سوشل میڈیا کا بے جا استعمال اور دماغی صحت

ہانیہ

محفلین
سوشل میڈیا آپ کے دماغ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
اگر آپ کچھ دیر کے لیے اپنا فون چیک نہ کریں تو یہ آپ کی قوت ارادی آزمانے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔

سبرینا بار


سوموار 7 اکتوبر 2019 15:15

44881-1794909739.jpg



کسی کے سوشل میڈیا کا جائزہ لینا اور ان کی خوبصورتی سے بھرپور تصاویر اور فیس بک پر ان کی ازدواجی حیثیت پر نظر رکھنا ہمیں اپنے ہی بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے (اے ایف پی)

سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے عالمی آبادی کبھی بھی ایک دوسرے سے اس حد تک رابطے میں نہیں تھی۔

لیکن سوشل میڈیا پر اس درجہ انحصار نے ہمارے دماغی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ ایک عام برطانوی شہری دن میں اوسطاً 28 بار اپنا فون چیک کرتا ہے۔

ایک طرف جہاں سوشل میڈیا کے فوائد ہیں وہیں دوسری جانب اس کا حد سے زیادہ استعمال ہمیں افسردہ اور تنہائی کا شکار بنا رہا ہے۔

بہترین فلٹروں کے ساتھ انسٹاگرام پر خوبصورت تصاویر پوسٹ کرنے کی ضرورت کئی لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کر رہی ہے۔ سونے سے پہلے عادتاً ٹوئٹر کو دیکھنا اچھی نیند کے رستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

یہاں سوشل میڈیا استعمال کرنے کے باعث چھ ایسی وجوہات بیان کی گئی ہیں جو آپ کی ذہنی صحت پر اثر ڈال رہی ہیں اور شاید آپ کو اس بات کا علم تک نہیں ہے:

عزت نفس

ہم سب کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی۔ ہم کچھ باتیں کھل کر کرتے ہیں اور کچھ باتیں مخفی رکھتے ہیں۔

لیکن کسی کے سوشل میڈیا کا جائزہ لینا اور ان کی خوبصورتی سے بھرپور تصاویر اور فیس بک پر ان کی ازدواجی حیثیت پر نظر رکھنا ہمیں اپنے ہی بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی تحقیق کے مطابق کئی افراد ’فیس بک حسد‘ میں مبتلا ہیں اور وہ لوگ جو فیس بک استعمال نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے زیادہ خوش ہیں۔

ہیلتھسٹا کے ڈاکٹر ٹم بونو جو ’وین دا لائیکس آر ناٹ انف‘ کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں: ’جب ہم اس بات کا موازنہ کرتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں ہم کہاں پر کھڑے ہیں۔ ہم اپنی خوشی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘

اس بارے میں خبردار رہنا کہ دوسروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ٹائم گزارنے سے گریز کرنے اور خود پر توجہ دینے سے آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انسانی رابطہ

بطور انسان دوسرے انسانوں سے رابطہ رکھنا اور رابطہ قائم کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے لیکن ایسا مشکل ہو سکتا ہے جب ہم ایک مستطیل سکرین سے چپکے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم اپنے اصل زندگی کے دوستوں کی نسبت ڈیجیٹل دوستوں کے ساتھ زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔

سٹینا سینڈر سابقہ ماڈل ہیں اور ان کے انسٹاگرام پر ایک لاکھ سات ہزار فالورز ہیں۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا بعض اوقات ان کو اکیلا محسوس کرنے کی وجہ بنتا ہے۔

سٹینا نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میں اپنے تجربے سے جانتی ہوں کہ جب میں اپنے دوستوں کو پارٹی کرتے دیکھتی ہوں اور جب میں اس میں شریک نہیں ہو پاتی تو میں بہت اکیلا محسوس کرتی ہوں۔ جس سے مجھے بہت تنہائی اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔‘

امریکن جنرل آف ایپی ڈیمیالوجی کی ایک تحقیق میں پانچ ہزاردو سو آٹھ ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو فیس بک متواتر استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ فیس بک کا مسلسل استعمال انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔



000_1KQ5I8.jpg

یادداشت

ماضی میں گزرے واقعات اور یادداشتوں کو یاد رکھنے کے لیے سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن یہ آپ کی زندگی کے کچھ واقعات کے بعض حصوں کو مسخ بھی کر سکتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایک خوبصورت مقام پر ایک اچھی سیلفی لینے میں بہت وقت لگا دیتے ہیں جبکہ ہم اس جگہ کی خوبصورتی سے حقیقی طور پر محروم ہو رہے ہوتے ہیں اور اس کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے۔

ڈاکٹر بونو کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم اپنی تمام تر توجہ اپنے سوشل میڈیا فالورز سے تعریف حاصل کرنے کے لیے اچھی تصویر بنانے پر مرکوز رکھیں گے تو ہم اس وقت میں اس جگہ کی حقیقی خوبصورتی سے لطف نہیں اٹھا سکیں گے۔ اپنے فون پر زیادہ وقت گزارنا ہماری توجہ تقسیم کرنے کا باعث بنے گا اور ان لمحات سے ملنے والی خوشی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کرنے دے گا۔‘

نیند

نیند کا پورا ہونا انسان کے لیے بہت اہم ہے لیکن ہم میں سے بہت سے افراد بستر پر جا کر بھی فون استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر بونو کے مطابق ’سوشل میڈیا پر دیکھی گئی چیزوں کی وجہ سے بے چینی یا حسد محسوس کرنا ہمارے دماغ کو جاگنے پر مجبور رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نیند نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے چہرے سے چند انچ کی دوری پر روشن موبائل کی سکرین سے ایسی شعاعین خارچ ہوتی ہیں جو ہمیں تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔‘

خود پر تھوڑی سختی کریں اور بستر پر جانے سے ایک گھنٹے سے 40 منٹ پہلے تک فون کا استعمال نہ کریں اور دیکھیں کہ آپ کی نیند کس حد تک بہتر ہوتی ہے۔



000_Hkg10257624.jpg

توجہ کا دورانیہ

یہ صرف لاشعور نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے لیکن یہ توجہ مرکوز کرنے کا دورانیہ ہے جس دوران آپ جاگ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے معلومات تک آسان رسائی بلاشبہ ایک شاندار چیز ہے لیکن یہ لوگوں کی توجہ بانٹنے کی بہت بڑی وجہ بھی بن رہی ہے۔

ڈاکٹر بونو کہتے ہیں: ’سوشل میڈیا نے آسان تفریح تک رسائی کو فوری اور آسانی بنا دیا ہے جس سے انسان خود بخود اس جانب مائل ہوتا ہے۔‘

اگر آپ کچھ دیر کے لیے اپنا فون چیک نہ کریں تو یہ آپ کی قوت ارادی آزمانے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔

دماغی صحت

سوشل میڈیا اداسی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے لیکن یہ انسان کے ساتھ بے چینی اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل کی وجہ بھی بن سکتا ہے جب آپ بغیر خیال رکھے اس کا بہت زیادہ استعمال جاری رکھتے ہیں۔

مارچ 2018 میں ایک رپورٹ سامنے آئی کہ جنریشن زیڈ کا 30 فیصد سے بھی زیادہ حصہ سوشل میڈیا ترک کر رہا ہے جبکہ کہ 41 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے بے چینی، اداسی اور دباؤ کی وجہ بن رہا تھا۔ اس سروے میں ایک ہزار افراد شریک تھے۔

