سوشل میڈیا کے پنجے

سید عمران

محفلین
سوشل میڈیا کی تخریب کاریاں محض گنی چنی برائیوں تک محدود نہیں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا اثر صرف انفرادی طور پر پڑ رہا ہے مثلاً ہمارے بچے پڑھائی پر دھیان نہیں دے رہے ہیں، امتحانات میں ان کے نتائج اچھے نہیں آرہے ہیں، ان کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، لڑکیاں غیر مردوں سے دوستیاں لگا کر گھروں سے بھاگ رہی ہیں، جنسی جرائم عام ہورہے ہیں، بچوں اور نوجوانوں کی بڑوں سے بدتمیزی جیسی اب دیکھنے میں آرہی ہے پہلے اس کا تصور ہی نہ تھا، ماں باپ کو مارا جارہا ہے، خواتین میں عریاں لباس عام ہورہے ہیں، اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پھیل رہے ہیں، الحاد کا فروغ ہورہا ہے، لوگ چوری ڈاکے اور دیگر جرائم کے نت نئے طریقے سیکھ رہے ہیں۔ غرض سوشل میڈیا کے فوائد کم ہیں اور مفاسد بے انتہا۔

اگرچہ مندرجہ بالا مفاسد کی شرح اور شدت بھی کم ہولناک نہیں ، مگر بات اب اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ سوشل میڈیا انفرادی ذہن سازی کی بہت سی بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔ اس میں سب سے بڑا ذریعہ ہر شخص کے بارے میں مکمل تفصیلات حاصل کرنا ہے۔کس ملک کا شہری کس بات پر خوش ہوتا ہے، کس بات پر بھڑک جاتا ہے، کیا چیز پسند کرتا ہے اور کون سے چیز ناپسند کرتا ہے، کہاں آنا جانا چاہتا ہے اور کہاں نہیں۔ اس انفرادی کیس ہسٹری سے کسی قوم کا عمومی مزاج پتا چل جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف فردِ واحد بلکہ پوری قوم کی ذہن سازی کے مراحل آسان ہوگئے ہیں۔ کس کو کب اور کتنے میں خریدا جاسکتا ہے یا غیر محسوس طور پر اپنے استعمال میں لایا جاسکتا ہے اس پر عمل اب چنداں دشوار نہ رہا۔

اب انٹر نیٹ کی دنیا میں انسان کی خلوت اور جلوت کا فرق ختم ہوگیا ہے اور آن لائن پرائیویسی نام کی کوئی چیز موجود نہیں رہی۔سوشل نیٹ ورک کمپنیاں اپنی سائٹس پر موجود عوام کی ذاتی معلومات، پیغامات، تصاویر وغیرہ کا تجارتی استعمال کرتی ہیں۔یہ کمپنیاں اپنے گاہکوں (consumers) کی پسند و ناپسند کا اندازہ ان کے فیس بک اکاؤنٹس سے لگالیتی ہیں۔نوکری کے لیے درخواست دینے والے افرادکی آن لائن مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور ان کے تمام مشاغل کے بارے میں معلومات حاصل کرلی جاتی ہیں۔ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان سب میں اخلاقی حدود کو پامال کیا جاتا ہے۔

اس پر مستزاد اس کام میں جتے ماہرین کی نت نئے علوم پر ریسرچ اور ان کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کے طریقوں نے کسی بھی ملک کی عوام کو کٹھ پتلی بنانے کا ہنر ہاتھ لگا دیا ہے۔ مثلاً subliminal messages کی تکنیک کو میک ڈونلڈ نے اپنے ایک اشتہار میں استعمال کیا۔ اس اشتہار میں دماغ کے شعور اور لاشعور کی کارکردگی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرکے عوام کو غیر شعوری طور پر اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے پر آمادہ کیا گیا۔ یہ عمل اس لیے متنازع بن گیا کہ عوام کو کسی بھی طریقے سے خواہ وہ نفسیاتی و غیر شعوری ہی کیوں نہ زبردستی اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے پر نہیں اکسانا چاہیے بلکہ یہ بات ان کی مرضی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ اپنی پسند سے کیا خریدنا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔

یہ اور اس جیسی کتنی تکنیکیں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کے لیے استعمال ہورہی ہیں جن کا عوام تو کیا خواص کو بھی علم نہیں۔ لرزہ خیز حقیقت یہ ہے کہ اپنے ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے ملک تباہ کیے جاتے ہیں، اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو گرایا جاتا ہے، ان ممالک کے عوام میں بغاوت و شورش اور اپنی حکومتوں کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر انارکی کی صورت حال پیدا کی جاتی ہے اور اس آگ کو یہاں تک بھڑکایا جاتا ہے جب تک اپنے مقاصد حاصل نہ کرلیے جائیں۔ اس کی مثال شام، یمن، مصر، تیونس اور لیبیا ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں عوام کی اس قدر ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ لاشعوری طور پر ان کی پسند کے مطابق ووٹ کاسٹ کردیتے ہیں۔

اس کی ایک مثال امریکہ کے انتخابات تھے جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو منتخب کروایا گیا۔ یہ فیس بک کی تاریخ کا بدترین اسکینڈل تھا۔ اس اسکینڈل کے ذریعے لوگوں تک یہ بات پہنچی کہ سماجی رابطوں کی اس ویب سائٹ نے کس طرح اپنے صارفین کے قیمتی ڈیٹا کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں استعمال ہونے دیا۔ جس پر کمپنی کو نہ صرف امریکہ میں بلکہ دنیا بھر شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اُس کے صارفین نے اس پر اعتماد کرنا بھی کم کر دیا۔جس کے باعث فیس بک کو زبردست خسارہ برداشت کرنا پڑا اور اس کے شیئرز کی قیمتیں بھی گر گئیں۔ یہ معاملہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو عوام سے باقاعدہ معافی مانگنا پڑی۔

