ساحر سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے

سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے
اک دھند سے آنا ہے اک دھند میں جانا ہے

یہ راہ کہاں سے ہے یہ راہ کہاں تک ہے
یہ راز کوئی راہی سمجھا ہے نہ جانا ہے

اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا
اک پل کے جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے

کیا جانے کوئی کس پر کس موڑ پر کیا بیتے
اس راہ میں اے راہی ہر موڑ بہانا ہے

ہم لوگ کھلونا ہیں اک ایسے کھلاڑی کا
جس کو ابھی صدیوں تک یہ کھیل رچانا ہے

ساحر لدھیانوی​
 
آخری تدوین:
نہیں ہاں ایسے کہہ وہ شاہ نیاز صاحب کی غزل جیسے


نیستی ہستی ہے یارو اور ہستی کچهہ نہیں بے خودی مستی ہے یارو اور مستی کچهہ نہیں

دامن گیر اور گلوگیر رہا ہے غزل میں
سنسار
 
Top