ابھی کہ ٹھہر ، حسینی نگینہ پہننا سیکھ

سر جھکا اٹھا تھا اک پل کو مگر پھر جھک گیا ، ان کے در سے یاقوت کو اپنی دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت میں پہنا ہوا پایا ، احساس نے سارا خاکی لباس سرخ کردیا ، دِل نے جلال کی کملی میں پناہ لی جس پہ لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
لا الہ الا اللہ ------- یہ ہے حسینی تلوار
دل نے کی گردش ذرا زور سے ، ارض و سماء سہم گئے ،
اے غارِ حرا کے مالک سلام
اے مالک میرے اے آقا میرے
اے میرے محمدؐ ، آپ ہر ہزاوروں سلام

خواب نوری کی جانب سے بشارت ہیں ، جب خوشخبریاں ملیں تب شکر واجب ہوجاتا ہے ۔ شکر کو ذکر سے درود سے بھرپور رکھنا ہوتا ہے ، ذکر کی محافل سجانی ہوتی تب جاکے بات بنتی ہے ، اگر جلوہِ محمدی ﷺ کی تڑپ دِل میں ہو تو سیرت بھی محمدؐ کی سی ہونی چاہیے، جسکو بشارت اک دفعہ مل جائے ، اسکا کام بن جاتا ہے ، جسکو بار بار ہوجائے اسکا نام بن جاتا ہے ، جسکی طلب نہ مٹے ، اسکو دوام مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اللہ کے نام

اللہ ! اللہ کے نام سے دل بنا ھو !​
ھو کے نام سے دل میں چھایا سکوت!​
سکوت نے دل میں جما دی غنود !​
اترا دل میں صحیفہِ سورہِ ھود !​
لا الہ الا اللہ انت سبحانک انی کنت من الظلمین !​
بیشک ہم جسے چاہیں نوازیں !
وہ جسے چاہے نعمت دے ! وہ جسے چاہیں صحت دے ! وہ جسے چاہیں شاہی دے ! وہ جسے چاہیں دولت دے ! وہ جسے چاہیں فقر دے!
تاحدِ گُمان فلک سے کچھ برستا دکھائی دے رہا ہے ، نعمت و رحمت سے زمین کی جھولی کو بھرا جارہا ہے ۔یہ جو نیلے نیلے دھاگے ہیں ! یہ جو زرد ریشم ہیں ! یہ سیاہ سیاہ پتھر ہیں !یہ نعمتِ خداوندی ، یہ رحمتِ خداوندی ! یہ جو سرمئی سرمئی نگینے ہیں ، جن کی چمک بالکل اسی طرح جس طرح تازہ انگور شاخ سے توڑا جائے ۔ان کی شبیہ زمرد سے ملتی ہے ، یہ زمرد ---یہ میرے نگینے ۔۔۔۔ شاخِ ہستی سے لٹکے ، زمین کی سطح پہ گرتے انار کی مانند سرخ لعل ۔۔۔یہ میرے لعل ، میرا جواہرات ۔۔۔ یہ نعمتِ خداوندی ، یہ رحمتِ خداوندی ۔۔۔میرے ہادی نے تحفہِ الانجیل مجھے تھما دیا ہے ! میرے دل کو نسخہِ کیمیا دیا ہے ، نسخہِ کیمیا گری نے دل کو طور کردیا ، دل کو نور و نور کردیا ہے​

کبھی دل طور کبھی مدینہ !​
کشتی کو مل گیا سفینہ !​
جینے کا آ گیا ہے قرینہ !​
نہیں اب کوئی آرزو دیرینہ!
اے مالک ، یزدان ، حسنِ ازل ---- محبت کی قسم کھائی ہے آپ نے ، وہ محبت مجھے لوٹا دو !
رفعتوں پر بیٹھا ، لامکانی پہ مکین ، مکان میں سمایا ، میرا حبیب ! میرا سہارا !
اے رفعتوں پر مکین ! لامکانی میں معین ، مکان میں مکین ! جلوہ کب ہوگا ؟ معراج کب ہوگی ؟ اے ''الباری '' اے مصور'' اے جمیل ! روح کو مستی دی ایسی کہ مستانی ہوگئی ہے ، مستانی ہوئی کہ دیوانی ہوگئی ہے

وہ جو کوہِ طور ہے ، وہ وادی النور ہے ! دل میں اتر گیا صحیفہِ النور ! وہ جو معراج کی باتیں ہے ، جس سے سینہ پُر ہے، اس سے دل ہوتا مدینہ ہے !
اللہ نور السموتِ ولارض
وہ آسمانوں کا نور ، وہ زمینوں کا نور
وہ آسمانوں کا علم ، وہ زمینوں کا علم
وہ نورِ کل ، وہ علمِ کل ، وہ عقلِ کل

جسے چاہے علم سے نوازے ----جاننے والے کیسے نہ جاننے والوں کے برابر ہوں ، وہ جانتے ہیں تیری حقیقت ، تیری عظمت ، باعثِ تخلیق کیوں ہے مظہرِ خاک، جب علم کے خزانے نواز دیے جاتے ہیں تب کمالِ روح کسی ایک خزینے پر کامل ہوتا ہے ، کسی کا دل آیت الکرسی سے جڑا ہوتا ہے ۔ علمِ کمال آیتِ سردار سے کامل ہوجاتا ہے ۔ یہ خزانہِ علم ہے جسکو جس پر عام کردیا جائے وہ خاص کیا خاص الخاص ہوجاتا ہے

قلب پہ تجلیات کی ابتدا کسی نہ کسی بہانے ، وسیلے سے ہوجاتی ہے ، کبھی کوئی جملہ ، کوئی لفظ ہادی بن جاتا ہے تو کبھی کتاب یا سورہ گنجینہ الاسرار ثابت ہوتی ہے ۔۔۔ بعینہ جسکا علم دل میں منقش ہوجاتا ہے ۔۔۔ جسکے دل میں سورہ الاھود کا علم اترے تو سمجھ لے وہ جانبِ صحت ایک قدم ہے ، جانبِ روح پہلا زینہ ہے ، یہ کلمہ پلِ صراط پر اترنے کے بعد یقین و ثابت قدمی کی ضمانت ہے ۔ اسی کلمے سے صراط پار کی جاتی ہے ۔یہ اسمِ اعظم روحی ہے۔ یہ اسم اعظم نورانی ہے ! یہ وجدانی ہے ! یہ کیف و جلوے کی علامت ہے ! یہ جلالت ہے ! یہ الوہاب کی باتیں ہیں ! یہ الرزاق کے رزق کی علامت ہے !

یہ جو روح کا کلمہ ہے ، یہ میرا کلمہ ہے ! یہ ترا کلمہ ہے ! جس پر نگاہِ الطافانہ حضرت محمد ﷺ کی ہو ، اسے چاہیے اپنی صبح و شام درودِ ابراہیمی میں گزاردے کہ یہ معطر و معجل کردینے والا کلمہ ہے ۔ جب یہ احساس ہو کہ دل کی مٹی میں نمی ہے ، دل میں خشیت سے رعب بیٹھا ہے ، جب کبھی سکوت سے دل گھبرا جائے تب درود کی میٹھی میٹھی ہوا سے دل کو حلاوت پہنچانا مستحسن ہے ۔

الباری --------الوالی
اللہ کے دو عالی نام
بناتا ہے ، مٹاتا ہے ، مٹا کے بناتا ہے
محبت دیتا ہے ، محبوب رکھتا ہے
الباری ، الوالی اسکے دو عالی نام
القھار ----------المھیمن
اللہ کے دو عالی نام
یہ تاجداری ، یہ مشکل کشائی
یہ غلبہ ، یہ جلوہ ، یہ ہبیت و جلال
سب سے برتر ذات ہے وہ
سب کا مشکل کشا ہے وہ
ذکر کو میرے جو عام کرے
اسکے لیے بڑے انعام ہیں پڑے

س (1) وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ (2) إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (3) عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (4) تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (5)

کلماتِ یسین ---- یہ علامت ہے جبروتی کی ، رحمانیت کی ، قربت کی ، شافیعت کی ، یہ نشانیاں ہیں ۔ یہ نشانیاں جن کو یقین سے پڑھنے پر علم میں اضافہ ہوتا ہے

 

نور وجدان

لائبریرین

اے جلوہ جاناں ، تجھ پہ لاکھوں دردو!
اے باری تعالیٰ ! اے میرے اعلی !
اے میرے باری تیرے محمد پہ کڑوڑوں سلام !
اے میری باری میرے محمد پہ کڑوڑوں پہ سلام!
محبت بنٹ رہی ہے نوری ہالہِ نور سے !
منزلِ سکوت پہ'' ھو ''کی بکھری صدائیں !
منزلِ فنا سے معراج کی بکھری شعاعیں!
منزلِ بقا پہ ھو سے مل رہی ہیں دعائیں !
منزلِ حبِ پہ دل کو دل سے ملا سکون !
منزلِ غنا پہ دل پہ چھایا سکوت و غنود !
مقامِ سدرہ پر کھڑی عاشق ہے منتظر !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !
سرر ! کیف ! میں غائب وہ موجود !
دل میں چمک رہی ہے سورہ ھود !
رفعتوں کے نام ہیں الصمد و النور !
دل میں چمک رہی ہے سورہ النور !
خشیت کے مارے نکلی جب چیخ !
دل میں چمکی سورہ التوبہ ، سورہ ق !
جلوے جاناں کی جب ہوئی بات
منور و منقی ہوئی سورہ الیسین !
اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ !
ھو ! ھو ! ھو ! ھو ! ھو ! ھو !
حق ! حق ! حق ! حق ! حق!
قیود مٹ گئیں ، غنود چھاگئی !
اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ !
دل میں روشن ہوئی سورہ الاھود !
دل میں روشن ہوئی سورہ النور !
الباری ! الھادی ! الجبار ! القھار ! الوہاب! الستار !
اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! ا اللہ ! ا اللہ !
دل کے اندر نور ، دل کے باہر نور !
دل میں نور ، دل کے باہر نور !
میرے دل میں ہوگیا ظہور !
وہ مجھ میں ، ہوگیا دل طور !
اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ !
لیس الا نسان الا ما سعی !
بیشک انسان کے لیے وہی جس کے لیے وہی کوشش کرتا ہے !
اے حجاب ازل ! اٹھا دے اب سارے پردے !
اے حجابِ ازل ! دکھا دے اب سارے جلوے !

للہ للہ للہ للہ للہ للہ ! اے محمد ! کردو کرم !
للہ اے میرے یحیی ! کردو کردم !
للہ اے میرے حبیبی ! کردو کرم !
للہ اے میرے عیسی ! کردو کرم !
للہ اے میرے موسی ! کردو کرم !
للہ دل مدینہ بنادو !
للہ مجھے اپنی دید کرا دو !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !

اے یسین ! اے طہ ! اے وہاب ! اے زریاب ! اے واسع ! اے سامع ! اے بصیر ! اے عالم! اے شاہد ! اے مشہود ! اے عالی ! اے ذی وقار ! اے میرے یحیی ! اے میرے عیسی ! اے میرے موسی ! اے میرے نور!
اے میری مریم ! اے میری مریم ! آپ پہ لاکھوں سلام ! اے میری آسیہ آپ پر لاکھوں سے سلام ! اے میری آمنہ ! لاکھوں سلام ! اے میری عائشہ ! اے میری خدیجہ !
اے میری فاطمہ ! اے سیدہ ! اے عفت مآب ! اے میرے دل کی زینت ! اے میری پیاری ! اے میری حبیب !اے میرے دل کی مالک ! اے میری مالک ! آپ کے صدقے جاؤں ، مجھے جنت البقیع میں بلا لیجیے ! وہاں کی گورکن بنا لیجیے ! اے عالی ! اے میری فاطمہ ! اے میری جان !
اے میری امی عائشہ ! اے میری عائشہ ! اے علم و حکمت و دانائی کا پیکر ! اے امی عائشہ آپ پہ لاکھوں سلام !
اے میرے ہادی ! اے میرے شہ ِ ابرار آپ پر کڑوڑؤں سلام ! اے میرے حبیبی !