’’فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے ڈیٹا اسکینڈل کے حوالے سے امریکی کانگریس کے سوالات کے جوابات دئیے اور فیس بک کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے نظام کو بہتر بنانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہیں۔زکر برگ نے تسلیم کیا کہ سماجی رابطوں کی اس ویب سائٹ نے اپنے صارفین کے کوائف کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے اور وہ اس کوتاہی کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔گزشتہ چودہ برسوں کے دوران نجی معلومات کے افشا ہونے کے حوالے سے فیس بک کے لیے یہ سب سے بڑا تنارعہ ہے۔

خفیہ ذرائع نے اس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ برطانیہ کی ایک مشاورتی کمپنی کیمبرج انالیٹیکا نے فیس بک کے لاکھوں صارفین کے کوائف کا غیر استعمال کرتے ہوئے امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ چوری ہونے والے زیادہ تر کوائف امریکی شہریوں کے تھے۔ بعد ازاں فیس بک نے تسلیم کیا کہ 87 ملین صارفین کے نجی کوائف کا غیر قانونی استعمال ہوا ہے۔ تاہم کیمبرج انالیٹیکا کے مطابق وہ کسی بھی غیر قانونی کارروائی میں ملوث نہیں۔‘‘

ربط
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
سوشل میڈیا تک عوام کی رسائی بالکل مفت اس لیے ہے کہ یہ بڑے بڑے اداروں کو سوشل میڈیا پر موجود مطلوبہ شخصیات کی مکمل معلومات نہایت خطیر رقم کے عوض بیچتی ہیں۔ یہ معلومات وہ ہوتی ہیں جنہیں عوام نے اپنے تئیں نہایت خفیہ رکھا ہوتا ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی کسی کو خبر نہیں، مگر سوشل میڈیا ان معلومات کو اس طرح بیچتا ہے کہ ان کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

فیس بک کے خلاف آئرلینڈ میں دائر کیے گئے ایک مقدمے کی خبر:

’’فیس بک اس کوشش میں ہے کہ اس کے لاتعداد صارفین کے نجی کوائف کی امریکا منتقلی سے متعلق کو کسی بھی طرح یورپ کی اعلیٰ ترین عدالت میں پہنچنے سے روک دیا جائے۔

آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن سے پیر تیس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اس بہت بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کے ایک وکیل نے آج تصدیق کر دی کہ فیس بک کی انتظامیہ اپنے خلاف آئرش پرائیویسی کیس کو یورپی عدالت انصاف تک پہنچنے سے رکوانے کے لیے حرکت میں آ گئی ہے۔اس طرح فیس بک اپنے خلاف ان ممکنہ عدالتی اقدامات سے بچنا چاہتی ہے، جن کے تحت اس کے لیے ان قانونی شقوں کا استعمال غالباﹰ ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے، جن کی بنیاد پر یہ کمپنی اپنے صارفین کا نجی ڈیٹا ابھی تک امریکا منتقل کر دیتی ہے۔

فیس بک کے قانونی مشیر پال گالاہر نے ڈبلن میں آئرش ہائی کورٹ کو بتایا کہ یہ امریکی کمپنی ایک حکم امتناعی کے ذریعے آئرش ہائی کورٹ کو اس امر سے روکنا چاہتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک مقدمہ سماعت کے لیے یورپی عدالت انصاف کو بھیج دے۔‘‘ ربط
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
فیس بک ڈیٹا جمع کرنے کے لحاظ سے دنیا کے بااثر ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کمپنی کے اندر کیا ہوتا ہے اور یہ کام کیسے کرتی ہے۔

دو برس قبل سربیا کے شہر بلغراد کے ولادان جوئلر اور ان کے دوستوں نے فیس بک کے اندرونی مکینزم کا کھوج لگانے کا بیڑا اٹھایا۔ان کی ٹیم میں ڈیٹا ایکسپرٹ شامل ہیں اور وہ پروجیکٹ 'شیئر لیب' کے تحت فیس بک کی پرتیں الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر فیس بک ملک ہوتی تو اس کی آبادی چین سے زیادہ ہوتی۔

فیس بک کے پاس اپنے تقریباً دو ارب صارفین کا 300 پیٹا بائٹ (1 پیٹا بائیٹ = 1000 ٹیرابائیٹ) ڈیٹا محفوظ ہے اور صرف 2016 ہی میں اس کی آمدن 28 ارب ڈالر سے متجاوز تھی۔تاہم جوئلر کہتے ہیں کہ ان تمام باتوں کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ فیس بک کام کیسے کرتی ہے، حالانکہ ہم صارف ہی اسے مفت میں یہ تمام ڈیٹا فراہم کر رہے ہیں۔

ہم سب جب کوئی چیز اپ لوڈ کرتے ہیں یا لوگوں کو ٹیگ کرتے ہیں یا کسی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہیں تو دراصل ہم فیس بک کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ہمارے ان تعاملات (انٹریکشن) کو فیس بک کے پیچیدہ ایلگوردم استعمال کر کے فیس بک کو چلاتے ہیں۔ جوئلر کے مطابق ہمارے رویے اسے ایک پروڈکٹ کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔

