سوال: سیدی عبدالغنی العمری ! حق تعالیٰ کا قرآنِ عظیم میں قول ہے کہ :{وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ} [النساء: 34]. ترجمہ" اور جن (عورتوں) سے تمہیں سرکشی و نافرمانی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (ہلکا سا) مارو" (سورہ نساء، آیت نمبر 34)
سیدی! اہل اللہ سادات کے نزدیک اس آیت میں مذکور ضرب سے کیا مراد ہے؟ اور آیت میں کن امور کی طرف اشارہ ہے؟
جواب :
بسم الله الرحمن الرحيم.
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف المرسلين؛ وعلى آله وصحبه والتابعين، إلى يوم الدين۔
1- اس سے پہلے کہ ہم بات کا آغاز کریں، یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ فعل بظاہر مرد کیلئے ہے اور عورت کیلئے انفعال ہے لیکن باطن کی جہت سے دیکھا جائے تو فعل عورت کیلئے ہے اور انفعال مرد کیلئے ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے عورت اپنی کمزوری کے باوجود مضبوط ترین مردوں پر حکومت رکھتی ہے اور ایسا اللہ کے عدل کی وجہ سے ہے جو اسکے بندوں میں جاری و ساری ہے۔ اپنی اس بات سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس تقلیدی فہم سے آپکو باہر نکالا جائے کہ جو عورت کو ہمیشہ مرد کے مقابلے میں محکوم اور جھکا ہوا قرار دیتی ہے۔ اور یہ بات جہل سے اور بات کو سمجھنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے ہے اور ہمیں اس حوالے سے بالکل کوئی شک نہیں ہے ۔کیونکہ ایسی فہم اہلِ دین کے شایانِ شان نہیں ہے اگر وہ واقعی اہلِ دین ہیں تو۔
2- اس آیت :{وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا} [النساء: 34ٌٗ ۔ " اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (ہلکا سا) مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر (ظلم کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے"، اس آیت کو متقدمین اور متاخرین یعنی پہلے لوگوں اور بعد میں آنے والےوں میں سے بہت سے لوگوں نے بڑے غلط انداز میں سمجھا ہے اور غلط زاویے سے اس پر نگاہ ڈالی ہے جسکے نتیجے میں غلط مفہوم پیدا ہوتا ہے اور اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب مسلمان دجالی عہد کے حقوقِ نسواں کے علمبرداروں ( Feminists) کا سامنا کرتے ہیں تو اپنے آپ کو آیت کے اس قسم کے مفہوم کے حوالے سے بہت مشکل میں پاتے ہیں اور اپنے ایمان کا اظہار انہیں مشکل لگتا ہے۔
3- میاں بیوی کا باہمی معاملہ، دیگر رشتوں اور معاملات جیسا نہیں ہے کہ بندہ انکو دوسرے معاملات کے مشترکہ معیار کے مطابق ناپنا اور جانچنا شروع کردے۔ بلکہ یہ ایسا معاملہ ہے کہ جسکی اپنی ایک خاص منطق ہوتی ہے جس طرح کسی فنی کام کی تکنیکی باریکیاں ہوتی ہیں جن کو ان فنون کے ماہرین اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اگر ان تکنیکی باریکیوں کو نظر انداز کرکے اور انک مخصوص زاویے سے ہٹ کر کسی اور سمت سے انکو دیکھا جائے تو اکثر اوقات نتائج برعکس بھی نکل آیا کرتے ہیں اور اہلِ فہم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے۔ اور مردوں عورتوں کے زیادہ تر مسائل اس وجہ سے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ مرد اور عورت کی نفسیات اور منطق کو ایک جیسا سمجھ لیا جاتا ہے اور مرد عورت کی سوچ کو اپنی سوچ کے زاویے سے دیکھتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صورتحال مزید مشکل اور پیچیدہ ہوجاتی ہے۔
4- اور اگر عورت اور مرد کی منطق اور نفسیات میں یہ اختلاف نہ ہوتا تو انکی ازدواجی زندگی میں وہ پائیداری اور مضبوطی نہ پیدا ہوسکتی جو کئی برس ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے بعد پیدا ہوتی ہے اور جسکے بغیر مرد اپنی عورت کو حقیقی طور پر جاننے اورسمجھنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ اور یہ بات اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس سے صحیح طور پر صرف عارفین ہی لطف لے سکتے ہیں۔
5- اور جو شخص آیت میں مذکور اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہے، اسے چاہئیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی ازواج کے ساتھ معاملات اور طور طریقے کو دیکھے، وہ ضرور بات کی تہہ تک پہنچ جائے گا جسکی جانب ہم نے اشارہ کیا۔