جلوہ مہِ آفتاب نازِ آفتاب کرادو !
جلوہِ باری تعالیٰ اپنی صورت کرادو!
اے حسین وجمیل ، حسن کا کے پیکر !
اے رحمت کی عالیشان تقسیم کے پیکر!
اے شافعی محشر ! اے والی کوثر !
اے میرے شافعی ! اے میرے والی !
اے میری ہادی ! اے میرے ابرار !
اے میرے آقا ! اے میرے دلدار !
اے میرے یحیی ! اے میرے عیسی !
اے میرے موسی! اے میرے مالک !
اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ !​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
مصطفیﷺ ، سیدِ کونین ﷺ ، والی دو جہاں پہ لاکھوں سلام

تیرے جلوہِ جمال کی قسم
جلوے میں جلال کی قسم
نم و ہجر ، الم و درد کی قسم
قربت و وصل ، آس کی قسم
چشمِ نمی تیری وصل کی نشانی
بہتے اشک کہتے ہیں تیری کہانی

تیرا راستہ اپنایا جاتا ہے جیسے دل میں تیر چلایا جاتا ہے ، دل میں جوں جوں جلوہ بٹھا دیا جاتا ہے ، دل خالی ہوتا جاتا ہے ، دل پھر بھی خالی ہے ، ایسا کیوں ہے کہ تو پاس ہے مگر دور دکھائی دے ، پاس ہوکے بھی یاس میں بٹھائی دے ، تیرے ہوتے ہوئے پریشانی کیوں مولا ؟ تیرتے ہوتے ہوئے حیرانی کیسی ؟ یہ سفر ، یہ اعجاز ، یہ معرفت ، یہ شہرتِ آفاق ، یہ گمنامی ۔۔۔۔۔۔۔!یہ کیسے بیان میں آئے کہ چاہت و محبت پیمانہ تھوڑی ہے کہ لفظ کی بندشیں ان کو تول دیں ۔ اپنی تو ایسے لگی کہ نگاہ فلک پر جمے ، فلک پر تجھے دیکھنا چاہے ، اس میں ادھر ادھر دربدر گھومتی جائیں ، ہم کہاں ہیں ، کاہے کی یہ بندشیں ، کاہے کی یہ مشکلیں ، کاہے کی اتنی دوری ، ارے کیسی ہے مجبوری ، یہ بیقراری کہ اب کچھ اچھا نہ لاگے ، جس تن عشق لاگے ، وہی جانے کیا کیا لاگے اور بس تو ہی جانے کہ کیا کیا لاگے


ایک کھیل ، تماشا دنیا
یہ ہےکھیل محبت کا دنیا
کٹھ پتلیاں محوِ رقص ہیں
ایسی الفت کا تقاضا دنیا
گرِفتار پروانے ہوئے سب
شمع کے گرد منڈلاتے رہے
اس دور کی تقدیر میں لکھا
طوفِ کعبہ ہر سال میاں
یہ دل کی دنیا ہے داستانی
منظر گلی کوچوں کا دکھاتی
طیبہ کہ کعبہ کے مینارے
یہ بلند روشنی کے استعارے
مقامِ حرا ہو کہ وادیِ النور
دل میں بسی ہے خوشبوئے کافور
صدائیں محمد ؐ کی ، ورودِ نور
غلامیِ رسول کی سند پہ مسحور
دل ''ال--م '' کی بستی ہے
روشنی اس شہر میں پھرتی ہے
سفرِ اعجازی ، دل حجازی ہے
طیبہ کی سرزمین بنیادی ہے
غارِ حرا کا سفر استعاری ہے
محفلِ نور ساقی سے ہے


مسافر ہے کہ راہی ہے ۔ راہی چلا جارہا ہے مدینے کی جانب ، سفر مبارک گھڑیاں نورانی ، کیف وجدانی ، حال مستانہ ، عشق ابرِ کریمانہ ، رحمت سے چلتا ہے ۔۔۔،یارانہ ، گلیاں ، راستے ہیں مبارک ۔۔۔، یہ قدم ، یہ زینے ، یہ خاک ، یہ نور جو ان خاکیِ اجسام ، ان اشجار و طیور میں چھپا ہے ، محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔، نور جو انسان کو گھیرے رکھے وہ بھی قید میں ہے ، پھر بھی مسافر ہے کہ منزل بھی مل ہے جانی ، موسمِ بہار کی گھڑیاں کہ ملن کی باتیں ہیں سہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب اس در کی جانب سفر شروع ہوا تو دل نے ٹھانی اب عالی جناب سے ملے بغیر جانا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔پھر ہم نے ان پتھروں جو ڈھلانوں کی مانند تھے ، کئی تو بالکل سیدھے تھے جیسے کہ پہاڑ کی بلندی پہ جانا محال ہو اور کئی پتھروں کو سیڑھیوں کی مانند تراش دیا گیا تھا ، ہم اس دیس سے کسی انجانی دنیا میں جارہے تھے اور بس ہم داخل ہوئے اس غار میں جو نیلم کی مانند روشن ہے جس میں زیتون کے چراغ جلتے ہیں جس میں مشک و عنبز سے ہستی سنوار دی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

یہاں بڑی اونچی اونچی ذاتیں ہیں ، ہم نیچے ، وہ اونچے ، ہماری کیا اوقات بھلی ، ہم نے سوچا کہ واپس ہوجائیں مگر ہم واپس جاکے نعمت سے منکر ہوجائیں ، اس گومگوں حال میں کھڑے ششو پنج کہ کیا کریں ، ہمیں مخاطب کیا جاتا ہے ، جاؤ ، دیوار کے ساتھ آخری صف میں بیٹھ جاؤ ۔۔۔۔۔،
جس پہ کرم ہو ، اس پر یہ نیچ ، اونچ کا فرق نہیں ہوتا ، ہماری رحمت میں فرق نہیں ہوتا
ہم نے سوچا اتنا عالی ذات سے اتنی دوری ، مزید مبتلائے ابتلا ہوئے کہ حکم کہ آخری صف میں جاؤ مگر ہم ابھی کہ کھڑے ہیں سو سوچا نقشِ انوار کو دل میں منقش کرتے جاکے بیٹھتے ہیں ، ابھی ایسا سوچتے کہ مسکراہٹ نے ہمارے دل کی کلفتوں کو دور کردیا ،جیسے نور کردیا سب کچھ ، سماعت نے کیا سُنا ، بہت مبارک لفظ کانوں میں رس گھولنے لگے ،
اس محفل میں فرق نہیں ہے ، دور رہ کے بھی اتنی قربت ملتی ہے جتنی پاس بیٹھنے سے ہوتی ہے
ہم نے سوچا کہ اب کہ جو جگہ ہے وہ پاس کی ہو کہ اچھی ہوگی ، برابر تو دیتے ہیں مگر دل کو پاس رہنے سے زیادہ جلد مل جائے گی ، ابھی ہم سوچ میں ہی تھے کہ یہ بات بھانپ لی گئی اور اب کہ مزید امتحان لینے کے بجائے قریب ہی بیٹھ جانے کو کہا گیا ۔ اس جگہ اندھیرا اندھیرا ہی اندھیرا مگر سب نظر بھی آتا ہے ، اب دیوار کیا ہے ، دروازہ ، فرش کیا ہے ، کس رنگت کا ہے یہ تو معلوم بھی نہ ہوپایا مگر ایک محفل کا گمان ہونے لگا ، گویا کہ ہمین عزت بخشی گئی یعنی کہ ہم اس محفل کی اوقات کا سمجھ لیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو جناب خوش ہوئے مگر رخ سے پردہ اٹھے تو ، روئے سخن دکھنے کو ملے تو، بات دل کو لگے گی پھر ، چین ملے گا پھر ، بے چینی دور ہو جائے گی پھر ، ہم ادب کے مارے سر جھکائے بیٹھے کہ گستاخی سرزد نہ ہوجائے مگر منتظر ! مزید لگا کہ شاید کوئی نعت خوانی کی محفل لگے ہے ، لب کشائی کی اجازت مل گئی مگر ہم ہکا بکا کہ اوقات اتنی کہاں ، چادر چھوٹی بھی ہے ، مخملیں بھی نہیں ۔۔۔
کوئی نئی نعت لکھی ہے ؟
دل تو مارے شرم کے جھک ہی گیا ، چاہ رہا تھا زمین پر گڑ جائے مگر ہم اب کہ موقعِ راحت ِ قلب کیسے جانے دیتے ، اسلیے دل سے نکلی ایک التجا


تاجدارِ حرم دل بنا دیا حرا ، آپ کے تقدس پہ لاکھوں سلام
اٹھ رہی ہے دل سے صدا ، آپؐ کی صفاتِ رحیمی و کریمی پہ لاکھوں سلام
بزمِ کونین سجانے والے ، شہِ لولاک ولما پہ لاکھوں سلام
چہرہ انور نے قلوب منور کیے ، یا طہٰ و یسین پہ لاکھوں سلام
چہرہ انور کملی میں چھپا ،جیسے آفتاب رات کے آنگن میں اترا
والیل کی قسم ، والشمس کی قسم کھائی ہے خالق نے قران میں
آپ کا بیان کیا ہو نورؔ سے ،مدحت آپؐ کی کی ہے خالق نے قران میں
دل کو مصفی و معجل کرنے والے ،المزمل ، المدثر پہ لاکھوں سلام
بدر الدجی کہوں ، شمس الضحی کہوں ، محمدؐ کہوں کہ احمدؐ کہوں
مقامِ محمود پہ فائز ہوئے معراج کی رات، میرے آقا پہ لاکھوں سلام
شاہِ بطحیٰ کی نگہِ الطافانہ ہوگئی ، اے حبیب کبریاء آپ پہ لاکھوں سلام
نعت کہنے کا عطا ہو ڈھنگ نور کو ، اے فصیح اللسان، آپؐ پہ لاکھوں سلام
 

نور وجدان

لائبریرین
نعت

اے کاش انؐ کے در پر جب اذنِ حاضری ہو
اک نعت میں نے لکھی ، اک نعت تب کہی ہو

پُر کیف وہ تصور ہوگا، درِ نبی ؐمیں
جب حالِ دل سنانے کو سگ نبیؐ کھڑی ہو

ہیں وہ جالیاں سنہری ، آنکھوں سے چوم جن کو
فریاد مصطفیؐ سے دیدار کی بھی کی ہو

ہاتھوں کو جب اٹھائے ، بھیجوں سلام، ہوگا
لب پر درود جاری ، اشکوں کی تب لڑی ہو

خوشبوئے گل معطر نس نس کیے دے ،طہٰؐ کی
نوری نشانیوں سے محفل نئی سجی ہو

نظروں میں وہ سمائے ، منظر لگے جو دلکش
محفل ہو روضے میں اک ، دل میں دیا جلا ہو

کملی سے نور چمکے ، جلوہ ہو آپؐ کا جب
ہر روز نوری محفل شرکت مری لکھی ہو
 

نور وجدان

لائبریرین

عشق کیا ہے

کانچ کے جیسے ٹوٹا ہے تن
ہر ٹکرے سے برسے ہن
''تیر'' ہجر دے چلیں نیں
زخم سینے توں رسیں نیں
جوگن کیتا اونہے اپنی مستی اچ
نچن جوگیا نا چھڈیا اپنی مستی وچ
میرا چولا گلابی نصیباں آلا ہے
دوری دا دور ہن مکن آلا ہے
محبوب دا رنگ سینے اچ سمایا ہے
دل اچ اودھا نور انج سمایا ہے
او نوری نگینہ ، اساں پروانے
کُم کُم جایے شمع دے کول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادِ صبا کے جھونکے تجھے سلام کہتے ہیں
روشنیوں کی راہداریاں قدموں کو ترستی ہیں
میرے نبی ﷺ نے سینہ منور کیا ہے
دل میں نمی کی مٹی سے بیج محبت کا بودیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے شمعِ ہدایت جو روشن سینہ بہ سینہ ہے
دیدارِ مصطفی ﷺ کی آرزو دیرینہ ہے
دل میرا ویران ہے حسرت بڑی ہے
محفلِ نوری میں تڑپ حاضری کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو جہانوں کے سردار ، دو عالمین کی رحمت
شمعِ ہدایت ہر سینے میں جلتی فطرت سے ہے
ہر انس کو ان کی آرزو رہتی فطرت سے ہے
جلوے کو تابش میں دھلے تو وہ ملے
جس سے ملنے کی حسرت بار بار کی ہے