لیکن اس سارے تانے بانے کا سرا ڈھونڈنا آسان کام نہیں۔جوئلر کے مطابق: 'ہم نے تمام ان پُٹس کی نقشہ بندی کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے لائیکس، شیئرز، تلاش، اپ ڈیٹ سٹیٹس، تصاویر، دوست، نام شامل کرنے کے نقشے اور فلو چارٹ بنائے۔ یہ دیکھا کہ ہماری استعمال کردہ ڈیوائسز سے سے ہمارے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے، ہم فیس بک کو ایپس کے ذریعے کیا کیا اجازتیں دے رہے ہیں، مثلاً فون سٹیٹس، وائی فائی کنکشن اور آڈیو ریکارڈ کرنے کی اجازت۔'

یہ چیزیں تصویر کا صرف ایک چھوٹا سا رخ ہیں، اس لیے جوئلر کی ٹیم نے یہ بھی دیکھا کہ فیس بک نے اب تک کون سی کمپنیاں خرید رکھی ہیں اور اس کے پیٹنٹ کیا کہانی سناتے ہیں۔

ہم جو ڈیٹا دیتے ہیں ان کی مدد سے فیس بک ہمارے جنسی رویے، سیاسی ترجیحات، سماجی رتبے، سفر کے شیڈیول اور بہت سی دوسری بہت سی چیزوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی ہے۔

فیس بک پر ہم جو لنک شیئر کرتے ہیں یا جن چیزوں کو لائیک کرتے ہیں، وہ صرف فیس بک تک محدود نہیں رہتے بلکہ ایک بہت بڑے ایلگوردم کا حصہ بن جاتے ہیں جن میں انسٹاگرام، وٹس ایپ، اور دوسری ایسی سائٹیں شامل ہیں جو فیس بک کا لاگ ان استعمال کرتی ہیں۔

اس سارے عمل کے ذریعے فیس بک اپنے صارفین کے بارے میں دہشت زدہ کر دینے والی درستگی سے معلومات حاصل کرتی ہیں، مثلاً کیا ہمیں چائینیز کھانے پسند ہیں، ہمارے بچوں کی عمریں کیا ہیں یا پھر ہمیں گھر سے دفتر پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔

جوئلر کا ایک اور فلو چارٹ بتاتا ہے کہ ہم فیس بک کو نادانستگی میں اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ٹیکسٹ میسج پڑھ سکے، ہماری اجازت کے بغیر فائلیں ڈاؤن لوڈ کرے اور یہ جان سکے کہ ہم اس وقت کہاں ہیں۔

جوئلر کہتے ہیں: 'اگر آپ کُکیز، موبائل فون پر دی گئی اجازتوں، یا پھر (تصاویر) میٹا ڈیٹا کے بارے میں سوچیں۔ ان میں سے ہر چیز انتہائی دخل اندازی کرنے والی ہے۔'

فیس بک کہتی چلی آئی ہے کہ اس کے لیے صارفین کی پرائیویسی مقدم ہے۔ تاہم جوئلر کہتے ہیں کہ اس کے طویل مدتی مضمرات زیادہ تشویش ناک ہیں۔

یہ سارا ڈیٹا ایک ہی کمپنی کی مٹھی میں رہتا ہے۔ اگر فرض کیا کہ آج فیس بک چلانے والے قابلِ اعتماد ہیں، لیکن 20 سال بعد کیا ہو گا؟ اس وقت کمپنی چلانے والے لوگ کیسے ہوں گے؟

ماہرین کہتے ہیں کہ شیئر لیب کا کام قابلِ قدر ہے۔ کورنیل ٹیک کی ڈاکٹر جولیا پاؤلز کہتی ہیں: 'میں نے اب تک جو کام دیکھے ہیں یہ ان میں سب سے جامع ہے۔ اس تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم صرف اپنے دوستوں سے رابطہ رکھنے کی خواہش میں کیا کچھ دے رہے ہیں۔'

ڈاکٹر پاولز کے مطابق: 'ہم نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کا تاریخی موازنہ نہیں کیا۔' وہ کہتی ہیں کہ ان کی طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی یا پھر سٹینڈرڈ آئل کی اجارہ داری سے بھی 'کہیں بڑھ کر ہے،' اور فیس بک ہماری لوگوں میں مقبول ہونے کی نفسیات سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔

پاولز وہ نہیں سمجھتیں کہ شیئر لیب کے تحقیق سامنے آنے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں فیس بک چھوڑنا شروع کر دیں گے۔

تاہم جوئلر کے نقشے بھی فیس بک کی طاقت کی مکمل تصویر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ان کے علاوہ بہت سے خفیہ ایلگوردم بھی کام نہ کر رہے ہوں۔

ان کے خیال میں 'اس کے باوجود یہ ہماری دنیا کی صورت گری کرنے والی سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ ربط
(جاری و ساری ہے)
 

سید عمران

محفلین
آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بُک انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک ایسی کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی، جس سے لوگوں کی نجی زندگی مکمل طور پر محفوظ ہو۔ اگر ہم پرائیویسی سے متعلق فیچر بند کریں، تو فیس بُک اکاؤنٹ ہی بند ہو جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایک بار فیس بُک ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد، فیس بُک انتظامیہ ہر نوعیت کی بات چیت ریکارڈ کر سکتی ہے اور یوں اسے اہم مُلکی رازوں تک رسائی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فیس بُک کے اس آپشن کے ذریعے جرائم ،خاص طور پر دہشت گردی کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، مگر اس سب کچھ کے باوجود، حقیقت یہی ہے کہ فیس بُک نے انسان کی پرائیویسی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔

ماہرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ کا فیس بُک اکاؤنٹ لاگ اِن نہ ہو، تب بھی یہ ریکارڈنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کیوں کہ آپ کے موبائل فون میں فیس بُک کی ایپلی کیشن تو ڈاؤن لوڈ ہے اور اس ڈاؤن لوڈنگ کے لیے آپ نے جن قواعد و ضوابط کو قبول کیا تھا، اُن میں گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت بھی شامل تھی۔ سو، فیس بُک انتظامیہ جب چاہے، آپ کی باتیں سُن سکتی ہے اور اُسے ایسا کرنے کی اجازت آپ نے خود دی ہے، لہٰذا آپ اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی بھی نہیں کر سکتے۔ بس یہی ہو سکتا ہے کہ جب تک گفتگو کی ریکارڈنگ کا کوئی توڑ سامنے نہ آئے، آپ فیس بُک کے استعمال میں احتیاط کریں اور اپنے رازوں کو اس سے دُور ہی رکھیں۔‘‘ ربط

معروف سرچ انجن گوگل بھی نہ صرف اپنے صارفین کی ہر ایکٹیویٹی کا ریکارڈ جمع کرتا ہے بلکہ اس جاسوسی کے ذریعے امریکی فوج کی کارروائیوں کو مزید بہتر سے بہتر بنانے کے لیے بھی اس کی معاونت کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ امریکی فوج کو اپنی ٹیکنالوجی بھی استعمال کرنے دے رہا ہے۔

انٹر نیٹ پر لوگوں کی جاسوسی کے لیے کیا کیا حربے استعمال کیے جارہے ہیں ان کی ایک جھلک ذرا ملاحظہ فرمائیں:

XKeyscore:

یہ پروگرام پورے دنیا میں وسیع پیمانے میں انٹرنیٹ کی جاسوسی کیلئے بنایا ہے جس میں ۱۵۰ مختلف جگہوں میں ۷۰۰ بڑےسرور لگائیں ہیں جو تمام انٹرنیٹ ٹریفک کو اسٹور کر رہے ہوتے ہیں۔اس کے ذریعے سے ایک عام این ایس اے کا کارندہ کسی کا بھی میل پڑھ سکتا ہے اور کسی کی بھی جاسوسی اس طور پہ کر سکتا ہے کہ وہ آج کیا کیا کر رہا ہے یا آج اس نے کون کون سے ویب سائٹ کھولے ہیں۔۔

وہ ہر وقت آپ کی ٹریفک کو نہیں دیکھ رہے ہوتے، بلکہ یہ ڈیٹا ان کے پاس محفوظ رہتا ہے، کچھ دنوں کیلئے پھر جب وہ کسی کے بارے میں دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایک سرور پاکستان میں بھی ہے۔یہ پروگرام انتہائی وسیع پروگرام ہے جس میں اور کئی پروگرام بھی ہیں جن میں ایک یہ ہے۔ یہ برطانیہ کی انٹیلجنس ایجنسی “گورنمنٹ کمیونیکیشن ہیڈکوارٹر” کا پروگرام ہے جس کے تحت یہ تمام فائبر آپٹکس انٹرنیٹ ٹریفک کو اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں، تاکہ بعد میں جب کسی کے بارے میں دیکھنا ہو تو اس سرور سے دیکھا جا سکتا ہو۔

پورے دنیا میں انٹرنیٹ فائبر آپٹکس کیبل کے ذریعے سے پھیلا ہے ۔برطانیہ کی انٹیلجنس ایجنسی پھر یہ معلومات این ایس اے کے ساتھ شئیر کرتی رہتی ہے اور ان کو ایکسس دے رکھی ہے۔ ان پروگرامز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں اکثر زبانوں کا ترجمہ خود بخود انگریزی میں ہوجاتا ہے۔انہیں کسی اور ترجمان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رپورٹ کے مطابق یہ پوری دنیا کی ایک مہینے کی ٹریفک اپنے پاس اسٹور کر سکتا ہےاور یہ ایکس کی اسکور کے تمام ڈیٹا سے زیادہ یہ اکیلا اسٹور کر سکتا ہے۔

ECHELON:

فائیو آئیز والے ممالک اس پروگرام کو چلا رہے۔ اس پروگرام کا کا م یہ ہے کہ تمام ممالک کے سیٹلائٹ کی جاسوسی اور نگرانی کرنا، ان کے فون کالز ٹریس کرنا اور میسجز وغیرہ دیکھنا،یہ ڈیٹا پھر ایکس کی اسکور کے سرور میں اسٹور ہوجاتا ہے۔

خیر اس کے علاوہ بھی کئی اور این ایس اے کے جاسوسی کے پروگرامز ہیں، سب پر بات کرنا ممکن نہیں۔اسی لئے تو گوگل نے کہا تھا کہ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ لوگ کتنی دفعہ اپنے موبائل کا لاک کھولتے ہیں۔

ان سب باتوں کو مختصر بتانے کا مقصد یہ تھا کہ انٹرنیٹ پر کوئی چیز بھی آپ کر رہے ہیں آپ این ایس اے کی جاسوسی سے محفوظ نہیں ہیں، باقی کالز ٹریس ہونا اور میسجز ٹریس ہونا تو پاکستان بھی کرتا ہے وہ ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ربط
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
گوگل اور فیس بک اسمارٹ فون رکھنے والے صارف کی ان تمام معلومات اور کاموں سے واقف رہتے ہیں جو صارف آن لائن یا آف لائن رہتے ہوئے اپنے موبائل سے انجام دیتا ہے، یہاں تک کہ صارف اپنے موبائل سے ڈیٹا ڈیلیٹ بھی کرلے لیکن گوگل اسے اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل کی بات کریں تو وہ اپنے صارفین کی لوکیشن محفوظ رکھتا ہے (اگر لوکیشن آن ہو) اس کے ذریعے آپ کے اسمارٹ فون استعمال کرنے کے پہلے دن سے لے کر اب تک کی لوکیشن حاصل کی جاسکتی ہیں۔

