سلسلہ غریب کی جورو : اسپتال کا احوال

family.png


فیصل ایک درزی ہے ۔ اس کی بیوی عنایا اور ایک دس سالہ بیٹا طلحہ ہے یہ تینوں اچھرہ کے قریب رہتے ہیں اور ایک کرائے کے مکان میں اپنی گزر بسر کرتے ہیں آج طلحہ کی سال گرہ ہے لہذا فیصل نے خود دکان سےجلدی چھٹی کر لی ہے کیونکہ وہ بیوی بچے کے ساتھ کہیں باہر کھانا کھانا چاہتے ہیں اور بیٹے کو کچھ رائیڈز وغیرہ دلانا چاہتے ہیں ۔ یہ نہ تو امیر ہیں کہ بڑی بڑی پارٹیاں کر یا افورڈ کر سکیں نہ ہی اپر مڈل کلاس کے کہ کسی طرح کی کوئی بچت کا مالی معاونت ان کے پاس ہو ۔البتہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں سمیٹنے کا وہ انسانی جذبہ جو ہمیں ایک گلاس ٹھنڈے پانی ، ایک پیالے دہی بھلے یا مٹھائی کے ایک گلاب جامن سے لطف اندوز ہونے کا ظرف عطا کرتا ہے وہ ان میں بھی کچھ کم نہ تھا۔ گھر آتے ہی عنایہ کو پیار سے سر پرتھپتھپایا اور کہا چلو بے غم آج کاکے کی سال گرہ ہے تو باہر پارٹی کرتے ہیں ۔ عنایہ نے جواب میں مست مسکراہٹ کے ساتھ اپنے خاوند نام دار کا شکریہ ادا کیا اور پندرہ بیس منٹ میں تیار ہو گئی ۔

تینوں نے آن لائن ٹیکسی منگوائی اور فیصلہ یہ ہوا کہ چلتے ہیں فورٹریس ادھر جوائے لینڈ بھی ہے اور کافی سارے ریستوران بھی ہیں لہذا وہاں ڈنر بھی کر لیں گے ۔ تینوں تیار ہو کر سیدھے فورٹریس پہنچے بندو خان میں کھانا کھایا اور طلحہ کو لے کر جوائے لینڈ پہنچ گئے ۔ کافی رائیڈز تھیں طلحہ تو یہ سب کچھ دیکھ کر دیوانہ ہو رہا تھا ۔ سب سے پہلے اس نے وہاں بندر ہتھوڑا کھیلا ۔ پھر سربلند ریل گاڑی کا لطف لیا اور اس کے بعد جھٹکالو کرسیاں اورخوفناک محل سے کھیل کود کر نکلے کہ باہر نکلتے ہی طلحہ کو گرم ہوا کا جھونکا سر سے ٹکرایا ۔ اور اسے متلی سی ہونے لگی ۔ بچہ چھوٹا تھا طبیعت خراب ہوتے دیکھ کر ماں باپ نے پاس کی دکان سے ایک سبز بوتل لے کر اس میں چٹکی نمک ڈال کر بچے کو پلایا ۔ لیکن کچھ دیر میں ہی بچے کو متلی اور قے شروع ہو گئی ۔ بندو خان سے کھانا کھائے بھی کافی دیر ہو چکی تھی تو اب یہ وجہ تو نظر نہیں آتی تھی کہ کھانے سے کچھ ہو گیا ہوگا ۔ پندرہ بیس منٹ میں ہی بچے کو چار پانچ مرتبہ قے ہو گئی ۔ بچے سے زیادہ ماں باپ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ فورا وہیں سے رکشہ کرایا اور پاس ہی بچے کو سرجی میڈ اسپتال کی ایمرجنسی میں لے کر پہنچ گئے ۔

healthcare-and-medical-related-doodle-illustration-modern-design-vector-illustration-for-web.jpg

