عندلیب

محفلین
سلیمان خطیب

ملک کے لاکھوں لوگ دکنی زبان بولتے ہیں۔ اس زبان کی ایک تاریخ ہے۔ اس زبان میں
بے شمار کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ شعر و سخن کا بڑا ذخیرہ اس زبان میں ملتا ہے۔ بے شمار بزرگانِ دین نے اسی زبان میں اپنی تعلیمات کو عام کیا ۔
حضرت خواجہ بندہ نواز کی تصانیف نے دکنی ادب میں وقیع اضافہ کیا ہے۔
نصرتی، نشاطی ، ولی، باقرآغا اور قلی قطب شاہ وغیرہ نے دکنی زبان میں اردو شاعری کی ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور اردو ادب کو اپنے جواہر پاروں سے مالا مال کیا ہے۔
سلیمان خطیب نے بھی طنزیہ و مزاحیہ شاعری دکنی زبان میں کی ہے۔
دکنی زبان کے مزاحیہ شعراء میں خطیب خاص مقام کے حامل ہیں اور ان کو بقول رشید شکیب حیدرآباد کے : چار میناروں میں ایک مینار مانا جاتا ہے۔

سلیمان خطیب سنہ 1919ء میں سابق ریاست حیدرآباد کے ضلع گلبرگہ کے ایک گاؤں معین آباد (چڈ گوپہ) میں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں سایہ مادری و پدری سے وہ محروم ہوگئے۔
کچھ عرصہ ان کے چچا نے ان کی سرپرستی کی اور پھر وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
سلیمان خطیب نے در بدر کی ٹھو کریں کھائیں۔ سخت محنت و مزدوری کر کے انھوں نے زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج،خوش فکر، اور باغ و بہار طبعت کے مالک تھے۔

سلیمان خطیب نے دکنی زبان میں شاعری کی۔ ان کی شاعری ملک گیرشہرت کی حامل تھی۔ ان کی شاعری میں کنڑی اور تلگو کے علاوہ مرہٹی زبان کے اثرات نمایاں نظرآتے ہیں۔ سلیمان خطیب کو دکن کے گاؤں ، گاؤں پھرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنی محنت و لگن سے دکنی محاورات اور تشبیہات جمع کیں جن کا انھوں نے اپنی شاعری میں برمحل استعمال کیا۔ وہ عوامی شاعر تھے ان کی شاعری میں عوامی لہجہ اور عوامی جذ بات نظر آتے ہیں۔

"خطیب کی شاعری فطرت کی عکاس ہے۔ شاعر اپنے شاعرانہ اظہار کے لئے کسی کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ جس معاشرہ، جس دیس اور رسم و رواج کے ماحول میں پل رہا ہے اسی سے استفادہ کرتا ہے۔ اسی لئے خطیب کی شاعری میں سچائی، حسن، معاشرتی مسائل اور سماجی الجھنوں کی نشاندہی ہوتی ہےعلاوہ ازیں تشبیہات و استعارات جابجا ملتے ہیں۔ یہی شاعری شاعر کو بلند مقام عطا کرتی ہے۔"
(دکنی ادب کے چار مینار : رشید شکیب)

خطیب عوامی شاعر تھے انہوں نے عوامی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے انہوں نے اپنی ایک نظم "ایک کلرک کی بیوہ" میں کلرک کا مہینے کی آخری تاریخوں میں انتقال کر جانا اور اس بیوہ کا شوہر کی قبر پر آہ وزاری کرنا۔ ان احساسات کا اظہار شاعر نے جس انداز میں کیا ہے ملاحظہ ہو۔

ایسا مرنا بھی کیئکا مرنا جی
پھول تک میں ادھار لائی ہوں
اتا احسان مجھ پو کرنا تھا
تنخواہ لینے کے بعد مرنا تھا


موجودہ سماجی مسائل پر سلیمان خطیب نے اظہار خیال کیا ہے انہوں نے نے نا صحانہ انداز میں لڑکی کے والدین کو لڑکی کے رشتے کے تعلق سے کافی غور و فکر کے بعد قدم اٹھانے کی تلقین کرتے ہیں۔ چند اشعار جن سے ان کی فکر کی ترجمانی ہوتی ہے ملاحظہ ہوں۔

خوب سوچ سمجھ کے بچی دو
کاٹ کھانے کو سانپ آتے ہیں
روپ بھر کر کبھی فرشتوں کا
گھر بسانے کو سانپ آتے ہیں
ہم نے ممبر پہ سانپ دیکھے ہیں
ہم نے مندر کے سانپ دیکھے ہیں
کیا بتائیں کہ اونچی کرسی پر
کتے زہریلے سانپ دیکھے ہیں


آج کے معاشرے میں لڑکوں کے سرپرستوں کے لڑکی کے سرپرستوں سے مطالبات، ان پر اصرار اور خود کی جوابی فرمائشوں سے مجبوری کا ااظہار ملاحظہ ہو۔

بھار والے تو بھوت پوچھیں گے
گھر کا بچہ ہے گھر کا زیور دیو
بھوت چیزاں نکو جی تھوڑے بس
ایک بنگلہ ہزار جوڑے بس


اب لڑکے والوں کی مجبوریاں ملاحظہ ہوں۔

جوڑے لانا بھی راس نیں ہمنا
نتھ چڑھانا بھی راس نیں ہمنا
ہم ولیمہ تو کب بی دیتے نیں
کھانا وانا بھی راس نیں ہمنا
مہروتاج جتی سنت ہے
بھوت بننا تو سب حماقت ہے

