سورہ فیل (تفسیرابن کثیر)

جاویداقبال

محفلین
سورہ فیل:۔
اللہ تعالی بخشش کرنے والے مہربانی کرنے والے کے نام سے شروع۔
کیاتو نے نہ دیکھاکہ تیرے رب نے ہاتھی والے کے ساتھ کیاکیا؟(1)کیاان کے مکرکوبیکارنہیں کردیا(2)اوران پر پرندوں کے جھرمٹ بھیج دیئے(3)جوانہیں مٹی اورپتھرکی کنکریاں ماررہے تھے(4)پس انہیں کھائي ہوئی بھوسی کردیا(5)
ابرہہ اوراس کاحشر:۔(آیت 1-5) اللہ رب العزت نے قریش پرجواپنی خاص نعمت انعام فرمائی تھی اس کاذکرکررہاہے کہ جس لشکر نے ہاتھیوں کوساتھ لے کر کعبے کو ڈھانے کے لئے چڑھائی کی تھی، خدائے تعالی نے اس سے پہلے کہ وہ کعبے کے وجود کو مٹائیں انکانام و نشان مٹادیا، ان کی تمام فریب کاریاں،ان کی تمام قوتیں سلب کرلیں، بربادوغارت کردیا، یہ لوگ مذہبا‍ نصرانی تھے لیکن دین مسیح کو مسخ کردیاتھا،قریب بت پرست ہوگئے تھے، انہیں اس طرح نامرادکرنایہ گویاپیش خیمہ تھاآنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی بعثت کااوراطلاع تھی کہ آپ کی آمدآمدکی۔ حضورعلیہ السلام اسی سال تولدہوئے اکثرتاریخ داں حضرات کایہی قول ہے توگویاخدائے عالم فرمارہاہے کہ اے قریشیوحبشہ کے اس لشکرپرتمہیں فتح تمہاری بھلائی کی وجہ سےنہیں دی گئی تھی بلکہ اس میں ہمارے دین کابچاؤتھاجسے ہم شرف بزرگی عظمت وعزت میں اپنے آخرالزماں پیغمبرحضرت محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نبوت سے بڑھانے والے تھے۔
غرض اصحاب فیل کا مختصرواقعہ تویہ ہے کہ جوبیان ہوااورمطول واقعہ اصحاب الاخدودکے بیان میں گذرچکاہے قبیلہ حمیرکاآخری بادشاہ ذونواس جو مشرک تھا،جس نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو کھائیوں میں قتل کیاتھاجوسچے نصرانی تھے اور تعدادمیں بیس ہزارتھےسارے کے سارے ہی شہیدکردیئے گئے تھے، صرف دوس ذوثعلبان ایک بچ گیاتھاجوملک شام جاپہنچااوقیصرروم سے فریادرسی چاہی۔یہ بادشاہ نصرانی مذاہب پرتھا، اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھاکہ اس کے ساتھ اپنی پوری فوج کردو اس لئے کہ یہاں سے دشمن کا ملک قریب تھا، اس بادشاہ نے ارباط اور ابویکسوم ابرہہ بن صباح کو امیرلشکربناکربہت بڑالشکردے کر دونوں کواس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا،یہ لشکریمن پہنچااوریمن کو اوریمنیوں کوتاخت وتاراج کردیا، ذنواس بھاگ کھڑاہوا اور دریامیں ڈوب کر مرگیااوران لوگوں کی سلطنت کا خاتمہ ہوگیااورسارے یمن پر شاہ حبشہ کاقبضہ ہوگیااوریہ دونوں سرداریہاں رہنے سہنے لگے لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعدان میں ناچاقی ہوگئی،آخرنوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں آمنے سامنے صفیں باندھ لیں اور لڑنے کے لئے نکل آئے، عام