سنگھ از کنگ -- عامر احمد خان

طالوت

محفلین
بی بی سی اردو کے مدیر عامر احمد خان نے نواز شریف سے متعلق ایک دلچسپ عنوان کے ساتھ دلچسپ تجزیہ کیا ہے آپ بھی پڑھیے ۔۔
سنگھ از کنگ
عامر احمد خان (مدیر بی بی سی اردو)

ستمبر دو ہزار سات میں میاں نواز شریف لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ سے حکمرانِ وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف علم بغاوت تھامے جب پی آئی اے کے طیارے میں سوار ہوئے تو شاید ہی کوئی یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ پاکستانی سیاست میں اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔
ان کے سر پر دسمبر دو ہزار میں جنرل پرویز مشرف سے کی گئی سیاسی ڈیل کی تلوار لٹک رہی تھی۔ ان کی پارٹی آٹھ سال کی سیاسی لاوارثی سے نڈھال تھی اور ان کی سیاست کے منہ پر ایک فوجی حکمران کے ظلم سے گھبرا کر ملک چھوڑ دینے کی کالک ملی تھی۔
مشرف حکومت نے ان کے جہاز کے اسلام آباد اترنے کے چند گھنٹے بعد ہی با آسانی انہیں ایک دفعہ پھر ملک بدر کر دیا اور پورے ملک میں ان کی دوسری جلا وطنی کی مخالفت میں چند لوگ بھی گھروں سے باہر نہ نکلے۔ ایسے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ نہ صرف وہ بطور ایک فعال سیاستدان اپنا کیرئیر جاری رکھ سکیں گے بلکہ دو سال کے اندر اندر ملکی سیاست کے طاقتور ترین کھلاڑی کا روپ دھار لیں گے۔
اس وقت ان کے ہمسفروں میں درجنوں دیگر صحافیوں کی طرح بی بی سی اردو سروس کے نگرانِ وقت محمد حنیف بھی شامل تھے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی اس ناکام کوشش پر اپنے تجزیے کو یوں سمیٹا: 'اس سارے شور شرابے اور دھکم پیل کے درمیان نواز شریف کے چہرے پر پہلی دفعہ مکمل سکون تھا۔ اس شخص کا سکون جس کے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے ہوں۔
سولہ مارچ دو ہزار نو کو ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے اعلان کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو محمد حنیف کے یہ الفاظ الہامی معلوم ہوتے ہیں۔ سن دو ہزار میں سیاسی تکالیف سے منہ پھیر لینے والا نواز شریف آج ایک ایسے سیاستدان میں بدل گیا ہے جو اپنے بدترین خدشات کو حقیقت بنتے ہوئے دیکھ چکا ہے، اس تلخ حقیقت سے نمٹ چکا ہے اور اب دن بدن نئی سمتوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ایسا کرنا میاں نواز شریف کے لیے کتنا مشکل تھا، اس کا اندازہ ان کے اپنے ماضی سے لگایا جا سکتا ہے۔
بچپن سے ہی مہنگے امپورٹڈ بلوں سے کرکٹ کھیلنے والا یہ نوجوان اپنے باپ کی انتھک محنت کے سر پر جب بلا کوشش و خواہش پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ، پھر وزیر اعلٰی اور آخر کار ملک کا وزیر اعظم بن بیٹھا تو اس کے لیے یہ سمجھنا ایک فطری عمل تھا کہ وہ قدرت کا لاڈلا ہے۔ وہ انوکھا لاڈلا جسے یہ یقین تھا کہ وہ کھیلن کو چاند بھی مانگے گا تو اسے ملے گا۔
اسی لیے اقتدار میں آنے کے دو ہی سال بعد وہ ایک طاقتور صدر سے بھڑ بیٹھا۔ قسمت کا لاڈلا تھا اس لیے حکومت گنوانے کے باوجود وہ صدر کو بھی لے بیٹھا اور یوں جنرل ضیاالحق کے اندھیروں کے تسلسل میں امید کی ایک نئی کرن پھوٹی۔
دوبارہ اقتدار میں آیا تو پہلے صدر، پھر چیف جسٹس اور پھر آرمی چیف کو چلتا کر دیا۔ یہ تمام اقدامات ایسے تھے جنہیں اٹھانے کی ہمت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی غیر فوجی حکمران کو نہیں ہوئی۔ تو پھر کیا عجب کہ انہوں نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے خود کو امیر المومنین اور پاکستان کو ایک مذہبی آمریت بنانے کا بھی خواب دیکھا۔
یہ درست ہے کہ قدرت نے ان کی اس خواہش کو رد کیا لیکن اس کے ساتھ ہی شاید یہ بھی قدرت کے لاڈ پیار کی ایک مثال تھی کہ وہ ایک بددماغ فوجی سربراہ کو دو گھنٹے ہوا میں لٹکائے رہنے کے باوجود بھی پاکستان سے زندہ بچ کر نکل گئے۔
اس نوعیت کی سیاسی تاریخ کے پیش نظر ظاہر ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد کسی کے لیے بھی ان کے تابناک سیاسی مستقبل کی پیشن گوئی کرنا نا ممکن تھا۔ عام توقعات یہی تھیں کہ وہ کچھ عرصہ تو صدر سے اپنے بدلے چکانے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے اور پھر اقتدار کی مار دھاڑ میں غرق ہو کر ایک محدود سیاسی دھڑے کے سربراہ کے طور پر گجرات کے چوہدریوں کی طرح زیادہ سے زیادہ لاہور کے چودھری بن بیٹھیں گے۔
لیکن میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے پہلے دن سے ہی اپنے سیاسی تدبر سے مبصرین کو حیران کر ڈالا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو بینظیر بھٹو سے ایسی گاڑھی سیاسی یاری لگائی کہ دونوں دن میں چھ چھ دفعہ ایک دوسرے سے بات کرتے، ہر مشکل موڑ پر ایک دوسرے سے مشورہ کرتے اور ایک دوسرے کو بھائی بہن کہتے نہ تھکتے۔
