کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
منصب نبوت

صحیح اور غلط تصور کا فرق
( صفحات گذشتہ میں سنت کی آئینی حیثیت کے متعلق ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کی جو مراسلت ناظرین کے ملاحظہ سے گزری ہے ، اس کے سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور خط وصول ہوا ، جسے ذیل میں مصنف کے جواب کے ساتھ درج کیا جا رہا ہے )

ڈاکٹر صاحب کا خط

مولانا محترم ! السلام علیکم
آپ کا خط مورخہ ٨ اگست ملا۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد بات ذرا اطمینان سے ہو سکے گی ۔ آپ نے اپنے خط مورخہ ٢٦ جون میں میرے پہلے سوال کے جواب کے اختتام پر فرمایا تھا؛
“ دوسرے سوالات چھیڑنے سے پہلے آپ کو یہ بات صاف کرنی چاہیے تھی کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھ کر سنا دینے کے سوا دنیا میں کوئی اور کام کیا تھا یا نہیں ، اور اگر کیا تھا تو کس حیثیت میں ؟“
نیز یہ بھی کہ ؛
“ پہلے آپ یہ بات صاف کریں کہ آیا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجائے خود کوئی چیز ہے یا نہیں ؟ اور اس کو آپ قرآن کے ساتھ ماخذ قانون مانتے ہیں یا نہیں ‘ اور نہیں مانتے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟“

چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنے موجودہ خط میں مسئلہ زیر بحث کے صرف اسی حصہ پر گفتگو کروں اور اس کے باقی اجزاء و آئیندہ کے لیے ملتوی کر دوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے اولین خط مورخہ ٢١ مئی میں صاف طور پر یہ عرض کیا تھا کہ ؛
“ مجھے نہ تو سنت کی حقیقی اہمیت سے مجال انکار ہے اور نہ اس کی اہمیت کو ختم کرنا مقصود “ ۔