اسپتال میں پہنچتے ہی بچے کی فائل بنوائی گئی جہاں پانچ ہزار روپے جمع کروائے گئے ۔ اور ایمرجنسی وارڈ میں پانچ منٹ کے اندر اندر ایک ڈاکٹر نے انہیں وصول کیا ۔ فورا سے پیشتر کینولا لگا دیا گیا ۔ ایک میٹرونیڈا زول کی ڈرپ چڑھا دی گئی اور گریوی نیٹ کا ٹیکہ اس میں ڈال دیا گیا ۔ بچے کا بلڈ سیمپل لے کر سی بی سی کے لئے بھیج دیا گیا بچے کی الٹیاں فورا بہتر ہو گئیں لیکن ڈاکٹر نے انہیں دو گھنٹے آبزرویشن میں رہنے کا کہا تاکہ خون کے ٹسٹ کے نتائج اور ایک کنسلٹنٹ پیڈیائٹریشن یا ماہر بچگان کو بھی کال کر کے بلوا لیا ۔ اس سب کے بعد جب بچہ کم و بیش تین گھنٹے بعد اسپتال سے ڈسچارج ہوا تو فیصل کا کم و بیش تیس ہزار روپے کا بل بن چکا تھا ۔ اتنا کیش تو پاس نہیں تھا ۔ لہذا تھوڑا وقت ان سے لے کر سکندر بھائی کو فون کیا ۔ سکندر بھائی فیصل کے بہنوئی تھے اور جب انہیں ایمرجنسی صورت حال کا بتایا تو گھنٹے بھر میں وہ پیسے کا بندو بست کر کے وہاں پہنچ گئے تھے ۔ پیسے ادا کر کے وہاں سے نکلے اور خدا خدا کر کے گھر پہنچے ۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ پاس ہی اسپتال تھا ۔ اکلوتا بیٹا بچ گیا ۔ پیسے کی کیا بات کرنا ۔ سر صدقہ بیٹے کی جان کا۔
pakistan-currency-istock_650x400_61479196245.jpg
اس واقعے کے کچھ ہی دن بعد جب ایک روز رات کو فیصل اپنی دکان پر بیٹھا ہوا سلائی کر رہا تھا ۔ اچانک اسے اپنے تایا زاد بھائی رحمت اللہ کا فون آگیا کہ بھائی آپ سے ضروری کام ہے فورا پہنچیں فیصل نے اسے بتایا کہ میں یہ سوٹ ختم کر کے پہنچتا ہوں ۔ کام ختم ہوتے ہوتے گھنٹہ بھر اور گزر گیا اور رحمت بھائی کا فون دو مرتبہ اور آگیا۔ فیصل نے دکان بند کی موٹر سائیکل نکالی اور سیدھا نکل پڑا رحمت بھائی کے گھر کی جانب جو شالامار روڈ پر تھا۔ موسم سہانا ہو رہا تھا اور گھنے بادل بنے ہوئے تھے۔ فیصل ریس کورس کے سامنے سے گزر کر نہر کی جانب ہو گیا اور ابھی مال روڈ تک نہیں پہنچا تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔ فیصل نے سوچا کہ بارش ہو رہی ہے تھوڑا ایک طرف رک جاتے ہیں پھر ذہن میں آیا کہ کھلی جگہ پر کہاں رکتے پھریں گے ۔ مال روڈ انڈر پاس کے نیچے جا کر رک جاتا ہوں بارش سے محفوظ رہوں گا ۔ سڑک ساری گیلی ہو چکی تھی ۔ مال روڈ انڈر پاس کے پاس پہنچا تو ایک گاڑی پیچھے سے بہت تیزی کے ساتھ آئی اور فیصل کی بائیک کے انتہائی قریب سے زوم کر کے گزر گئی ۔ گیلی سڑک پر فیصل کی بائیک کو ایک تو فیصل کے چونک جانے سے جھٹکا لگا ۔ دوسرا گیلی سڑک پر تیزی سے گزرنے والی گاڑی کی ہوا سے دھکا پڑا اور وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے موٹر سائیکل سمیت زمین بوس ہو گیا ۔ گرتے گرتے فطری ردعمل کے طور پر دونوں ہاتھوں سے خود کو بچانے کی کوشش کی اور دونوں ہاتھ چھل گئے ۔ لڑھکتے لڑھکتے جا کر صاحب فٹ پاتھ سے جا ٹکرائے ۔ اور موقع پر بے ہوش ہو گئے ۔ راہ گیروں نے 1122 کو فون کر کے ایمبولینس منگوائی جنہوں نے چند منٹ میں پہنچ کر اسے فورا قریبی اسپتال پہنچایا۔ اس دوران انہوں نے اس کے موبائل کو دیکھا اور اس میں موجود آخری نمبر پر جو رحمت بھائی کا تھا کال کر کے انہیں اطلاع دے دی کہ آپ کا مریض سروسز اسپتال میں لے کر جا رہے ہیں اس کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے آپ وہیں پہنچ جائیں ۔ رحمت اللہ کو وہاں پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگا ۔ وہاں اس کے سامان مثلا موبائیل ، پرس ، چابیاں وغیرہ انہوں نے رحمت اللہ کے حوالے کیں اور اس سے وصولی کی رسید حاصل کی ، سامان کی وصولی کرا کے وہ لوگ تو چلے گئے اب فیصل سروسز اسپتال کی ایمرجنسی میں پڑا ہوا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ ، سر ، چہرہ زخمی تھے اور اس کے ایک ہاتھ میں کینولا لگا ہوا تھا ۔

ڈاکٹر نے فورا رحمت اللہ کو پرچی بنا کر دے دی کہ اسے فورا سامنے ایکسرے کے کمرے لے جائیں اور سر اور کندھوں کے ایکسرے کروا لائیں کہیں کوئی جوڑ وغیرہ ڈس لوکیٹ نہ ہوا ہو ۔ یا کوئی سر کی گہری چوٹ نہ ہو ۔ ٹیٹنس کا ٹیکہ انہوں نے فورا لگا دیا تھا ۔ایکسرے روم کے باہر کافی رش تھا ۔باری آتے آتے آدھا پونہ گھنٹہ مزید لگ گیا ۔ رحمت نے عنایہ کو خبر کر دی تھی کہ فیصل اسپتال میں ہے اور وہ پریشان دوڑتی ہوئی وہاں پہنچ چکی تھی ۔ جب تک عنایہ پہنچی فیصل کا ایکسرے ہو رہا تھا ۔ سر کا ایکسرے کرنے کے بعد ایکسرے کرنے والے نے کندھے کا ایکسرے کیا اور انہیں پرچی دے کر باہر انتظار کرنے کا کہہ دیا کوئی پندرہ بیس منٹ میں ایکسرے کی رپورٹ آگئی تھی کہ کندھا ڈس لوکیٹ نہیں ہوا اور سر میں کوئی فریکچر نہیں ہے ۔