اس کے ساتھ ہی میاں نواز شریف نے صدر پر تو کڑی تنقید جاری رکھی لیکن اپنی ذاتی انا یا خواہشات کو سیاسی عمل میں خلل ڈالنے کا موقع نہ دیا۔ انہیں صدر مشرف کے تجویز کردہ سیاسی نظام سے نفرت تھی لیکن انہوں نے بینظیر بھٹو کے کہنے پر عام انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آٹھ سال تک اقتدار سے باہر رہ چکے تھے لیکن وطن واپسی کے بعد حصول اقتدار کی بجائے انہوں نے معزول ججوں کی بحالی کو اپنا منشور بنایا۔ اس دوران جسے بھی ملے، اسے اپنی سوچ اور فکر کے ٹھہراؤ سے متاثر کیا۔ ایک ایک کر کے بہت سے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ شاید وہ نواز شریف نہیں جو آٹھ سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر اپنی جان بچا کر چلا گیا تھا۔
قدرت بھی ایک بار پھر اپنے اس لاڈلے پر مسکرائی اور میاں نواز شریف کو ایک نئی زندگی یوں دی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ ان کے قتل سے پیدا ہونے والے سیاسی خلاء نے جیسے راتوں رات ان کے منہ سے ان کے ماضی کی کالک دھو ڈالی۔
یہ میاں نواز شریف کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔ پنجاب کے عوام آصف علی زرداری کی قیادت کو رد کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی جانب واپس لوٹے اور ان کی جماعت کو ماضی کی طرح ایک بھرپور مینڈیٹ دیا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس مرحلے پر کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ ان کے قدم نہ چوکتے۔ وہ عدلیہ کے مسائل بھلا کر اقتدار کی جنگ میں کود سکتے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سازی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتے تھے یا پھر اس کی حمایت کے بدلے پنجاب کے علاوہ وفاق میں بھی اقتدار کا ایک بڑا حصہ اینٹھ سکتے تھے۔
لیکن انہوں نہ اپنا قبلہ درست رکھا۔ صرف ججوں کی بحالی کی بات کی، پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے مدد دینے میں ججوں کی بحالی کے سوا کوئی شرط نہ رکھی، نواز لیگ وزراء کو کالی پٹی باندھنے کی شرط پر صدر مشرف سے حلف لینے کی بھی اجازت دے دی۔ پھر ججوں کے معاملے پر وفاقی کابینہ سے اپنے وزیر اٹھائے لیکن حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ وکلاء تحریک کی حمایت جاری رکھی لیکن دھرنا دینے پر اس وقت تک آمادہ نہ ہوئے جب تک آصف علی زرداری کی دروغ گوئی لا ریب فی نہ ہو گئی۔
اور پھر جب دھرنے کا وقت آیا تو پنجاب میں ان کی حکومت گر چکی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنی حکومت کی بحالی کی بجائے ججوں کی بحالی کو ہی ہدف رکھا۔ وزارت داخلہ کی تمام تر کوششوں اور تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ہزاروں کا جلوس نکالا جس کے سیاسی جوش اور طاقت کے سامنے صدر آصف علی زرداری کی ضد پانی کی طرح بہہ گئی۔
سب سے اہم یہ کہ ججوں کی بحالی کا اعلان ہوتے ساتھ ہی لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کیا نہ کہ اپنی سیاسی طاقت کے اس شو کے بل بوتے پر اپنی حکومت کی بحالی کا مطالبہ۔ نتیجتاً وہ مفاہمتی فضا جو صدر زرداری کی مسلسل وعدہ خلافی اور پنجاب حکومت کی برطرفی کے بعد دم توڑ رہی تھی ایک بار پھر بہار دکھلانے لگی۔
کیا آج سے دو سال قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ مہنگے بلوں، رومانوی گانوں اور مرغن کھانوں کا شوقین، قدرت کا یہ لاڈلا سالہا سال تک اپنی ذات کی سیاست کرنے کے بعد پاکستان میں اصولی سیاست کی ضمانت کے طور پر ابھرے گا؟
میاں نواز شریف نے ججوں سے متعلق ایک سوال پر پچھلے سال از راہ مذاق صحافیوں سے کہا تھا کہ زبان کے معاملے میں وہ ’سکھ‘ ہیں۔ موجودہ حالات میں ان کے کڑے سے کڑے ناقدین بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ بعد میں جو بھی ہو لیکن فی الوقت چار سو ایک ہی آواز ہے اور وہ یہ کہ سنگھ از کنگ، سنگھ از کنگ، سنگھ از کنگ۔

(نوٹ : یہ تجزیہ تین اقساط پر مشتمل ہے ۔۔ یہ اس سلسلے کی پہلی قسط ہے)
وسلام
 

زینب

محفلین
ہاہاہاہا ایسے موقعوں پے انہیں بلانے کی ضرورت نہیں پڑتی مہوش علی اور ہمت علی کو خوب میں دکھ جا تا ہے سب اور بھاگے بھاگے آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ شکریہ کا بٹن کہاں‌گی ا
 

طالوت

محفلین
عامر احمد کے تجزئیے دلچسپ ہوتے ہیں ، اور بڑی حد تک غیر جانبدار ، اسی پہلی قسط میں تدوین کر دوں گا ۔۔
وسلام
 
Top