چنانچہ آپ کا یہ سوال کہ میرے نزدیک سنت رسول اللہ بجائے خود کوئی چیز ہے یا نہیں ؟ غیر ضروری سوال ہے۔ البتہ میرے نزدیک سنت کا مفہوم آپ سے مختلف ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ آیا میں سنت کو قرآن کے ساتھ ماخذ قانون مانتا ہوں یا نہیں ؟ میرا جواب نفی میں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟ اجازت دیجیے کہ میں پہلے اس بات کو صاف کر لوں کہ آیا رسول اللہ نے قرآن سنا دینے کے سوا دنیا میں کوئی کام کیا تھا یا نہیں ؟ اور اگر کیا تھا تو کس حیثیت میں ؟ جب اس کا جواب سامنے آ جائے گا تو دلیل خود بخود سامنے آ جائے گی۔
مجھے آپ سے سو فیصد اتفاق ہے کہ حضور معلم بھی تھے ، قاضی بھی تھے ، سپہ سالار بھی تھے ۔ آپ نے افراد کی تربیت کی اور تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دی۔ اور پھر ایک ریاست قائم کی وغیرہ وغیرہ ! لیکن اس بات پر آپ سے اتفاق نہیں کہ “ ٢٣ سالہ پیغمرانہ زندگی میں حضور نے جو کچھ کیا تھا یہ وہ سنت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلی کے قانون برتر کی تشکیل و تکمیل کرتی ہے “ ۔
بے شک حضور کے حاکم اعلی کے قانون کے مطابق معاشرہ کی تشکیل تو فرمائی لیکن یہ کہ کتاب اللہ کا قانون ( نعوذ باللہ ) نا مکمل تھا اور جو کچھ حضور نے عملا کیا اس سے اس قانون کی تکمیل ہوئی۔ میرے لیے ناقابل فہم ہے ، میرے نزدیک وحی پانے کا سلسلہ نبی اکرم کے ساتھ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا لیکن رسالت کے فرائض جو حضور نے سرانجام دیے ان کا مقصد یہ تھا کہ حضور کے بعد بھی انہی خطوط پر معاشرے کا مقام عمل میں لایا جا سکے اور یہ تسلسل قائم رہے۔ اگر حضور نے ما انزل اللہ کو دوسروں تک پہنچایاتو امت کا بھی فریضہ ہے کہ ما انزل اللہ کو دوسروں تک پہنچائے ۔ اگر حضور نے ما انزل اللہ کے مطابق جماعت بنائی ، ریاست قائم کی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا تو امت کا بھی فریضہ ہے کہ انہی خطوط پر عمل کرے۔ اگر حضور نے ماانزل اللہ کے مطابق معاملات کے فیصلے کیے تو امت بھی ما انزل اللہ کے مطابق فیصلے کرے۔ اگر حضور نے “ شاور ہم فی الامر “ کے مطابق امور سلطنت میں مشاورت سے کام لیا تو امت بھی ایسا ہی کرے۔ اگر حضور نے نبوت کے ٢٣ سالہ غزوات میں گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے تو امت بھی انہی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر جنگ کرے۔ چنانچہ ما انزل اللہ کے مطابق تربیت ، جماعت بندی ، ریاست کا قیام ، مشاورت ، قضا ، غزوات ، یہ سارے کام امت کرے تو یہ سنت رسول اللہ ہی کی پیروی ہے۔ حضور نے بھی اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ما انزل اللہ پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی تشکیل کی اور سنت رسول اللہ کی پیروی یہ ہے کہ ہر زمانے کی امت زمانے کے تقاضوں کے مطابق ما انزل اللہ پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی تشکیل کرے۔ موجود وقت میں ہم جو بھی طرز حکومت ، حالات اور موجودہ تقاضوں کے مطابق مناسب سمجھیں عمل میں لائیں لیکن ما انزل اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر یہی سنت رسول اللہ پر عمل ہوگا۔ اگر ہم ان مقاصد کو پیش نظر رکھ کر جو ما انزل اللہ نے متعین کیے ہیں جنگیں لڑیں تو یہی سنت رسول اللہ پر عمل ہوگا لیکن اگر جیسا کہ ایک مقامی اخبار میں ایک مولوی صاحب نے گذشتہ ہفتہ لکھا تھا کہ حضرت عمر کی فوج کو ایک قلعہ فتح کرنے میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ فوج نے کئی دن مسواک نہیں کی تھی یا یہ کہ آج کے ایٹمی دور میں جنگ کے اندر تیروں کا استعمال ہی ضروری ہے کیونکہ حضور نے جنگوں میں تیر استعمال کیے تھے تو اس سے بڑھ کر سنت رسول اللہ سے مذاق کیا ہو سکتا ہے۔ ان تمام اعمال میں جو حضور نے ٢٣ سالہ پیغمبرانہ میں کیے وہ اسی ما انزل اللہ کا جو کتاب اللہ میں موجود ہے ، اتباع کرتے تھے اور امت کو بھی یہی حکم ملا کہ اسی کا اتباع کرے۔ جہاں