بین جیکبز جو کہ ایک ڈی جے ہیں ان کے ٹوئٹر پر پانچ ہزار سے زیادہ فالورز ہیں۔ انہوں نے اس پلیٹ فارم سے جنوری 2016 سے چھٹی لینے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ٹوئٹر نے مجھے بے چین کرنا شروع کر دیا تھا اور رفتہ رفتہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میں نے اپنے آپ کو بہت سے اجنبی لوگوں کے احساسات کے تابع کر رکھا تھا جو کہ جانتے بھی نہیں تھے کہ میں کون ہوں۔ جب سے میں نے ٹوئٹر سے وقفہ لیا ہے میرے پاس بہت سی چیزوں کے لیے کافی وقت میسر آ گیا ہے جیسے کہ صبح تین بجے اٹھ کے کتاب پڑھنے کا۔‘

آپ کو بہتری کے لیے شاید سوشل میڈیا چھوڑنے کی ضرورت نہ پڑے لیکن اگر آپ محسوس کریں کہ یہ آپ کو متاثر کر رہا ہے تو کیوں نہ سوشل میڈیا کے لیے کچھ وقت مختص کر دیا جائے جو کہ روزانہ کی بنیاد پر آپ کے معمول کا حصہ ہو۔ یہ چھوٹی سی تبدیلی کافی بہتری کی وجہ بن سکتی ہے۔

© The Independent

سوشل میڈیا آپ کے دماغ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
 

ہانیہ

محفلین
سوشل میڈیا کا نشہ اور اس کے آپ کے ذہن پر اثرات
بلاگ | 12.12.2020
54243548_101.jpg


سوشل میڈیا اس قدر طاقتور میڈیم ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں موجود شخص سے آپ کی ملاقات کروا سکتا ہے اور آپ کو آپ کے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے دور کر سکتا ہے۔


ہماری اور آپ کی ہتھیلیوں پر اور انگوٹھے کے نیچے معلومات کا ایک طوفان برپا ہے۔ اکثر اوقات یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ کہاں کلک کرنا ہے اور کہاں نہیں کرنا۔ کیوں کہ آپ کا ایک ٹچ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے، جہاں آپ چند لمحے گزار کر، جب واپس اپنی دنیا میں آتے ہیں تو یہ بھید کھلتا ہے کہ یہاں تو کئی گھنٹے بیت چکے ہیں۔

فی زمانہ سوشل میڈیا ایک ایسی لت بن چکا ہے، جس میں بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب گرفتار ہیں۔ ماہرین کے نزدیک لت کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل، جس کو کرنے سے آپ کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ یہ بات جاننے کے باوجود اس عادت کو ترک کرنے سے قاصر ہوں۔ دنیا کے مایہ ناز ماہرین میں سے ایک ڈاکٹر گیبر میٹ کی ریسرچ کے مطابق ہر لت کسی نہ کسی ذہنی دھچکے سے متعلق ہوتی ہے۔ زندگی میں ملنے والی کوئی بھی ناکامی انسان کو کسی نہ کسی لت میں مبتلا کرتی جاتی ہے۔ جب کسی کو کوئی جذباتی دھچکا پہنچتا ہے تو وہ اپنے جیسے کسی دوسرے انسان کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ معاشرتی حیوان ہونے کے ناطے انسان کی جبلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے رابطہ قائم کرے۔

سماجی رابطے کے برقی صفحات سے مسلسل رابطہ جوڑے رکھنے اور ان برقی صفحات کے بغیر رہ نہ پانے کو لت کا نام دیا جاتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماجی رابطے کے برقی صفحات کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے ان برقی صفحات کا استعمال ایک نشہ بن چکا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق جب کوئی شخص سوشل نیٹ ورکنگ کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ nucleus accumbens متحرک ہوجاتا ہے۔ یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو کہ کوئی نشہ (جیساکہ کوکین وغیرہ کا استعمال) کرتے ہوئے متحرک ہوتا ہے۔ لہذا سوشل میڈیا بھی ایک ایسا نشہ ہے، جو کہ اپنے صارفین کو اس طرح سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ صارفین اس ذریعہ کو استعمال کرنے کے بجائے خود استعمال ہو جاتا ہے۔ یہ لت ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے اور ہمیں خیالی دنیا کا مسافر بنا دیتی ہے۔

اس برقی دور میں جہاں ہر چیز برق رفتاری سے اسکرین کا حصہ بنتی جا رہی ہے، وہیں جذبات، احساسات اور خیالات بھی برقی صفحات کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایموجیز کی مدد سے اپنے احساسات کا اظہار کرنے والی نسل کی زبانوں سے اصل الفاظ کی چاشنی گم ہو چکی ہو۔ کوئی مر رہا ہے تو ویڈیو، کوئی مار رہا ہے تو ویڈیو، آپ نے کیا کھایا، کیا خریدا، کیا پہنا، کہاں گھومنے گئے، کس سے ملے، کس کے ساتھ وقت گزارا۔ ہر لمحہ سیلفی کی فکر میں جیتے لوگ اتنی زندگی جی نہیں رہے، جتنی زندگی کیمرے میں قید کر رہے ہیں۔

کتنے لائیکس، کتنے کمنٹس، کتنے شئیرز کی گنتی میں الجھ کر اپنی اصل قیمت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ خود پسندی اور ریاکاری کا شکار انسان پانچ ہزار دوستوں کی لسٹ میں بھی تنہائی کا شکار رہتا ہے۔

ایک حالیہ مطالعے کے مطابق بار بار اپنی سیلفی لینا ایک ذہنی خلل ہے، جسے سیلفیٹس (selfitis) کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر ایک دن میں چھ سے زیادہ مرتبہ اپنی سیلفی لیتا ہے اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ذہنی خلل بہت زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر 10 میں سے تین تصاویر سیلفی ہوتی ہیں۔ انسٹاگرام پر ہر دس سیکنڈ میں ایک ہزار سیلفیاں پوسٹ کی جاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ دنیا بھر میں 93 ملین سیلفیاں لی جاتی ہیں۔


47886883_403.jpg


اگر ہم اسے فلم رول پر لیں تو روزانہ 2.5 ملین رول درکار ہوں گے۔ سیلفی لینے کا خبط بذات خود ایک سینڈروم بن چکا ہے۔ اس سینڈروم کا شکار لوگ اپنی ہزاروں تصاویر لیتے ہیں، پھر اس میں سے کسی ایک بہترین تصویر کا انتخاب کرکے اس کو ایڈیٹ کرنے کے بعد پوسٹ کیا جاتا ہے۔ اس سینڈروم کا شکار لوگ اپنے تفریحی دورے، دوستوں کی بیٹھک، کار کی نمائش، ڈک فیس اور خاص طور پر مہم جوئی کرتے ہوئے اپنی تصاویر لینے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ بسا اوقات انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

آئے دن ایسے حادثات کی خبریں ہماری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں کہ سیلفی لینے کی کوشش میں کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، کوئی ندی میں جا گرا تو کوئی ٹرین کی زد میں آ گیا۔ کچھ جانباز تو خود اپنی جان کے در پے ہو کر خودکشی کی کوشش تک کر گزرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کیس ڈینی بومین نامی ایک لڑکے کا تھا، جس نے 16 سال کی عمر میں خودکشی کی کوشش کی۔ ڈینی بتاتے ہیں کہ وہ دس دس گھنٹے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی تصویریں اتارتے رہتے تھے اس میں خرابیاں تلاش کرتے اور انہیں ہر بار کوئی نہ کوئی خرابی مل جاتی۔ اس ناکامی نے ان کو اس قدر دل برداشتہ کیا کہ انہوں نے اپنی جان لینے کی بھی کوشش کی۔