شبِ گزیدہ کے تارے ستم رسیدہ سارے
کہاں کہاں پھریں درد جِگر لیے عشق کے مارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نالہِ غم کہیں گے ہم ، خونِ جگر بہنے دو
حالِ دل سنائیں گے ، زخم آج رہنے دو
ان کو ہماری خبر ہوگی ، حال پہ کرم ہوگا
نظر ان کی جب ہوگی ، وہی ہمارا مرہم ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیل بہتا رہا چشمِ نمیدہ سے
دردِ جگر ہم نے سنبھال رکھا ہے
ان کو خوشبو کو سینے میں ڈھال رکھا ہے
عنبر بدل گئی ہے کستوری میں
دل حضوری میں ، صبوری میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کو جو زبان دیتا ہے
ستم نوکِ سناں دیتا ہے
تسبیح ذرہ ذرہ جسکی کرتا ہے
من کے دریچوں میں رہتا ہے
خواہشِ دید کی آرزو جو کربیٹھے
اس طور کو سرمہ کردیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدائے جرس کو نغمہِ آہو میں بدل دیا
سوزِش ہجر نے نئے رقص کا طرز دیا
خامشی میں فغاں ، فغاں ہو خامشی میں
ان کی محفل کے آداب بھی اپنے ہیں
سارے سپنے جن کے ہوتے سچے ہیں
زمینِ دل پر سیلاب کی مانند پانی ہے
بلبلہ ہے ہستی ، روح مدھانی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مجلی ہے کیا جس نے مصفیٰ
منور مطہر جس نے کیا سینہ ہے
روشنی کے ستم کتنے عجیب ہوئے ہیں
مریض عشقِ کے کتنے طبیب ہوئے ہیں
ہستی کے نشان فلک سے کعبے تلک
مل رہے ہیں ٹکرے دل سے کعبے تلک
جنگل میں سبزے کو جل تھل کردیا
صحرائے عرب میں شہِ عرب کی آمد
وہ ختمِ الرسل ، مہر نبوت ، شہِ ابرار
ان کے ساتھ تشریف فرما اصحاب
جیسے چاند ،تاروں میں اک آفتاب

اب کی بار بادل برسنے ہیں ، موسلا دھار بارشیں ہونی ہیں ، سیلاب نے پودوں کو پرواں کرنا ہے ، حوادثِ غم سے بوٹیوں کی آبیاری کرنی ہے
عشق کیا ہے اک آتش فشاں
عشق کیا ہے قہر کا ہے ساماں
عشق کیا ہے ، جستجو کا قصہ ہے
عشق کیا ہے ، قیس کی اضطراب
عشق کیا ہے ، فرہاد کا جنون
عشق کیا ہے ، بلبل کا نالہ
عشق کیا ہے ، ہستی کی نفی
عشق کیا ہے ، گلوں کی مہک
عشق کیا ہے ، عندیہِ بہار
عشق کیا ہے ، موسمِ خزاں
عشق کیا ہے ، رت جگے کا نشاں
عشق کیا ہے ، جنون کی راگنی
عشق کیا ہے ،دل کی کہانی
عشق کیا ہے ، کڑوی شراب
عشق کیا ہے ، موت کی ابتدا

عشق کیا ہے ، عشق کچھ بھی نہیں، میں کچھ نہیں ، تو کچھ نہیں ،ہستی کچھ نہیں ہے ، ہستی کا نقصان ہے عشق ، فریب سے پرے ، سراب سے پرے ، گمان کی سرحدوں میں یقین کی شعلہِ بیانی ہے عشق۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
وہ نور جس نے مجھے پرنور کردیا .... وہ نور جس نے بصیرت کو بڑھا دیا ... وہ نور جس کی تجلی طور کو سرمہ کردیتی ہے ... وہ نور جس کی انتہا کوئی نہیں ہے کسی زیرِ زمین سرنگ سے داخل ہوتا ہے، واصل ہوتا ہے ....... پانی ہماری ذات ہے، قطرے کی کیا بساط ہے ... روشنی ہمارے سینے میں ....محفلِ نوری کے خزینے ہیں .... یہ ماہ و سال یہ انجم یہ کواکب ......سب ہیچ !


یہ کیسا دھواں ہے؟ یہ.کیسی مدھانی ہے جو مجھے دھن رہی ہے ... یہ نیل ہے یا سیلاب ہے ...کیا ہے یہ؟ تن کے جابجا آئنوں پہ. تجلی کا گمان ہوتا ہے ...جیسے کسی بڑے مقناطیس نے بہت زور سے کشش کی ہو ....

یہ ،مہ و انجم جھکے. سلام کیے دیتے ہیں. .یہ سنگ درِ جاناں کی تسبیح ہے عاصی. ... جس کو مل جائے خاک اس در کو اسکو وہی کافی ہے. .. روئی بدن اڑ رہا ہے جیون محشر بنا ہے. ... تن سے ہائے رے اللہ. کی صدائیں ہیں. ..


یہ بے نیازی جو برہنگی کا لباس ہے ...... ہم اسکی چاہت میں ہے .... لیلیٰ فکر محو ہوگئ ہے ... رات کی بانہوں نے بارش کا طوفان سہا ہے ...زمین ساری سرخ ہے .... اس سرخی پہ لا الہ الا اللہ. لکھا ہوا .... کوئی شہید ہوا ہے ....جانے کون اسکے لیے شہادت کے جام نوش کیا جاتا ہے ... ابھی کچھ ایسی بندش نہیں رہی کہ دل کی آوازیں سنائی دیتی ہے ...منظر. دکھائی دیتے ہیں. .. رہائی. ..کیسے ملے رہائی کہ شیر پنجرے میں قید ہے. ... پرندے کی مانند روح پھڑپھڑاتی نہیں، رہائی کو ترسی روح کہ پتا ہے خاکی پتلا اسکو سونے نہیں دے گا. ..یہ کیسی. قید ہے جسکی سلاخیں ساری سرخ ہیں. ..جسکی سلاخوں پہ چاندی چمک رہی ہے. ..رہائی ملے نہ ملے اب کہ وہ ملے

اجمالی ہو جلالی ہو ...تجلی ہوتی تجلی ہے ... دل کیا پورا تن ہی مجلی ہے ..دل کملی بن جاتا ہے ...ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ. ہوتے جب سب سے نچلی زمین پہ پہنچتے ہیں ... تب. کعبہ کے گرد طوف ہوتا ہے ...اس کے بعد جلوہ
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
جلال ،و جمال کے موسم
نغمہِ جانِ رحمت کیا ہے ؟ عشق کے فانوس پر منقش لا الہ الا اللہ ہے ۔ عشق محوِ رقص ہے ،چکور کو چاند مل گیا ہے ، زمین اور فلک باہم پیوست ہیں ، یہ آبشارِ روشنی ۔۔۔۔۔ یہ فانوسی منقش ۔۔۔۔ کتابِ عشق کا پہلا صفحہ خالی تھا ، لالہ کی فصل نے اسے سرخ کردیا ہے ، گل اس میں رکھا رہا ، خوشبو نے قبضہ جمالیا ، یہ ملک لالہ و گل کی ہے ، یہ خوشبو عطر و عنبر کی ہے ، مشک و کستوری نے سدھ بدھ کھو دی ، بیخودی کے جام نے آنکھوں میں لالی بھر دی ہے
جاناں کے جلوے چار سو ہیں ۔۔۔اسکی خوشبو پھیلی چار سو ہے ۔۔دودِ ہستی میں نامِ الہی لکھا ہے۔۔خوشبو نے معطر لبو بام کیا ہے ۔۔طواف ذات کا پروانہ کرتا رہے۔۔وہ نشانیاں عیاں کرتا رہے۔۔۔آخرش خواہشِ دید پوری ہونے کو۔۔تڑپ کے صدقے گزارش سنی ہے

ہم اسکے جلوے میں محو ہیں ، اللہ اللہ کے پاتے جارے ہیں نشان ہے ، وہ نور جو صبا میں ہے ، وہ نور جو جھاڑیوں میں ہے ، وہ نور جو فلک پہ ہے ، وہ نور جو چاند میں ہے ، وہ نور جوآفتاب میں ہے ، وہ نور جو زمین میں ہے ، وہ نور جو مدینے میں ہے ، ہائے وہ کتنا حسین ہے ، ہم مرنہ جائیں ، اسکا حسن ہمیں دیوانہ کیے دے رہا ہے ، اس نے ہمیں رقص کی مسرت میں رکھا ہے ،

ہم اسکی خوشبو میں مدہوش ہے ، مشام جان میں اسکی خوشبو ہے ، اسکا نور ہے ، یہ خوشبو سینے میں پھیل گئی ہے ، اسکا ذائقہ ہمارے لبوں تک ہے ، ہمیں سرور چمن میں رہنا ہے ، باغبان سے گلے ختم کیے ہے ، ذات کو جل تھل کردیا ہے ، شاخِ نہال مسرت نے خزان رسیدہ پتوں کو زندگی بخش دی ، جنون نے زندگی نئی بخش دی ہے ، نہ وہ رہا ، نہ میں رہی ، جو رہی سو بے خبری رہی

سر سے پاؤں لگے کہ خوشبو نے مجھے بھردیا ہے ، اتنی خوشبو بڑھ گئی ، پاؤں ا س میں بس گئےہیں ، باہر نکلنےکو یہ بے تاب ہے، ذرہ ذرہ خوشبو میں نڈھال ہے ، مستی سے برا حال ہے ، میرا دل مسکن بننے جارہا ہے ، جدائی ! ہائے کیسی ظالم تھی وہ خبر کہ بارش کو آسمان سے برسنا ہے ،

وہ خبر کہ بلبل کے نالہِ درد کو فلک تک رسائی ہے ، وہ خبر کہ دل کر ذرے ذرے میں ہزار ہزار جلوے ہیں ، دل والے تن کی روشنی کو دیکھ پاتے ہیں ، عشق کی انتہا نہیں ہے تو جاناں پھر پابندیاں کیسی ، عشق کی حد نہیں تو حدود کیسی ، تحیرِ عشق میں ، گلِ سرخ کی مہک میں ، صبا کے نرم میٹھے جھونکوں نے بیخودی کو ہوا دی ، چمن سرور کا جل تھل ہے ، شاخ نہال مسرت ہری ہے ، یہ کیسی بے خبری ہے

دل کی کھڑکی جب سے جاناں نے کھولی ہے ، شہرِ دل کے درواے جانے کیوں دستک کے منتظر ، دروازے تو منتظر ہیں ، شہر چمک رہا ہے ، جاناں کے جلوؤں کو تڑپ رہا ہے،تسبیح کے دانوں میں نورِ الہی پوشیدہ ہے ، قافلہ حجاز کی جانب ہے ، راستہ دھند سے لدا ہے ، جیسے کوئی نور کی کملی میں ہے ، یہ کیسا پیارا احساس ہے

نمودِ صبح۔۔۔ ہجر ہویدا ۔۔۔ تجلیِ طہٰ ۔۔۔ تحیر مرمٹا ۔۔۔۔ بیخودی بے انتہا ۔۔۔۔ ست رنگی بہار ۔۔۔۔ سات نور محوِ رقص۔۔۔ کہکشاں میں قدم ۔۔۔ مدثر ، مزمل کے نام چمکے ۔۔۔۔۔۔۔سبز ہالہ لپٹا ۔۔۔۔۔۔ بندچلمن میں اسکا جلوہ ۔۔۔۔۔ سرِ آئنہ کون۔۔۔پسِ آئنہ کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے خبری کہ ہوش کہاں​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
تجلی طہٰ