حملہ ہواس سے پیشتران دونوں سرداروں نے آپس میں کہاکہ فوجوں کولڑانے اورلوگوں کو قتل کرانے کی کیاضرورت ، آؤ ہم تم دونوں میدان میں نکلیں اورایک دوسرے سے لڑکرفیصلہ کرلیں، جوبچ جائے ملک وفوج اسی کی ، چنانچہ یہ بات طے ہوگئی اور دونوں میدان میں نکل آئے، ارباط نے ابرہہ پرحملہ کیااورتلوارکے ایک ہی وارسے چہرہ خوناخون کردیا،ناک ہونٹ اورمنہ کٹ گیا، ابرہہ کے غلام عتودہ اس موقعہ پر ارباط پرایک بے پناہ حملہ اوراسے قتل کردیا۔ابرہہ زخمی ہوکرمیدان سے زندہ واپس گیا، علاج معالجہ سے زخم اچھےہوگئے اور یمن کا مستقل بادشاہ بن بیٹھا۔نجاشی حبشہ کو جب یہ واقعہ معلوم ہواتووہ سخت غصہ ہوااورایک خط ابرہہ کولکھا،اسے بڑی لعنت ملامت کی اورکہاکہ قسم اللہ کی میں تیرے شہروں کوپامال کروں گا۔ اورتیری چوٹی کاٹ لاؤں گا،ابرہہ نے اس کا جواب نہایت عاجزی سے لکھااورقاصدکوبہت سارے ہدیئے دے اورایک تھیلی میں یمن کی مٹی بھردی اور اپنی پیشانی کے بال کاٹ کر اس میں رکھ دے اور اپنے خط میں اپنے قصوروں کی معافی طلب کی اورلکھاکہ یہ یمن کی مٹی حاضرہے اورمٹی چوٹی کے بال بھی، آپ اپنی قسم پوری کیجئے اورناراضی معاف فرمائیے، اس سے شاہ حبشہ خوش ہوگیااوریہاں کی سرداری اسی کے نام کردی۔ اب ابرہہ نے نجاشی کو لکھامیں یہاں یمن میں آپ کے لئے ایک گرجاتعمیرکررہاہوں کہ اب تک دنیامیں ایسانہ ہواوراس گرجاگھرکابناشروع کیا۔
بڑے اہتمام اورکروفرسے بہت اونچابہت مضبوط بے حدخوبصورت اورمنقش ومزین گرجابنایا،اس قدربلندتھاکہ چوٹی تک نظرڈالنے والے کی ٹوپی گرپڑتی تھی،اسی لئے عرب اس قلیس کہتے تھے یعنی ٹوپی پھینک دینے والا،اب ابرہہ اشرم کو یہ سوجھی کے لوگ بجائے کعبۃ اللہ کے حج کے اس کا حج کریں، اپنی ساری مملکت میں اس کی منادی کرادی۔عدنانیہ اورقحطانیہ عرب کو یہ بہت برالگا،ادھرسے قریش بھی بھڑک اٹھے، تھوڑے دن میں کوئی شخص رات کے وقت اس کے اندرگھس گیااوروہاں پاخانہ کرکے چلاآیا،چوکیدارنے جب یہ دیکھاتوبادشاہ کو خبرپہنچائی اورکہاکہ یہ کام قریشیوں کاہے چونکہ آپ نے ان کا کعبہ روک دیاہے لہذاانہوں نے جوش اورغضب میں آکریہ حرکت کی ہے، ابرہہ نے اس وقت قسم کھالی کہ میں مکہ پہنچوں گااوربیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ چندمن چلے جوان قریشیوں نے اس گرجامیں آگ لگادی تھی اور اس وقت ہوابھی بہت تیزتھی،ساراگرجاجل گیااورمنہ کے بل زمین پرگرگیا،اس پر ابرہہ نے بہت بڑالشکرساتھ لے کرمکہ پر چڑھائی کی تاکہ کوئی روک نہ سکے اور اپنے ساتھ ایک اونچااورموٹاہاتھی لیاجسے محمودکہاجاتاتھاجس جیساہاتھی اورکوئی نہ تھا۔شاہ حبشہ نے یہ ہاتھی اس کے پاس اسی غرض سے بھیجاتھا،آٹھ یابارہ اورہاتھی اوربھی ساتھ تھے یہ کعبے کو ڈھانے کی نیت سے چلا،یہ سوچ کر کہ کعبہ کی دیواروں میں مضبوط زنجیریں ڈال دوں گااورہاتھیوں کی گردنوں میں ان زنجیروں کوباندھ دوں گا۔