360_F_200284753_ES3ijxNc098Bm46Mj5ujUhM7EN34cBsh.jpg
c0096740-800px-wm.jpg
کچھ دوائیں لکھ دی گئیں اور فیصل کو چند گھنٹوں میں فارغ کر دیا گیا۔ اللہ کا شکر ہوا کہ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی ۔ یہ سرکاری اسپتال بھی خدا کی کتنی بڑی نعمت ہیں کہ غریب اپنا علاج فوری کروا سکتا ہے ۔ عنایہ اسے لے کر گھر پہنچی اور کمرے میں لٹا دیا ۔ فیصل کا بازو حرکت نہیں کر پا رہا تھا ۔ داکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ کوئی فریکچر نہیں ہے ۔ نہ کوئی ڈس لوکیشن ہے تو پھر بھی یہ بازو کیوں نہیں ٹھیک سے حرکت کر رہا تھا ۔ اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ جب تک دوا کا اثر رہتا بازو ٹھیک رہتا جیسے ہی اثر کم ہوتا بازو پھر سے درد ہونے لگتا ۔ محلے کے ڈاکٹر نے اسے مشورہ دیا کہ ایک ایکسرے اور کروا لو ۔ مجھے لگتا ہے تمہاری ہنسلی کی ہڈی کا کوئی مسئلہ ہے ۔ عنایہ اور گھر والوں کی ضد پر جب فیصل نے باہر سے ایکسرے کروایا تو حیران رہ گیا اس کی تو ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی لیکن یہ پہلے ایکسرے میں کیوں نہیں آئی تھی ۔ پتہ نہیں جی کیا وجہ بنی لیکن یہ ہڈی تو آپ کی ٹوٹی ہوئی ہے اسے دوبارہ سے اس کی جگہ بٹھانا ہوگا اور یہ ہڈی ایسی ہے کہ بغیر آپریشن کے دوبارہ واپس اپنی جگہ نہیں بیٹھ سکتی وہ بھی اسے کچھ فائبر شائبر لگا کر ہک کر کے واپس بٹھانا پڑے گا ۔فیصل پریشان اور حیران کہ اللہ اب آپریشن کا خرچ کہاں سے لاؤں گا ۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
فیصل کا کم و بیش تیس ہزار روپے کا بل بن چکا تھا ۔ اتنا کیش تو پاس نہیں تھا ۔ لہذا تھوڑا وقت ان سے لے کر سکندر بھائی کو فون کیا ۔ سکندر بھائی فیصل کے بہنوئی تھے اور جب انہیں ایمرجنسی صورت حال کا بتایا تو گھنٹے بھر میں وہ پیسے کا بندو بست کر کے وہاں پہنچ گئے تھے ۔ پیسے ادا کر کے وہاں سے نکلے اور خدا خدا کر کے گھر پہنچے ۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ پاس ہی اسپتال تھا ۔ اکلوتا بیٹا بچ گیا ۔ پیسے کی کیا بات کرنا ۔ سر صدقہ بیٹے کی جان کا۔
کسقدر افسوسناک صورتحال ہے ۔۔ ڈاکؤں پہلے جان تو بچاو ۔۔۔ہم تو کہتے ہیں ۔ ڈاکو گھر کے اندر آ کے لوٹتے ہیں اور ڈاکٹرگھر بلا کر۔۔🥲🥲🥲🥲🥲🥲
ہمارے ملک میں دو چیزوں کے ساتھ دل بھر کے کھیلواڑ ہے ۔۔تعلیم اور صحت ۔۔۔
 
جب فیصل نے باہر سے ایکسرے کروایا تو حیران رہ گیا اس کی تو ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی لیکن یہ پہلے ایکسرے میں کیوں نہیں آئی تھی ۔ پتہ نہیں جی کیا وجہ بنی لیکن یہ ہڈی تو آپ کی ٹوٹی ہوئی ہے اسے دوبارہ سے اس کی جگہ بٹھانا ہوگا اور یہ ہڈی ایسی ہے کہ بغیر آپریشن کے دوبارہ واپس اپنی جگہ نہیں بیٹھ سکتی وہ بھی اسے کچھ فائبر شائبر لگا کر ہک کر کے واپس بٹھانا پڑے گا ۔فیصل پریشان اور حیران کہ اللہ اب آپریشن کا خرچ کہاں سے لاؤں گا
ابھی تھوڑے دن پہلے ہی تو طلحہ کے سلسلے میں پرائیویٹ اسپتال والوں سے تیس ہزار کا پھٹکا کھا کر آیا تھا جو سکندر کو ابھی واپس دینا باقی تھا۔ دکان پر کام کے لئے بازو سلامت ہونا ضروری تھا ۔ کرائے کا مکان ہے ۔ کرائے کی دکان ۔ ساتھ تمام ذمہ داریاں کیسے پورا کرے ۔ شاگرد ابھی اتنا ہوا نہیں کہ پورا کام ٹھیک طرح سے کر سکے ۔سارا دن لگا کر ایک آدھ سوٹ پورا کرتا ہے ۔کاج کرانے جائے تو دو دو گھنٹے وہیں لگا آتا ہے ۔کیا کروں؟ کیا کروں انہی سوچوں میں غلطاں رات کو گھر پر لیٹا تو عنایہ پاس آکر بیٹھ گئی ۔

عنایہ : امی کہہ رہی تھیں کہ آپ پریشان نہ ہوں ۔ جیسے پہلے سارے مسئلے مسائل مل جل کر جھیل لیتے ہیں ۔ ان شاء اللہ اس آزمائش سے بھی ہم مل کر ہی نپٹ لیں گے۔

فیصل: ان شاء اللہ ۔ اللہ پاک خیر کرے گا ۔ کہیں تم نے اپنی امی سے کچھ مانگا تو نہیں؟

عنایہ : آپ سے کیسا جھوٹ؟ گھر کے حالات کا تو علم ہی ہے آپ کو ۔ پہلے ہی کھینچ تان کر گزارا ہوتا ہے تو امی کو اسی لئے فون کیا تھا ایک تو گیس اور بجلی کا بل آیا ہوا تھا دوسرے گھر میں راشن نہیں تھا تو کچھ ادھار وغیرہ لے کر وقت گزارا ہو سکے۔ ان شاء اللہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے تو پھر اتار دیں گے۔