چونکہ ایک اسمارٹ فون (اینڈروئیڈ) رکھنے والے صارف کےلیے لازمی ہے کہ اس کا گوگل اکاؤنٹ ہو اور اسی کے ذریعے وہ اپنی تمام تر ڈیوائسز استعمال کرتا ہے لیکن وہ اس بات سے بالکل بے خبر ہے کہ گوگل صارف کی جانب سے تمام ڈیوائسز پر سرچ کیا جانے والا مواد ایک الگ جگہ محفوظ رکھتا ہے اور صارف کی جانب سے موبائل، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر سے سرچ ہسٹری ڈیلیٹ کرنے کے بعد بھی وہ سرچ ہسٹری گوگل کے پاس محفوظ رہتی ہے اور یہ تمام ڈیوائسز سے ایک ساتھ مکمل طور پر ڈیلیٹ کرنا ہوگی۔ ربط

آج دنیا بھر میں کسی بھی شخص کی چوبیسوں گھنٹے نگرانی یا جاسوسی کرنا ممکن ہوگیا ہے۔اوریہ حقیقت خطرے کی سطح میں مزید اضافہ کردیتی ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرنے والے کو اپنی جاسوسی ہونے کے بارے میں شک تک نہیں ہوتا،لہٰذاوہ خلوت اور جلوت میں بے دھڑک ان کا استعمال جاری رکھتا ہےاور انہیں استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کی گفتگو اور افعال کرتا رہتا ہے۔اس دوران اسے ذرّہ برابر یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ دنیا کے کسی کونے میں اس کی گفتگو اور افعال ریکارڈ کیے جارہے ہیں جنہیں کسی بھی وقت اس کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور ان کی مدد سے اسے بلیک میل کرکے کوئی بھی کام کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ ربط
 

سید عمران

محفلین
سوشل میڈیا کے ان مبینہ کرتوتوں پر نہ تو انہیں بند کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے کرتا دھرتا افراد کے خلاف ادنیٰ سی بھی کارروائی کی جاتی ہے۔ کیوں کہ انہیں چلانے والوں کی منشا انہیں بند کرنا نہیں، اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے اس کے لیے وہ کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دھڑلے سے ماضی کی طرح آج بھی اپنے مشن پر جتے ہوئے ہیں۔البتہ ان کی کارستانیوں سے نالاں متعدد ممالک اپنے اپنے ملک میں سوشل میڈیا کی ان سائیٹس پر مکمل، جزوی یا عارضی سطح پر پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں۔ مثلاً یوٹیوب پر بندش کے واقعات کی کچھ تفصیلات:

افغانستان:

مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والی متنازعہ فلم کی یوٹیوب پر موجودگی کی وجہ سے 12 ستمبر 2012 کو افغانستان نے اسے بلاک کر دیا تاہم یہ بین زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہا اور اسے یکم دسمبر 2012 کو ختم کر دیا گیا۔

آرمینیا:

2008 کے صدارتی انتخابات کی وجہ سے آرمینیا میں قریباً ایک ماہ تک شہریوں کو یوٹیوب سے محروم رکھا گیا۔ دراصل اپوزیشن جماعت نے عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کے لیے حکومتی ایما پر پولیس اور آرمی کے تشدد پر مبنی وڈیوز یوٹیوب پر ریلیز کر دی تھیں۔

بنگلہ دیش:

17 ستمبر 2012 کو اسلام مخالف متنازع فلم کی وجہ سے یوٹیوب کو بنگلہ دیشی حکومت نے بند کر دیا۔ 5 جون 2013 کو بنگلہ دیش ٹیلی کمیونی کیشن ریگولیٹری کمیشن نے اس بندش کو ختم کیا۔

چین:

چین میں پہلی دفعہ یوٹیوب 15 اکتوبر 2007 سے لے کر 24 مارچ 2009 تک بند رہی۔ جبکہ دوسری دفعہ 24 مارچ 2009 کو اسے بلاک کیا گیا، اس کے بعد یہ بندش آج تک نہ ٹوٹ سکی۔

جرمنی:

جرمنی میں جملہ حقوق یعنی کاپی رائٹس کی حامی تنظیم جیما (GEMA) اور یوٹیوب کے مابین اکثر اس حوالے سے تنازعہ رہتا ہے۔ جیما کے مطابق یوٹیوب پر اکثر جملہ حقوق کی خلاف ورزی کرتی وڈیوز موجود رہتی ہیں۔ اکثر وڈیوز میں کسی کا میوزک بغیر اجازت بیک گراؤنڈ میں ڈال دیا جاتا ہے، اس لیے جرمنی میں یوٹیوب اکثر بلاک رہتی ہے تاہم معاملات طے پا جانے کے بعد اسے کھول بھی دیا جاتا ہے۔

انڈونیشیا:

یکم اپریل 2008 کو انڈونیشا کے وزیر اطلاعات محمد نوح نے یوٹیوب سے متنازعہ فلم ’’فتنہ‘‘ کو ہٹانے کا کہا۔ اس کام کے لیے انڈونیشی حکومت نے یوٹیوب کو دو دن کا وقت دیا، لیکن یوٹیوب کی جانب سے وڈیو کو نہ ہٹائے جانے کے بعد 4اپریل کو وزیراطلاعات نے ملک میں موجود تمام انٹرنیٹ فراہم کرنے والی سروسز کو حکم دیا کہ یوٹیوب کو بلاک کر دیا جائے۔ 5 اپریل کو اسے آزمائشی طور پر ایک ISPپر بلاک کرنے کے بعد 8 اپریل کو پورے ملک میں بند کر دیا گیا۔ لیکن یہ بین زیادہ عرصے تک کارآمد نہ رہا بلکہ دو دن بعد یعنی 10 اپریل کو ہی ختم کر دیا گیا۔

