سلیمان خطیب

مانا حریف کہکشاں اور بھی تجھ سے تھے مگر
میری نظر نے چن لیا اپنی نظر کو کیا کروں

تیرا جو ذکر چھیڑ گیا آنکھ سے اشک گر پڑے
دامن تر چھپا لیا دیدۂ تر کو کیا کروں

صبر کا حکم خوب ہے لیکن حضور یہ کہیں
سوزِ دروں کا کیا بنے دردِجگر کو کیا کروں

تیرے بغیر زندگی کتنی اداس ہے مری
ایسے اداس لے کے میں شام و سحر کو کیا کروں

شامِ فراق میں خطیب داعِ جگر کی روشنی
شمس و قمر سے بڑھ کے ہے ، شمس و قمر کو کیا کروں

سلیمان خطیب
 
Top