فیصل : گھر میں فاقے تھوڑی ہو رہے تھے ؟۔ بندے میں اتنا صبر تو ہو تمہیں بھی مجھے ذلیل کروانا ہوتا ہے۔ اچھی طرح معلوم ہے تمہیں کہ میں پسند نہیں کرتا کہ ہمارے گھر کے مسائل کسی پر بوجھ بنیں ۔اور اپنے سسرال میں تو مجھے ویسے بھی اپنا پیٹ ننگا کرنا انتہائی نا پسند ہے ۔

عنایہ : اپنے سسرال سے ناپسند ہے تو بہن کے سسرال سے کیوں پسند کر لیا؟ وہاں عزت نفس نہیں تھی؟

فیصل : بکواس ناں کرو ، اب تم خود میری تذلیل کر رہی ہو۔

عنایہ : میں تذلیل نہیں کر رہی ۔ آپ ایسے ہر بات کو محسوس نہ کیا کریں ۔ میں تو صرف اتنا بتا رہی ہوں کہ وہ بھی اپنا ہی گھر ہے اپنے ہی لوگ ہیں ۔ اگر تھوڑی آزمائش ہے تو کیوں ناں ان کے تعاون سے اس وقت کو مل جل کر ٹال لیں گزار لیں ۔

فیصل : ایک میں یہاں معذور ہو کر پڑا ہوا ہوں ، دوسرے تم ہو کہ میرے جذبات کو سمجھتی ہی نہیں ہو۔

عنایہ : ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کے جذبات کو سمجھتی نہیں لیکن میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ کوئی اور اس قابل ہے نہیں کہ ہماری مدد کر سکے اور جگہ جگہ پیٹ سے کپڑا اٹھائیں گے تو عزت اپنی ہی گھٹے گی ۔ اس کے علاوہ ہماری تنگی کا مسئلہ ہے ۔ آپ کے بہنوئی سے مدد مانگنا غلط تو نہیں لیکن کل کلاں کو آپ کی بہن کو کوئی بات کرے تو کیوں کرے؟

فیصل : ہاں بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ حیرت ہے میری سمجھ میں ایسا کیوں نہیں آیا

عنایہ : آپ تو شروع سے ہی ایسے ہیں تھوڑے جذباتی سے ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ جب آپ کو بات سمجھ آ جاتی ہے تو آپ ضد نہیں کرتے۔اچھا آپ نے ڈاکٹر اعجاز عبید کے پاس جانا تھا ۔ گئے؟

فیصل : ہاں گیا تھا ۔ ڈاکٹر اعجاز سے بات بھی ہوئی ہے۔ کہہ رہے تھے کہ آپریشن ہوگا پرائیویٹ میں کافی مہنگا پڑے گا تو کل جانا ہے سرکاری اسپتال کے او پی ڈی میں چیک کروانے اور ڈاکٹر سے مشورہ کرنے ۔ شاید کوئی جیک لگ جائے ۔

عنایہ : بات تو ٹھیک ہے ۔ تو کل طلحہ کو بھیجوں آپ کے ساتھ یا میں خود آؤں؟

فیصل: طلحہ کو جانے دو اسکول ، اور تم گھر دیکھو بل وغیرہ بھی ہیں ۔ ویسے بھی تم جانتی تو ہو سرکاری اسپتال میں کتنا وقت لگے پتہ نہیں ہوتا تو میں اکیلا ہو ہو آتا ہوں۔

عنایہ : اچھا میں چائے بنا لاتی ہوں پی لیں پھر دوا کھا کر سوجانا۔

فیصل : ہمم

----------------------------------------
_126291256_gangaramhospital.jpg

صبح طلحہ کو سکول بھیج کر عنایہ نے فیصل کے لئے ناشتہ تیار کیا اور فیصل اس کے بعد رکشہ کرا کے گنگا رام اسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں پہنچ گیا ۔ بازو کی تکلیف ایسی تھی کہ بس یا ویگن میں سفر ممکن نہیں تھا ۔ سارے کاغذات اور ایکس رے فائلیں ساتھ لے کر آیا تھا ۔ کاؤنٹر سے شناختی کارڈ دکھا کر اور اپنامسئلہ بتا کر پرچی بنوائی تو وہاں سے اسے کمرہ نمبر 3 میں ڈاکٹر گلِ یاسمین کے پاس بھیج دیا گیا ۔فیصل بڑا خوش کہ واہ جی سیدھا سیدھا کام ہے ۔ کتنی جلدی ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا ہے ۔ میں ایسے ہی ڈر رہا تھا ۔ کہ پتہ نہیں کتنا وقت لگے گا۔ راہداری میں گزرتے ہوئے اپنے نظام اور حکومت سے بڑا خوش ہوا کہ واہ جی واہ ۔

کمرہ نمبر تین کے پاس پہنچا تو وہاں باہر کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے لیکن کمرے کا دروازہ بند تھا ۔ اور کوئی آتا جاتا نظر نہ آ رہا تھا ۔ فیصل خوش تھا کہ لو یہاں تو باری کا بھی مسئلہ نہیں ہوا ۔ جاتے ہی دروازہ دبایا تو کھلا تھا اندر جانے لگا تو کیا دیکھتا ہے کہ اندر کوئی بندہ نہ بشر ۔

شرمندہ ہو کر واپس راہداری میں دیکھا تو کرسیوں پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ ایک طرف بیٹھ گیا اور پرچی ہاتھ میں پکڑ لی ۔ بیٹھے بیٹھے انتظار کرنے والوں میں کافی سے زیادہ لوگ شامل تھے ۔ڈاکٹر صاحبہ کے آنے کا وقت دس بجے کا تھا لہذا اب اسے دس بجے تک انتظار کرنا ہی کرنا تھا ۔ بیٹھے بیٹھے نو بج گئے ۔ نیند سے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں ۔ اچانک سب لوگ اٹھ کر دروازہ نمبر تین کی طرف دوڑے اور دروازہ نمبر تین پر دھکم پیل شروع ہو گئی ۔ فیصل نے اٹھ کر دروازے کی طرف جانا چاہا لیکن کندھے کے دکھ جانے کے ڈر سے وہ رک گیا ۔کہ ذرا رش کم ہو جائے تو جاتا ہوں ۔اتنے میں کمرے سے ایک آدمی نکلا اور لوگوں سے کہنے لگا۔۔۔ رکوذرا۔۔۔ صبر کرو ۔۔۔ بغیر باری کے کوئی اندر نہیں جائے گا ۔ اپنی اپنی پرچیاں مجھے دو جس جس کا نام لیتا جاؤں وہ اندر جاتا جائے ۔