اس نظم کے آخری بند عبرت و نصیحت سے پر ہیں ملاحظہ ہوں۔

جس کی بچی جوان ہوتی ہے
اس کی آفت میں جان ہوتی ہے
بوڑھے ماں باپ کے کلیجے پر
ایک بھاری چٹان ہوتی ہے
جی میں آتا ہے اپنی بچی کو
اپنے ہاتھوں سے خود ہی دفنا دیں
لال جوڑا تو دے نہیں سکتے
لال چادر میں کیوں نا دفنا دیں


خطیب نے نہ صرف دکنی زبان میں شاعری کی ہے بلکہ انہوں نے اردو میں بھی اپنی شاعری کا جادو جگایا ہے۔
سلیمان خطیب کی ںظم" لکھنوی شاعر کی دکنی بیوی" جس میں دکنی زبان کے علاوہ اردو میں بھی اشعار نظم کئے گئے ہیں ملاحظہ ہوں۔

کاں سے بیٹھا تھا نصیباں میں یہ شاعر اجڑو
کیا کلیجے کو میرے جی کو جلا دیتا ہے
باتاں باتاں میں اصل بات اڑا دیتا ہے
پیسے پوچھے تو فقط شعر سنا دیتا ہے
شاعری کرنا تجھے کون سکھا کو چھوڑے
اچھے خاصے مرے ادمی کو کھپا کے چھوڑے


لکھنوی شاعر اپنی بیوی کی دکنی زبان میں بپتا سن کر بیوی کو مناتے ہیں۔

یہ بھی انداز بیاں کتنا ہے پیارا بیگم
اسی انداز بیاں نے ہمیں مارا بیگم
تم پہ قربان سمر قند و بخارا بیگم
واہ کیا خوب مکررہو دوبارہ بیگم
باتیں کرتی ہو تو کھل جاتے ہیں غنچوں کے دہن
جیسے ظلمات میں در آتی ہے سورج کی کرن
جیسے دیوانہ پھرا کرتا ہے کوچہ کوچہ
کس پری رو کے ہوئے ہم بھی اسیرِ گیسو
قتل گا ہوں سے گزر جاتا ہوں آسانی سے
لے کے پھرتی ہے مجھے دیکھ زبانِ اردو
مرگِ اردو ہے کوئی کھیل نہیں ہے ناداں
یہ جو مر جائے گی اک شور فغاں اٹھے گا


سلیمان خطیب کا 22 اکٹوبر 1978ء کو دواخانہ عثمانیہ میں انتقال ہوا۔

ماخوذ : مزاح نگارانِ حیدرآباد ( حیدرآباد میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری آزادی کے بعد )
مصنف : ڈاکٹر سید بشیر احمد
 
واہ کیا خوب مکرر ہو دوبارہ اپیا۔ میرا مطلب ہے بہت ہی خوب۔ دیکھئے کہیں یہ کہہ کر کہ سعود بھائی نے کہا ہے، دوبارہ مت پوسٹ کر دیجئے گا۔ :)
 

عندلیب

محفلین
ہمالیہ کی چاندی
ہمالہ کی چاندی پگھلتی رہے​
مرے گھر میں گنگا ابلتی رہے​
یہ گاندھی ، یہ گوتم کی پیاری زمیں​
ہمیشہ جواہر اگلتی رہے​
اہمسا کا اب بول بالا رہے​
ترنگے کا جگ میں اجالا رہے​
حسیں آج کتنی ہے میری زمیں​
کہو تم نے دیکھی ہے ایسی کہیں​
یہ صورت پہ تنویر جمہوریت​
نظر آج رخ پر ٹھہرتی نہیں​
قسم کھا کے کہتا ہوں اے میری ماں​
میں اونچا رکھوں گا تیرا یہ نشاں​
سلامت رہیں میرے گنگ و جمن​
یہ اجمیر و کاشی کی بانکی پھبن​
ایلورا ، اجنتا کا رنگین سہاگ​
سلامت رہے میرا پیارا وطن​
سدا تیری رنگینی قائم رہے​
بہاروں کی دنیا یہ دائم رہے​
مری زندگی ہوگی تیرے لیے​
مری بندگی ہوگی تیرے لیے​
یہی فخر کیا کم ہے میرے لیے​
مرے خون کی سرخی ہے تیرے لیے​
مری ماں تو مجھ سے بھی کچھ کام لے​
ضرورت ہو میری تو آواز دے​
سلیمان خطیب
 

عندلیب

محفلین
غزل

مانا حریف کہکشاں اور بھی تجھ سے تھے مگر
میری نظر نے چن لیا اپنی نظر کو کیا کروں

تیرا جو ذکر چھیڑ گیا آنکھ سے اشک گر پڑے
دامن تر چھپا لیا دیدۂ تر کو کیا کروں

صبر کا حکم خوب ہے لیکن حضور یہ کہیں
سوزِ دروں کا کیا بنے دردِجگر کو کیا کروں

تیرے بغیر زندگی کتنی اداس ہے مری
ایسے اداس لے کے میں شام و سحر کو کیا کروں

شامِ فراق میں خطیب داعِ جگر کی روشنی
شمس و قمر سے بڑھ کے ہے ، شمس و قمر کو کیا کروں

سلیمان خطیب
 
Top