ایران:

3 دسمبر 2006 کو ایران نے یوٹیوب سمیت دیگر کئی ویب سائٹس کو ’’فاجرو فاسق‘‘ قرار دیتے ہوئے ملک میں بند کر دیا۔ دراصل ایک ایرانی اداکار کی نازیبا وڈیو کے یوٹیوب پر سامنے آنے کے بعد یہ بین لگایا گیا تھا۔ یہ بین بعد میں اُٹھا لیا گیاتھا لیکن 2009 میں ایرانی صدارتی انتخابات کے وقت دوبارہ لاگو کر دیا گیا۔2012 میں اسلام مخالف فلم Innocence of Muslims کے سامنے آنے کے بعد ایران نے یوٹیوب اور گوگل کو ملک بھر میں بلاک کر دیا اور یہ پابندی تاحال برقرار ہے۔

لیبیا:

24 جنوری 2010 کو لیبیا نے مکمل طور پر یوٹیوب کو ملک میں بلاک کر دیا۔ اس کی وجہ1996 میں ابوسلیم نامی جیل میں لیبین خاندانوں کے قتل کی وڈیوز کا یوٹیوب پر سامنے آنا تھا۔ اس کے علاوہ دوسری وجہ لیبین قائد محمد قدافی کے خاندان کو مارنے کی وڈیوز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنا بھی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس بین کی شدید مذمت کی تھی۔ نومبر 2011 میں لیبین سول وار کے بعد یوٹیوب کو ایک بار پھر لیبیا میں کھول دیا گیا۔

ملائشیا:

مئی 2013 میں حساس سرکاری وڈیوز کے یوٹیوب پر آنے کے بعد حکومت کے انٹرنیٹ کو سینسر نہ کرنے کے وعدے کے باوجود اسے بلاک کیا گیا۔ نیٹ ورک کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ واقعی ISP صارفین پر نظر رکھے ہوئے ہے اور انھیں یوٹیوب تک رسائی نہیں دے رہی۔

مراکش:

25 مئی 2007 کو سرکار کی ملکیت ’’ماروک ٹیلی کوم‘‘ (Maroc Telecom)نے یوٹیوب تک رسائی بند کر دی۔ اس بندش کی کوئی وجہ نہ بتائی گئی، تاہم قیاس آرائی یہ تھی کہ مراکش میں علیحدگی پسند تنظیموں نے اپنی وڈیوز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیا تھا، جن میں بادشاہِ وقت پر تنقید کی گئی تھی۔ یوٹیوب پر یہ پابندی صرف سرکاری ٹیلی کام ادارے نے عائد کر رکھی تھی، دیگر دونوں غیرسرکاری انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں نے ایسی کوئی پابندی لاگو نہیں کی۔ 30 مئی 2007 کو یہ بین اچانک ختم کر دیا گیا۔ ماروک ٹیلی کام نے اپنے غیر سرکاری بیان میں کہا کہ یہ کوئی بین نہیں تھا بلکہ ’’تکنیکی خرابی‘‘ کی وجہ سے کچھ عرصے تک یوٹیوب نہ چل سکی۔

پاکستان:

پاکستان میں 22 فروری 2008 کو پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے کئی متنازع اور اسلام مخالف مواد کے یوٹیوب پر موجود ہونے کی وجہ سے اسے ملک میں بلاک کر دیا۔ پاکستانی حکومت کی درخواست پر متنازعہ اور اسلام مخالف مواد کے ہٹائے جانے کے بعد 26 فروری 2008 کو پاکستان میں یہ بین اُٹھا لیا گیا۔ تاہم متنازعہ مواد کے دوبارہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے 17 ستمبر 2012 کو یوٹیوب دوبارہ پاکستان میں بلاک کر دی گئی تھی۔

متحدہ عرب امارت:

یو اے ای ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی نے یوٹیوب اگست 2006 میں بین کی تھی لیکن بعد میں یہ بین اُٹھا لیا گیا۔

روس:

2010 ماسکو میٹرو بم دھماکوں میں ملوث شخص کی دھماکوں کی ذمے داری قبول کرنے والی وڈیو کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنے کے چار دن کے اندر آٹھ لاکھ بار دیکھا گیا۔ اس کے بعد اس وڈیو سمیت اپ لوڈ کرنے والے کی تمام وڈیوز کو ’’نامناسب‘‘ قرار دیتے ہوئے یوٹیوب سے ہٹا دیا گیا۔ اس بات کا الزام روس کو دیا جاتا ہے کہ اس دباؤ کی وجہ سے یوٹیوب نے ایسا کیا۔ 28 جولائی 2010 کو روس کے ایک شہر کی کورٹ نے مقامی ISP کو حکم دیا کہ یوٹیوب اور ویب آرکائیو سمیت ایسی ویب سائٹس جو کتابیں ڈاؤن لوڈنگ کے لیے فراہم کرتیں کو بند کر دیا جائے کیونکہ یہ نامناسب مواد پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ لیکن اس حکم پر عمل در آمد نہ ہو سکا اور اسے بعد میں واپس بھی لے لیا گیا۔ ربط
 

