سود

الف نظامی

لائبریرین
دنیا کا کوئی بھی بڑا ماہر معاشیات خواہ وہ کینز ہو یا ملٹن فریڈ مین ، سود کی حمایت نہیں کرتا۔یہ سب سود کو معاشی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں دنیا کا ہر بڑا ماہر معاشیات صرف ایک ہی نعرہ بلند کرتا ہے کہ اس دنیا کی معاشی تباہی کا سب سے بڑا ذمہ دار سود پر مبنی بینکاری کا نظام ہے۔ سٹیو کین کا لگایا ہوا یہ نعرہ " آو بینکوں کو دیوالیہ کرو" اس وقت ایک مقبول ترین پکار بن چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کا سرمایہ کار 43 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس ہے جن کو پانچ سو کے قریب بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک مخصوص گروہ کنٹرول کرتا ہے۔ پھر ان سب کو بیس بڑے بینک کنٹرول کرتے ہیں جو عوام کی بچت اور اس بچت سے پیدا شدہ مصنوعی دولت ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دے کر پوری دنیا کی معیشت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ پھر اسی مصنوعی دولت سے دنیا کی سیاست ، کاروبار بلکہ معاشرت کو بھی قابو کیے ہوئے ہیں۔ انہی بینکوں کی دولت سے جنگیں ہوتی ہیں ،"اخلاق یافتہ" میڈیاچلتا ہےاور لوگوں کی معاشرت میں زبردستی چال چلن متعارف اور مقبول کروایا جاتا ہے۔
علامہ محمد اقبال جنہیں اللہ تعالی نے قرآن کے علم کا امین بنایا تھا ، انہوں نے 1906ء میں اس پورے مکروہ معاشی نظام پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام "علم الاقتصاد" ہے۔ یہ کتاب لوگوں کی نظروں سےچھپا دی گئی تھی لیکن اب اسے لاہور کے ایک ناشر نےدوبارہ چھاپا ہے۔ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی تھی جب یہ بینکاری کا نظام اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔اقبال کا ادراک اس نظام اور مصنوعی دولت کے بارے میں اس قدر وسیع تھا کہ وہ لکھتے ہیں:
"بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بینک کم شرح سود کے عوض ایک سے روپیہ مستعار لیتے ہیں اور دوسرے کو زیادہ شرح سود کے عوض مستعار دے کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بینک کبھی روپیہ قرض نہیں دیتا بلکہ ساکھ کے بل پر اپنی موجود زرِ نقد کی مقدار سے زیادہ کے اوراق جاری کر کے یا اعتبار کی اور صورتیں پیدا کر کے فائدہ اٹھاتا ہے"
یہ ہے وہ ادراک اور علم جو اللہ تعالی نے اقبال کو عطا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پورے سودی نظام کو صرف ایک شعر میں سمو دیتے ہیں:
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا ، لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

بحوالہ: ہمارے جوتے ، ہمارے سر
 
Top