سوانح عمری فردوسی صفحہ 52

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
iqlw9d.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۲

لیجا کر گھر میں رکھا، جب افراسیاب کو خبر ہوئی تو اس نے بیژن کو ایک کنوئین میں قید کر دیا اور منیزہ کو گھر سے نکال دیا۔ منیزہ بیژن کی تیمارداری اور خبر گیری کرتی تھی۔ رستم بیژن کے چُھڑانے کو سوداگر بن کر گیا۔ اور توران پہنچکر تجارت کے سامان پھیلائے منیزہ کو خبر ہوئ، دوڑی ہوئی آئی اور رستم بیژن کے حالات بیان کئے۔ رستم نے اس خیال سے کہ راز فاش نہ ہو جائے، منیزہ کو جھڑک دیا کہ میں بیژن ویژن کو نہیں جانتا۔ منیزہ دل شکستہ ہو کر کہتی ہے :

بہ رستم نگہ کرد و بگریست زار
نہ خواری بیارید خون درکنار

بدو گفت کاے مہتر پُرخرد
نہ تو سرد گفتن نہ ازرخورد

رستم سے کہا کہ اے سردار
اس طرح رکھائی سے جواب دینا ۔۔۔ شایان نہیں

سخن گر نہ گوئی مرانم زپیش
کہ من خود ولے دام اردرویش

اگر ہاتھ نہیں کرتے تو نکرو لیکن مجھکو کہدیڑتے کیون ہو
میرا دل تو خود مصیبت سے زخمی ہو رہا ہے

چنین باشد آئین ایران مگر
کہ درویش راکس نہ گیرو خبر

کیاایران کا یہی دستور ہے
کہ لوگ غریبوں سے بات نہیں کرتے

زدی بانگ برمن چو جنگ آوران
نہ ترسی توزد اورد اوران

مجھکو پہلوانون کی طرح ڈانٹ بتاتے ہو
تمکو بادشاہونکے بادشاہ (خدا) کا کچھ ڈر نہیں

منیزہ منم دخت افراسیاب
برہنہ ندیدہ تنم آفتاب

کنون دیدہ پُرخون و دل پرزدرد
ازین در بدان درد و رخسارہ زرد

براے یکے بیژن شور بخت
فتام زتاج و فتادم زتخت

اختصار راورزور : بلاغت کے نکتہ شناس جانتے ہیں۔ کہ کسی واقعہ کے بیان کرنے میں جب حد سے زیادہ زور دینا مقصود ہوتا ہے، تو لمبی چوڑی تمہید اور تفصیل وہ کام نہیں دیتی، جو ایک پُر زور مختصر جملہ کام دیتا ہے، قرآن مجید میں اوحیٰ الی عبدہ ما اوحی ٹشیم من الیئی ما خشیم میں جو بات ہے وہ سینکڑوں جملون سے ادا نہیں ہو سکتی، روم کے فاتح کا مشہور جملہ تم نے سُنا ہو گا۔ مین آیا، میں نے دیکھا، مینے فتح کیا۔ شاہنامہ میں اس کی مثالین کثرت سے موجود ہیں۔ سُہراب کی پُردور داستان اس شعر سے شروع کی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صفحہ ۵۲

لیجا کر گھر میں رکھا، جب افراسیاب کو خبر ہوئی تو اس نے بیژن کو ایک کنوئین میں قید کر دیا اور منیزہ کو گھر سے نکال دیا۔ منیزہ بیژن کی تیمارداری اور خبر گیری کرتی تھی۔ رستم بیژن کے چُھڑانے کو سوداگر بن کر گیا۔ اور توران پہنچکر تجارت کے سامان پھیلائے منیزہ کو خبر ہوئی، دوڑی ہوئی آئی اور رستم سے بیژن کے حالات بیان کئے۔ رستم نے اس خیال سے کہ راز فاش نہو جائے، منیزہ کو جھڑک دیا کہ میں بیژن ویژن کو نہیں جانتا۔ منیزہ دل شکستہ ہو کر کہتی ہے :

بہ رستم نگہ کرد و بگریست زار
ز خواری ببارید خون درکنار

بدو گفت کاے مہتر پُرخرد
ز تو سرد گفتن نہ اندر خورد
رستم سے کہا کہ اے سردار
اس طرح رکھائی سے جواب دینا آپکے شایان نہیں

سخن گر نہ گوئی مرانم زپیش
کہ من خود دلے دام از درد ریش
اگر بات نہیں کرتے تو نکرو لیکن مجھکو کہدیڑتے کیون ہو
میرا دل تو خود مصیبت سے زخمی ہو رہا ہے

چنین باشد آئین ایران مگر
کہ درویش راکس نہ گیرو خبر
کیاایران کا یہی دستور ہے
کہ لوگ غریبوں سے بات نہیں کرتے

زدی بانگ برمن چو جنگ آوران
نہ ترسی تو از داورِ داوران

مجھکو پہلوانون کی طرح ڈانٹ بتاتے ہو
تمکو بادشاہونکے بادشاہ (خدا) کا کچھ ڈر نہیں

منیزہ منم دخت افراسیاب
برہنہ ندیدہ تنم آفتاب

کنون دیدہ پُرخون و دل پر زدرد
ازین در بدان در دو رخسارہ زرد

براے یکے بیژن شور بخت
فتام زتاج و فتادم زتخت

اختصار اور زور : بلاغت کے نکتہ شناس جانتے ہیں۔ کہ کسی واقعہ کے بیان کرنے میں جب حد سے زیادہ زور دینا مقصود ہوتا ہے، تو لمبی چوڑی تمہید اور تفصیل وہ کام نہیں دیتی، جو ایک پُر زور مختصر جملہ کام دیتا ہے، قرآن مجید میں اوحیٰ الی عبدہ ما اوحی غشیہم من الیئی ما غشیہم میں جو بات ہے وہ سینکڑوں جملون سے ادا نہیں ہو سکتی، روم کے فاتح کا مشہور جملہ تم نے سُنا ہو گا۔ مین آیا، میں نے دیکھا، مینے فتح کیا۔ شاہنامہ میں اس کی مثالین کثرت سے موجود ہیں۔ سُہراب کی پُردرد داستان اس شعر سے شروع کی ہے۔
 
Top