اس سارے منظرنامے میں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ سماجی رابطے کے برقی صفحات پر جو جیسا نظر آرہا ہے، وہ اصل سے بہت الگ ہے۔ کچھ لوگوں کو آپ سماجی رابطے کے برقی صفحات پر دیکھ کر یا پڑھ کر ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں اور جب حقیقی زندگی میں ان سے ملاقات کا موقع ملے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اندازے درست نہیں تھے۔

جس شخص کو آپ بہت مثبت سمجھتے تھے وہ ایک منفی سوچ کا حامل شخص نکل سکتا ہے۔ یا کسی شخص کے بارے میں آپ کے منفی جذبات یا تاثرات تھے لیکن حقیقی زندگی میں وہ ایک نفیس شخص ہوتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل خاص طور پر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ اپنی اصل زندگی سے ہٹ کر اپنی شخصیت کا ایسا تاثر دینا چاہتے ہیں جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔

ان کی شاندار اور خوشحال زندگی کی تصاویر دیکھ کر دوسرے لوگوں میں بے چینی بڑھ جاتی ہے کہ ہم ایسی زندگی نہیں گزار سکتے۔ سوشل میڈیا پر انتہائی خوش اور مطمئن نظر آنے والے لوگ حقیقت میں اندر سے انتہائی ناخوش اور تنہائی کا شکار اپنی خیالی دنیا میں جی رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ جب یہ سب ختم ہو گا تو پھر کیا ہوگا، حقیقت تو وہی رہے گی کیوں کہ انہوں نے حقیقت کو بدلنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہوتا۔ گیمز کے سیزن مکمل کر کے کامیابی کے نشے میں سرشار ہونا زندگی نہیں ہے۔

اصل زندگی کے ہدف پورے کرکے اپنوں کے درمیان ہنستے ہوئے جینے کا نام زندگی ہے۔ کوئی بھی چیز بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا غلط استعمال سے برا بنا دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کے بے پناہ فوائد سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا لیکن اپنا جائزہ لینا بھی انتہائی ضروری ہے کہ آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے عامل رہتے ہیں یا معمول بن جاتے ہیں۔

ماہرین کی رائے کے مطابق آپ اپنے آپ سے چند سوالات کر کے یہ جان سکتے ہیں کہ آیا آپ اس لت کا شکار ہو چکے یا آپ کی وابستگی بامقصد اور صحت مند رجحان کی حامل ہے۔ پہلا سوال اپنے آپ سے پوچھیں کہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے آپ کا بنیادی مقصد کیا ہوتا ہے؟

دوسرا سوال یہ پوچھیں کہ کیا آپ اس ٹیکنالوجی کا شکار ہیں اور کیا آپ اس کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں؟

اور پھر یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ اگر آپ اس کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں تو آپ کو اس کے استعمال کی کیا ضرورت ہے؟

ان سوالات کا جواب اپنے آپ سے معلوم کرنے کی کوشش کریں، ہم اس میڈیا کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنے مسائل میں کیوں اضافہ کر رہے ہیں؟

طاہرہ سید

سوشل میڈیا کا نشہ اور اس کے آپ کے ذہن پر اثرات
 

ہانیہ

محفلین
سوشل میڈیا، ڈیجیٹل ڈیوائسز اور دماغی صحت
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

MARCH 24, 2020



749060_5050166_sm_updates.jpg

اس تیز رفتار دور میں جہاں سوشل میڈ یا کا استعمال تواتر سے بڑھ رہا ہے۔وہیں پر مغرب میں اس مسئلے پر بحث ومباحثہ بھی جاری ہے کیا سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ڈیوائس (سیل فون،ٹیبلٹ اور آئی پیڈ وغیرہ ) کا استعمال دماغی صحت کےلیے نقصان دہ ہیں ۔مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوجوان یہ ڈیوائسز اور خصوصاً فیس بک اور یوٹیوب وغیرہ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

2012 ء میں جب سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا تھا تو یہ بات سامنے آئی کہ کم عمر نوجوانوں میں ذہنی دبائوں بڑھتا جارہا ہے ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا کم استعمال کرنے والوں کے مقابلے میںزیاد ہ استعمال کرنے والوں میں ذہنی دبائو اور زیادہ اضطراب پایا جاتا ہے ۔لیکن ڈیجیٹل ڈیوائس استعمال کرنے والوں کی دماغی صحت کا ڈیٹا جمع کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں ،تا کہ ضرورت کےوقت مناسب مداخلت کی جاسکے ۔امریکا اور بر طانیہ میں 2012 ء سے 2013 ء کے درمیان ذہنی دبائو ،اضطراب اور خود کو نقصان پہنچانے والے بالغان کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھا گیاہے ، جس میں مصروف ہونے والے ٹین ایجرز کی تعدادمیں 2009 ء سے 2011 ء کے درمیان انتہائی تیزی سےاضافہ ہوا تھا ۔اور اس وقت 15 سے 17 سال کی عمر کے دو تہائی نوجواں کی تعداد اس کو روزانہ استعمال کررہی تھی ۔کچھ تحقیق کرنے والے جو سوشل میڈیا کے استعمال کا دفاع کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ دماغی صحت کی خرابی میں ایک تو یہ بنا واسطہ شہادت ہے اور دوسرے اس میں سوشل میڈیا کا کوئی خاص کردار نہیں ۔

کچھ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اسکرین کے سامنے وقت گذارنے اور بری دماغی صحت کے درمیان ایک ہلکا تعلق ہے ۔اس دفاع کے خلاف مسٹر جونا تھن ہیڈٹ کے تین دلائل ہیں ۔ایک دلیل میںجس پیپر کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مختصر ہے اور اس میں پوری توجہ صرف اسکرین پر وقت گزارنے کو دی گئی ہے لیکن اس میں فلمیں دیکھنے اور دوستوں سے چیٹنگ شامل نہیں ہے ۔جو دماغی صحت کے لیے نقصان کا باعث ہے ۔ریسرچ پیپر میں سوشل میڈیا کو خاص طور پر توجہ دینے کے بجائے مکمل اسکرین وقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا تعلق ذہنی دبائوسے بہت ہے اور جب ہم خاص طور پر لڑکیوں پر توجہ مرکوز کریں تو معلوم ہوگا کہ اس سے لڑکیاں بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔تحقیق کارو ں کا کہنا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرتی ہیں ،کیوں کہ لڑکے دوسرے کھیلوں میں زیادہ شامل رہتے ہیں ۔جب کہ لڑکیوں کے لیے ان کے ارد گرد کی سماجی زندگی ،رتبہ اور قربت بہت اہم ہے ۔ان کوکم وقعت ہونے کا خوف ہوتا ہے۔