یہ سنتے ہی سب لوگوں کے چہروں پر اوس پڑ گئی اور انہوں نے اپنی اپنی پرچیاں اس کے حوالے کر دیں۔ اور واپس اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔ فیصل بھی اٹھا اور اس نےا پنی پرچی اس کے حوالے کی واپس آیا تو اس کی کرسی پر کوئی اور بیٹھ چکا تھا ۔

فیصل : بھائی صاحب یہاں میں بیٹھا ہوا تھا۔

دوسرا مریض: تو؟

فیصل : بھائی میں پرچی پکڑانے گیا تھا۔

دوسرا مریض : فیر ؟

فیصل : یہ میری جگہ ہے مجھے یہاں بیٹھنے دو۔

دوسرا مریض : کیوں تم نے رجشٹری کرائی ہوئی ہے کرسی کی ؟ یاں فیر گھروں لے آئے ہو؟

فیصل : یار بھائی رجسٹری تو تم نے بھی نہیں کرائی ہوئی۔ بندہ کم از کم بندوں کی طرح بات تو کرتا ہے۔

دوسرا مریض : او باؤ ۔ بوہتا علامہ اقبال بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیا ہوگیا ہے جو یہاں بیٹھ گیا ہوں ۔ جب دو گھنٹے سے کھڑا تھا تو کسی بندے کے پتر نے مجھے بیٹھنے کو نہیں پوچھا ۔ اب بیٹھ گیا ہوں تو کرسی کے مامے بنتے پھرتے ہیں ۔ جا ۔ جاکے کہیں کام کر۔

فیصل: او تمہیں بولنے کی تمیز نہیں ہے؟

دوسرا مریض : کیوں توں میرا پیو لگتا ہے کہ میں تیرے ساتھ تمیز سے بات کروں؟

فیصل : میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔

دوسرا مریض: ایک پاسے پہلے ہی لولا ہوا پھرتا ہے ۔ کہیں دوجے پاسیوں وی ناں ہو جائیں ۔ جا بابا جان چھڈ کتھوں چچڑ چمبڑ گیا میرے۔

فیصل : بکواس بند کرو ۔ تیری ایسی تیسی ۔ مادرزاد انسان

دوسرا مریض : (اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہلکا سا یوں دباؤ ڈالتا ہےکہ اس کی چیخ نکل گئی) چپ کر کے کھڑا رہو نہیں تو ڈاکٹر کے کمرے میں جانے جوگا نہیں چھوڑوں گا۔

فیصل گھبرا کر خاموش ہو جاتا ہے ۔

پندرہ بیس منٹ بعد دوسرے مریض کی باری آتی ہے اور وہ ڈاکٹر کے کمرے میں جا پہنچتا ہے جبکہ فیصل کی باری ابھی کافی دور ہے۔

x-ray-dept-opd.jpg
sssss.png
لہذا وہ جلدی سے خالی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ۔ پانچ منٹ بعد وہی شخص باہر نکلتا ہے اور سیدھا جا کر اس کلرک کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے ۔ جیب سے سگریٹ نکال کر اسے پیش کرتا ہے اور سرگوشی میں گویا ہوتا ہے ۔

دوسرا مریض: جی استاد جی سغٹ پیو گے؟ تھک گئے ہوگے۔ ادھر لوک بھی مت مار دیتے ہیں۔

کلرک : نہیں ویر جی ۔ کوئی لوڑ نئیں ۔ میں یہ والا سگریٹ نہیں پیتا۔

دوسرا مریض : چلو کوئی ناں بادشاہو ۔ یہ سو روپیہ رکھیں بچوں کے لئے کیلے شیلے لے لینا ۔

کلرک : نئیں جی یہ کیا تکلف ہے ۔ زیادہ ضد کرتے ہیں تو رکھ لیتا ہوں ویسے یہاں سب کو پتہ ہے میں نے کوئی رئی (بے ایمانی سے مدد) نہیں کی ۔

دوسرا مریض: لئو جی ۔ یہ کس نے کہہ دیا جی؟ میں تو بھائی کے اخلاق اور ایمانداری سے متاثر ہوا ہوں اس لئے ہی تو یہ شکرانہ پیش کر رہا ہوں ۔ نہیں تو آپ نے کوئی مجھے فے ور دی ہےَ؟

کلرک : نئیں جی میں تو آپ کا نام بھی نہیں جانتا۔

دوسرا مریض : اچھا ایک چھوٹی سی عرض تھی اگر جناب برا نہ مانیں تو؟

کلرک : آڈر لاؤ بھائی جان ۔

دوسرا مریض: وہ بندہ دیکھ رہے ہیں ۔ بازو ٹوٹے والا؟ لولا ۔۔ جو میرے ساتھ پنگا کرنے لگا تھا؟

کلرک : ہیں جی ، اوہ وہ ؟ ہاں جی

دوسرا مریض: اس کی آج باری ناں آنے پائے۔

کلرک: اوہ مطلب پرچی نکال پھینکوں؟ ۔ حکم کرو
دوسرا مریض : نئیں نئیں پتہ نئیں کیسا مسئلہ ہے۔وچارے کا۔ بس تھوڑی سزا دینی ہے اور سبق سکھانا ہے کہ اپون سے پنگا نئیں کرنے کا۔ پر یار ویکھ لئیں ڈاکٹر کو مل ضرور لے کدھرے رہ ای ناں جائے ۔

