حسن بن اسحاق بن شرف نام اور فردوسی (*) تخلص تھا، دوست شاہ کا بیان ہے کہ کہیں کہیں وہ اپنا تخلص ابن شرف شاہ بھی لاتا ہے۔ مجالس المومنین میں بعض مورخون کے حوالہ سے اس کے باپ کا نام منصور بن فخر الدین احمد بن مولانا فرخ بیان کیا ہے۔ وطن میں بھی اختلاف ہے۔ چار مقالہ میں ہے کہ طبرستان کی نواحی میں بار نام ایک گاؤں تھا۔ فردوسی یہیں کا رہنے والا تھا۔ دیباچہ شاہنامہ میں گاؤن کا نام شاداب لکھا ہے بہر حال اسقدر عموماً مسلم ہے کہ فردوسی کا وطن طوس کے اضلاع میں تھا اور یہ وہی مردم خیز صوبہ ہے جسکی خاک نے امام غزالی اور محقق طوسی پیدا کئے۔ سنہ ولادت معلوم نہیں، البتہ سال وفات ۴۱۱ھ ہے اور چونکہ عمر کم از کم ۸۰ برس کی تھی جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے۔
کنون عمر نزدیک ہشتادث
امیدم بہ یکبارہ برہا دشد
اسلئے سال ولادت تقریباً ۲۳۹ھ سمجھنا چاہیے۔ فردوسی جب پیدا ہوا تو اس کے باپ نے خواب میں دیکھا کہ نوزائیدہ بچے نے کوٹھے پر چڑھ کر نعرہ مارا، اور ہر طرف سے لبیک کی صدائین آئیں، صبح کو جا کر نجیب الدین سے جو اُس زمانہ کے مشہور معتبر تھے تعبیر پوچھی، اُنہوں نے کہا، یہ لڑکا شاعر ہو گا اور اسکی شاعری کا غلغلہ تمام عالم میں پھیلے گا۔ سن رشد کو پہنچکر تحصیل علوم میں مشغول ہوا اور تمام درسی علوم حاصل کئے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(*) فردوسی کا حال تمام تذکروں میں بہ تفصیل مذکور ہے لیکن سب میں باہم سخت اختلاف ہے۔ انمیں سب سے زیادہ قابل اعتبار چار مقالہ ہے جس کا مصنف خود نامور شاعر اور فردوسی سے قریب العہد ہے تاہم اس میں بھی سخت غلطیاں ہیں۔ تیمور کے پوتے یای سنقر نے فضلا سے شاہ نامہ پر جو دیباچہ لکھوایا تھا اسمیں فردوسی کی مفصل سوانعمری ہے لیکن بعض واقعات ایسے لغو لکھے ہیں کہ اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ دولت شاہ سمرقندی نے بھی کسی قدر تفصیل سے حالات لکھے ہیں اور وہ بھی غلطیوں سے خالی نہیں۔ عربی مصنفین میں سے صرف قزوینی نے آثار البلاد میں اس کا حال لکھا ہے۔ میں نے ان سب میں سے واقعات لئے ہیں لیکن جابجا اُن کی غلطیوں کی بھی تصریح کر دی ہے۔