البتہ یہ بھی صحیح ہے کہ باہمی رابطے کے جائزوں سے بنا واسطہ شہادتیں مہیا ہوتی ہیں ۔حالیہ سالوں میں طبع ہونے والے جائزوں میںان وجوہات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ان جائزوں میںکچھ کو کہا جاتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرتے رہیں جب کہ کچھ کوکہا جاتا ہے کہ وہ اس کا استعمال کم کردیں ۔چند ہفتوں کے بعد استعمال میں کمی کرنے والوں نے بتایا کہ ان کے مزاج میں بہتری اور اکیلے پن کے محسوسات میں بھی کمی ہوئی تھی جو ذہنی دبائو کی علامات ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ کچھ ریسرچ کرنے والے سوشل میڈیا کو شکر کی طر ح سمجھ رہے ہیں کہ اس کی کم یادرمیانہ استعمال کم عمر کے لیے محفوظ ہے جب کہ اس کی زیادہ مقدار کا استعمال نقصان دہ ہوگا ۔لیکن سوشل میڈیا شکر کی طر ح صرف ان کے لیے نقصان دہ نہیںہے جو اس کو استعمال کرتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا نے کئی لوگوں کے تعلقا ت کو نئی جہت دی ہے ،جس میںخاندانی تعلقات اور روز مرہ کے تعلقات بھی شامل ہیں ۔ایک مشاہدے میں یہ بات سامنے آئے ہے کہ دواکی ایک سادہ خوراک یعنی سوشل میڈیا کے اثرات کا احاطہ نہیں کر سکتاہے جب کہ اب تک تحقیق کاروں کے تمام مباحثوں میںخوراک کی مقدار کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات کی گئی ہے ۔

لیکن یہ بات زیادہ اہم ہے کہ اس نمونے کے نیچے چھپے ہوئے نیٹ ورک کے ذہنی دبائو ،اضطراب اور دماغی صحت کی خرابی کے اثرات دور تک پھیلتے ہیں ،جس کا زیادہ شکار لڑکیا ں ہیں ۔نتیجے کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ویسے تو ڈیجیٹل میڈیا کے بہت سے فائدے ہیں ،جن میں ذہنی بیماریوں کا علاج بھی شامل ہے لیکن اگر آپ سوشل میڈیا تک محدود رہیں گے تو نقصان کی شرح زیادہ نظر آئے گی ،جس کے خراب اثرات کم عمر صارفین پرزیادہ ہوتے ہیں ۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ مڈل اسکولوںمیں 11 سے 13 سال کی عمر کے درمیان کے بچوں پر اسمارٹ فون استعمال کرنے پر پابندی لگائی جائے ،پھر ان دوسالوں میں فون استعمال نہ کرنے والوں اور اسمارٹ فون استعمال کرنے والوںبچوں کے درمیان ذہنی صحت اور رویّوں میں فرق کا موازنہ کرکے بچوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کا حتمی نتیجہ مل سکتا ہے ۔

بغیر مشاہدے کے یہ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال اور دماغی صحت کی خرابی میں باہمی تعلق ہے ۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ تحقیق کرنے کا مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ڈیجیٹل ڈیوائس اور سوشل میڈیا کے استعمال کا کون سا طر یقے کار نقصان کی بجائے سود مند ہوسکتا ہے ۔اوراس کے طریقے کار اور شہادتوں کو کیسے سوشل میڈیا کے استعمال کی پالیسی ۔ تعلیم اور اس کےریگولیشن کی ترتیب کے لئے استعمال کیا جائے؟

پرانے غیر حل کردہ مسائل کے سبب دماغی صحت کی سروس کی فراہمی اور بہتر معیارکے لئے ہماری کوششیں نتیجہ خیزثابت نہیں ہورہی ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے عہدہ بر آہوسکے ۔مثال کے طور پر ان چیلنجوں کو مد نظر رکھیں کہ کس طر ح انسانی رویے ،دماغی صحت کی تشخیص ،مریضوں کی دیکھ بھال ،حالت میں بہتری اور ریسرچ تمام چیزیں ہی مریضو ں کے خود رپورٹ کرنے پر منحصر ہوتی ہیں ۔اس کے نتیجہ میں اس طرح کا ڈیٹا جمع کرنا بہت دشوار ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں کبھی کبھار ہی سروے ہوتا ہے جن کی علامات سے مرض کی پیش بینی ، تشخیص اور علاج کی پلاننگ نہیں کی جاسکتی۔

اس کے برخلاف موبائل فون اور دوسرے ایسے ڈیوائس جو انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہوتے ہیں ۔مسلسل لوگوں کی عملی زندگی میں ان کےرویوں کی بابت کارآمد اور قیمتی ڈیٹا فراہم کرسکتے ہیں ۔جن سے افراد کی دماغی صحت کے حوالے سے یہ بصیرت حا صل ہو گی کہ مریضوںکے علاج کا وقت اوراس کی نوعیت کیا ہونی چاہیے،کیوں کہ لوگوں موبائل ڈیوائس کا استعمال ہر وقت ہی کرتے رہتے ہیں ۔ اس لیے مناسب وقت پر ایسی مدد دی جاسکتی ہے جو صرف ان کی ذات کیے لیےموزوں ہو۔ اُس وقت دماغی صحت سے متعلق سروسیزایک صدی پرانے ماڈل کے مطابق فراہم کی جاتی ہیں ،جس میں لوگوں کوان کی اشدضرورت کی بجائے معالج کے دیے ہوئے وقت پرموجود ہونا پڑتا ہے۔لیکن انٹر نیٹ ڈیوائیس سے رابطےسے ایسی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیںجن سے دماغی صحت کو برقراررکھنے کے علاوہ علاج میں بھی مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔

یہ فوائد کم عمر افراد میں ان بالغان کو حاصل ہوسکتے ہیں جو ڈیجیٹل ڈیوائس کا کثرت سے استعمال کرنے کی وجہ سے خطرات کو شکار ہوجاتے ہیں ۔ دماغی صحت میںاضافہ اور علاج میں بہتری سے کم عمرغیربالغان بھی یکساں مستفید ہوسکتے ہیں۔

نک ایلین نے ڈیجیٹل ڈیوا ئس کے زیادہ استعمال اور اس استعمال سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر زیادہ توجہ دینے کی بات کی ہے۔ اس کے کم استعمال اور زیادہ استعمال سے پیدا ہونے والے فرق پر بات ہی نہیں کی گئی ہے،کیوں کہ اہم سوال تویہ ہے کہ کیاسوشل میڈیا کے استعمال میں کمی سے ذہنی دبائو اور دوسری دماغی صحت کے مضر اثرات سے بچا جاسکتا ہے؟ کیونکہ اگر بیماری سے بچا جا سکتا ہے توہماری پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ بیماری سے بچا جائے۔ یہ نہیں کہ کثرت استعمال سے بیماریاں پیدا کرنے کے بعد ان کے علاج پر زیادہ توجہ دی جائے۔ ہمیں پہلے ہی اس کے مضر اثرات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

سوشل میڈیا، ڈیجیٹل ڈیوائسز اور دماغی صحت
 

ہانیہ

محفلین
کیا آپ سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہیں؟
  • حسنین جمال
  • لاہور
6 ستمبر 2018
_103312132_p068lyr1.jpg

کیا واقعی آپ سوشل میڈیا سے دور ہونا چاہتے ہیں؟ مسئلے کی نوعیت ایسی ہے کہ پہلے فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ جن مسائل کا شکار ہیں اگر آپ کے خیال میں وہ سوشل میڈیا کا استعمال ختم کرنے سے دور ہو سکتے ہیں تب تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کی پرابلمز آپ کے خیال میں اس وجہ سے نہیں ہیں تب بھی آپ کو دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