کلرک : لو جناب جیسے آپ کہو ویسے ہی ہوگا۔بس جناب ایک چھوٹی سی ریکوئیسٹ تھی۔

دوسرا مریض: ہا ہا ہا ہن آئے ناں لائن تے ۔ آڈر لاؤ باچھ چھاؤ (بادشاہو)۔

کلرک : جناب میرے بچے چار ہیں اور کیلے دوسو چالیس کے درجن ۔ اب سو میں تو ادھی درجن بھی نئیں آنی۔

دوسرا مریض : واہ وئی ۔ انگلی پھڑاؤ تے بندا بازو مانگتا ہے ۔ پر میں وی غصے کا پورا سؤر ہوں ۔ لو میرے آقا پانجا فٹ کرو سو کنجر کو


(اتنا کہہ کر پانچ سو کا نوٹ اس کے حوالے کر کے نکل جاتا ہے)۔


ادھر فیصل اس کرسی پر بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے ۔ اب کلرک آواز دیتا ہے کہ اب ۔ دس سے گیارہ اور گیارہ سے بارہ بج جاتے ہیں ۔ ایک کے بعد ایک مریض اپنی باری پر ڈاکٹر کے کمرے میں جارہے ہیں لیکن فیصل کی باری نہیں آتی ۔ڈیڑھ بجے کے قریب وہ کلرک سے پوچھتا ہے۔

فیصل : بھائی صاحب میری باری کب تک آ جائے گی؟
کلرک : جی دیکھیں اب کب تک آتی ہے ۔ یہ تو ڈاکٹر صاحب کی بات ہے ۔ آپ سے پہلے ابھی پندرہ بیس کے قریب باقی ہیں جن میں ڈاکٹر صاحب کی مصروفیت کے حساب سے ایک ایک دو دو کر کے بھی بھیج رہا ہوں ۔سو دعا کریں جی۔
فیصل : صحیح ۔ اچھا میرا ویر میں کچھ کھا پی آؤں؟ باہر سے؟
کلرک : جاؤ بادشاہو ! ٹینشن فری ہو کے جاؤ بس میری لئی ایک چھلی تے ادھی ڈبی کیپٹن لئی آنا۔

فیصل : حاضر جناب ۔ ہو ر حکم

کلرک : نئیں جناب ۔ کیا ہم کیا ہمارے حکم ۔ حکم صرف اللہ کا جی۔

فیصل وہاں سے نکلتا ہے باہر اور صفانوالہ چوک کی طرف نکلتے ہوئے مسجد اقصی کے باہر ایک ریڑھی والے سے نان چنے کھا کر واپس آجاتا ہے ۔ آتے ہوئے ڈبی کیپٹن سگریٹ اور ایک مکئی کا بھٹہ لے آتا ہے ۔ جو کلرک لے کر اسے بیٹھنے کا بول دیتا ہے اور ایک طرف سے آنکھ کا ہلکا سا اشارہ کر دیتا ہے کہ بس اب دیکھو میرا کمال ۔ اور واقعی کمال ہو جاتا ہے اور فیصل کی دس منٹ کے اندر اندر باری آ جاتی ہے ۔ اندر کمرے میں جاتا ہے تو سامنے ٹیبل کے پیچھے ڈاکٹر گلِ یاسمین بیٹھی ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر سیما علی بیٹھی ہیں دونوں اس کے ایکسرے لے کر دیکھتی ہیں ۔
sssss22.png

ڈاکٹر گل یاسمین ایکسرے کو دیکھتے ہی افسوس سے سر ہلاتی ہیں اور کہنے لگیں۔

زندہ رہنا جلتے رہنے کے برابر ہے مگر
زندگی اِک آگ ہے کندن بنا دیتی ہے آگ

ڈاکٹر سیما ہمیں تو لگتا ہے کہ ان صاحب کا کلے وی کل فریکچر ہے اور یہ کلاسی فائیڈ ہوگا گروپ ٹو ٹائپ ایل ایل اے سے مطلب ان کو ریکوری کے لئے چھے سے بارہ ہفتے لگ جائیں گے اور انہیں لوکل انیستھیزیا کے ساتھ مائنر سرجری کے ذریعے سپورٹس لگانی پڑیں گی جو دو سٹیجز میں چھے چھے ہفتے کے فرق سے لگائے جائیں گے ۔ ایسے میں ریکوری آہستہ ضرور ہوگی لیکن محفوظ رہے گی۔ آپ کی کیا رائے ہے اس سلسلے میں ۔

ڈاکٹر سیما علی : جی جی بالکل درست تشخیص ہے آپ کی ہم آپ کی تشخیص سے متفق ہیں تو پھر انہیں ریفر کر دوں ایڈمشن کے لئے ؟؟

ڈاکٹر گل یاسمین : (ڈاکٹر سیما سے ) جی ایسا ہی ہے۔ (فیصل کی طرف دیکھتے ہوئے) بھائی صاحب آپ کل دن میں آ جائیں کل ایک دو دن آپ کو وارڈ میں رکھیں گے پھر آپ کا چھوٹا سا اپریشن ہوگا ۔ آپ کا مسئلہ لمبا ہے اس مٰیں کافی وقت بھی لگے گا اور دو اپریشن ہونگے ایک اسے یہاں سے کٹ لگا کر اندر باندھ کر ہڈی جوڑنے کے لئے پلیٹیں لگیں گی دوسرا چھے ہفتے بعد وہ پلیٹیں نکالی جائیں گی ۔اس طرح آپ کا کندھا بالکل ٹھیک ہو جائے گا ان شاء اللہ۔