سید عمران

محفلین
یوٹیوب کی طرح سوشل میڈیا کی دیگرسائٹس بالخصوص فیس بک پر بھی کئی ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر پابندی عائد کرتے آئے ہیں۔ اس کی ایک جھلک بھی ملاحظہ فرمالیں:
سری لنکا:
مارچ ۲۰۱۸ کو سری لنکا میں مسلم مخالف فسادات کے بعد ملک بھر میں سوشل میڈیا پرپابندی عائد کردی گئی۔غیرملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق سری لنکا کے طول و عرض میں مسلمانوں پر بدھ بھکشوؤں کے حملوں کے بعد متعدد علاقوں میں حالات تاحال کشیدہ ہیں،بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلم مخالف کارروائیاں کرتے ہوئے مسلمانوں کو بھاری جانی ومالی نقصان پہنچایا ہے جب کہ حکومت نے فسادات میں کئی ہلاکتوں کے بعد ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
کشیدہ حالات کے سبب سری لنکا کی حکومت نے ملک بھر میں سوشل میڈیا پر عارضی پابندی عائد کردی ہے،ٹیلی کام اتھارٹی اینڈ کمیونی کیشن نے ملک بھر میں تین دن کےلیے فیس بک،وائبر اور واٹس ایپ کو بلاک کردیا ہے جب کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر عارضی پابندی کی وجہ مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کی خبروں کو روکنا بتایا ہے۔ ربط
میانمار:
میانمار میں مسلم نسل کشی کی تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس نے بنگلا دیش، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں موجود 600 روہنگیا مہاجرین کے انٹرویو کیے جن کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ دراصل یہ فیس بک تھا جس نے میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جذبات کو بھڑکانے میں کلیدی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو ملک بدر ہونا پڑا اور ہزاروں افراد شہید ہوئے۔
میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال کی نمائندہ خصوصی یانگ ہی لی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ قوم پرست بدھ اپنے نظریات کے پرچار اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے فیس بک استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے میانمار میں مسلم کش فسادات کو ہوا ملی یہاں تک کہ سات لاکھ سے زائد افراد کو میانمار سے ہجرت کرنا پڑی۔
ربط
بنگلہ دیش
2010 میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کی وجہ سے بنگلہ دیش میں فیس بک پر پابندی لگائی گئی۔ 18 نومبر 2015 کو بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما علی احسن محمد مجاہد اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما صلاح الدين کادر چوہدری کے آخری فیصلے کے موقع حکومت بنگلہ دیش نے عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے فیس بک پر پابندی عائد کردی تھی۔
کیوبا:
کیوبا میں فیس بک پر سرکاری طور پر پابندی عائد نہیں ہے، اس کے باوجود اس تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے۔صرف سیاست دانوں، کچھ صحافیوں اور طبی طالب علموں کو ان کے گھروں پر ویب تک قانونی رسائی حاصل ہوتی ہے۔ عوام کے لیے قانونی طور پر آن لائن دنیا سے منسلک ہونے کا واحد ذریعہ انٹرنیٹ کیفے ہے جو بہت مہنگا پڑتا ہے۔
چین:
جولائی 2009 کے میں سنکیانگ فسادات کے بعد چین میں فیس بک بند کر دیا گیا تھا۔
مارک زکربرگ کے مطابق ’’دنیا کے چار ممالک ایسے ہیں جہاں فیس بک کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی ہے، جن میں سے ایک چین ہے۔میں چین میں کچھ بھی کرنے سے پہلے ذاتی طور پر روزانہ ایک گھنٹہ نکال کر چینی زبان اور ثقافت کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ چین دنیا کا ایک نہایت ہی اہم حصہ ہے اور اس کے بغیر دنیا کنیکٹ نہیں ہوسکتی۔‘‘
چوں کہ چین ابھی تک فیس بک کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہے لہٰذا مارک زکر برگ ہر وہ کوشش کرنے کے لیے بے چین ہے جس کے نتیجے میں چین اس کے شکنجے میں آجائے۔ چاہے اس کے لیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر چینی زبان ہی کیوں نہ سیکھنی پڑے۔
مصر:
2011 میں مصری صدر حسنی مبارک کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ہونے والے فسادات کے دوران مصر میں چند دنوں کے لیے فیس بک بند کر دی گئی تھی۔
جرمنی:
2016 میں Bertelsmann نامی ماس میڈیا کمپنی کو فیس بک سے ایسے تبصرے اور مواد ختم کرنے کا اختیار دیا گیا جو ہٹلر کی نازی حکومت اور نسل پرستی کی حمایت میں تھے۔ ۲۰۱۸ کے اوائل میں اس طرح کے دیگر معاملات کو روکنے کے لیے جرمنی کی حکومت نے NetzDG نامی قانون متعارف کرایا، اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والی سوشل میڈیا کمپنیوں پر بھاری جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔
ہنگری:
ہنگری میں خود فیس بک نے kuruc.info نامی قدامت پسند ویب سائٹ پر پابندی لگا رکھی ہے کیوں کہ یہ خاص طور پر یہودیوں کے خلاف ہے،اس ویب سائٹ سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے والا فیس بک پر نجی پیغامات نہیں لکھ سکتا۔
انڈیا:
بھارتی حکومت نے 2017 کو وادی کشمیر میں فیس بک، ٹویٹر، اور دیگر سماجی نیٹ ورکنگ سائٹس پر ایک ماہ کی پابندی عائد کردی تھی کیونکہ بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ سماجی میڈیا کا قومی اور مخالف سماجی عناصر کے ذریعہ غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
فیس بک کی شفافیت کے حوالے سے 2014 کی رپورٹ کے مطابق چوراسی ممالک میں سے ایک بھارتی حکومت ہے جس کی درخواستوں کی وجہ سے سب سے زیادہ مواد پر پابندی لگائی گئی ہے۔ صرف 2013 میں بھارت میں 4,765 صفحوں اور مواد کو بلاک کیا گیا تھا۔
ایران:
2009 میں ایران کے انتخابات کے بعد ٹوئیٹر اور فیس بک کے ذریعے حزب اختلاف کی تحریکوں کو منظم کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے ایران میں فیس بک پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اسرائیل:
ستمبر 2016 میں اسرائیلی کابینہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ فیس بک سے وہ تمام اکاؤنٹس ہٹادئیے جائیں جو اسرائیلی مفادات کے خلاف ہیں۔ اس ضمن میں اسرائیل نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے فیس بک کی انتظامیہ کو ان تمام اکاؤنٹس پر نظر رکھنے اور انہیں ہٹانے کو کہا جو اسرائیل کے خلاف ہیں، خاص طور پر فلسطینیوں کے اکاؤنٹس۔
شمالی کوریا:
اپریل 2016 میں شمالی کوریا نے فیس بک کو بلاک کرنے کا آغاز کیا۔ شمالی کوریا میں فیس بک تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا قابل سزا جرم ہے۔
شام:
2007 سے شام میں سوشل میڈیا پر مختلف پابندیاں چلی آرہی ہیں ۔شامی حکومت کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں بغاوت پھیلنے کا خطرہ ہے۔
تاجکستان:
نومبر 2012 کو تاجکستان کے صدر Emomalii Rahmon اور دیگر سرکاری افسروں کے خلاف نازیبا کمنٹس کی وجہ سے فیس بک پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
برطانیہ:
28 اپریل 2011 کو برطانیہ میں پرنس ولیم اور کیتھرین مڈلٹن کی شادی سے ایک دن قبل فیس بک سے حزب اختلاف کے تمام سیاسی صفحات اور گروپس کو ہٹا دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ بھی برطانوی حکومت مخالف تنظیموں کے فیس بک اکاؤنٹس باقاعدگی سے مٹاتی رہتی ہے۔
امریکہ:
امریکہ نے اسرائیل کے دباؤ پر بے فلسطینیوں کے متعدد فیس بک اکاؤنٹس منجمد کیے۔ اس کے علاوہ امریکہ ہر اس اکاؤنٹ کو ختم کرنے میں ذرا نہیں ہچکچاتا جو اسے پسند نہیں۔