نوے فیصد امید یہی ہے کہ مسئلے کی جڑ سوشل میڈیا پہ ضائع ہونے والا وقت ہو گا۔ یہ وہ ٹائم ہے جس میں پرانے زمانے کا آدمی دنیا جہان کے سارے دھندے نمٹا لیتا تھا بلکہ اپنے بہت سارے بچوں کو باہر لے جا کر قلفی بھی کھلا آتا تھا۔

آپ نے آخری مرتبہ کوئی کتاب بغیر ڈسٹرب ہوئے، ایک ہی تسلسل کے ساتھ، کسی بھی نوٹیفیکیشن کی آواز کے بغیر کب پڑھی ہے؟ بلکہ اب تو یہ پوچھنا بہتر ہو گا کہ آخری مرتبہ کتاب پڑھنے کا خیال کس کتاب کو دیکھ کر آیا تھا؟ کسی ای بک کو دیکھ کر؟ ای بک کی سب سے بڑی موج یہ ہے کہ بندہ ڈاؤن لوڈ کر لے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس نے پڑھ بھی لی۔ ایسا نہیں ہوتا استاد، کتاب پڑھنا وقت مانگے ہے اور وقت کا بیوپار سب کا سب ہم لوگ فیس بک، انسٹا اور ٹوئٹر کو سونپ چکے!

ہم لوگ چھوٹے تھے تو سارے بچے روز شام کو گلیوں میں رج کے سائیکلیں چلاتے تھے، بھاگتے دوڑتے تھے، فٹبال یا کرکٹ کھیلتے تھے، کوئی نہ کوئی مشغلہ ایسا ہوتا تھا کہ رج کے پسینہ آتا تھا اور رات کو نہا کے سونا پڑتا تھا۔ اب سائیکلنگ، فٹبال، کرکٹ، سبھی کا سب وہیں ہوتا ہے آٹھ بائے آٹھ کے کھوپچے میں، نہ کپڑوں میں پسینہ آئے گا، نہ ان میں داغ لگیں گے اور بچے کی صحت بھی نام خدا کاؤچ پوٹیٹو والی ہی ہو گی۔ یہی بچے بڑے ہو کے ہماری آپ کی طرح سوشل میڈیا کی نذر ہو جائیں گے۔ کبھی سوچا ہے اصل مسئلہ کہاں ہے؟

سوشل میڈیا کی علت کا شکار ہونے والی 100 فیصد آبادی موبائل یا ٹیبلٹ پہ اسے استعمال کرتی ہے۔ لیپ ٹاپ کے زمانے میں آخر ہر کوئی آرکٹ کا دیوانہ کیوں نہیں تھا؟ اگر تھا بھی تو رات کو دو ڈھائی گھنٹے کے بعد چھٹی ہو جاتی تھی، اب سوشل میڈیا میں ایسا کیا ہے؟ ادھر دو چیزیں ہیں جو ہم سب کو گھمائے ہوئے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا ایپ دوسرے ٹچ سکرین۔

_100641887_fd572779-93e7-4e61-9435-607633c5bc1c.jpg

،تصویر کا ذریعہREUTERS

،تصویر کا کیپشن
لیپ ٹاپ کے زمانے میں آخر ہر کوئی آرکٹ کا دیوانہ کیوں نہیں تھا؟

آپ ایک کام کریں، تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ اپنے موبائل سے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر کی ایپس ڈیلیٹ کر دیں۔ فیس بک میسنجر یا جو باقی دھندے ہیں انہیں بھی اڑا دیں۔ پہلا کام پتہ ہے کیا ہو گا؟ بیٹری بچے گی ۔۔۔ ڈھیر ساری بچے گی۔

ان تین کے علاوہ اگر سنیپ چیٹ آپ کے پاس ہے تو اسے سب سے پہلے ان انسٹال کریں، وہ تو اسٹرا کے ساتھ باقاعدہ سٌڑک سٌڑک کر بیٹری پیتا ہے۔ ایپس اڑنے کے بعد دوسرا کام یہ کریں کہ وائے فائے اور ڈیٹا بھی آف کر دیں۔ ایک گھنٹہ ایسے گزاریں اور کائنات کا سکون اپنے اندر اترتا محسوس کریں۔ اس کے بعد ڈیٹا یا وائے فائے آن کر دیں۔ کچھ ہوا؟ جب کوئی ایپ ہی نہیں ہے تو کیا ہو گا؟

سوائے واٹس ایپ کے اب آپ کا موبائل ایک دم سکون میں ہو گا۔ واٹس ایپ پہ کتنے میسج آئے دس، پندرہ بیس؟ کوئی فوت ہوا؟ نہیں! کوئی اہم خبر؟ نہیں! کوئی ایسا میسج جو مس ہو گیا تو کروڑوں کا نقصان ہو جائے گا؟ نہیں! تو پھر ہر فارغ انسان کے فارورڈ میسج کا نشانہ آپ کیوں بنتے ہیں؟

چونکہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ اسی چکر میں نکل گیا ہے اب آپ اپنے موبائل یا ٹیبلٹ کے براؤزر میں جا کے فیس بک، انسٹا یا ٹوئٹر پہ لاگ ان کریں۔ بے شک سب پہ اکٹھا کر لیں۔ کوشش کریں براؤزر پہ ان تینوں چیزوں کو استعمال کرنے کی، مزا ہی نہیں آئے گا۔ کومنٹ کا جواب دینا عذاب لگے گا، میسنجر پہ لوگوں کے میسجز آئیں گے بھی تو کوئی گھنٹی نہیں بجے گی، انسٹا پہ کوئی لائک کرے گا تو جھانک کر کوئی پش اپ میسج یہ نہیں بتائے گا کہ بھائی جان مطیع الرحمن بھٹی نے آپ کی تصویر پسند کی ہے۔ آہستہ آہستہ آپ کو لگے گا کہ یار یہ کیا مصیبت ہے، کچھ کرنے میں مزا ہی نہیں آ رہا ۔۔۔

وہی بس اصل نشے کے ٹوٹنے کا وقت ہے۔ اگر وہ ایپس ایک مہینے تک آپ دوبارہ انسٹال نہیں کرتے تو سمجھیں آپ ولی ہیں، کر لی تو پہلے کی طرح ویہلے!

ہوتا یوں ہے کہ ان ایپس کے پیچھے ماہر لوگوں کے ہزاروں دماغ اکٹھے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ فیس بک کی ایپ کیا صرف اکیلے مارک زوکر برگ نے بنائی ہے؟

ظاہری بات ہے پوری ٹیم ہے۔ وہ ٹیم کیا عام تام بندوں کی ہو گی؟ ظاہر ہے اپنی فیلڈ کے ذہین تر لوگ ہوں گے۔ جب اتنے سارے اعلیٰ دماغ مل کر کوئی چیز بنائیں گے تو کیا وہ اسے عوام کی پسندیدگی کے معیار تک لانے میں کوئی کسر چھوڑیں گے؟ ہو ہی نہیں سکتا۔

_100174542_junaid5.jpg

،تصویر کا ذریعہJUNAID AHMED

،تصویر کا کیپشن
کچھ لوگوں کو سیلفیاں لینے کا بھی نشہ ہوتا ہے جیسے جنید ہر روز 200 سیلفیاں لیتے ہیں