فیصل : میڈم ڈاکٹر صاحبہ جی پیسے کتنے کو لگ جائیں گے ۔ میں تو ایک معمولی سا درزی ہوں ۔ پیسہ لگا بھی سکوں گا کہ نہیں ۔

ڈاکٹر سیما علی : بھائی صاحب آپ پریشان نہ ہوں اس میں آپریشن ۔ اسپتال ۔ اور دواؤں کے اخراجات تو آپ کے صحت کارڈ پر ہو جائیں گے ۔ باقی رہ گئی بات پلیٹوں کی تو وہ آپ کو بازار سے خریدنی ہوں گی جو یہی کوئی دس بارہ ہزار کا کام ہے ۔ لیکن آپ پریشان نہ ہوں ہم آپ کو پیشنٹ ویلفیئر سے کچھ مدد امداد کروا دیں گے۔آپ ایسا کریں کل یہ پرچی لے کر وارڈ نمبر نو میں آ جائیں صبح آٹھ سے نو کے درمیان ۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔

جاری ہے۔۔
 
آخری تدوین:
فیصل: جی میڈم ڈاکٹر صاحبہ ۔ جزاک اللہ خیرا ۔ تھوڑا بتا دیتے کہ کتنے دن لگ جائیں گے تو گھر والوں کو بتا دیتا۔

ڈاکٹرگل یاسمین : جی بھائی آپ کا دوسے تین دن میں اسپتال سے واپسی کا ہو جائے گا البتہ کام کاج میں چھے سے بارہ ہفتے لگ جائیں گے۔

ڈاکٹر سیما علی : ویسے بھی اتنا بڑا آپریشن نہیں ہے ۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ احتیاطا او پازیٹو خون کا بندو بست رکھئیے گا ۔ خون لینا نہیں ہے بس ڈونر تیار رکھیئے گا شاید ضرورت پڑے۔

فیصل : ناں ڈاکٹرنی جی یہ ناں کہیں میں غریب بندہ کدھر سے خون کا بندوبست کروں گا؟

ڈاکٹر سیما : آپ ڈریں نہیں ۔ خون لینا نہیں ہے ۔ لیکن آپریشن ہے تو اللہ نہ کرے اگر ضرورت پڑی تو شاید لینا پڑے اس لئے احتیاطا کہا ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

فیصل : ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب اور اگر کسی وجہ سے کل آنا نہ ہو سکا تو؟

ڈاکٹر گل یاسمین : ہم پیر ۔ منگل ۔ بدھ کو اس اسپتال میں ہوتے ہیں ۔ تو کل پیر ہے اگر کسی وجہ سے کل نہ آ سکے تو ایسی صورت میں اگلے پیر کو آجائیے گا ۔ لیکن ذہن میں رکھیں کہ جس قدر آپ وقت ضائع کریں گے اتنا ہی دیر سے یہ تکلیف بھی آپ کی زندگی سے جائے گی۔ اور ایک اسٹیج پر تو اس کا ری کور ہونا مشکل بھی ہو جائے گا۔

ڈاکٹر سیما فیصل کو پرچی پکڑاتی ہیں اور وہ اسے لے کر اپنے گھر کا رخ کرتا ہے۔ گھر پہنچ کر بیوی کو جو بتایا کہ آپریشن ہونا قرار پایا ہے تو وہ یوں گویا ہوئی:-

عنایہ: اللہ پاک اپنا رحم و کرم فرمائے کتنے دن رہنا ہوگا؟

فیصل : ڈاکٹر کہتے ہیں دو سے تین دن کا کام ہے ۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اب کل میں جاؤں گا اور بدھ کو ان شاء اللہ خیر سے واپس۔

عنایہ : جانا تو ہے ہی تو طیبہ خالہ کے بیٹے زاہد کو ساتھ لے جائیے گا ۔ اور میں امی کو فون کر کے کچھ پیسے منگوا لیتی ہوں ۔ ہزار ضرورت پڑ سکتی ہے۔

فیصل : ہممم بات تو درست ہے تمہاری لیکن امی لوگوں سے پیسے لینا مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔

عنایہ: اچھا تو آپ بتائیں اس کے علاوہ کیا حل ہے؟ سکندر بھائی نے پہلے دے دیئے تھے لیکن کیا ہر مرتبہ مانگتے آپ کی عزت ہوگی؟ آمنہ کا سسرال ہے وہ کیا نہیں سوچیں گے کہ کن تلنگوں کے پلے پڑ گئے ہم لوگ۔

فیصل: اچھا جو مناسب سمجھو کر لو
 

سیما علی

لائبریرین
ٹر گل یاسمین ایکسرے کو دیکھتے ہی افسوس سے سر ہلاتی ہیں اور کہنے لگیں۔

زندہ رہنا جلتے رہنے کے برابر ہے مگر
زندگی اِک آگ ہے کندن بنا دیتی ہے آگ
یہ ڈاکٹر گل یاسمین کہہ سکتیں ہیں ۔دانائی کے موتی بکھرتے ہوئے ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ڈاکٹر سیما علی : بھائی صاحب آپ پریشان نہ ہوں اس میں آپریشن ۔ اسپتال ۔ اور دواؤں کے اخراجات تو آپ کے صحت کارڈ پر ہو جائیں گے ۔ باقی رہ گئی بات پلیٹوں کی تو وہ آپ کو بازار سے خریدنی ہوں گی جو یہی کوئی دس بارہ ہزار کا کام ہے ۔
ہمارا بس چلے تو اس غریب کو بارہ روپے بھی نہ خرچا کرنے دیں فیصل عظیم فیصل بھیا 🥲🥲🥲🥲
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر ڈاکٹر گل یاسمین کو کچھ رشوت دی جاتی تو سارا کام جلدی اور مفت میں ہو جاتا۔ 😄
لیکن یہ بھی ڈر ہے کہ ڈاکٹر سیما علی اس رشوت کا بھانڈا نہ پھوڑ دیں۔ اس لیے احتیاط کیجیے۔ 🙂
 
