سوال(ضرورت) فیض کا شعر

یاسر حسین

محفلین
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

حضور درخواست ہے کہ علم میں اضافہ کریں ۔۔۔
سر اس شعر کی تقطیع میں ً کوئی ً کا وزن 21 (اک دو) کیوں لیا ہے ؟؟

اور عربی اور فارسی کے الفاظ میں کن الفلظ کا اخفا نہیں ہو سکتا ؟؟ جیسے آقا میں ‛ا‛ کا اخفا جائز نہیں ۔۔
 
اور عربی اور فارسی کے الفاظ میں کن الفلظ کا اخفا نہیں ہو سکتا ؟؟ جیسے آقا میں ‛ا‛ کا اخفا جائز نہیں
اس سلسلے میں ایک قاعدہ یاد رکھیے۔ فارسی یا عربی الاصل الفاظ کا ایک بھی حرف آپ نہیں گرا سکتے سوائے دو صورتوں کے:
۱۔ اگر ان کے آخر میں ہائے مختفی ہو۔ مثلاً فارسی کے الفاظ راستہ، دیدہ، خفتہ، سادہ وغیرہ اور عربی کے الفاظ عمدہ، مدینہ، وغیرہ، حملہ، وغیرہ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوز گرانی جائز ہے۔
۲۔ اگر اس لفظ کے بعد الف سے شروع ہونے والا لفظ آ جائے۔ مثلاً:
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل ست​
حافظؔ کے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں خالی عربی لفظ ہے جس کی یائے تحتانی بظاہر تقطیع میں گر گئی ہے۔
بجز بنا = مفاعلن
ئِ محبت = فعلاتن
کخالِیَز = مفاعلن
خَلَلَست = فَعِلان
مگر درحقیقت یہ گری نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ تقطیع سے ظاہر ہے، اگلے الف سے مل گئی ہے۔ اسی لیے اس الف کو الفِ وصل کہتے ہیں۔ ی حرفِ علت تھی۔ اس کی دوسری مثال حروفِ صحیح سے دیکھیے تو اصول واضح ہو جائے گا:
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا​
غالبؔ کے اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی تقطیع ملاحظہ ہو:
حالِ دل = فاعلن
نہیں معلوم = مفاعیلان
لیکِنِس = فاعلن
قدر یعنی = مفاعیلن
اس میں لیکن، جو عربی الاصل لفظ ہے، کا نون "اس" کی الفِ وصل کے ساتھ مل گیا ہے۔
مندرجہ بالا صورتوں کے علاوہ اگر آپ عربی یا فارسی اصل کے الفاظ کا کوئی بھی حرف گراتے ہیں تو ظلم ہے۔
ان صورتوں کے علاوہ لفظ کے آخر پر آنے والی "و" دبائی جا سکتی ہے جیسے:
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را​
یک دُ شکن: مفتعلن
زیادَ کن: مفاعلن
گیسُ ءِتا: مفتعلن
بدا ررا: مفاعلن
اور اگر ی پر اختتام پذیر ہونے والے لفظ کے بعد "و" آئے تب بھی اس کی ی دبائی جا سکتی ہے جیسے:
درد دل عراقی و درمان من تویی​
دردے دِ: مفعول
لے عراقِ: فاعلات
یُ درمان: مفاعیل
من تُ ئی: فاعلن

یہاں بظاہر ی دبی ہے مگر درحقیقت اسقاط و کا ہوا ہے۔
سر اس شعر کی تقطیع میں ً کوئی ً کا وزن 21 (اک دو) کیوں لیا ہے ؟؟
کوئی کو بر وزنِ فاع، فعَل، فعلن و فعِ باندھا جا سکتا ہے۔ مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
 
Top