نتیجہ کیا ہو گا کہ جو بھی سوشل میڈیا ایپ آئے گی وہ سادہ ترین فیچرز اور نشے کی حد تک دماغ اور انگوٹھے کو پسند آنے والی ہو گی۔ موبائل فون ایجاد ہونے سے پہلے انگوٹھے کا مقصد کیا تھا، کبھی سوچا آپ نے؟

چیزوں کو پکڑنے میں انگلیوں کی مدد کرنا یا کسی کو اوکے کی آواز لگانی ہو تو انگوٹھا دکھا دینا یا سڑک پہ لفٹ مانگنا، یہ تینوں کام دن میں آپ کتنی مرتبہ کرتے تھے؟ ادھر آ کے سمجھ آتی ہے کہ انسان ہزاروں سال کے ارتقائی عمل (ایولیوشن) سے گزر کے بھی انگوٹھا کیوں کر بچا لایا۔

اندرکھاتے کہیں نہ کہیں جینز کو معلوم ہو گا کہ بابا بیسویں صدی میں کچھ ایسا گھڑمس ایجاد ہو گا کہ سارے معرکے انگوٹھوں سے ہی مارے جائیں گے۔ تو جب آپ ایپس اڑا دیں گے تو انگوٹھے والے کچھ کام بہرحال پورے ہاتھ یا انگلیوں کو بھی کرنے پڑیں گے، یہی سہولت سارے فساد کی جڑ ہے! دماغ ادھر ہے یا نہیں انگوٹھا چلے جا رہا ہے اور وقت پگھلے جا رہا ہے۔

آٹھ ماہ پہلے میں پوری شدت سے اسی مسئلے کا شکار تھا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یار دنیا میں دوسرے لوگ کیسے اتنا سارا کام کر لیتے ہیں۔ ایک دن موبائل کی سکرین ٹوٹ گئی۔ یہ پچھلے بارہ مہینوں میں ضائع ہونے والا تیسرا موبائل تھا۔ غصے میں آ کے فیصلہ کیا کہ اب سمارٹ فون نہیں لینا۔ چھوٹا سا بٹنوں والا فون ڈھائی ہزار کا لیا اور دنیا بدل گئی۔

اب کوئی منظر اچھا لگے تو بجائے کیمرہ نکالنے کے اسے آنکھوں میں محفوظ کرنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔ جسے کوئی بہت ہی ضروری کام ہو بس وہی فون یا میسج کرتا ہے۔ چوبیس گھنٹے کی ٹوں ٹوں ختم ہو چکی ہے۔ اس فون کی بیٹری ایک چارج کے بعد پانچ دن چلتی ہے۔ جب ختم ہو تو آدھے گھنٹے میں پھر فل ہو جاتی ہے۔


فیس بک اور انسٹا گرام نے نیا ٹول ذہنی صحت کے ماہرین اور اداروں کے ساتھ مل کر بنایا ہے جس کی مدد سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ صارف اپنا کتنا وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں

رات کو سونے سے پہلے موبائل اور پاور بینک چارج کرنے کی زحمت نہیں پڑتی۔ ہر ضروری کام کے لیے بہت سا وقت ہوتا ہے۔ کوئی ضروری کام نہ ہو تو لکھنے پڑھنے، گانے سننے، بچوں سے گپ شپ کرنے یا ایویں پیدل گھومنے کے لیے بھی ڈھیر سارا ٹائم مل جاتا ہے۔ ایک دو دن بعد رات کو وہی ٹوٹا ہوا مردار فون آن کر کے پورا سوشل میڈیا جھانک لیا جاتا ہے۔ باقی دفتری کاموں کے لیے خدا نے ای میل کی نعمت بخشی ہوئی ہے۔

تو کل ملا کے سوشل میڈیا ایپس سے نجات فلاح کا بہترین راستہ ہے۔ بھلے صرف سمارٹ فون سے انسٹال کر لیں بھلے ڈھائی ہزار والا فون جیب میں ڈال کے جنگلوں میں نکل جائیں، نروان اور مکتی تبھی ملے گی جب چوبیس گھنٹے کی ٹوں ٹوں سے جان چھوٹے گی۔ آزمائش شرط ہے!

کیا آپ سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہیں؟ - BBC News اردو
 
سوشل میڈیا آپ کے دماغ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
اگر آپ کچھ دیر کے لیے اپنا فون چیک نہ کریں تو یہ آپ کی قوت ارادی آزمانے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔

سبرینا بار


سوموار 7 اکتوبر 2019 15:15

44881-1794909739.jpg



کسی کے سوشل میڈیا کا جائزہ لینا اور ان کی خوبصورتی سے بھرپور تصاویر اور فیس بک پر ان کی ازدواجی حیثیت پر نظر رکھنا ہمیں اپنے ہی بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے (اے ایف پی)

سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے عالمی آبادی کبھی بھی ایک دوسرے سے اس حد تک رابطے میں نہیں تھی۔

لیکن سوشل میڈیا پر اس درجہ انحصار نے ہمارے دماغی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ ایک عام برطانوی شہری دن میں اوسطاً 28 بار اپنا فون چیک کرتا ہے۔

ایک طرف جہاں سوشل میڈیا کے فوائد ہیں وہیں دوسری جانب اس کا حد سے زیادہ استعمال ہمیں افسردہ اور تنہائی کا شکار بنا رہا ہے۔

بہترین فلٹروں کے ساتھ انسٹاگرام پر خوبصورت تصاویر پوسٹ کرنے کی ضرورت کئی لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کر رہی ہے۔ سونے سے پہلے عادتاً ٹوئٹر کو دیکھنا اچھی نیند کے رستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

یہاں سوشل میڈیا استعمال کرنے کے باعث چھ ایسی وجوہات بیان کی گئی ہیں جو آپ کی ذہنی صحت پر اثر ڈال رہی ہیں اور شاید آپ کو اس بات کا علم تک نہیں ہے:

عزت نفس

ہم سب کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی۔ ہم کچھ باتیں کھل کر کرتے ہیں اور کچھ باتیں مخفی رکھتے ہیں۔

لیکن کسی کے سوشل میڈیا کا جائزہ لینا اور ان کی خوبصورتی سے بھرپور تصاویر اور فیس بک پر ان کی ازدواجی حیثیت پر نظر رکھنا ہمیں اپنے ہی بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی تحقیق کے مطابق کئی افراد ’فیس بک حسد‘ میں مبتلا ہیں اور وہ لوگ جو فیس بک استعمال نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے زیادہ خوش ہیں۔

ہیلتھسٹا کے ڈاکٹر ٹم بونو جو ’وین دا لائیکس آر ناٹ انف‘ کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں: ’جب ہم اس بات کا موازنہ کرتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں ہم کہاں پر کھڑے ہیں۔ ہم اپنی خوشی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘

اس بارے میں خبردار رہنا کہ دوسروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ٹائم گزارنے سے گریز کرنے اور خود پر توجہ دینے سے آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انسانی رابطہ

بطور انسان دوسرے انسانوں سے رابطہ رکھنا اور رابطہ قائم کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے لیکن ایسا مشکل ہو سکتا ہے جب ہم ایک مستطیل سکرین سے چپکے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم اپنے اصل زندگی کے دوستوں کی نسبت ڈیجیٹل دوستوں کے ساتھ زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔

سٹینا سینڈر سابقہ ماڈل ہیں اور ان کے انسٹاگرام پر ایک لاکھ سات ہزار فالورز ہیں۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا بعض اوقات ان کو اکیلا محسوس کرنے کی وجہ بنتا ہے۔

