سوانح عمری فردوسی صفحہ 13

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
13


316rpt0.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از نایاب
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/page-3#post-1538986

لیکن ابھی کچھ کہنے نہیں پایا تھا کہ محمود نے وزیراعظم سے کہا کہ دیکھ کیا جواب لایا ہے ۔
وزیر نے برجستہ کہا ،
اگر جز بکام من آمد جواب
من و گرز و میدان وافراسیاب
محمود پھڑک اٹھا اور پوچھا کس کا شعر ہے ۔؟
وزیر نے کہا اس بدقسمت کا جس نے 15 برس خون جگر کھایا اور کچھ حاصل نہ ہوا ۔ (1)۔ محمود نے کہا مجھ کو سخت ندامت ہے غزنین پہنچ کر یاد دلا نا ۔ غرض پائے تخت میں پہنچ کر ساٹھ ہزار اشرفیاں فردوسی کے پاس روانہ کیں ۔ لیکن تقدیر پر کس کا زور ہے ۔ ادھر شہر کے ایک دروازے جس کا نام رودبار تھا صلہ پہنچا ادھر دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ نکل رہا تھا ۔
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مرے عیسی کو دوا میرے بعد
طوس میں ایک واعظ صاحب تھے انہوں نے فتوی دیا کہ چونکہ فردوسی رافضی تھا ۔ اس کا جنازہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتا ۔ ہر چند لوگوں نے منت سماجت کی لیکن بد نفس واعظ نے ایک نہ مانی ۔ مجبورا شہر کے باہر ایک باغ میں کہ خود فردوسی کی ملک تھا دفن کیا ۔ سلطان محمود کو پرچہ گزرا تو حکم دیا کہ واعظ کو شہر سے نکال دیا جائے ۔ (2)۔
فردوسی نے اولاد مذکور نہیں چھوڑی تھی ۔ صرف ایک لڑکی تھی شاہی صلہ اس کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ لیکن اس کی بلند ہمتی نے گوارا نہ کیا کہ باپ جس چیز کی حسرت میں مر گیا اولاد اس سے تمتع اٹھائے ۔ سلطان محمود کو اس کی اطلاع دی گئی ۔ حکم دیا کہ اشرفیاں امام ابوبکر اسحاق کے حوالہ کی جائیں کہ اس سے فردوسی کے نام پر ایک کاروان سرائے بنا دی جائے ۔
ناصر خسرو نے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ سن 430 ہجری میں جب طوس میں پہنچا تو ایک بڑی کاروان سرائے دیکھی ۔ لوگوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ فردوسی کے صلہ سے تعمیر ہوئی ہے ۔ فرہنگ رشیدی اور چہار مقالہ میں لکھا ہے کہ اس کا نام چاھ ہے ۔ اور مرو اور نیشاپور کے راستہ میں ہے ۔
عام تذکرہ نویسوں کا بیان ہے کہ فردوسی نے سن 411 ہجری میں وفات پائی ۔ لیکن فردوسی نے شاہنامہ کے خاتمہ میں تصریح کی ہے کہ شاہنامہ سن 400 ہجری میں انجام کو پہنچا ۔
زہجرت شدہ پنج ہشتاد بار
کہ گفتم من این نامہ شہریار
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
(1) ۔۔۔ ۔ سا ہ ۔۔۔ ۔ نے تلافی مافات کا رادہ کیا
(2) ۔۔۔ یہ واقعہ مختلف طریقوں سے مروی ہے ۔ میں نے جو روایت لکھی ہے ۔ یہ نظامی سمرقندی سے مروی ہے اور اس لییے زیادہ معتبر ہے کہ اس نے سن 512 ہجری میں امیر مغری (ملک الشعرا سلطان سنجر ) سے سنی تھی ۔ اور امیر مغری سے امیر عبدالرزاق نے بیان کی تھی ۔ دیکھو چہار مقالہ واقعات فردوسی
 
Top