سندھ یونیورسٹی میں طالبہ کی موت

کعنان

محفلین
سندھ یونیورسٹی میں طالبہ کی موت
مولوی انوار حیدر
03/01/2017

سوشل میڈیا پر ایک باتصویر خبر گردش کر رہی ہے جس کے مطابق سندھ یونیورسٹی جامشورو میں شعبہ سندھی کے فائنل ائیر میں زیر تعلیم، سٹڈی سرکل کی صدر، اور ایوارڈ یافتہ پوزیشن ہولڈر طالبہ، نائلہ رند بنت نظام الدین رند نے ہاسٹل روم میں پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی.

اب تک کی معلومات کے مطابق یونیورسٹی بند تھی، اور طالبہ چند چھٹیاں گھر گزار کے یونیورسٹی ہاسٹل آ گئی تھی، اور اب اُس بےچاری کی پھندے پہ لٹکتی حالت کی تصویر سامنے آئی ہے. واقعہ کی حقیقت کیا ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر دستیاب تصویر سے لگتا ہے کہ مرحومہ کو بعد از مرگ پنکھے سے لٹکایا گیا ہے، کیونکہ پنکھے تک پہنچنے کے لیے کوئی بھی سہارا موجود نہیں ہے. گلے میں باندھا گیا کپڑا بھی نارمل صورت میں ہے اور کمرے میں کوئی توڑ پھوڑ بھی نظر نہیں آرہی. سب کچھ نارمل روٹین میں ہے، چارپائی کی بناوٹ ایسی ہے کہ اُس پہ کرسی ٹِکتی ہی نہیں جبکہ پیروں کا چارپائی سے فاصلہ ذرہ برابر ہی ہے. ایسا لگتا ہے کہ لاش کو دکھاوے کے لیے لٹکایا گیا اور چارپائی کا فاصلہ گویا ناپ کر ہی کپڑا باندھا گیا ہے.

ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ مرحوم طالبہ کا روم 36 نمبر ہے اور لاش روم نمبر 34 سے ملی ہے. یہ واقعہ تعلیمی اداروں میں دستیاب سکیورٹی پہ سوالیہ نشان تو ہے ہی، اب یہ محکمہ پولیس کی کارکردگی کا بھی امتحان ہے کہ وہ اِس معاملہ کی حقیقی صورتحال تک کیسی پہنچتی ہے؟ اِس اندوہناک واقعہ کی درست طریقہ سے تفتیش اور قتل ہونے کی صورت میں قاتل کی کھوج اور اُس پہ قانون کا نفاذ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس کی ذمہ داری متعلقہ اداروں پہ عائد ہوتی ہے.

اِن دو باتوں کی تحقیق اور وضاحت بھی ضروری ہے؛

  1. یونیورسٹی بند ہونے کے باوجود مرحوم طالبہ گھر سے کیوں گئی، کہیں اُس پر کوئی دباؤ تو نہیں تھا، گھر میں کوئی لڑائی جھگڑا تو نہیں ہوا؟
  2. یونیورسٹی بند ہونے کے باوجود ہاسٹل کیوں کھلا رکھا گیا، ہاسٹل میں طالبہ کے ہوتے ہوئے سکیورٹی فراہم کیوں نہیں کی گئی؟
اِن دو نکات کو حل کرکے خودکشی یا قتل کا معمہ بآسانی حل کیا جاسکتا ہے.

گلی محلوں میں گیسٹ رومز اور رہائشی ہاسٹلز میں بنتِ حوا کا آئے روز مردہ پایا جانا ایک المیہ ہے، اور دو چار دن کے شور شرابے کے بعد خاموشی معمول بن گیا ہے. اِن واقعات کی روک تھام ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اور ملوث ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانا قانونی اداروں کی. تحفظ اور انصاف ہر انسان کا بنیادی حق ہے خصوصاً خواتین کا تحفظ اور انھیں حقوق کی فراہمی انتہائی ضروری ہے اور کئی وجوہ سے مقدم بھی ہے. جو معاشرہ اپنی بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتا، وہ ایک ناکام معاشرہ ہے. اپنی بہنوں بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے، یہ ایک جان کا نہیں، آن ، شان اور عزت کا مسئلہ ہے، ہمیں اِس کا احساس کرنا، اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہوگا.

ح
 
Top