سلطان معظم میں آپ کی معزولی کا فتویٰ صادر کر دوں گا

عمیر فہد

محفلین
سلطان معظم میں آپ کی معزولی کا فتویٰ صادر کر دوں گا
عثمانی سلطان سلیم الاول کو معلوم ہوا کہ استنبول میں آرمن ، رومی اور یہودی غیر مسلم اقلیتیں موجود ہیں جو عثمانی مملکت کیلئے مشکلات کا سبب بن رہی ہیں اور بغاوتوں میں ان کا کردار ہے ، سلطان شدید غضب ناک ہوا اور حکم صادر کیا کہ ان غیر مسلم اقلیتوں کیلئے قبول اسلام لازم ہے اور جو اسلام قبول کرنے سے انکار کرے اس کی گردن مار دی جائے ،یہ خبر شیخ الاسلام" زمبیلی علی مالی آفندی" تک بھی جا پہنچی جو اپنے عصر کے کبار علماء میں سے شمار ہوتے تھے یہ حکم انھیں سخت برا لگا کیونکہ غیر مسلموں کو قبول اسلام پر مجبور کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جس کا شعار ہی یہ رہا ہے { لا إكراه في الدين }. اور کسی کیلئے اس شرعی اصول کی خلاف ورزی جائز نہیں ، اگرچہ وہ سلطان ہی ہو، لیکن سلطان کے سامنے کون جا سکتا تھا جس کے سامنے سبھی کانپنے لگتے تھے ، اس سلطان کے سامنے کون کھڑا ہو سکتا تھا ؟ جو سخت طبیعت میں مشہور تھا اور اسے بتلائے کہ اس کا یہ عمل صحیح نہیں دین اسلام کے موافق نہیں ؟

ان کے علاوہ کسی میں یہ جرات نہ تھی کیونکہ مملکت عثمانیہ میں شیخ الاسلام کا منصب بھی ان کے پاس تھا اور اس پیش آئندہ برائی کے ازالہ کی ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پر ہی عائد ہوتی تھی۔

شیخ الاسلام نے اپنی قبا پہنی اور سلطان کے محل کا رخ کیا اس کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر سلطان کو کہنے لگے سلطان میں نے سنا ہے کہ آپ تمام غیر مسلم اقلیتوں کو زبردستی اسلام میں داخل کرنا چاہتے ہیں؟

سلطان کچھ غصے میں آگیا اور کہنا لگا: ہاں.. تم نے جو سنا ہے ایسا ہی ہے .. اس بارے میں آپ کو کیا مسئلہ ہے؟

شیخ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو بیان حق میں متردد ہوں : اے سلطان یہ شریعت کے مخالف ہے ، کیونکہ دین میں شمولیت کیلئے جبر واکراہ حرام ہے ، پھر آپ کے دادا سلطان محمد فاتح نے اتنبول کی فتح کے موقع پر شریعت اسلامی کی اتباع کرتے ہوئے کسی ایک کو قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا بلکہ تمام لوگوں کو اپنے عقائد کے مطابق رہنے کی آزادی دی، چنانچہ آپ پر بھی شریعت حنیف کی اتباع اور اپنے دادا کے دئیے گئے عہد کی پاسداری لازم ہے ۔

سلطان سلیم کا غصہ بڑھنے لگا اور کہنے لگے : اے علی آفندی ..اے علی آفندی : تو نے مملکت کے معاملات میں دخل اندازی شروع کر رکھی ہے .. مجھے بتا تیری یہ دخل اندازی کہاں جا کر ختم ہو گی؟

اے سلطان میں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اپنا فریضہ انجام دے رہا ہوں ، میرا اس میں کوئی ذاتی مقصد نہیں ..اور اگر یہ میری وجہ سے ختم نہیں ہوتا تو کوئی مجھ سے میری روح نہیں چھین سکتا ۔

شیخ الاسلام ان معاملات کو میرے لئے چھوڑ دیجئے

ہرگز نہیں سلطان .. میرے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ میں آپ کے آخرت کے معاملات کا خیال رکھوں ، اور آپ کو ہر اس چیز سے بچاوں جو آپ کی اخروی زندگی کو خراب کرنے کا باعث بنے۔اگرچہ مجھے اس کیلئے دوسرا راستہ اختیار کرنے پر ہی کیوں نہ مجبور ہونا پڑے۔

تمہار کیا مطلب؟

سلطان اگر آپ نے اس معاملے میں اپنا اصرار جاری رکھا تو میں شریعت حنیف کی مخالفت کی وجہ سے آپ کی معزولی فتویٰ صادر کرنے پر مجبور ہو جاوں گا

اور سلطان شیخ الاسلام نصیحت پر عمل کرنے پر مجبور ہو گیا ، وہ علماء کرام کا احترام کرنے والا اور انھیں ہر معاملے میں سر فہرست رکھنے کا عادی تھا ، چنانچہ غیر مسلم اقلیتیں اپنے عقائد و عبادات فیصلوں میں آزاد رہیں اور کسی نے ان کی جانب بری نیت سے ہاتھ نہیں بڑھایا۔

روائع من التاريخ العثماني ، لأورخان محمد علي ، ص57
 

آوازِ دوست

محفلین
مذہبی آزادی اور رواداری کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے جان و مال اور عزت کا احترام بھی سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ اچھی تحریرہے شکریہ۔
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ

ہر مسلمانوں کے ہر دور میں یہود و نصارا کو بہترین تخفظ ملا ہے
گرچہ مسلمانوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے لیکن اقلیتوں کے بارہ میں
رائے اچھی ہے۔ مسلم حکمران یا حکمرانی کی زیادہ تر داستان جبر اور ظلم
سے کالے ہیں۔ ایک طرف ایک حاکم قرآن الکریم میں زیر زبر پیش لگاکر
اجنبیوں کے لئے قرآن الکریم پڑھنا آسان کرتا ہے دوسری طرف کعبہ میں منجینیکیں چلاتا ہے
 
Top