ہاتھی ایک ہی جھٹکے میں چاروں دیواریں بیت اللہ کی جڑسے گرادیں گے،جب عرب کویہ خبریں معلوم ہوئیں توان پر بڑا بھاری اثرپڑااورانہوں نے مصمم ارادہ کرلیاکہ خواہ کچھ ہی ہو، ہم ضروراس سے مقابلہ کریں گے اور اسے اس کی اس بدکرداری سے روکيں گے۔ ایک یمنی شریف سردارجوں کے باشاہوں کی اولادمیں سے تھاجسے ذونقرکہاجاتاتھایہ کھڑاہوگیا،اپنی قوم کواورآس پاس کے عرب کوجمع کیااوراس بدنیت بادشاہ سے مقابلہ کیالیکن قدرت کوکچھ اورہی منظورتھا،عربوں کو شکست ہوئی اورذونفراس خبیث کے ہاتھ میں قیدہوگیااس نے اسے بھی ساتھ لیااورمکہ شریف کی طرف بڑھا،خثعم قبیلے کی زمین پر جب یہ پہنچاتویہاں نفیل بن حبیب خثعمی نے اپنے لشکروں سے اس کا مقابلہ کیالیکن ابرہہ نے انہیں بھی مغلوب کرلیااورنفیل بھی قیدہوگیاپہلے تواس ظالم نے اسے قتل کرناچاہالیکن لیکن پھرقتل نہ کیااورقیدکرکے ساتھ لے لیاکہ راستہ بتائے، جب طائف کے قریب پہنچاتوقبیلہ ثقیف نے اس سے صلح کرلی کہ ایسانہ ہوانکے بت خانوں کوجس میں لات نامی بت تھایہ توڑدے، اس نے بھی انکی بڑی آؤبھگت کی۔انہوں نے ابورغال کے اس کے ساتھ کردیاکہ یہ تمہیں وہاں کاراستہ بتائے گا،ابرہہ جب مکے کے بالکل قریب مغمس کے قریب پہنچاتواس نے یہاں پڑاؤکیا،اس کے لشکرنے آس پاس مکہ والوں کے جوجانوراونٹ وغیرچر چگ رہے تھے سب کواپنے قبضہ میں کیا، ان جانوروں میں دوسواونٹ توصرف عبدالمطلب کے تھے، اسودبن معضودجواسکے لشکرکے ہراول کاسردارتھااس نے ابرہہ کے حکم سے ان جانوروں کولوٹاتھا، جس پر عرب شاعروں نے اس کے ہجومیں اشعارتصنیف کئے ہوئے ہیں جوسیر‏ہ ابن اسحاق میں موجودہیں۔اب ابرہہ نے اپناقاصدضاطب حمیری مکہ والوں کے پاس بھیجاکہ مکہ کے سب سے بڑے سردارکومیرے پا‎س لاؤاوریہ بھی اعلان کردوکہ میں مکہ والوں سے لڑنے کونہیں آیا، میراارادہ صرف بیت اللہ کو گرانے کاہے ہاں اگرمکہ والے اس کے بچانے کے درپے ہوئے تولامحالہ مجھے ان سے لڑائی کرنی پڑے گی ضاطہ جب مکہ میں آیااورلوگوں سے ملاجلاتومعلوم ہواکہ یہاں کابڑا سردارعبدالمطلب بن ہاشم ہے،یہ عبدالمطلب سے ملااورشاہی پیغام پہنچایاجس کے جواب میں عبدالمطلب نے کہاواللہ نہ ہماراارادہ اس سے لڑنے کاہے نہ ہم میں اتنی طاقت ہے یہ اللہ کاحرمت والاہے گھرہے،اس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندہ یادگارہے،اللہ اگرچاہے گاتواپنے گھرکی آپ حفاظت کرے گا، ورنہ ہم میں توہمت وقوت نہیں۔ ضاطہ نے کہااچھاتوآپ میرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلے چلئے، عبدالمطلب ساتھ ہوئے، بادشاہ نے جب انہیں دیکھاتوہیبت میں آگیا، عبدالمطلب گورے چٹے سڈول اورمضبوط قوی والے حسین وجمیل انسان تھے، دیکھتے ہی ابرہہ تخت سے نیچے اترآیااورفرش پرعبدالمطلب کے ساتھ بیٹھ گیااوراپنے ترجمان سے کہاان سے پوچھ کہ کیاچاہتاہے؟ عبدالمطلب نے کہامیرے دوسواونٹ جوبادشاہ نے لے لئے ہیں انہیں واپس کردیاجائے، بادشاہ نے کہاان سے کہہ کہ پہلی نظرمیں تیرارعب مجھ پر جوپڑاتھااورمیرے دل میں تیری دہشت بیٹھ گئی تھی لیکن پہلے ہی کلام میں تونے سب کچھ کھودی، اپنے دو سواونٹ کی توتجھے فکرہے اوراپنے اور اپنی قوم کے دین کی تجھے فکرنہیں، میں توتم لوگوں کاعبادت خانہ توڑنے اور خاک میں ملانے کے لئے آیاہوں، عبدالمطلب نے جواب دیاکہ سن بادشاہ اونٹ تومیرے ہیں اسلئے انہیں بچانے کی کوشش میں میں ہوں اور خانہ کعبہ خداکاہے وہ خوداسے بچالے گ۔ا،اس پر یہ سرکش کہنےلگاکہ خدابھی آج اسے میرے ہاتھ سے نہیں بچاسکتا،عبدالمطلب نے کہابہترہے وہ جانے اورتوجان، یہ بھی مروی ہے کہ اہل مکہ نے تمام حجازکاتہائی مال ابرہہ کودیناچاہاکہ وہ اپنے اس بدارادہ سے باز آئےلیکن اس نے قبول نہ کیا، خیرعبدالمطلب تواپنے اونٹ لے کرچل دیئے اورآکرقریش کو حکم دیاکہ مکہ بالکل خالی کردو،بہاڑوں میں چلے جاؤ، اب عبدالمطلب اپنے ساتھ قریش کے چیدہ چیدہ لوگوں کو لے کربیت اللہ میں آیااوربیت اللہ کے دروازہ کاکنڈاتھام کرروروکراورگڑگڑاگڑگڑاکردعا‏ئیں مانگنی شروع کیں کہ باری تعالی ابرہہ اوراس کے خونخوارلشکرسے اپنے پاک اورذی عزت گھرکوبچالے، عبدالمطلب نے اس وقت یہ دعا‏ئیہ اشعارپڑھے۔
لا ھم ان المرایم نع رحلہ فامنع رحالک لایغلبن صلیبھم ومحالھم ابدا مخالک
یعنی ہم بے فکرہیں ہم جانتے ہیں کہ ہرگھروالااپنے گھرکابچاؤ کرتاہے خدایاتوبھی اپنے گھرکواپنے دشمنوں سے بچا،یہ تو ہرگزنہین ہوسکتاکہ انکی صلیب اورانکی ڈولیں تیری ڈولوں پرغالب آجائیں۔
اب عبدالمطلب نے بیت اللہ کے دروازے کاکنڈاہاتھ سے چھوڑدیااوراپنے تمام ساتھیوں کولے کرآس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیوں پرچڑھ گیا،یہ بھی مذکورہے کہ جاتے ہوئے قربانی کے سواونٹ بیت اللہ کے اردگردنشان لگاکرچھوڑدیئے تھے اس نیت سے کہ اگریہ بددین آئے اورانہوں نے خداکے نام کی قربانی کے ان جانوروں کوچھیڑاتوعذاب خداان پر اترے گا،دوسری صبح ابرہہ کے لشکرمیں مکہ میں جانے کی تیاریاں ہونے لگیں، اپناخاص ہاتھی جس کانام محمودتھااسے تیارکیا،لشکرمیں کمربندی ہوچکی اورمکہ شریف کی طرف منہ اٹھاکرچلنے کی تیاری کی۔