سوانح عمری فردوسی صفحہ 41

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نایاب

fkd4ro.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
لیکن فردوسی باوجود اسکے کہ اس کو تقدس کا دعویٰ نہیں ایسے موقعوں پر آنکھ نیچی کئے ہوئے آتا ہے اور صرف واقعہ نگاری کے فرض کے لحاظ سے ایک سرسری غلط انداز نگاہ ڈالتا ہوا گزر جاتا ہے۔ بیژن اور میترہ کی صحبت عیش کو جہان لکھا ہے، کہتا ہے

نشستنگہ رود دمی ساختند زبیگانہ خرگہ بپرد اختند

پرستندگان ایستادہ بہ پائے ابا بربط و چنگ و رامش سرائے

بہ دیباز میں کردہ طاؤس رنگ زدینار و دیبا جو چشتِ پلنگ

چہ از مشک و عنبر چہ یاقوت و زر سرا پردہ آراستہ سر بسر

مے سالخوردہ بہ جام بلور برآور دہ بابیژن گیوزور

سہ روز سہ شب شاد بودہ بہم گرفتہ براد خوابِِ ہستی ستم

زال اور رودابہ کے عاشقانہ اختلاط میں زیادہ پھیلا ہے، پھر بھی یہ رنگ ہے

گرفت آن زمان دست دستان دست برفتند ہر دو بکرد ارمست

سوئے خانہ زرنگار آمدند بدان مجلس شاہوار آمدند

شگفت اندران ماہ بار زال زر بدان روئے و بالا و آن موی وفر

دو رخسارہ چون لالہ اندر چمن سر جعد زلفش شکن در شکن

زدید نش رودابہ می نارمید بہ ردزیدہ دروے ہمی بنگرید

ہمی بود بوس و کنار و بنید نگر شیر۱ کو گور را نشکر ید

۴۔ عام خیال ہے کہ فردوسی بزم اچھی نہیں لکھتا بے شبہ یوسف زلیخا میں اس کی شاعری کا رتبہ بہت گھٹ گیا ہے، لیکن یہ اس کے رنج و غم اور دل شکستگی کا زمانہ تھا، جب اس کے تمام جذبات افسردہ ہو چکے تھے، یوسف زلیخا لکھنے سے اس کا مقصد صرف مذہبی جماعت کو خوش کرنا تھا۔ جو اتنی بات پر فردوسی سے ناراض تھے اسنے مجوسیوں کی مدح و ثنا میں کیوں اسقدر اوقات صرف کی، لیکن شاہنامہ میں جہان جہان بزم کا موقع آیا ہے، شاعری کا چمن زار نظر آتا ہے۔

زوال رو دابہ پر عاشق ہوا ہے،اسکے شوق میں گھر سے نکلا ہے۔ اسکو خبر ہوتی ہے وہ
 

حسان خان

لائبریرین
لیکن فردوسی باوجود اسکے کہ اس کو تقدس کا دعویٰ نہیں ایسے موقعوں پر آنکھ نیچی کئے ہوئے آتا ہے اور صرف واقعہ نگاری کے فرض کے لحاظ سے ایک سرسری غلط انداز نگاہ ڈالتا ہوا گزر جاتا ہے۔ بیژن اور منیزہ کی صحبت عیش کو جہان لکھا ہے، کہتا ہے

نشستنگہ رود و می ساختند
زبیگانہ خرگہ بپرداختند

پرستندگان ایستادہ بہ پائے
ابا بربط و چنگ و رامش سرائے

بہ دیبا ز میں کردہ طاؤس رنگ
ز دینار و دیبا چو پشتِ پلنگ

چہ از مشک و عنبر چہ یاقوت و زر
سراپردہ آراستہ سر بسر

مے سالخوردہ بہ جام بلور
برآوردہ بابیژن گیو زور

سہ روز و سہ شب شاد بودہ بہم
گرفتہ بر او خوابِِ ہستی ستم

زال اور رودابہ کے عاشقانہ اختلاط میں زیادہ پھیلا ہے، پھر بھی یہ رنگ ہے

گرفت آن زمان دست دستان دست
برفتند ہر دو بکردار مست

سوئے خانۂ زرنگار آمدند
بدان مجلس شاہوار آمدند

شگفت اندران ماہ بد زال زر
بدان روئے و بالا و آن موی وفر

دو رخسارہ چون لالہ اندر چمن
سر جعد زلفش شکن در شکن

زدید نش رودابہ می نارمید
بہ دُزدیدہ در وے ہمی بنگرید

ہمی بود بوس و کنار و نبید
نگر شیر (۱) کو گور را نشکر ید

۴۔ عام خیال ہے کہ فردوسی بزم اچھی نہیں لکھتا۔ بے شبہ یوسف زلیخا میں اس کی شاعری کا رتبہ بہت گھٹ گیا ہے، لیکن یہ اس کے رنج و غم اور دل شکستگی کا زمانہ تھا، جب اس کے تمام جذبات افسردہ ہو چکے تھے۔ یوسف زلیخا لکھنے سے اس کا مقصد صرف مذہبی جماعت کو خوش کرنا تھا۔ جو اتنی بات پر فردوسی سے ناراض تھے اسنے مجوسیوں کی مدح و ثنا میں کیوں اسقدر اوقات صرف کی، لیکن شاہنامہ میں جہاں جہاں بزم کا موقع آیا ہے، شاعری کا چمن زار نظر آتا ہے۔

زوال رودابہ پر عاشق ہوا ہے،اسکے شوق میں گھر سے نکلا ہے۔ اُسکو خبر ہوتی ہے وہ

--------------------
(۱) یعنی دیکھو شیر نے گورخر کو پا کر شکار نہیں کیا۔
 
آخری تدوین:
Top