سٹینا نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میں اپنے تجربے سے جانتی ہوں کہ جب میں اپنے دوستوں کو پارٹی کرتے دیکھتی ہوں اور جب میں اس میں شریک نہیں ہو پاتی تو میں بہت اکیلا محسوس کرتی ہوں۔ جس سے مجھے بہت تنہائی اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔‘

امریکن جنرل آف ایپی ڈیمیالوجی کی ایک تحقیق میں پانچ ہزاردو سو آٹھ ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو فیس بک متواتر استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ فیس بک کا مسلسل استعمال انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔



000_1KQ5I8.jpg

یادداشت

ماضی میں گزرے واقعات اور یادداشتوں کو یاد رکھنے کے لیے سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن یہ آپ کی زندگی کے کچھ واقعات کے بعض حصوں کو مسخ بھی کر سکتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایک خوبصورت مقام پر ایک اچھی سیلفی لینے میں بہت وقت لگا دیتے ہیں جبکہ ہم اس جگہ کی خوبصورتی سے حقیقی طور پر محروم ہو رہے ہوتے ہیں اور اس کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے۔

ڈاکٹر بونو کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم اپنی تمام تر توجہ اپنے سوشل میڈیا فالورز سے تعریف حاصل کرنے کے لیے اچھی تصویر بنانے پر مرکوز رکھیں گے تو ہم اس وقت میں اس جگہ کی حقیقی خوبصورتی سے لطف نہیں اٹھا سکیں گے۔ اپنے فون پر زیادہ وقت گزارنا ہماری توجہ تقسیم کرنے کا باعث بنے گا اور ان لمحات سے ملنے والی خوشی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کرنے دے گا۔‘

نیند

نیند کا پورا ہونا انسان کے لیے بہت اہم ہے لیکن ہم میں سے بہت سے افراد بستر پر جا کر بھی فون استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر بونو کے مطابق ’سوشل میڈیا پر دیکھی گئی چیزوں کی وجہ سے بے چینی یا حسد محسوس کرنا ہمارے دماغ کو جاگنے پر مجبور رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نیند نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے چہرے سے چند انچ کی دوری پر روشن موبائل کی سکرین سے ایسی شعاعین خارچ ہوتی ہیں جو ہمیں تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔‘

خود پر تھوڑی سختی کریں اور بستر پر جانے سے ایک گھنٹے سے 40 منٹ پہلے تک فون کا استعمال نہ کریں اور دیکھیں کہ آپ کی نیند کس حد تک بہتر ہوتی ہے۔



000_Hkg10257624.jpg

توجہ کا دورانیہ

یہ صرف لاشعور نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے لیکن یہ توجہ مرکوز کرنے کا دورانیہ ہے جس دوران آپ جاگ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے معلومات تک آسان رسائی بلاشبہ ایک شاندار چیز ہے لیکن یہ لوگوں کی توجہ بانٹنے کی بہت بڑی وجہ بھی بن رہی ہے۔

ڈاکٹر بونو کہتے ہیں: ’سوشل میڈیا نے آسان تفریح تک رسائی کو فوری اور آسانی بنا دیا ہے جس سے انسان خود بخود اس جانب مائل ہوتا ہے۔‘

اگر آپ کچھ دیر کے لیے اپنا فون چیک نہ کریں تو یہ آپ کی قوت ارادی آزمانے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔

دماغی صحت

سوشل میڈیا اداسی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے لیکن یہ انسان کے ساتھ بے چینی اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل کی وجہ بھی بن سکتا ہے جب آپ بغیر خیال رکھے اس کا بہت زیادہ استعمال جاری رکھتے ہیں۔

مارچ 2018 میں ایک رپورٹ سامنے آئی کہ جنریشن زیڈ کا 30 فیصد سے بھی زیادہ حصہ سوشل میڈیا ترک کر رہا ہے جبکہ کہ 41 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے بے چینی، اداسی اور دباؤ کی وجہ بن رہا تھا۔ اس سروے میں ایک ہزار افراد شریک تھے۔

بین جیکبز جو کہ ایک ڈی جے ہیں ان کے ٹوئٹر پر پانچ ہزار سے زیادہ فالورز ہیں۔ انہوں نے اس پلیٹ فارم سے جنوری 2016 سے چھٹی لینے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ٹوئٹر نے مجھے بے چین کرنا شروع کر دیا تھا اور رفتہ رفتہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میں نے اپنے آپ کو بہت سے اجنبی لوگوں کے احساسات کے تابع کر رکھا تھا جو کہ جانتے بھی نہیں تھے کہ میں کون ہوں۔ جب سے میں نے ٹوئٹر سے وقفہ لیا ہے میرے پاس بہت سی چیزوں کے لیے کافی وقت میسر آ گیا ہے جیسے کہ صبح تین بجے اٹھ کے کتاب پڑھنے کا۔‘

آپ کو بہتری کے لیے شاید سوشل میڈیا چھوڑنے کی ضرورت نہ پڑے لیکن اگر آپ محسوس کریں کہ یہ آپ کو متاثر کر رہا ہے تو کیوں نہ سوشل میڈیا کے لیے کچھ وقت مختص کر دیا جائے جو کہ روزانہ کی بنیاد پر آپ کے معمول کا حصہ ہو۔ یہ چھوٹی سی تبدیلی کافی بہتری کی وجہ بن سکتی ہے۔

© The Independent

سوشل میڈیا آپ کے دماغ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
جی پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی چیز اگر اُس کا حد سے زیادہ استعمال کریں گے تو وہ فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بنے گی
 
سوشل میڈیا آپ کے دماغ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
اگر آپ کچھ دیر کے لیے اپنا فون چیک نہ کریں تو یہ آپ کی قوت ارادی آزمانے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔

سبرینا بار


سوموار 7 اکتوبر 2019 15:15

44881-1794909739.jpg



کسی کے سوشل میڈیا کا جائزہ لینا اور ان کی خوبصورتی سے بھرپور تصاویر اور فیس بک پر ان کی ازدواجی حیثیت پر نظر رکھنا ہمیں اپنے ہی بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے (اے ایف پی)

سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے عالمی آبادی کبھی بھی ایک دوسرے سے اس حد تک رابطے میں نہیں تھی۔

لیکن سوشل میڈیا پر اس درجہ انحصار نے ہمارے دماغی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ ایک عام برطانوی شہری دن میں اوسطاً 28 بار اپنا فون چیک کرتا ہے۔

ایک طرف جہاں سوشل میڈیا کے فوائد ہیں وہیں دوسری جانب اس کا حد سے زیادہ استعمال ہمیں افسردہ اور تنہائی کا شکار بنا رہا ہے۔

بہترین فلٹروں کے ساتھ انسٹاگرام پر خوبصورت تصاویر پوسٹ کرنے کی ضرورت کئی لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کر رہی ہے۔ سونے سے پہلے عادتاً ٹوئٹر کو دیکھنا اچھی نیند کے رستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

یہاں سوشل میڈیا استعمال کرنے کے باعث چھ ایسی وجوہات بیان کی گئی ہیں جو آپ کی ذہنی صحت پر اثر ڈال رہی ہیں اور شاید آپ کو اس بات کا علم تک نہیں ہے:

عزت نفس

ہم سب کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی۔ ہم کچھ باتیں کھل کر کرتے ہیں اور کچھ باتیں مخفی رکھتے ہیں۔