سپیدی نے صبح کے نور کو رنگین کردیا ، رات سے سیاہی کھینچ لی گئی ، صبا نے سحر میں سبک روی سے سفر شروع کردیا ۔ یہ کس شہنشا ہ کی سواری ہے ، فلک پہ نوریوں نے شور مچارکھا ہے ، قدسیوں نے درود لبو جان پڑھا ہے ، روحی بیٹھے انتطار کے دیپ جلائے ہیں ، فلک سے سواری اترنے کو زمین پر ہے ، خوشبو نے زمین کو گھیر لیا ہے ، صبا نے بھاگ بھاگ کے سب کو کہا ، یہ شہنشاہ عالی کی سواری ہے ، زمین نے گھوم کے دائرے بنائے ، ان دائروں سے نکلا دھواں. جن سے ہر سجے "اسمائے محمدی ہیں ۔۔۔مزمل ، یسین ، مدثر ، طہٰ ۔۔۔۔۔ درختوں کو اپنی سختی پر کم مائیگی ہوئی ، نالہِ شجر سناگیا ، صبا نے یارحیم ، یا کریم منقش کردیا شجر پر۔۔۔

مسندِ شاہی بچھادی گئی ، زمین پر موتیے کی فصل اگادی گئی ، سلام کے گل دستے پیشِ محبوب ۔۔۔ مشعل روشنی کی ۔۔۔دیپ طاقوں میں سجاتی رہی ۔۔۔۔ فانوس منقش محمدﷺ کے نام سے فلک سے اترا ، نوری محمدی کہ قران پاک ہے اس فانوس میں ، گمان کہ دونوں ہی درست ہیں ، یہ زمین جو روشن ہے ، فصلِ گل و لالہ کو علمِ النور بخشا گیا ، حکمت کے بیج بوئے گئے ، اس نور کو جو فانوس میں موجود ہے زمین کے سینے میں اتارا گیا ۔

حسن کہ طہٰ کی تجلی ، حسن کہ یسین کا جمال ، حسن کہ گل و عطر سے ملے خمار ، حسن ۔۔ہزار یوسف نثار، حسن ایسا زلیخا ئیں ہوجائیں بے حال ، حسن ایسا کہ بیان کیا کریں طہٰ کے یار ، ان کی مہک نے گلوں کو چراغِ لالہ دیے ، ان کی مہک نے بیخودی کے اشجار دیے ، ان کی مہک نے بے خبری میں اظہار دیے ۔۔۔۔۔۔ مہک نے راستہ روکا ، اے طہٰ راستے میں گھر ہے ، دیپ جلائے بیٹھی ہوں ، چراغاں کیا شادیانے خوشی کے بج رہے ہیں ، طہٰ کی تجلی نے نس نس میں سو آئنے بنا دیے ہیں ، خوشبو نے صبا سے کہا ، صبا نے سندیسہ ِ جنون طہٰ کو دیا ، سب نے مل کے کہا ،

جلوہِ جانِ جاناں مرمٹنے کے اسباب ہیں ۔جلوہِ جانِ جاناں روشنیوں کے بار ہیں ۔جلوہِ جاناں کی تجلی پہ لاکھوں سلام ۔۔جلوہِ جاناں نے تیرگی کا پتا کاٹا ۔۔اے روشنیِ طہٰ تجھ پہ لاکھوں سلام ۔۔سلام اے طیبہ کے مکین ۔۔سلام اے راحت العاشقین۔۔سلام اے جد ِ حسینی ۔۔۔۔۔۔۔

شاخِ نہالِ مسرت پہ گلوں کے دستے نمودار ہوئے ، فلک پر نوریوں نے درود کی صدائیں بُلند کی ، ندی کے کنارے بیٹھی ندی نے روشنی کے اس ستم کو سہا ، نوری فانوس دل میں سجا دھواں دے رہا ہے ، ایسا جیسا اگربتی کی روشنی جیسا ہوتا ہے ،روح کو نئے تار مل گئے ، جنون کو نئے اسرار مل گئے۔۔۔کرم کے بھی کہاں تھی قابل ،مجھے قریب کرلیا۔۔۔اس لطف کی کہاں تھی عادت مجھے حبیب کرلیا ۔۔۔۔۔


فانوسی روشنی عرش سے ہے جو سینے میں ہے ، جلوہ دل میں ہے ، ساری خلائق ہادیِ امم کو سلام پیش کیے دے رہی ہیں ، دل کی مٹی کی نمی طہٰ کی تجلی کی وجہ سے ہے اے میری ہادی ، اے میری طہ ، اے میرے مزمل ، اے میرے مدثر ، اے یسین ، اے طور سینا سے بلند معراج کی رفعتوں کی امین ، اے میرے آقا ، دل کہ کاش نعتِ نبی کا اذن ہو جائے ، کاش مدحِ رسول مآب کی اجازت مل جائے ، وہ میری پکار سن کے فلک کی رفعتوں پر ٹھہرے مسکرائے ، نعت مقبول ہے ، اذن کی ضرورت کیسی۔۔۔


رحیمی ۔۔۔۔۔۔۔طہٰ ۔۔۔۔۔۔جلوہ ۔۔۔۔یسین ۔۔۔۔۔کمال۔۔۔۔مدثر ۔۔۔۔۔۔۔۔جمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مزمل ۔۔۔۔۔۔چار تجلیات نے زمین کو روشن کردیا ہے ، یہ رحمت و برکت۔۔۔یہ جمال ، کمال ، جلال ۔۔۔خبرِ تحیرِ عشق ۔۔۔ جنون کو مل گئی منزلِ سودا ۔۔۔ بیخودی ۔۔بے خبری


 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اے تجلیِ طہٰ ۔۔۔۔۔ یہ بے خبری کا تیر خبر دے گیا ، یہ بیخودی کا جام خودی کا درس دے گیا ، اے شامِ لطافت ، اے رات کی ہتھیلی پہ سجنے والی حنا۔۔۔

اے تجلی مدثر ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خودی کا جام پلانا بے خبری دے گیا ، بیخودی کی رمز سکھا گیا ، اے ملیح صبح ، تیرے آنگن پہ سرخ چولا سورج نے پہن رکھا ہے ۔۔۔

اے تجلی یسین ۔۔۔۔۔ رات کی حنائی ہاتھوں میں سرسبز گنبد کی مانند روشنی دینے والی چمک ، یہ بے خبری میں بیخودی کا سنگم ۔۔۔

اے تجلی مزمل۔۔۔۔۔ اے طلوعِ آفتاب سے پہلے کی تجلی ، رخِ یار کے جمال نے نظارے سے دور رکھا ، سورج جانے کس اوٹ چھپا ہوا ہے

وہ آنکھ کتنی سوہنی ہے ، جب کب دل میں آتی ہے ، سب دکھنے لگتا ہے ، نظر کے سامنے غائب موجود ہوتا ہے ، چلی میں اس سمت ، جو میرے قافلے نے مجھے دی ہے ، وہ روشنی جس کی میں جلتے دیپوں میں ﷺ کی نقاشی دکھاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ طیبہ کے مینار ے، وہ روشنی جس نے غاروں کے اندر جگہ بنا لی ہے ۔۔۔۔۔ وہ روشنی جو چالیس برس غار کو اُجالتی رہی ۔۔۔۔۔۔وہ روشنی جب ثور کی وادیوں میں تھی ،پہلی دفعہ جالوں نے کم مائیگی پر فخر کیا ۔۔ وہ حبیبِ رسولِ ﷺ ۔۔۔۔ سعادتِ محبت نبھائی ، خوش بختی اس محبوبِ رسولﷺ کو سلام پیش کرتی تھی ۔ کیسے کیسے عاشق پائے ، وہ لاڈلے مصعب بن عمیر ۔۔۔تیروں سے جگر چھلنی ، نیزوں سے تن زخمی ۔۔۔۔۔۔ شہید ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ طلحہ ۔۔۔۔ بازو بنا کے ڈھال عشق کے اصولوں کے پاسدار ۔۔۔ وہ قرنی ۔۔۔ درد کو فاصلوں پہ محسوس کرتے رہے ۔۔۔ وہ عشق کی کمال ہستی ۔۔۔طائف کی سرزمین پر لہولہان ، دعا کی شیدائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ روشن مینارے ۔۔۔ یہ عشق کے شیدائی۔۔۔ خوش نصیب جن کو دیدِ مصطفیﷺ کی سعادت ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحیر مر مٹے ۔۔۔ عشق سرِ دار ۔۔۔۔ تمنائے دید لیے ۔۔۔۔ کلمہِ عشق ادا ۔۔۔ فنا چلی جنون کو چھوڑے ۔۔۔ بقا کی وادی میں سرخی پھول ، سرخ لباس ، حنا زمین کو رنگنے کو تیار ۔۔ عشق دار پہ نثار ۔۔ کب جامِ دید پلائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بیخودی ان کے اندازِ حجابانہ پہ طاری ۔۔۔۔۔۔۔۔ رفتگی دار پہ طاری ۔۔۔

قبورِ پہ حاضری ۔۔۔طیور دیں گے ۔۔۔۔۔ عشق پرواز۔۔ پرندہ گنبدِ سبز پر ۔۔۔۔ منتظر کب ہوا تحلیل کرے ۔۔۔ قدم حاضری کو اٹھیں ۔۔۔۔۔۔ طائر درود سلام دیے بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلو علی الحبیب ۔۔۔۔۔۔ سلام تاجدار کو بے شمار ۔۔


 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

یہ روح کے کیسے اسرار ہیں

مقامِ حیرت پر فائز ہوں،۔۔مقامِ شکر پر قائم ہوں ۔۔مقامِ دید کی خاطر لبوں پہ درود آئے۔۔اے عفوِ کمال ہستی ،۔۔اے صبرِ بے مثال پیکر
اے ہادیِ برحق ،۔۔اے شافعی امم !۔۔اے حبیبِ کبریاء !۔۔اے یسین!۔۔۔اے والی کون و مکان ! ۔۔کون آپ سا ہے یہاں
آپ پر لاکھوں درود۔۔آپ پر لاکھوں سلام

یہ روح میں کیسے اسرار ہیں ؟ یہ روح میں کیسے انوار ہیں ؟ یہ اطوار میرے کیسے ہیں ، مقامِ ادب ہے کہ ادب سے سر نہ اٹھ سکے اور لبوں پہ سوال رکے ہی ر ہیں ! یہ میرے کیسے اسرار ہیں ! وہ ہیں دل میں اور دل منور ہے ! دل مدینہ ہے یا مدینہ دل ہے ! ارے یہ کیسے انوار ہیں ! یہ میرے کیسے سوال ہیں ؟

وہ تیری مہک ،یہ خوشبو۔۔۔۔وہ تیری روشنی ، یہ م
ضو۔۔۔وہ تیرا مسکرانا ، میرا چوٹ کھانا۔۔۔شاہا ! بار بار یونہی مجھے تڑپانا
اوجِ ثریا پر نام مزمل ہے ۔۔عرش معلی پر مدثر ہے۔۔زمین پر آپ کا نام رحمت۔۔یہ تو ہے آپ کی کرامت۔۔آقائے دو جہاں ختم الرسل ۔۔امام الانبیاء راحت العاشقین۔۔۔۔تیرے بعد ہیں حیدر کرارؑ۔۔بو بکر ہیں یاروں کے یار۔۔۔عمر جیسا کہاں آتا ہے بار بار۔۔۔تیرے چمن کے ہیں یہ یار۔۔۔وہ حبشی جسکا دل تھا پر ملال۔۔آپ کو بھی آگیا تھا جلال ۔۔رات نے چاندنی کو تب چھوڑا۔۔جب آذانِ بلال نے دل کو موڑا۔۔کعبے کا کعبہ مسکن عالی مقام کا۔۔راحت دینا کام ہے آپ کا ۔۔اے ہادی ! اے جمالِ خدا۔۔بعدِ خدا تیرا نام دنیا پر چھایا۔۔اس نام کی چمک نے پلٹی کایا۔۔جلوہِ جمال سے ہوگا پھر کیا کی

یہ کیسے نشان ہیں جو روح میں ہیں ! یہ ہجر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ نیلے نیلے نشان ! یہ رنگے گئے سبز سے ! یہ زمرد کے نگینے ! یہ آبگینے ! یہ دل میں چمک رہے ہیں ! یہ روح کے دیرینہ شاخسانے ! یہ میرے یارانے ! یہ درد کے بھانبھڑ ! یہ درد کے لاوے ! یہ آتش فشان ! یہ میرے جذبات ہیں !