اس وقت نفیل بن حبیب جواس راتسے میں لڑاتھااوراب بطورقیدی کے اس کے ساتھ تھاوہ آگے بڑھااورشاہی ہاتھی کاکان پکڑلیااورکہامحمودبیٹھ جااورجہاں سے آیاہے وہیں خریت سے کےساتھ چلاجا،توخدائے تعالی کے محترم شہرمیں ہے یہ کہہ کرکان چھوڑدیااوربھاگ کر قریب کی پہاڑمیں جاچھپا،محمودہاتھ یہ سنتے ہی بیٹھ گيا،اب ہزارجتن فیل بان کررہے ہیں لشکری بھی کوششیں کرتے کرتے تھک گئے لیکن ہاتھی اپنی جگہ سے ہمستاہی نہیں سرپرانکس ماررہے ہیں ادھرادھرسے بھالے اوربرچھےماررہے ہیں آنکھوں میں آنکس ڈال رہے ہیں غرض تمام جتن کرلئے لیکن ہاتھ جنبش بھی پھربطورامتحان کے اس کامنہ یمن کی طرف کرکے جلاناچاہاتوجھٹ سے کھڑاہوکردوڑتاہواچل دیا، شام کی طرف چلاناچاہاتوپوری طاقت سے آگے بڑھ گیا،مشرق کی طرف لے جاناچاہاتوبھابھاگاگیا،پھرمکہ شریف کی طرف منہ کرکے آگے بڑھاناچاہاوہیں بیٹھ گیا،انہوں نے اسے مارناپیٹناشروع کیاکہ دیکھاکہ اکی گھٹاٹوپ پرندوں کاجھرمٹ بادل کی طرف سمندرکے کنارے کی طرف سے امڈاچلاآرہاہے ،ابھی پوری طرح دیکھنابھی نہیں پائے تھے کہ وہ جانورسرپرآگئے چوطرف سے سارے لشکرکوگھیرلیا۔ان میں سے ہرایک چونچ میں ایک مسوریاماش کے دانے برابرکنکری تھی اوردونوں پنجوں میں دودوکنکریاں تھیں یہ ان پر پھینکنے لگے،جس جس پر کنکری آن پڑی وہ وہیں ہلاک ہوگیااب تولشکرمیں بھاگڑپڑگئی ہرایک نفیل نفیل کرنے لگاکیونکہ اسے ان لوگوں نے اپنارہبراورراستہ بتانے والاسمجھ رکھاتھا،نفیل تو ہاتھی کوکہہ کرپہاڑپرچڑھ گیااوردیگراہل مکہ ان لوگوں کی یہ درگت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور نفیل وہیں کھڑایہ شعرپڑھ رہاتھا۔
ابن المفروالالہ الطالب والاشرم المغلوب لیس الغالب
اب جائے پناہ کہاں ہے؟ جبکہ خداخودتاک میں لگ گیاہے۔سنواشرم بدبخت مغلوب ہوگیااب یہ پنپنے کانہیں اور بھی نفیل نے اس واقعہ کے متعلق بہت سے اشعارکہے ہیں جن میں اس قصہ کوبیان کیاہے اورکہاکہ کاش تواس وقت موجودہوتاجبکہ ان ہاتھی والوں کی شامت آئی اوروادی محصب میں ان پر عذاب کے سنگریزے برسے ہیں تواس وقت تواس خدائی لشکریعنی پرندوں کودیکھ کرقطعا‍سجدے میں گرپڑتا،ہم تووہاں کھڑے حمدخداکی راگنیاں الاپ رہے تھے،گوکلیجے ہمارے بھی اونچے ہوگئے تھے کہیں کوئی کنکری ہماراکام بھی تمام نہ کردے،نصرانی منہ موڑے بھاگ رہے تھے اورنفیل نفیل پکاررہے تھے گویانفیل پران کے باپ دادوں کاکوئی قرض تھا،واقدی فرماتے ہیں یہ پرندزردرنگ تھے،کبوترسے کچھ چھوٹے تھے،ان کے پاؤ ں سرخ تھے۔اورروایت میں ہے کہ جب محمودہاتھی بیٹھ گیااورپوری کوشش کے باوجودبھی نہ اٹھاتوانہوں نے دوسری ہاتھی کوآگے کیااس نے قدم بڑھایاہی تھاکہ اسکی کمرپرکنکری پڑی اوربلبلاکہ پیچھے ہٹااورپھراورہاتھی بھی بھاگ کھڑے ہوئےاورادھربرابرکنکریاں آنے لگیں ،اکثرتووہیں ڈھیرہوگئے اور بعض جو ادھرادھربھاگ نکلے تھے ان میں سے بھی کوئی جاں برنہ ہوا، بھاگتے بھاگتے ان کے اعضاء کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے اوربالآخرجان سے جاتے تھے، ابرہہ بادشاہ بھی بھاگالیکن ایک ایک عضوبدن سے جھڑناشروع