سنا ہے..!!

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں،
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں.‏

‎سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں،‏
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں.

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے،

سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں.

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں،
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے،
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی،
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف،
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں،
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے،
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے،
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی،
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں،
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت،
مکین ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی،
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی آنکھوں میں،
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں.

سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں،
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں.

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں،
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں.

بس اک نگاہ سے لٹتا قافلہ دل کا،
سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں.

کسے نصیب کہ بے پیراہن دیکھے اسے،
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں.

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی،
اگر وہ خواب ہے تعبیر کرکے دیکھتے ہیں.

وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں،
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں.

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں؟
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں.
 
آخری تدوین:
Top