یہ اخلاص کے پیکر مل رہے ہیں ! یہ رحیمی مل رہی ہے ! یہ کریمی مل رہی ہے !یہ حلاوت مل رہی ہے ! کڑواہٹ ختم ہورہی ہے ! یہ کیسے اطوار ہیں ! یہ کیسے اسرار ہیں ! یہ کیسے نشان ہیں ! وہ روح الامین ! میرے دل میں میرے حضور ﷺ کے یہاں مودب ہے ! یہ میرے سرکار ہیں ! یہ میری روح کے اسرار ہیں ! یہ میری نعت کی اجازت کا سوال ہے ! یہ میرے سوال ہیں ! یہ ان کی ثناء کا حق ہے مجھے جو سونپا جانا ہے ! وہ میرے سرکار ہیں ! وہ میرا پیار ! میرا یار ! وہ میرا ہادی ! میرا طہ ! وہ میرا مزمل ! وہ میرا مدثر! وہ رحیمی ! وہ کریمی ! وہ جلالی ! اے کمالی ! اے کمالی ! اے کمالی ! چمکا دیا دل میرا !

خوشبو جس کی مجھ میں بکھر رہی ہے۔وہ میرے ہادی کی تجلی ہے۔شاہا محفل کے آداب نہیں۔دل کو حیا کا احساس نہیں ۔شاہا ! اے امین الامین ۔وہ زمین جو جھوم رہی ہے شاہا بڑی نم ہے ! شاہا آنکھ میں غم ہے ! شاہا دل پہ تاحد نگاہ کیجیے ! شاہا دل کو چمکا دیجیے ! اے میرے طہ ! اے طاہر ! اے طاہر! میرا دل مصفی کییجیے !

اے حق کے جلال ! اے حق کے جمال ! اے حق کے کمال ! اے رحمانیت میں سب سے آگے ! اے کہ محبوبیت میں سب سے آگے ! اے رفعتوں میں سب سے افضل ! اے نور علی نور کی تمثیل ! اے آئنہ دو جہان ! اے ذی وقار ! اے عالی ! اے میرے یحیی ! اے میرے مسیحا ! اے میرے موسی ! اے حسین کے نانا ! اے فاطمہ کے بابا ! اے میرے عیسی ! اے میرے موسی ! اے میرے یحیی ! اے میرے ہادی ! اے میرے طہ ! اے میرے مزمل ! اے میرے مدثر ! آپ پہ کڑوڑوں درود !​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
یہ میرا امروز، وہ ترا زمانہ

شمس نے فلک پہ پایا۔۔فلک نے قمر پہ پایا ۔۔قمر سے زمین نے پایا۔۔محمد ﷺ کی 'م' کا راز۔۔سینے کے چلتا آر پار۔۔صدقے جاوں بار بار۔۔اللہ ! محمد ! اللہ ! محمد !۔۔حق ! محبت خالق کی۔۔حق ! محبت عاشق کی۔۔حق ! محبت محمد کی ۔۔حق ! محبت خلائق سے۔۔جو میرے آقا نے کی

یہ زمین یہ چاند یہ ستارے ، یہ آبشاریں ، یہ دل کیا ہے ! یہ کچھ نہیں ہے ! میں کسی اور دنیا میں مقیم ہوں یہ جو نیلے نیلے دھاگے ہیں ، یہ جو زرد زرد ریشم ہے ، یہ سیاہ سیاہ کپڑے ہیں ! یہ جو سبز لباس ہے ! یہ جو ریشمی پوشاک ہے ! یہ جو کالا کپڑا ہے یہ ایک حجاب ہے ! جو مجھے دیا گیا ہے ! ، یہ جو سبز پوشاک ہے ، یہ محبوبیت کی نشانی ہے ، یہ میرے تن پہ سجا ہے !

گوہرِ مراد ، فیضِ نگاہِ کیمیا سے قسمت بدلنے والی ہے ، ان کی نظر نے میری روح کو بدل دیا ہے ، نئی ترتیب سے جینے والی روح کو خوشخبری دی گئی ہے کہ نگاہِ کیمیا بدل دے گی ہستی ، اٹھیں گے سب اسرار کے پردے ۔۔۔ محبت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں ،فلک سے نوری شعاعیں کسی کسی رسی کی مانند لٹکے دکھائی دیتے ہیں ۔۔ یارحیم کی نوری شعاع-----یا کریم کی نوری شعاع ۔۔۔ یا واجد کی نوری شعاعیں ۔۔۔۔ یا قہار کا پرنور شعاع ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا باسط تو کہیں المھیمن کی پرنور منور شعاعیں ۔۔۔ یہ شعاعیں تیر کی مانند سینے میں پیوست ہوئی جارہی ہیں ۔۔۔ رحمت برس رہی ہے ، کرم ہو رہا ہے
یہ دھاگے ، یہ وعدے ! یہ جو مجھے ملے ہیں نگینے ! یہ لباسِ سرخ ، یہ سیاہ حجاب ، یہ نگاہِ کیمیا کی دلپذیری ، یہ محبوبیت کی پوشاک ۔۔۔ پوشاک فیضِ گنجور ، رحمتِ صبور ہے ۔۔۔ یہ حجابات ذات ۔۔ مصور نے ترتیب دیے ہیں رنگ !۔۔یہ میرے رنگ ! یہ میرے نگینے !یہ سفینے ہیں جو ہیں نگینے ۔۔یہ دیرینہ آرزو کے آبگینے بکھررہے ۔۔یہ جو چمک دمک کے سفید پتھر ہیں۔۔نور کے ہالے سے چمک رہے ہیں ۔یہ جو آئنہ ہے وہ مکمل ہو رہا ہے ، وہ آئنہ ، وہ رنگ ، وہ جمال کے رنگ ! وہ کمال کا نگینہ ، محبوبیت کی پوشاک ،۔۔ یہ جلال کے رنگ ، ، یہ حجابات اوڑھنے کے سلیقے ، ، یہ جلال و جمال ، یہ سرسبز رنگ ، یہ رحیمی ، یہ کریمی کی نشانی ہے
حق ھو ! حق محمد ! حق علی ! حق حسین ! حق حسن ! حق فاطمہ ! حق عائشہ ! حق خدیجہ ! حو ابوبکر ! حق عمر ! حق عثمان ! حق ابو ذر ! حق ! طلحہ ! یہ جلال و جمال کے رنگ ، یہ کمال کے رنگ جو میرے حسین کے پاس ہیں ، یہ جمال کے رنگ ہیں جو میرے حسن کے پاس ہیں ، یہ جو جمال و کمال کے رنگ ہیں وہ میری فاطمہ کے پاس ہیں ، یہ جلال ، یہ کمال ، یہ جمال ، یہ ملال ، یہ رحیمی ، یہ کریمی ، یہ جبروتی ، یہ ملکوتی ! یہ شہنشاہی ! یہ فقیری ! یہ رنگ میرے علی کے پاس ہیں ! یہ جو جمال ہے ، یہ رحیمی ہے ، یہ کریمی ہے ، یہ جبروتی ہے ، یہ کمال ہے جو میرے ابوبکر کے پاس ہے ، یہ جلالت ہے ، یہ کمالی ہے ، یہ قہاری ہے ، یہ جباری ہے ، یہ شہنشاہی ہے ، یہ حشمت، یہ شوکت و شاہی یہ میرے عمر کے رنگ ہیں ، یہ حلاوت ، یہ متانت ، یہ لطافت ، یہ کرامت ، یہ جمال ، یہ فقیری ، یہ نرم خوئی ، یہ رحیمی ، یہ نوری رنگ ، یہ میرے عثمان کے رنگ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے سیدہ ! میری خدیجہ ! کیا ہے آپ کی خوشبو ! بزرگی ، جلالت ، حشمت ، محبت کے رنگوں میں رنگی ہیں روح آپ کی مبارک ، میری فاطمہ ! میری فاطمہ ! میری تاجدار ! میرے دل کی مالک ! اے میری فاطمہ ! اے میری فاطمہ میرے دل میں آپ کے الفت رنگ ! آپ کے نام سے دل کے اترے زنگ ! بہنے لگے سب چشمے ، ملنے لگے مجھے نئے رنگ ! دل کی زمین اب کہ نہ ہو کبھی تنگ ! اے فاطمہ ! اے میرے رسول کی بیٹی ! کیا کیا رنگ ہیں آپ کے پاس؟ کیا کیا نہیں ہے آپ کے پاس ! علم کا جھنڈا ! فقر کی بادشاہی ، شہنشاہی میں جمالیت کا وظیفہ! قہاری ، ستاری ، جباری ، مختاری کے رنگ سے نکلنے والی شعاعوں نے دل کو منور کردیا ہے
زمین نے فلک سے کہا اللہ ھو۔۔چاند نے سورج سے کہا اللہ ھو۔۔طیبہ نے کعبے سے کہا اللہ ھو ۔۔موت نے زندگی سے کہا اللہ ھو۔۔صبح نے رات سے کہا اللہ ھو۔۔رات نے شام سے کہا اللہ ھو۔۔ستارے نے آبشاروں سے کہا اللہ ھو!۔۔کہکشاں نے خالق سے کہا اللہ ھو!۔۔خالق نے سب سے سنا '' اللہ ھو ''۔۔کن-- فیکون کی صدا سب نے سنی!۔۔قالو بلی کا آوازہ رفعتوں سے گرا !۔۔اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو! اللہ ھو!۔۔حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! ھو ! ھو!۔۔نیا خاکی ، نیا خمیر ! بنا ہے اک نیا وجود۔۔حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو!۔۔وہ عکس صبح کی مانند روشن ہے ، ۔۔وہ عکس جس میں پلی فقیری ہے۔۔وہ عکس عیسی کی مانند شفاف ہے۔۔وہ عکس محمد ﷺ کا پرتو ہے ۔۔ وہ عکس ولایت کی امانت ہے۔۔مبارک ان نیک ساعتوں کو مبارک ہو۔۔مبارک ہو یہ قہاری کی علامت ہے ۔مبارک ہو کہ جبروتی کی علامت ہے ۔۔مبارک ہو کہ ملکوتی کی دلالت ہے۔۔مبارک ہو کہ امین کی امانت ہے۔۔مبارک ہو کہ صدیق کی صداقت ہے۔۔مبارک ہو کہ جذبِ حق کی ضمانت ہے​

 

نور وجدان

لائبریرین
سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے غارِ حرا میں مقیم

نمودِ صبح خواب ہے ، اک نفس سجدہ ریزی سے سر اُٹھائے ہے ، فلک پر چاند دکھے ، دل پکارے
حسینو جمیل آگئے ہیں ۔۔دِل کے حبیب آگئے ہیں۔۔زمینو کے خورشید آگئے ہیں ۔۔یا طہٰ ،یا طہٰ کہے گے ہم ۔فلک کے خورشید ، کملی والے آگئے ، باد کے جھونکے ، ماہتاب کے روشن ذرے ، گلوں کی مہک کے خزینے سلام کہتے ہیں ۔۔۔پیالہِ نور ۔۔ فیضِ ابدی کا مظہر ملا روشنی سے ، روشنی ہوگئی ۔
یہ نعمت ، دولت ، شفقت ، راحت کے گُل دستے جھول رہے ہیں روشنی عکس میں ۔۔یہ اعجازِ مدحت ،خوشبو مظہرِ وجود ، دل مجلی کہ عکسِ نور ہے
ان کی خوشبو نے مست کردیا ہے
نوری ہالے سے جذب مل گیا ہے
ان کی محفل میں حُضوری کی خاطر
نورؔ کا دل مچلتا جارہا ہے
یہ رفعت ، یہ تحفہ ، یہ دولت ۔۔۔ یہ شفقت ۔۔۔ملاحت کے نشان ، دل کہ غنچہِ نور ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی مہک کے جھونکے ٹکراتے ہیں ۔وجودِ نوری ہالہِ نور
وتعز من تشاء وتزل من تشاء