حرفِ آخر:
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا عوامی آراء پر اثر انداز ہونے کی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ اس کے ذریعے انسانیت کی فلاح و بہبود کی بعض بہت اچھی تحریکیں بھی کامیاب ہوئی ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان مثبت باتوں کی تعداد منفی سرگرمیوں کے مقابلہ میں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہیں۔فیس بک کے صارفین تعلیم یافتہ ہونے کے باجود منفی سرگرمیوں میں زیادہ ملوث ہوتے ہیں جو معاشرے میں کوئی بھلائی نہیں پھیلارہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے مفاسد اور اس کے کرتا دھرتا افراد کی سازشوں کے باعث آج دنیا کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ دنیا سوشل میڈیا کے بغیر زیادہ پرامن ہوسکتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
میرا خیال تھا حرف آخر میں آپ سوشل میڈیا بشمول اردو محفل سے رخصت کا اعلان کردیں گے۔ لیکن بہرحال۔۔
فیس بک پر تو نہیں ہونگے آپ؟
 

سید عمران

محفلین
میرا خیال تھا حرف آخر میں آپ سوشل میڈیا بشمول اردو محفل سے رخصت کا اعلان کردیں گے۔ لیکن بہرحال۔۔
فیس بک پر تو نہیں ہونگے آپ؟
کسی کی بات کوئی بد گماں نہ سمجھے گا
زمیں کا درد کبھی آسماں نہ سمجھے گا

ہم صرف اردو محفل پر ہوتے ہیں!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
پاکستان میں 22 فروری 2008 کو پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے کئی متنازع اور اسلام مخالف مواد کے یوٹیوب پر موجود ہونے کی وجہ سے اسے ملک میں بلاک کر دیا۔ پاکستانی حکومت کی درخواست پر متنازعہ اور اسلام مخالف مواد کے ہٹائے جانے کے بعد 26 فروری 2008 کو پاکستان میں یہ بین اُٹھا لیا گیا۔ تاہم متنازعہ مواد کے دوبارہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے 17 ستمبر 2012 کو یوٹیوب دوبارہ پاکستان میں بلاک کر دی گئی تھی۔
ہمارا بس چلے تو 100٪ بلاک کرا دیں اسقدر متنازع باتیں شر انگیزی اور مذہبی انتہا پسندی بخدا یہ تفرقہ کا باعث آپ یاد کریں وہ دور جس میں اسقدر شادیاں ہوتیں آپس میں اور کوئی فتنہ اور فساد نہ تھا اب بات بات پر دست و گریباں ہیں ۔۔۔
 

وسیم

محفلین
ابھی سوشل میڈیا کمپنیز آپس میں کولیبوریٹ نہیں کر رہیں لیکن میرا خیال ہے پردے کے پیچھے ایسے کوئی کھچڑی پک رہی ہو گی۔

باقی فتنہ و فساد پھیلانا اور متنازعہ موضوعات کو فروغ دیتے ہوئے ذہن سازی کرنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔
 

وسیم

محفلین
سوشل میڈیا سے بھی بڑا خطرہ اسمارٹ فون ہے۔ میں تو کل سے سنجیدگی سے سوچ رہا تھا کہ اسمارٹ فون کے بجائے بٹنوں والا فون پھر سے استعمال میں لایا جائے۔

لیکن ایک چیز آپ نوٹ کریں گے کہ کمپنیز ٹو جی کو فیز آؤٹ کرتی جا رہی ہیں، یعنی جو بھی فون اب مارکیٹ میں آئے اس میں اسمارٹ فون کے فیچر لازمی ہوں گے چاہے وہ بٹنوں والا ہو یا ٹچ اسکرین۔
 
Top