لیکن کسی کے سوشل میڈیا کا جائزہ لینا اور ان کی خوبصورتی سے بھرپور تصاویر اور فیس بک پر ان کی ازدواجی حیثیت پر نظر رکھنا ہمیں اپنے ہی بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی تحقیق کے مطابق کئی افراد ’فیس بک حسد‘ میں مبتلا ہیں اور وہ لوگ جو فیس بک استعمال نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے زیادہ خوش ہیں۔

ہیلتھسٹا کے ڈاکٹر ٹم بونو جو ’وین دا لائیکس آر ناٹ انف‘ کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں: ’جب ہم اس بات کا موازنہ کرتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں ہم کہاں پر کھڑے ہیں۔ ہم اپنی خوشی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘

اس بارے میں خبردار رہنا کہ دوسروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ٹائم گزارنے سے گریز کرنے اور خود پر توجہ دینے سے آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انسانی رابطہ

بطور انسان دوسرے انسانوں سے رابطہ رکھنا اور رابطہ قائم کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے لیکن ایسا مشکل ہو سکتا ہے جب ہم ایک مستطیل سکرین سے چپکے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم اپنے اصل زندگی کے دوستوں کی نسبت ڈیجیٹل دوستوں کے ساتھ زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔

سٹینا سینڈر سابقہ ماڈل ہیں اور ان کے انسٹاگرام پر ایک لاکھ سات ہزار فالورز ہیں۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا بعض اوقات ان کو اکیلا محسوس کرنے کی وجہ بنتا ہے۔

سٹینا نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میں اپنے تجربے سے جانتی ہوں کہ جب میں اپنے دوستوں کو پارٹی کرتے دیکھتی ہوں اور جب میں اس میں شریک نہیں ہو پاتی تو میں بہت اکیلا محسوس کرتی ہوں۔ جس سے مجھے بہت تنہائی اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔‘

امریکن جنرل آف ایپی ڈیمیالوجی کی ایک تحقیق میں پانچ ہزاردو سو آٹھ ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو فیس بک متواتر استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ فیس بک کا مسلسل استعمال انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔



000_1KQ5I8.jpg

یادداشت

ماضی میں گزرے واقعات اور یادداشتوں کو یاد رکھنے کے لیے سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن یہ آپ کی زندگی کے کچھ واقعات کے بعض حصوں کو مسخ بھی کر سکتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایک خوبصورت مقام پر ایک اچھی سیلفی لینے میں بہت وقت لگا دیتے ہیں جبکہ ہم اس جگہ کی خوبصورتی سے حقیقی طور پر محروم ہو رہے ہوتے ہیں اور اس کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے۔

ڈاکٹر بونو کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم اپنی تمام تر توجہ اپنے سوشل میڈیا فالورز سے تعریف حاصل کرنے کے لیے اچھی تصویر بنانے پر مرکوز رکھیں گے تو ہم اس وقت میں اس جگہ کی حقیقی خوبصورتی سے لطف نہیں اٹھا سکیں گے۔ اپنے فون پر زیادہ وقت گزارنا ہماری توجہ تقسیم کرنے کا باعث بنے گا اور ان لمحات سے ملنے والی خوشی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کرنے دے گا۔‘

نیند

نیند کا پورا ہونا انسان کے لیے بہت اہم ہے لیکن ہم میں سے بہت سے افراد بستر پر جا کر بھی فون استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر بونو کے مطابق ’سوشل میڈیا پر دیکھی گئی چیزوں کی وجہ سے بے چینی یا حسد محسوس کرنا ہمارے دماغ کو جاگنے پر مجبور رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نیند نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے چہرے سے چند انچ کی دوری پر روشن موبائل کی سکرین سے ایسی شعاعین خارچ ہوتی ہیں جو ہمیں تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔‘

خود پر تھوڑی سختی کریں اور بستر پر جانے سے ایک گھنٹے سے 40 منٹ پہلے تک فون کا استعمال نہ کریں اور دیکھیں کہ آپ کی نیند کس حد تک بہتر ہوتی ہے۔



000_Hkg10257624.jpg

توجہ کا دورانیہ

یہ صرف لاشعور نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے لیکن یہ توجہ مرکوز کرنے کا دورانیہ ہے جس دوران آپ جاگ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے معلومات تک آسان رسائی بلاشبہ ایک شاندار چیز ہے لیکن یہ لوگوں کی توجہ بانٹنے کی بہت بڑی وجہ بھی بن رہی ہے۔

ڈاکٹر بونو کہتے ہیں: ’سوشل میڈیا نے آسان تفریح تک رسائی کو فوری اور آسانی بنا دیا ہے جس سے انسان خود بخود اس جانب مائل ہوتا ہے۔‘

اگر آپ کچھ دیر کے لیے اپنا فون چیک نہ کریں تو یہ آپ کی قوت ارادی آزمانے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔

دماغی صحت

سوشل میڈیا اداسی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے لیکن یہ انسان کے ساتھ بے چینی اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل کی وجہ بھی بن سکتا ہے جب آپ بغیر خیال رکھے اس کا بہت زیادہ استعمال جاری رکھتے ہیں۔

مارچ 2018 میں ایک رپورٹ سامنے آئی کہ جنریشن زیڈ کا 30 فیصد سے بھی زیادہ حصہ سوشل میڈیا ترک کر رہا ہے جبکہ کہ 41 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے بے چینی، اداسی اور دباؤ کی وجہ بن رہا تھا۔ اس سروے میں ایک ہزار افراد شریک تھے۔

بین جیکبز جو کہ ایک ڈی جے ہیں ان کے ٹوئٹر پر پانچ ہزار سے زیادہ فالورز ہیں۔ انہوں نے اس پلیٹ فارم سے جنوری 2016 سے چھٹی لینے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ٹوئٹر نے مجھے بے چین کرنا شروع کر دیا تھا اور رفتہ رفتہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میں نے اپنے آپ کو بہت سے اجنبی لوگوں کے احساسات کے تابع کر رکھا تھا جو کہ جانتے بھی نہیں تھے کہ میں کون ہوں۔ جب سے میں نے ٹوئٹر سے وقفہ لیا ہے میرے پاس بہت سی چیزوں کے لیے کافی وقت میسر آ گیا ہے جیسے کہ صبح تین بجے اٹھ کے کتاب پڑھنے کا۔‘

آپ کو بہتری کے لیے شاید سوشل میڈیا چھوڑنے کی ضرورت نہ پڑے لیکن اگر آپ محسوس کریں کہ یہ آپ کو متاثر کر رہا ہے تو کیوں نہ سوشل میڈیا کے لیے کچھ وقت مختص کر دیا جائے جو کہ روزانہ کی بنیاد پر آپ کے معمول کا حصہ ہو۔ یہ چھوٹی سی تبدیلی کافی بہتری کی وجہ بن سکتی ہے۔

© The Independent

سوشل میڈیا آپ کے دماغ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
لیکن اِن کے فوائد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا
 

ہانیہ

محفلین
لیکن اِن کے فوائد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا
فوائد سے انکار۔۔۔ کیا بھی نہیں گیا ہے۔۔۔۔آپ نے پہلے ۔۔۔ خود ہی ۔۔۔ اس پوسٹ میں اصل پوائنٹ کہہ دیا ہے۔۔۔

جی پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی چیز اگر اُس کا حد سے زیادہ استعمال کریں گے تو وہ فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بنے گی
 
Top