اتبعوا ما انزل اللہ الیک من ربکم ( ٣ ؛ ٧ ) کہہ کر امت کے افراد کو تلقین کی ، وہاں یہ بھی اعلان ہوا کہ حضور بھی اسی کا اتباع کرتے ہیں۔ قل اتبع ما یر حی الی من ربی ( ٧ ؛ ٢٣ ) ۔ نہ معلوم آپ کن وجوہات کی بنا پر کتاب اللہ کے قانون کو نامکمل قرار دیتے ہیں۔ کم از کم میرے تو یہ تصور بھی جسم میں کپکپی پیدا کر دیتا ہے۔ کیا آپ قرآن کریم سے کوئی ایسی آیت پیش فرمائیں گے ؟ جس سے معلوم ہو کہ قرآن کا قانون نا مکمل ہے۔ اللہ تعالی نے تو انسانوں کی رہنمائی کے لیے صرف ایک ضابطہ قوانین کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو شک و شبہ سے بالاتر ہے ، بلکہ اس کی ابتدا ہی ان الفاظ سے کی ہے فالک الکتب لا ریب فیہ ۔ اور پھر معاملات زندگی میں فیصلوں کے لیے اس ضابطہ حیات کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ، اور یہ بھی واضح طور پر اعلان کر دیا کہ یہ ضابطہ قانون مفصل ہے۔ افغیر اللہ ابتغی حکما و ھو الذی انزل الیکم الکتب مفصلا ( ٦ ؛ ١١٥ ) بلکہ مومن اور کافر کے درمیان تمیز یہ رکھ دی کہ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولک ھم الکافرون ( ٥؛٤٤ ) کیا قرآن کریم کو کتاب عزیز ( ایک غالب کتاب ) کہہ کر نہیں پکارا گیا۔ تمت کلمتہ ربک صدقا و عدلا ( 6 : 116) کا اعلان یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ قانون خداوندی مکمل ہو چکا ہے اور جو کچھ باقی رہتا تھا ، وہ پورا ہو گیا۔ کافر بھی تو اس کتاب کے علاوہ کوئی چیز اپنی تسلی کے لیے چاہتے تھے۔ جب اللہ تعالی نے فرمایا کہ کیا یہ کتاب ان کے لیے کافی نہیں ؟ اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتب یتلی علیھم ( 29 : 51 )
مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ چونکہ دین کا تقاضا یہ تھا کہ کتاب پر عمل اجتماعی شکل میں ہو اور یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص قرآن پر اپنی سمجھ کے مطابق عمل رکے اور دوسرا اپنی سمجھ کے مطابق۔ اس لیے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ایک زندہ شخصیت کی ضرورت ہے اور مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ جہاں اجتماعی نظام کے قیام کا سوال ہو وہاں پہنچانے والے کا مقام بہت آگے ہوتا ہے۔ کیونکہ پیغام اس نے اس لیے پہنچایا کہ وحی اس کے سوا اور کسی کو ملتی نہیں چنانچہ قرآن نے اسی واضح کر دیا کہ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ چنانچہ حضور مرکز ملت بھی تھے اور سنت رسول اللہ پر عمل یہی ہے کہ حضور کے بعد اسی طرح مرکزیت کو قائم رکھا جائے۔ چنانچہ اسی نکتہ کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کر دیا کہ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم (3 : 143 ) ۔ ظاہر ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ ( اگر اس کا مقصد وعظ و نصیحت نہیں ، اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ سنت رسول اللہ پر عمل کرتے ہوئے مرکز ملت کے قیام کو مسلسل عمل میں لایا جائے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس ضابطہ قانون پر چلانا حضور کا مقصد تھا اور آئندہ مرکز ملت کا مقصد رہے گا۔ اس ضابطہ قانون کو نامکمل قرار دے دیا جائے۔
آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ جو کام حضور نے ٢٣ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں سر انجام دیے ان میں آنحضرت کی پوزیشن کیا تھی ؟ میرا جواب یہ ہے کہ حضور نے جو کچھ کرکے دکھایا وہ ایک بشر کی حیثیت سے لیکن ما انزل اللہ کے مطابق کرکے دکھایا۔ میرا یہ جواب کہ حضور کے فرائض رسالت کی سرانجام دہی ایک بشر کی حیثیت سے تھی۔ میرے اپنے ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ خود کتاب اللہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضور نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ انا بشر مثلکم ۔ قرآن کی آیت سے واضح ہے کہ حضور نظام مملکت کی انجام دہی میں ایک بشر کی حیثیت رکھتے تھے اور کبھی کبھی آنحضرت سے اجتہادی غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں۔ قل ان ضللت فانما اضل علی نفسی وان اھندیت فیما یوحی الی ربی انہ سمیع قریب ( 30 : 50 ) . اگر یہ اجتہادی غلطیاں ایسی ہوتیں جن کا اثر دین کے اہم گوشے پر پڑتا تو خدا کی طرف سے اس کی تادیب بھی آ جاتی جیسے کہ ایک جنگ کے موقع پر بعض لوگوں نے پیچھے رہنے کی اجازت چاہی اور حضور نے دے دی۔ اس پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔

عفا اللہ عنک لما اذنت لھم حتی ینبین لک الذین صدقوا و تعلم الکذبین ( 80 : 11-10 )

مندرجہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ وحی کی روشنی میں امور سلطنت کی سر انجام دہی میں جزئی معاملات میں حضور سے اجتہادی غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں اور یہ اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ حضور ان امور کو ایک بشر کی حیثیت سے سر انجام دیتے تھے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے دو نتائج لازما پیدا ہوتے۔ اولا یہ تصور کہ چونکہ حضور نے جو کچھ کیا وہ ایک نبی کی حیثیت سے کیا۔ اس لیے عام انسان اس کو نہیں کر سکتے۔ چنانچہ آج بھی مایوسی کے عالم میں بعض جگہ یہ تصور پایا جاتا ہے کہ حضور نے جو معاشرہ قائم کیا تھا وہ عام انسانوں کے بس کا روگ نہیں اور وہ دوبارہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تصور بجائے خود سنت رسول کی پیروی کی نفی ہے دوسرا نتیجہ اس کا یہ تصور ہو سکتا ہے کہ اس لیے حضور کے بعد نبیوں کے انے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پھر سے اس قسم کا معاشرہ قائم کر سکیں ( چونکہ عام انسان ایسا نہیں کر سکتے ) آپ خود سوچئے کہ یہ دونوں نتائج کس قدر خطرناک ہیں جو اس تصور کے نتیجہ کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ حضور نے جو کچھ بھی کیا ایک نبی کی حیثیت سے کیا۔ ختم نبوت انسانیت کے سفر زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، جہاں سے شخصیتوں کا دور ختم ہوتا ہے اور اصول و اقدار کا دور شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تصور کہ حضور نے جو کچھ کیا ایک نبی کی حیثیت سے کیا۔
ختم نبوت کے اصول کی تردید کے مترادف ہے۔
وما محمدا اے الا رسول ۔۔۔۔۔۔۔ ( 3 : 143 ) جیسی واضح آیات کے بعد یہ کہنا کہ رسول اللہ جو کچھ کرتے تھے ، وحی کی رو سے کرتے تھے ( اور وحی کا سلسلہ حضور کی ذات کے ساتھ ختم ہو گیا ) ۔اس بات کا اعلان ہے کہ حضور کی وفات کے بعد دین کا سلسلہ قائم نہیں رہ سکتا۔ حضرات خلفائے کرام اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وحی “ الکتب “ کے اندر محفوظ ہے اور اس کے بعد حضور جو کچھ کرتے تھے باہمی مشاورت سے کرتے تھے۔ اس لیے حضور کی وفات کے بعد نظام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ سلطنت کی وسعت کے ساتھ تقاضے بڑھتے گئے اس لیے آئے دن نئے نئے امور سامنے آتے تھے جن کے تصفیہ کے لیے اگر کوئی پہلا فیصلہ مل جاتا جس میں تبدیلی کی ضرورت نہ ہوتی تو اسے علی حالہ قائم رکھتے تھے۔ اگر اس میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے تبدیلی کر لیتے اور اگر اسے فیصلے کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے نیا فیصلہ کر لیتے ۔ یہ سب کچھ قرآن کی روشنی میں ہوتا تھا۔ یہی طریقہ رسول اللہ کا تھا اور اسی کو حضور کے جانشینوں نے قائم رکھا ، اسی کا نام اتباع سنت رسول اللہ تھا۔
اگر فرض کر لیا جائے کہ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور جو کچھ کرتے تھے وحی کی رو سے کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہو کہ خدا کو اپنی سے بھیجی ہوئی ایک قسم کی وحی پر ( نعوذ باللہ ) تسلی نہ ہوئی چنانچہ دوسری قسم کی وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ یہ دو رنگی وحی آخر کیوں ؟ پہلے آنے والے نبیوں پر جب وحی نازل ہوئی تو اس میں نزول قرآن کی طرف اشارہ تھا تو کیا اس اللہ کے لیے جو چیز پر قادر ہے ، یہ بڑا مشکل تھا کہ دوسری قسم کی وحی جس کا آپ ذکر کرتے ہیں ، اس کا قرآن میں اشارہ کردیا۔ مجھے تو قرآن میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔ اگر آپ کسی آیت کی طرف اشارہ فرما سکیں ، مشکور ہوں گا۔ و السلام
مخلص ۔۔۔۔۔۔ عبدالودود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١~ محمداً نہیں بلکہ محمد صحیح ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top