سلطان بالسینغر مرزا: خطاط

الف نظامی

لائبریرین
2580.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
امیر تیمور کے صاحبزادے
سلطان بالسینغر مرزا
آپ خطِ تعلیق اور نسخ کے ساتھ ساتھ خطِ نستعلیق میں بھی مہارت حاصل تھی
آپ کے دربار سے چالیس ماہرینِ فن وابستہ تھے
اسلامی اقدار کو دنیا بھر میں آج بھی خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے دنیا بھر کو علم و ادب اور تمدن و فن کے نئے نئے اور شفاف زاویے عطا کیے اور ان کی علمی و فنی تحقیقات کو نہ صرف یورپ و مغرب میں تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ دنیا بھر کے صاحبانِ عقل و دانش حیرت زدہ ہیں۔ خطاطی میں ہی مسلمانوں نے سینکڑوں رسوم الخطوط اور نئے نئے زاویے ایجاد کیے اور جیومیڑیکل طرز پر ان کے نام رکھے گئے جیسے کوفی ، ثلث ، طومار اور محقق وغیرہ۔
آج ہمارا موضوع ہے "سلطان بالسینغر مرزا" ، یہ امیر تیمور کے صاحبزادے تھے اور امیر تیمور کی تمام اولاد کو ہمیشہ علم وفن سے گہرا واسطہ رہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بالسینغر مرزا مروجہ چھ رسوم الخط مثلا کوفی ، محقق ، ثلث ، تعلیق ، نسخ اور نستعلیق کے ماہر تھے۔ ان کا ایک معروف قول ہے کہ فن بیرونی تربیت سے نہیں بلکہ اندرونی وجدان اور روحانی بالیدگی سے جنم لیتا ہے اور یہ سچ بھی ہے کیونکہ فن ریاضت و روح کے اس جذبے کا نام ہے کہ جس کی تشریح و تفسیر کسی بھی زاویے سے ممکن نہیں۔ فن کار جب روح کے اس جذبے کے حصار میں آتا ہے کہ جسے جنون و عشق کہتے ہیں تب وہ ایک راستہ بنا پاتا ہے جو اس کو فن کی قربانی طلب وادیوں میں لے جاتا ہے۔
سلطان مرزا کا یہ قول بہت زبردست اور نہایت توجہ طلب ہے۔ مرزا اگرچہ فارسی زبان بولتے تھے مگر عربی اور ترکی میں بھی انہیں کمال حاصل تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک فقیر سلطان کے دربار میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے کوئی خیرات کیجیے تا کہ میں کسی کا محتاج نہ رہوں ، یہ سن کر سلطان نے شاہی نقیب کے ذریعے اپنا قلمدان منگوایا اور قلم دے کر کہا کہ اگر اس کی حرمت برقرار رکھو گے تو کبھی ذلت و محتاجی نہیں آئے گی۔ سلطان ، اپنی خطاطی کردہ صفحات پر مطلا تہذیب کاری کروایا کرتے تھے اور اس کے لیے اصل سونا اور رنگوں کے لیے نیلم ، یاقوت ، لاجورد ، فیروزہ پیش کر استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے لیے سلطان نے روشنائیوں کے ماہرین کو اچھی تنخواہ دے کر مامور کیا ہوا تھا۔ سلطان کے خوش نویس دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی خطاطی بھی کرتے تھے۔
 
آخری تدوین:
Top