6- اب آتے ہیں آیت کی طرف۔ آیت میں مذکور لفظ 'نشوز' جسکا ترجمہ سرکشی یا نافرمانی سے کیا جاتا ہے(موسیقی میں دو آوازوں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کو بھی نشوز کہا جاتا ہے یعنی بے سُرا میوزیکل نوٹ) ، اس نشوز سے مراد ہے عورت کا مرد پر غلبے اور بلندی کا اظہار کرنا کیونکہ وہ مطلوبہ ہے طالبہ نہیں۔ چنانچہ اپنے اس 'نشوز' سے وہ اپنی حقیقت سے باہر نہیں نکلی۔ لیکن جہاں تک اس 'خوف' کا تعلق ہے جو اس نشوز کے نتیجے میں مرد کو لاحق ہوا ہے تو وہ خوف یہ ہے کہ کہیں یہ 'نشوز' اپنی حدوں سے تجاوز کرکے اتنا باہر نہ نکل جائے کہ شوہر کو اس سے تکلیف پہنچنے لگے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ اب شرع نے اس تجاوز کے تدارک کیلئے تین مراحل پر مبنی علاج تجویز کیا ہے :
الف۔ 'وعظ' ،یعنی نصیحت۔ اور یہ دراصل اللہ کی طرف سے عورت کو میاں بیوی دونوں کے پروردگار کی طرف متوجہ کرنا کہ اگر وہ اپنے شوہر کے مقابل بلندی اور برتری کا اظہار کرنے لگے تو اسے یاد رکھنا چاہئیے کہ بلند و برتر ذات (الاعلیٰ اور المتعال) تو انکے رب کی ہے۔
ب۔ 'الہجر فی المضجع' ، یعنی علیحدہ علیحدہ سونا۔ اور یہ خوش طبعی اور مداعبت (Kidding, playful teasing) کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ عربی کا ایک محاورہ ہے هجر بعيره هجرا، إذا شده بالهجار کہ جب اس نے اپنے اونٹ پر زیادہ بوجھ ڈالا تو اونٹ نے اسے چھوڑدیا۔
جیم۔ 'الضرب'، اور یہ بھی مداعبت کی ایک قسم ہے جسکی عورتوں میں سے ایک صنف کو ضرورت پڑتی ہے تاکہ انکے دلوں پر پڑے ہوئے قفل کھل سکیں۔ اور یہاں ضرب سے مراد تادیبی (Disciplinary)ضرب نہیں ہے جیسا کہ بہت سے لوگوں نے سمجھ رکھا ہے، کیونکہ عورت اللہ کے نزدیک اس بات سے زیادہ بلند مقام اورمرتبہ رکھتی ہے ۔ اور بعض لوگوں نے ضرب کیلئے جو غیر مبرح (یعنی جس سے کسی قسم کی کوئی تکلیف اور درد نہ ہو) کی اصطلاح استعمال کی ہے، وہ بھی ہمارے موقف کی تائید کرتی ہے ۔ اور اگر کسی کو ان اسرار کی خبر ہو جو عورتوں میں رکھے گئے ہیں تو اسے پتہ چلتا کہ بعض عورتوں کیلئے اس ضرب میں کس قدر لذت کا سامان ہے کہ عام مرد انہ منطق اور نفسیات اس کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے۔ اور یہ تو عام محارہ ہے کہ "ضرب الحبيب أشهٰى من أكل الزبيب" یعنی محبوب کا مارنا، کشمش کےکھانے سے زیادہ لذیذ ہے۔
7- اور اللہ نے مردوں کو اسی آیت میں جو وصیت کی ہے کہ :{فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا} کہ اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو ان پر (ظلم کرنے کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ چنانچہ یہاں اطاعت سے مراد ہے موافقت۔ اور 'بغی' سے مراد ہے مداعبت اور خوش طبعی ( Kidding, playful teasing) میں اس حد تک تجاوز کرجانا کہ اس سے دوسرے فریق کو تکلیف پہنچنے لگے۔ چنانچہ عورت کے نشوز سے تجاوز سے مرد کیلئے جس ضرر کا خوف تھا، اب یہ نہ ہو کہ مرد کی خوش طبعی میں تجاوز سے عورت کو وہی ضرر پہنچنے لگے۔ اور اللہ کو میاں بیوی میں سے کسی کیلئے بھی کسی قسم کا ضررپسند نہیں۔
8- اور اللہ تعالیٰ نے آیت کا اختتام یوں کیا ہے کہ :{إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا} کہ " بیشک اللہ سب سے بلند، سب سے بڑا ہے"۔ چنانچہ میاں بیوی دونوں کو یاد دہانی ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو دوسرے سے بلند اور اعلیٰ نہ سمجھے کیونکہ ان دونوں میں سے اعلیٰ اور اکبر تو اللہ ہی ہے۔ اور اس میں ہم سب کیلئے یہ تعلیم ہے کہ انکے زندگی کے ساتھی میں سربلندی اور علوِ مرتبت کا اظہار کرنے والا تو وہ اللہ ہے کوئی اور نہیں۔ چنانچہ وہ اسکے ساتھ ایسا معاملہ کرے جسکا وہ مستحق ہے، تاکہ اس معاملے کے نتیجے میں وہ قرب اور معرفت کے واردات سے گذر سکے۔
اور اس آیت کے معانی میں بہت طویل گفتگو ہوسکتی ہے ، لیکن ہمارا مقصد یہاں صرف یہی ہے کہ ہم اس وجہِ تنزیل کی وضاحت کر دیں ہر اس شخص کیلئے جو قلب رکھتا ہے، کیونکہ قرآن تو سارے کا سارا ہی اسرارِجلی سے بھرا پڑا ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے کلامِ بدیع کی سمجھ اور شعور رکھنے والا بنائے۔
واللہ و رسولہ اعلم۔
http://www.alomariya.org/QR.php?page=23
(از افاداتِ عارف ربانی الشیخ عبدالغنی العمری حفظہ اللہ۔)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ حکمت سے بھرپور جواب ہے ۔۔۔
بہت سادہ پیرائے میں الجھے ریشم کو سلجھایا ہے ۔۔۔۔
اور ترجمہ بھی گویا سونے پہ سہاگہ
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم غزنوی بھائی
 
Top