یہ مقامِ عزت کہ مقامِ حیرت۔۔جلوہ نعمت ، جلوہ رحمت ۔۔خورشید رات کی ہتھیلی پر ۔۔چاند اسکی جانب ہے لپکا۔۔یہ کون دل میں مقیم ہے۔۔ہر جھروکے پہ صدا دیتا ہے۔۔وہ کملی ۔۔۔ کیا شانِ طہٰ۔۔ مزمل ۔مدثر ۔۔کیا شانِ طہٰ۔۔صلی علی ۔۔ صلی علی ۔۔۔ نازِ نبوت ۔۔حبیبِ کبریاء ، بہارِ رحمت ۔۔۔امام الانبیاء ۔۔۔ صلی علی ۔۔صلی علی ۔۔۔حُسین کے نانا ۔۔مدینے کے تاجداروں ، دو عالمیں کے ابرار ۔۔۔۔۔ مرحبا یا سیدی ۔۔مرحبا ! مرحبا ۔۔۔۔۔حیرت سراپا مودب ۔۔ مرحبا !والیِ کونین آئے ۔۔صلی علی حبیبِ ناز ۔۔۔۔صلی علی نبیِ ناز ۔۔۔۔۔۔۔ دل طالبِ حسن ۔۔ کریم النفس ، حلیم الطبع ۔نفیس المزاج ۔۔۔۔۔۔۔۔عشاق کے طبیب و حکیم ۔۔۔۔ مریضِ عشق کا مرض بڑھا بہت ۔۔ دوا کہ دوا نہیں مگر اے عالی پناہ ۔۔ آپ ۔۔۔ آپ کی محفل میں حضوری ۔۔۔ کرم ہوا کہ قابلِ کرم بھی نہیں ، بھرم رکھا کہ قابلِ بھرم بھی نہیں۔۔

''میم'' کی ہستی کے رنگ ، جس میں چھپی رحیمی ، کریمی ۔۔درود و سلام ۔۔۔ یا نبی ،سلام علیک ۔۔یا نبی سلام علیک ۔۔ یا نبی آپ پر بیحد درود ۔۔۔۔

ثانی الثنین ۔۔۔۔۔۔۔ حبیب کہوں صدیق کہوں ۔ یارِ غار ، وہ عالی مقام ۔۔ روشن ستارے ۔۔ وہ تشریف فرما ہیں
صاحب الرائے ،۔۔۔ فاروق اعظم ----- ملے کیسے کیسے مقامات ، وہ شہید بھی شاہد بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
جمالِ نبی ، جلال نبی
باب العلم --- حیدر ۔۔۔ کیسے کیسے پائے انعامات ۔۔ علم کی سبیل ۔۔علم کی دلیل ۔۔ وہ شانِ بے نیازی ۔۔
جمالِ نبی ، جلال نبی
غارِ حرا کے ملے نظارے ۔۔ نعت کہنے کے استعارے ۔۔۔ مقامِ حیرت نعت سُنی بھی کہی ۔۔۔ مقامِ محبت کہ مئے دید سے مدہوش ۔۔ سرور میں ہو نہ جائے کو ئی سہو ۔۔۔ دل بس ہے محو ، محو محو ۔۔۔ ادب سے بات پاسِ ادب پہنچے ۔

سلام طیبہ کے روشن میناروں پر ۔۔۔سلام مدینے میں جھومتے صبا کے جھونکوں کو۔۔۔سلام خاکِ نقشِ پائے محمدؐ کو۔۔۔خوش نصیبی در پر آئی ہے ۔۔۔فغانِ نمیدہ دل کی اثر کرآئی ہے۔۔فریاد حضورﷺ سنتے ہیں ۔۔ ان کی حضور جبین رکھ دی ۔۔۔۔یانبی سلام علیک ۔۔۔۔یا رسول سلام علیک ۔۔دل کہ رحمت کا خزینہ۔۔دل کہ نوری نگینہ ۔۔ہجر کو ملا پھر سفینہ ۔۔خوشبو سے معطر ۔۔جھکے سر رہے ۔۔ادب کا یہ قرینہ ۔۔حق کے والی ۔۔در پہ کھڑی سوالی۔۔سلام اے ہادی ۔۔سلام اے طہٰ۔معطر ۔معجل ۔مطہر ۔۔دل کیا ، دل پہ ہو نگاہ تو کیوں نہ مصفی ۔۔اے رحیمی ، اے کریمی ! اے حبیبی ۔۔اے والی ، اے شافعی ۔۔رحمانی آپ سے ملتی ہے۔۔نوری کملی میں ڈھانپا ہے ۔۔مدثر ۔مزمل ۔۔طہٰ۔۔یسین ۔۔۔۔۔نہ اٹھی نگاہ مگر بنی دعا کہ مقامِ ادب کہ مقامِ حیا​

یہ دل کی باتیں ہیں ! دور ہیں ، نگاہیں کہیں اور ہیں مگر آپ کی مسلسل نگاہ میں ہوں ! دل دعا میں ہے کہ استغنا میں ہے ! دل فنا میں ہے یا دل ادعا میں ہے !
دل -------------------یا حیی یا قیوم ! اے دل فنا ہوجا !
دل --------------- لا الہ الا اللہ کی چادر اوڑھ لے ،
دل ------------------ھو کی صدا میں مست ہوجا !
دل ------------------کملی والے کی شان میں گم ہو جا !
دل -------------------- حبیبِ کبریا پہ درود بھیج !

ھو ! احمد ! ھو محمد ! ھو ، محمود !۔۔۔ھو، مزمل ! ھو، مدثر ! ھو، طہ ۔۔۔محمودیت پر فائز ہیں ، ذکر آپ کا بُلند جانبِ خدا ہے ۔۔۔
ورفعنالک ذکرک ۔۔
آوازہِ نورِ محمد بُلند کر کہ بلندی اسی آوازے سے ملتی ہے ، جو نگاہِ یار میں آجائے وہ حسین و جمیل ہے ، وہ جو جمال کی رفعت ، وہی اوجِ کمال ہے ، وہ حسن بے مثال ۔۔

شرم و حیا نے زبان پر تالے لگا دیے ! یہ حسن ! کیسا حسن ! یہ نبی کا حسن مل رہا ہے ! یہ عالی مقام یہاں گنبد خضرا کو سجا رہے ہیں ۔۔ وہ عالی ، حسین ، دل کو تھامے ہوئے ہیں ! وہ عالی ، میرے یحیی ! میرے عیسی ! میرے موسی !اے دل کو پھیرنے والی دعا دینے والے ، دل پھیر دیا ! اے دلوں میں مقیم استغنا کی چادر دینے والے ، دل غنی کردیا ! اے دل میں مقید خامشی کو ھو کی زبان دینے والے ،دل ولی کردیا ! حق ! محمد ! حق ! محمد ! حق ! محمد ! حق محمد ! حق محمد !
اے غارِ حرا کا نور ! اے عالی ! اے ذی وقار ! آپ پر سلام
 

نور وجدان

لائبریرین

زمینوں نے جب گردش کی اور جب یہ تھم گئیں تو نئے عالم وجود میں آگئے ۔۔۔ یہ گردش کیا تھی ، پاش پاش ہونا لکھا ہوا تھا ۔ جب زمین پاش پاش ہوئی تو کچھ نہ بچا ، بس ایک وہ بچا جس نے دی'' ھو ھو'' کی صدا اور پلٹ دی یکدم کایا اور صدا دی اللہ ھو اللہ ھو اللہ​

جسے ہم چاہتے ہیں دیتے ہیں اور جسے ہم چاہیں اسے زمانہ چاہتا ہے ، جسکا ہم ذکر کریں ۔۔ زمانہ اسکا ذکر کرتا ہے ،محبت عطا ہے ، یہ جذب ،محبت کسی دکان پر نہیں ملتا نہ ہی کسی مہمان سے ، نہ ہوتا یہ نسیان سے ، اس میں جاتا ہے ہوش ، بندہ ہوتا ہے مدہوش ، یاد بس ہماری رہتی ہے ، یاد بھی کیا ہے ، ہم جس کے دل میں بستے ہیں وہ بھلا کیا بھول پائے ،جسکے آئنے میں ہم خود کو خود دیکھتے ہیں ، وہ محبت کی آیات سے بنا ہے۔۔۔۔۔کون جانے کس کو ملتی ہیں کتنی رفعتیں ۔۔ یہ اوج یہ بہار یہ قربیتیں ، یہ فیضان ، یہ سب ہماری بخشش ، یہ جو صورت رحمان ہے یہ جو صورت فارس ہے یہ جو صورت اشجار ہے ، یہ گلاب ہے وہ گلاب ہے ، یہ چمن ، جو ہم دے وہ کیا رہتا ہے کچھ نہیں ہوتا بس جہاں ہم ہوتے ہیں ، وہ ہمارا قبیلہ ہوتا ہے

نور محمدﷺ کو جب خلق کیا ، ساری پسندیدہ ارواح اس نور کے قلب میں ڈال دیں ،

اے محمد ﷺ تو ہمارا آئنہ ہے
اے محمد ﷺ تیرا قلب نوری خزینہ ہے
اے محمد ﷺ کن کا سلسلہ تجھ سے ہے
اے محمد ﷺ حمد کا سلسلہ تجھ سے ہے
اے محمد ﷺ میرا ذکر تجھ سے ہے
اے محمد ﷺ تیرا ذکر مجھ سے ہے

ساری نوری آئنے محمدﷺ کی ذات سے ہیں ،وہ ان سے بھی ، ذاتِ حق سے بھی ضو پائیں گے جن کا ربط آپﷺ سے ہوگا ان کا حق ذات سے بھی ہوگا ، جس کا ربط حق سے ہوگا ،یقیناً نبی کریم ﷺ اسکی رحمت کے داعی ہیں ۔۔ جو نبی کریم ﷺ سے محبت کرتا ہے وہ اللہ تک رسا ضرور ہوگا ۔۔۔ اس پر لازم ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ اور اللہ دونوں کو چاہے ۔۔ وہ محبوب بنے ، محب بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور کی ساری صفات آپ کو سونپی گئیں ہیں۔۔۔ رحمانیت کا در رحیمی ہے وہ بھی آپؐ سے ہے ، بانٹ دینا آپؐ کا کام ہے اور ان کو دینا اللہ کام ہے ،​

اے محمد ﷺ یہ جو عاشق سدرۃالمنتہی تک پہنچ کے لڑکھڑا جاتے ہیں ان کو کنارے لگانا آپ کے ذمے ہے ! ہم جسے چاہیں جیسے چاہیں دیں ، ہم نے اپنے محبوب بندوں کو بہت نوازا ہے ، ان کو اپنا آئنہ بنایا ہے ، ان میں اپنا رنگ سجایا ہے ، وہ رنگ جو 'الف' اور 'م' کے سنگ سے جڑا ہے جس کی شبیہ سے ان کو نوازا گیا ، جسکو اوڑھنے کا سلیقہ بھی دیا جاتا ہے اور وہ جو حیرت ِ جلوہ جانم کے بعد عقل کھو جاتی ہے اس سے محفوظ رکھا ، اسلیے تو وہ میرے محبوب کی پناہ میں ہے ۔ ان کی آنکھ کا آنسو ہماری محبت کا نشانی ہے ، یہ جو دریائے معجزن حیرت و محبت کا سنگم اندر رواں ہے اس کا سرا بھی ہم سے ملتا ہے ہم جو چاہیں نشان مٹادیں۔ ہم چاہیں عروج عطا کردیں ، آزمائش انہی دونوں صورتوں میں لکھی ہے ، جو پار کرگئے نیا ، وہ جیت گئے ، جلوے ان کے ہوگئے​
 

نور وجدان

لائبریرین
وہ درد سے بھیجا گیا درود، وہ درد کی دوا بن گیا ۔ درد تو دِیا گیا ہی اِس لیے جاتا ہے کہ رقص کرنے لگے زمانہ ۔ زمانہ رقص نہیں کرتا بلکہ کائنات میں سب اشیاء کی تسبیح دکھنے لگتی ہے ۔ یہ اشیاء جن میں اس کے نشان ہیں، زائر سیر کے دوران کہنے لگتا ہے کہ دیدار ہوگیا ہے ۔ یہ مدارج الی اللہ ہیں کہ اس کو جانے کو ذات ہی منبع ہے ۔ ذات کا ستارہ، قطب ہے ۔ قطب منور ہو تو ہر شفاف شے منعطف ہونے لگتی ہے ۔ یہ شفاف ہونا لازم کیوں ہے؟ شفافیت "من و تو " کا جھگڑا ختم کرکے انالحق کی منزل سے گزار کے واجب الوجود بنا دیتی ہے ۔ زمانہ لاکھ کہے انسان ہے مگر روپ بہروپ کو جانڑے کون ۔ فرزانہ جانے گا انسان، دیوانہ جانے گا ذات ہے

اک فرزانہ ملا، دیوانے سے ۔ ملن کا قصور تھا فرزانگی جاتی رہی اور جذب حسن میں فرزانے کی کائنات ہوئی ۔ چلو اشک بندی ختم کرو! چلو رقص فزوں کرو کہ لٹو کا وجود نہ رہے ۔

میری جان! روح سے روح مل جائے گی! میرے دِل محبت میں محبوب ہوگا ۔ اے میری روح، عشق، عاشق اصل ہوگا معشوق کہ وجودِ عشق نے خدا کو وہ دوام بخشا کہ نہ فرق رہا، نہ حذر رہا، نہ خطر رہا

پری چہرہ ۔ وہ بے مثال چہرہ ۔ وہ پری چہرہ جس کا درون شامل کیے ہوئے تم سب کی صورتیں ۔ ان صورتوں میں کہیں جلال ہے، کہیں جمال ہے، کہیں حال ہے، کہیں کمال ہے ۔ یہ تسبیحاتِ درجات پکڑائی جاتی ہیں سیر الی اللہ میں اور جبل پر تجلیات اتنی پڑتی ہیں کہ جبل النور کا گمان ہونے لگتا ہے

نظر نہ ملائی جائے گی
نظر نہ اٹھائی جائے گی
نظر سے ملاقات ہو گی
نظر سے بات ہو جانی ہے
نظر مظہر، نظر اظہار
نظر زائر، نظر دائرہ
نظر حصار، نظر محصور
نظار جبر، نظر جبار
نظر مکان، نظر لامکان
نظر زمن، نظر لازمان
نظر محب، نظر محبوب
نظر چنر، نظر منظر
نظر حاشیہ، نظر قافیہ
نظر غزل، نظر غزال
نظر مجاز، نظر حقیقت
نظر مجذوب، نظر جذاب
نظر حسن، نظر حسین
نظر قطرہ، نظرہ قلزم
نظر حرف، نظر کتاب
نظر شاہد، نظر مشہود
نظر والی، نظر ولایت
نظر جمال، نظر جلال
نظر حال، نظر کمال
نظر انتساب، نظر اختتام
نظر محور، نظر شمس

نظر ملے، حیا سے جھکا سر ۔ جھکا سر نہ اٹھا اور محبوب کو دیکھا کیسے جائے؟ احباب بس دو سے اک ہوگئے اور مل گئی نظر ۔ وحدت کا پیالہ ٹوٹے نہ ٹوٹے کہ جام الوہی ہے ۔ شام سلونی ہے کسی دیوانے نے فرزانے پر نظر کی، جسم نہ رہا، لباس نہ رہا، بس خیال رہا ۔ خیال خیال سے مل گیا ۔

یار مل گیا، یار جانم، یار ہجر میں نمناک، یار جلن سے منتشر، یار خوشی سے مرکب، یار تحفہ، یار سائل، نفی کچھ نہیں اثبات کچھ نہیں ۔ جہاں سارا اثبات ہے، کس کی نفی کریں؟ عالم ھو میں ثباتیت دیکھو، دل پر ہاتھ رکھ کے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے؟ اللہ واجب الشہود ہے اللہ واجب الوجود ہے، اللہ ظاہر ہے، اللہ شاہد ہے، اللہ مشہود ہے، وہ خود شہید ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
رنگ کے سوانگ بھرنے آیا
وہ پھر مجھ سے ملنے آیا
رنگ ساز نے رنگ دے دیا
رنگ کی لاگی کا سوال ہے
رنگ میں ترا رنگ پہلا ہے
رنگ میں تو اول، تو آخر
رنگ سے ملی ہے رشنائی
رنگ ہے قلم، رنگ دوات
رنگ ہے ذات، رنگ بات
رنگ ہے سوت، رنگ چرخا
رنگ شہنائی، رنگ شادی
رنگ جلوہ، رنگ مجلی
رنگ میں سنگ ہے وہ
رنگ میں جگ ہے وہ
رنگ میں ساز کون ہے
رنگ میں راگ کس کا؟
رنگ مورا ترا ہے رے؟
مورا کیا ہے، سب ترا

صبر کی چنر میں رقص کیا گیا ہے دیوانہ، دوات مانگی کلیر کے صابر سے! اجمیر کا صابر زندہ ہے! وہ تو شاہ کا پرندہ ہے! قرار سے گیا کوئی! جھوم جھوم کہے جائے! مورے صابر پیا، تورا رنگ لاگے رے، توری چنر ملی رے، ترا جذب ملا رے، تو سنگ رے، تجھ میں جذب رہے، رنگ سے لاگی نبھائیں گے جب کہیں گے کہ ھو الحی القیوم. وہ اللہ کے ساتھ اللہ والے ہیں اور بس سب مسند نشین ہیں ۔ سب نے اللہ کو منالیا ہے ۔ سب نے ہجرت و وصلت کا سنگ ہٹا کے موسم اک کردیا ہے ۔ یہ جذبات و احساسات تو اس کی ملک سے نکلے اورتیر دل پر آشکار کر گئے یہی کہ روشنی ہے تو ان کی روشنی یے ۔ ان سے ملا ہے رنگِ حنائی. ان کی چنر ڈالی گئی ہے ۔ ان سے بات بنی ہے ان سے بات چلی ہے ۔ ان کی نظر سے منظر ہوگئی ہوں میں اور وحدت کے پیالے سے کون جانے میخانے و پیمانے کا فرق ۔ پیمانہ تو زمانوں پر محیط ہے تو زمانے سماگئے ہیں اور ًکلیر کے شاہ کہتے ہیں کہ شاہوں کے ساتھ رہنے والے شاہ ہوتے ہیں، وہ مجذوب ہوتے ہیں، وہ قلندر ہوتے ہیں، وہ سمندر ہوتے ہیں، وہ ذات کے ملنگ ہوتے ہیں، وہ دھاگوں سے منسلک ہوتے ہیں یہ دھاگے جو ذات سے نکلے ہیں. ان کا رنگ طائر کو کشش کیے جارہے ۔ صابر کے کلیر سے بات بنی ہے ان سے ملا ہے ایسا کشش کا نظام کہ کشش زات اپنی ہوگئی اور بچا کیا؟ بچے تو وہ اور ہار گئی طائر کی پرواز. وہ رک گیا ان کے مکان، اپنا مکان بھول گیا ۔ پرواز ملی تو ایسی ملی کہ سنہری رنگت والوں نے میرے ہاتھوں پر سجی حنا کو دیکھ کے سلام کیا ۔ سلام قول من رب رحیم ۔ خدا تو خود رحیم یے!
 

نور وجدان

لائبریرین
آخرش! تنہائی سے یاری نبھانی ہے وگرنہ قلت مولا کہا اور اثر نہ ہوا. میری جان!
میرے دِل!
تجھ پر میری حقایت کا اثر ہونا چاہیے
تو میرا قلم ہے اور کتاب قلم سے وجود میں آتی ہے. آسمانی مصحف تک رسائی پاک دل کرتے ہیں لایمسہ الا مطھرون کی مثال جب آنکھ وضو کرے تو سمجھ لے، میری جان! تری رسائی ہے! تو جان لے کہ شوقِ رقیب میں رقابت کچھ نہیں کہ شوق میں رقیب ہی حبیب ہے حبیب قریب ہے. نصیب والے نے برسایا مگر کھایا سب نے. دینے والے ہاتھ اچھے، سو دینے والا ہاتھ ہو جا! نہ جھڑکی مثال دے، نہ وضو کے نین دکھا، محرم راز بن. طریقہ یہی ہے ساتھ رہنے کا وگرنہ لازمان و لامکان کے دائرے تحریک نہ پکڑ سکیں گے. واعتصمو بحبل اللہ ...یہ محبت کی رسی ہے، محبت وہ بانٹتا ہے جس کو رحمت ملتی ہے. رحمت بانٹنے والا در تو اک ہے. تو میری جان! جب اس کا نام لے تو درود پڑھ ... درود ایسا کہ روبرو ہو. وہ گھنگھریالے سے بال جس کی مثال رات نے لی سورج کا چھپنا رات ہے اور روشنی تو نکلتی ہے درز درز دندانِ مبارک سے گویا بقعہ نور ہو. وہ نور ایسا کہ دل میں چشمہ ابل پڑے اور چشمے سے چشمات کے لامتناہی سلاسل. یہ وہ ہیں جن کے لبِ یاقوت سے گلاب کی پتی مثال لی، جن کی مسکراہٹ سے ہوا کھلکھلائی تو باد بن گئی. وہ دل کے کاخ و کو کے شہنشاہ ہیں اور ہم شاہ کے غلام ہیں. شاہ حکم کیجیے! شاہ کے سامنے مجال کیا کہ گویائی کا سکتہ ٹوٹے، یہ رعبِ حسن کہ حاش للہ تو نکلے مگر ہاتھ کے بجائے روح ٹکرے ٹکرے! روح کی تقسیم ایسے ہوتی ہے. ہاں یہ تقسیم ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
پریم کتھا لکھنے بیٹھو تو رام نیا بہنے لگے ۔ رام نیا کو بہنے کے لیے پانی چاہیے اور عرش دل ہے دل میں پانی ہے ۔ یہی ساری کہانی ہے ۔ کہانی بہت پرانی ہے ۔ یہ سمجھ میں آنی ہے جس نے کہنا اس کو پرانی ہے ۔ بات پرانی یہی ہے کہ وہ فلک نشین ہے ۔ فلک نشین کون کون ہے؟ اک تو ہے اور اک کے ساتھ جو فلک نشین ہیں وہ بے حجاب مظاہرہ کرتے ہیں الوہی الوہی روشنی کا ۔ جب کائنات نے نور سے سمیٹا کچھ، تو خاص روشنی تھی وہ مرقع زہرا رضی تعالی عنہ جن کے سبب کوثر جاری ہے. وراثت جاری ہے، ولایت جاری ہے ۔ یہ جو رنگ رنگ دکھتا ہے، یہ رنگ اک ہے مگر منقسم پانچ میں ہے، یہ پانچ منقسم ساتھ میں ہیں ۔گویا پہلا فلک اک رنگ سے پانچ میں اور ان پانچ سے باقی پانچ افلاک تصویر میں آئے ۔ وہ مصور جو میم سے تراش رہا تھا کنیوس پر، تو میم کے رنگ دیکھ کے مسکراتا رہا ۔ یہ جو شاہا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبسم ہے یہ حقیقت میں وہ عکس ہے جس کو خدا نے قلم سے محصور کیا اور مسکرایا ۔ یہی وسیلہ خدا تک پہنچنے کا ۔ یہ جو گویائی ہے یا حق موج ہے جس نے سینہ تیر فگن کر رکھا ہے، یہ تیر ایسا کہ بسمل وانگ لگن لگی اور ہارن لگی بازی میں. سئیاں نوں میں کہیا کہ یہ جو شربتی حلاوت ہے روح میں، یہ کیا ہے تو کہا " یہی تو مصوری ہے وہ جس پر وہ مسکرایا " آج تک وہ مسکراہٹ غیب سے حاضر میں وجود رکھتی ہے گویا جس جس کو اس مسکراہٹ کی پہچان ہو جائے وہ جان جائے کہ پہچان ہے یہ! یہ پہچان جس نے محبت کو قرار دیا ہے اور وہ مقرر ہوگیا ہے، جس کے لیے کہا گہا ہے " عارفوں کی زمین آسمان ہے، عارف ایسا ستارہ ہے جس کو کام چمکنا ہے، جس کا کام سمت دینا ہے، جس کا کام گویائی سکھانا ہے، جس نے فہم دینا ہے. العارفین عن الناس، ھو العارف این ما کنتم! یہ جو کہا گیا ہے وہی ہوگیا ہے. نظر کی بات ہے، دلِ بینا سے دیکھو تو تم کو عارف ملے گا، جب تم کو شناخت ہوگی تو علم ہوگا پانچ رنگ ہفت افلاک سے ہوتے عارفوں کا چہرہ بنے ہوئے ہیں. یہ درون کا چہرہ ہے، یہ صورت گر جب صورتیں بناتا ہے تو کیمیا گری کرتا ہے ۔ یہ فیض ہوتا ہے جو بانٹا جاتا ہے ۔ دیا جو جاتا ہے تو دینے کے لیے دیا جاتا ہے، تقسیم کرنا ہوتا ہے ورنہ فیض رک جاتا ہے اور سلسلہ رک جاتا ہے. خدا شاہد ہوتا ہے جو تقسیم کرتے ہیں، اور پھر شہادت ہو جاتی ہے مومن کی، ظاہر وہ ہو جاتا ہے جو باطن میں ہوتا ہے ۔ شہادت کا کام شیروں کا ہوتا ہے ۔ جان کی بازی لگانا آسان نہیں ہوتا بلکہ جان لگ جاتی ہے اور باز، شہبازی کرتے فلک کے لامتناہی گوشوں میں جاتا کہتا ہے " منم محو جمال او " رقص یار میں گم پروانہ، پروانہ نہ تھا بلکہ وہ تو یار تھا جو خیال کی صورت رقص میں تھا. وہ عین شہود تھا. یہ قران پاک کی تلاوت ہے ۔ ذات ہماری قران ہے اور نسیان سے ملتا عرفان یے. یہ جو رات چھائی ہے جس کی مدھم مدھم روشنی مہک دے رہے ہیں ۔یہ روشنی عین شاہد یے کہ وہ ہستی جس کے لیے کائنات بنائی گئی وہی سامنے ہے. وہ درود ۔ جب کہ زبان گنگ ۔ زبان گنگ میں کلام ۔ کلام بھی کیا عرفان ۔ عرفان بھی کیا یہ ایقان جس سے ملی ہے پہچان ۔ پہچان بس نعت ہے. یہ وہ نعت ہے جو دیکھ دیکھ کے لکھی جاتی ہے، جس میں نقش نقش کی ضو سے رنگ رنگ اترتا قلب کو چمکاتا ہے. یہ آشنائی بھی نصیب ہے گویا حبیب قریب ہے.
 