ہوایہاں تک خثعم کے شہروں میں سے صنعامیں جب وہ پہنچاتوبالکل گوشت کالوتھڑابناہواتھا،وہیں بلک بلک کردم توڑااورکتے کی موت مرا،دل تک پھٹ گیاتھاقریشیوں کوبڑامال ہاتھ لگا،عبدالمطلب نے تو سونے سے ایک کنواں پرکرلیاتھا،زمین عرب میں آہلہ اورچیچک اسی سال پیداہوتے ہوئے دیکھے گئے اوراسی طرح سپنداورحتطل وغیرہ کے کڑوے درخت بھی اسی سال زمین عرب میں دیکھے گئے تھے،پس اللہ تعالہ بزبان رسول معصوم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی یہ نعمت یاددلاتاہے اور گویافرمایاجارہاہے کہ گرتم میرے گھرکی اسی طرح عزت وحرمت کرتے رہتے اورمیرے رسول کومانتے تومیں بھی اسی طرح تمہاری حفاظت کرتااورتمہیں دشمنوں سے نجات دیتا۔
ابابیل جمع کاصیغہ ہے اس کاواحدلغت مین پایانہیں گیا۔سجیل کے معنی ہے بہت ہی سخت اوربعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دوفارسی لفظوں سے مرکب ہے یعنی سنگ اورگل سے یعنی پتھراورمٹی،غرض سجیل وہ ہے جس میں پتھرمعہ مٹی ہو۔ جمع ہے کی، کھیتی کے ان پتوں کوکہتے ہیں جوپک نہ گئے ہوں۔(سیرہ ابن ھشام51-56/1) ابابیل کے معنی ہیں گروہ گروہ ، جھنڈ، بہت سارے پے درپے جمع شدہ ، ادھرادھرسے آنے والے، بعض نحوی کہتے ہیں اس واحدابابیل ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ان پرندوں کی چونچ تھی اورپرندوں جیسے اور پنجے تھے کتوں جیسے۔(تفسیرطبری 607/24) عکرمہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ سبزرنگ کے پرندتھے جوسمندرسے نکلے تھے، ان کے سردرندوں جیسے تھے اور اقوال بھی ہیں۔یہ پرندباقاعدہ ان لشکروں کے سروں پر پرے باندھ کر کھڑے ہوگئے اور چیخنے لگے پھرپتھرجس کے سرمیں لگااس کے نیچے سے نکل گیادوٹکڑے ہوکرزمین پر گرا، جس کے جس عضوپرگراوہ ساقط ہوگیا،ساتھ ہی تیزآندھی آئی جس سے آس پاس کے کنکربھی ان کی آنکھوں میں گھس گئے اورسب تہہ وبالاہوگئے۔ عصف کہتے ہیں چارے کواورکئی کواورگیہوں کے درخت کے پتوں کواور سے مراد ٹکڑے ٹکڑے کیاہواہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عصف کہتے ہیں بھوسی کو جواناج کے دانوں کے اوپرہوتی ہے۔(تفسیربغوی539/4) ابن زیدرحمۃ اللہ فرماتے ہیں مرادکھیتوں کے وہ پتے ہیں جنہیں جانورچرچکے ہوں،(تفسیرطبری699/24) مطلب یہ ہے کہ خدانے ان کاتہس نہس کردیااورعام خاص کوہلاک کردیاان کی ساری تدبیریں پت پڑ گئيں، کوئی بھلائي انہیں نصیب نہ ہوئی انکی خبرپہنچائے ایسابھی کوئی ان میں صحیح سالم نہ رہاجوبھی بچا،وہ زخمی ہوکراوراس زخم سے پھرجاں برنہ ہوسکا، خودبادشاہ بھی گوہ ایک گوشت کے لوتھڑےکی طرح ہوگیاتھا،جوں توں صنعامیں پہنچالیکن وہاں جاتے ہی اس کاکلیجہ پھٹ گیااورواقعہ بیان کرہی چکاتھاجومرگیا، اس بعداس کالڑکایکسویمن کابادشاہ بنا،پھراس کے دوسرے بھائی مسروق بن ابرہہ کو سلطنت ملی، اب سیف بن دویزن حمیری کسری کے دربار میں پہنچااوراس سے مددطلب کی تاکہ وہ ا ہل حبشہ سے لڑے اوریمن ان سے خالی کرائے، کسری نے اس کے ساتھ ایک لشکرجرارکردیا،اس لشکر نے اہل حبشہ کو شکست دی اور ابرہہ کاخاندان سے سلطنت نکل گئی اورپھرقبیلہ حمیریہاں کابادشاہ بن گیا،عربوں نے اس پر بڑی خوشی منائی اور چوطرف سے مبارکبادیاں وصو،ل ہوئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکابیان ہے کہ ابرہہ کے لشکرکے فیل بان اورچرکٹے کومیں نے مکہ شریف میں دیکھا،دونوں اندھے ہوگئے تھے چل پھر نہیں سکتے تھےاوربھیک مانگاکرتے تھے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں اساف اورنائلہ بتوں کے پاس یہ بیٹھے رہتے تھے جہاں مشرکین اپنی قربانیاں کرتے تھے اورلوگوں سے بھیک مانگتے پھرتے تھے اس فیل بان کا نام انیساتھا۔بعض تاریخوں میں یہ بھی ہے کہ ابرہہ خوداس چڑھائی میں نہ تھا بلکہ اس نے اپنے لشکرکوبہ ماتحتی شمس بن معضودکے بھیجاتھا،یہ لشکربیس ہزارکاتھااوریہ پرندان کے اوپررات کے وقت آئے تھے اورصبح تک ان سب کاستیاناس ہوچکاتھا،لیکن یہ روایت بہت غریب ہے اورصحیح بات یہ ہے کہ خودابرہہ اشرم حبشی ہی اپنے ساتھ لشکرلے کرآیاتھا،یہ ممکن ہے کہ اس کے ہراول دستہ پریہ شخص سردارہو۔اس واقعہ کو بہت سے عرب شاعروں نے اپنے اپنے شعروں میں بھی بسط کے ساتھ بیان کیاہے۔سورہ فتح کی تفسیرمیں ہم اس واقعہ کو مفصل بیان کرآئےہیں جس میں ہے کہ جب حدیبیہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس ٹیلے پر چڑھے جہاں سے آپ قریشیوں پرجانے والے تھے توآپکی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے اسے ڈانٹاڈپٹالیکن وہ نہ اٹھی لوگ کہنے لگے قصواء تھک گئی آپ نے فرمایانہ یہ تھکی ہے نہ اس میں اڑنے کی عادت ، اسے اس خدانے روک لیاہے جس نے ہاتھیوں کوروک لیاتھا۔
پھرفرمایااس کی قسم جس ہاتھ میں میری جان ہے مکے والے جن شرائط پرمجھ سے صلح چاہیں گے میں سب مان لوں گابشرطیکہ خداکی حرمتوں کی ہتک اس میں نہ ہو،پھرآپ نے اسے ڈانٹاتووہ فورااٹھ کھڑی ہوگغی۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے۔(بخاری،کتاب الشروط:باب الشروط فی الجھاد،ح2731،2732)بخاری مسلم کی ایک اورحدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے مکہ پر سے ہاتھیوں کو روک لیااوراپنے نبی کو وہاں کاقبضہ دیااوراپنے ایمانداربندوں کو،سنوآج اس کی حرمت ویسی ہی لوٹ کرآگئی ہے جیسے کل تھی،خبردارہرحاضرکوچاہیے کہ غیرحاضرکوپہنچادے(بخاری،کتاب العلم:باب کتابہ العلم،ح112،مسلم،کتاب الحج:باب تحریم مکہ ،تحریم صیدھا،ح 1355)اللہ تعالی کے فضل وکرم سے سورہ فیل کی تفسیرختم ہوئی۔
 
Top