نور وجدان

لائبریرین
من تکڑی اور تول دی گئی نیت!
ویل للمطففین
نیت کا تول بھاری اور من کی لاگی ایسی کہ خدا سے ہم کہتے رہتے اس کو اس کے کیے جزا کم دے اور میرے کیے کی نیت کا بھرم رکھ ۔ جب بھرم کی بات آتی ہے تو مطاف سے صدا لگاتی ہے کہ یہ تو دیدار کا وقت ہے ۔ نہیں انتظار کا وقت ہے. یہ التفات کا وقت ہے ۔ وقت کاذب ہے اور اس نے کہا

والمرسلت عرفا

یہ صبا جس کو وقت کاذب میں چلاتا ہے تاکہ جان کنی کا حال کم ہے. تخلیق کے مراحل جان لیوا ہوتے ہیں اور لفظ مولود کی گھڑیوں میں جنم لیتے ہیں، درد اتنا ہوتا، نسیان اتنا ہوتا ہے کہ خبر نہیں رہتی کہ وصال تھا. جب وصال ہو تو دن و رات سے پرے اک مقام پر وہ ملتا ہے جس کو شب قدر سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ الرحمن کے بندے ہیں وہ جو والکاظمین الغیظ کی مثال درد کو جذب کرنے والے ہیں. یہ کرسی والے کا مقام ہے وہ اک میں جذب ہو جائے اور واویلا چھوڑ دے. کرسی والے کو ملتا ہے وہ مقام جس کے لیے فرمایا جاتا ہے والشمس. یہ قسمین وہ کھاتا ہے اور بڑے پیار سے نوازتا ہے مگر اس سے پہلے شرح صدر ضروری ہوتا ہے، بوجھ سہنا ضروری ہوتا ہے. یہی تو حق موج یے جس نے میرے لیے اسم لامثال سے بے مثال موتی کشید کیے. چشم نمی کی کہانی اتنی پرانی ہے جتنا یعقوب کا گریہ ۔ وہ عشق معشوق کے لیے رویا. بات بہت آسان سی ہے کہ خدا، خود اپنے لیے رویا ۔ خدا نے کتنے آئنے بنائے، کتنا حسن بانٹا اور پھر جس جس کو حسن دیا گیا اس بے دیکھنے کی نوبت نہ کی بلکہ صم بکم عم کی مثال ہوگیا. دل شر البریہ ہو جائے تو شرالدواب ہوجاتا ہے اور ایسے پر کنکری جب پھینکی جاتی تو کہا جاتا ہے "وما کن اللہ رمی. بس یہ پھینکی کس نے، یہ کون جانے

اک بازی تھی صیاد کی اور ہوا تو زور کی جب جھکڑ چلا تو کہا گیا کون ہے دل کے قریب؟ کس نے خبر دی " والنشرت نشرا " بس یہ کائنات کا اخبار خبر دے رہا سچے سمیع العلیم کی. وہی تعلیم یہی دیتا ہے کہ ھو اللہ الواحد! واحد کو کوئ دیکھتا نہیں تو اس کے نشان روح پر کیسے پڑیں؟ وجہ اللہ پھر کیسے ہوں؟ اپنا چہرہ ہی وجہ اللہ ہے. اپنی رویت آسان نہیں اس کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے. پھر ہر سمت اس کا جلوہ ہوتا ہے. فثمہ وجہ اللہ. تب قبلہ بنتا ہے، تب نماز قائم ہوتی ہے. یہ نماز ایسی ہے جس میں دل صامت ہوتا ہے، اشجار ساجد ہوتے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
اک امکان کے پاس، مکان ہے اور مکان میں یاد کا امکان ہے ۔ رمز اس کی جدا ہے، خوشبو سے جس کا لکھا جاچکا ورق ہے. یہ سرخ مکان جس کی سنہری دیواروں پر نیلی چادر نے اطراف سے سب رنگ غائب کردیے اور اک دیوانہ، مستانہ چلا جارہا ہے۔ اس مستانے کو ہوش نہیں تھی زمانہ کیا جانے اس کے گیتوں کو ۔ وہ سازِ الوہیت میں مست تھا، غائب کیا جانے حاضر کیا ۔ یہ تخت، یہ مسند، یہ آئنہ جو اس کے لیے بنایا گیا، سجایا گیا ۔۔۔ یہ وہی تھا جس کا وہ ہمراز تھا ۔ اک پکار، اک چیخ تھی جب وہ مسند نشین ہوا ۔ شاہی ملنے پر واویلا کرنا؟ کون جانے شاہ ہونے والے کو لازم، شمع کو گُل کردے اور شمع پھر بھی روشن رہے ۔ یہ گِل جس میں گُل کھلیں تو خوشبو تن من میں پھیل جاتی ہے خوشبو بھی خالی نہیِ بلکہ ھو کی صدا ہے ۔ یہ قاری جو اندر ہے وہ کہتا ہے لاتحرک بہ لسانک اور جب اس قاری سے قرات کے اسرار کھلتے ہیں تو عقل دنگ ہو جاتی ہے ۔ بلند بانگ دعوے؟ انسان کی مجال نہیں وہ دعوی کرے! یہ تو کروایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر درود بھیجتا ہے، درود ان پر بھیجا جاتا ہے جن کی نماز قائم ہو

اے قائم ہونے والی نماز
اے قیام کرنے والے شجر
اے تسبیح کرنے والی رات
اے گردش کرنے والی صبح
اے تضاد والے چاند
اے محورِ روشنی رات کے

بتا کہ کائنات مجذوب ہے، کائنات تری یکتائ کی تسبیح پڑھ رہی ہے اور بندہ دوئی میں گم، تضاد میں گرفتار. اللہ کا نور، وہ چراغ جس کی لو نہ شرقی ہے نہ غربی کہ وہ تضادات سے پاک ہے اور ہم اس کے حضور پیش ہوتے ہیں تضاد لیے ۔ ہماری دوئی کے نقش کب جھوٹے ہوں گے؟ ہمارے پالنہار نے ہمیں محبتوں میں سمو رکھا ہے اور فرماتا ہے" انما امرہ اذا ارادہ شئیا ان یقول لہ کن فیکون " انسان صاحب امر ہوجاتا ہے جب وہ صاحب کا ہوجاتا ہے ۔ جو ازل سے اس کی مانگ ہو، وہ اسکا ہو کے رہتا ہے ۔ وہ لاتا ہے واپس اسکو اپنی رہ پر، چاہے پیار سے، چاہے ٹھوکر سے اور جب پیش حضور عالم غیاب سے کلام کرتا ہے تو کہا جاتا ہے بتا ترا کوئ نقش ہے؟ جس کے دل میں علم ہوتا ہے، عرش کا پانی ہوتا ہے وہ کیا جواب دے؟ وہ ایسا صاحب حال ہو جاتا ہے جس کو خاموش کرا دیا جاتا ہے ۔ درد میں آواز نکالنا نعرہ منصور جیسا ہوجاتا ہے اور سزا تو وہ اپنے محبین کو دیا کرتا ہے ۔ قلم چلتا ہے قرطاس پر نور بکھر جاتا ہے ۔ قلم کیا ہے؟ قرطاس کیا ہے؟ قلم اور قرطاس ایک ہیں؟ من و تو کا جھگڑا تو ہے نہیں ۔ وہ رگ جان سے اتنا قریب ہے کہ سانس اس جاناں کے بنا لینا دشوار ہے مگر سانس کے کارن ہی ہم اس کو محسوس نہیں کر سکتے. وہ قلب سے مقلب القلوب کو حی قیوم کی کرسی دیتا ہے اور کہتا ہے یہ کرسی تری ہے ۔کرسی پر بیٹھنے والا اگر گھبرا جائے تو فائدہ؟ اس نے تو کہا جا تجھے ستاری دی، جا تجھے شاہی دی، جا تجھے محبت کے بیش بہا جواہر دیے ۔ اب کرسی والے کو چاہیے وہ تقسیم کرے کہ کرسی والے، کرسی کی مثال لیے ہوتے ہیں ۔ یہی ہوتے ہیں جن پر حیات دوامی کا اصول نافذ ہو جاتا ہے ۔ تکبیر پڑھنی ہوتی ہے " اللہ اکبر " جب تحفہ ملے تو سمجھ لو کہ تحفہ اک کو اک سے ملاتا ہے. وحدت کی شراب جاری ہو جائے تو میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ ہی میخانہ بن جاتا ہے
شہنائی والی اک صدا بہت دور سے سنی جارہی ہے اور دل رنگ والا ہے ۔ رنگ نے رنگ والے کو غنی جانا ہے اور رنگ ایسا دیا کہ رنگ ہی رہا، مل گئی ہستی اور اتر گئی خاک کی ملمع! یہی شمع ہے یہی حق کی جاری قندیل ہے جس کے لیے کہا گیا ہے وہ طاق میں چراغ ہے. چراغ الوہی ہے اور راگ الوہی ہے ۔ جب روشنی اور راگ مل جاتے ہیں تو فرشتہ حاضر ہو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے " بتاؤ، کس نے کس کو جانا؟ " بس کہا جاتا ہے اندر نے اندر سے صدا لگائی. جس نے پہچان کرائی. جس کو پہچان ہوئ. وہ دونوں اک ہی ہیں

ماہ و سال کی گردش میں تضاد سے بندہ گھبرا گیا ہے اور وقت کو کہتا ہے رک جا ۔ وقت رک جائے تو حم کا مقام آجاتا ہے ۔ معراج مل جاتی ہے ۔ معراج کا مقام صدیقیت ہے، ولایت ہے، عین علی کا فضل ہے، عین علی رضی تعالی عنہ سے حسینی نور کی تمثیل ہے ۔ پوری کائنات کا آئنہ اک ہے مگر منقسم پنجتن پاک میں ہے. مجذوب بیٹھا علی علی کہتا ہے ۔۔ اخلاص تو یہ ہے جو کہا، جس نے کہا وہی وہ ہوگیا ۔ بات تو ساری اخلاص کی ہے. یہ حق موج ہے جو سینے میں پیوست ہے ۔ یہ مرجع العلائق سے خلائق تک سپرد کی جانی والی وہ تلوار ہے جس نے دلوں کو چاک کرکے بس نظارہ ھو دیکھا یے
 
Top