عنایہ: اچھا تو آپ بتائیں اس کے علاوہ کیا حل ہے؟ سکندر بھائی نے پہلے دے دیئے تھے لیکن کیا ہر مرتبہ مانگتے آپ کی عزت ہوگی؟ آمنہ کا سسرال ہے وہ کیا نہیں سوچیں گے کہ کن تلنگوں کے پلے پڑ گئے ہم لوگ۔

فیصل: اچھا جو مناسب سمجھو کر لو
فیصل دوا کھا کر لیٹ گیا ۔ عنایہ نے طیبہ خالہ کو فون کر دیا کہ فیصل نے صبح اسپتال جانا ہے ۔ لہذا زاہد کو بھیج دیجئے گا انہوں نے بتایا کہ زاہد کل اپنا امتحان کا پرچہ دینے جا رہا ہے تو وہ عبد الرؤوف کو بھیج دیں گی۔ وقت طے ہوگیا اور عنایہ آ کر طلحہ کو سلانے لگی ۔ طلحہ کے سونے کے بعد اس نے اپنی امی کو فون کیا کہ صبح فیصل کو لے کر اسپتال جانا ہے تو وارث کے ہاتھ بیس پچیس ہزار بھیج دیں ۔اس کی امی نے حامی بھر لی اور اب عنایہ سکون سے سو سکتی تھی۔

صبح اٹھتے ہی فیصل کو ناشتہ دیا ۔ اور ذکیہ خالہ کو فون کر دیا انہوں نے پندرہ بیس منٹ میں عبد الرؤوف کو بھیج دیا عبد الروؤف آ گیا تھا ۔ ابھی چائے پی ہی رہا تھا کہ باہر گھنٹی کی آواز آئی ۔ عنایہ نے دروازہ کھولا تو وارث باہر کھڑا تھا ۔ بہن کو پیسے پکڑا کر یہ جا وہ جا ۔ عنایہ آوازیں دیتی رہ گئی لیکن اس نے نہیں رکنا تھا نہ رکا۔ پیسے گنے تو پورے پچیس ہزار تھے ۔عنایہ نے پیسے لا کر فیصل کو دیئے اور اسے عبد الرؤوف کے ہمراہ روانہ کر دیا۔ دونوں وہاں سے نکلے اور سیدھے رکشہ پکڑ کر گنگا رام اسپتال جا پہنچے ۔

sssss333.png

نو نمبر وارڈ میں اندر جانے لگے تو باہر سیکیورٹی گارڈ نے روکا۔ پرچی دکھائی تو جانے دیا یہ مردانہ آرتھوپیڈک سرجیکل وارڈ تھی ۔ اندر گئے تو اندر جاتے ہی سپرٹس کی خوشبو نے استقبال کیا اندر جاتے ہی دائیں بائیں مریضوں کے بستر بچھے ہوئے تھے ۔ اندر ایک نیلی وردی میں خاتون صفائی میں مصروف تھی ۔ جبکہ ایک طرف ایک صاحب کھڑے ہوئے ہیں ان کے ہاتھ میں ایک عدد کپڑا ہے اور چہرے پر مسکراہٹ ہے ۔ یہ مسکراہٹ اسپتال کے اسٹاف سے مخصوص ہے ۔ دوڑ کر فیصل کی طرف آتا ہے اور کہتا ہے ۔ ہاں جی کدھر؟

فیصل: جی ڈاکٹر گل یاسمین صاحبہ نے کل یہ پرچی دی تھی اور کہا تھا کہ آجانا اپریشن ہو جائے گا۔

اسپتال ملازم: جی جی میڈم صاحبہ بھیج دیتی ہیں ۔ کام سارا ادھر ہم نے ہی کرنا ہوتا ہے ۔ میرا نام شریف ہے ۔ میں یہاں وارڈ بوائے ہوں۔ لیاؤ پرچی۔

فیصل: یہ لیں جی

شریف : ہمم کافی لمبا کام ہے لیکن فکر نہ کریں میں ہوں ناں آپ کے ساتھ۔ آؤ میرے ساتھ۔

فیصل : جی (اور شریف کے ساتھ چل پڑتا ہے جو اسے سامنے نرسنگ ڈیسک کے گرد کرسیوں پر سفید یونی فارم میں کچھ خواتین براجمان ہیں ان کے پاس لے جاتا ہے)

شریف: (ان میں سے ایک سے مخاطب ہو کر) مٰیڈم صابرہ بات سنیں گی ذرا پلیز ؟

میڈم صابرہ : دیکھیے اگر آرزوئے خاطر میں احترام آدمیت کا احساس نہ ہوتا تو آپ کو سیدھا شٹ اپ کہنے کا مزاج تھا ہمارا۔ تھوڑا آرام سے بات کیا کیجئے براہ کرم

شریف: جی جی میڈم جی معاف کریں ناراض نہ ہوں ۔ یہ میرا کزن ہے اس کا مسئلہ دیکھ لیں ذرا۔ ڈاکٹر گل صاحبہ نے بھیجا ہے ۔

قریب ہی بیٹھی ہوئی نرس شازیہ اشرف سر اٹھا کرشریف کے ہاتھوں سے پرچی پکڑ لیتی ہے اور کہتی ہے ۔ آہو پتہ ہے مجھے جو تیرے کزن روز آتے ہیں ۔ خیر فیصل صاحب آپ سامنے بیڈ پر لیٹ جائیں میں آتی ہوں آپ کی فائل بنا کر۔لے پھڑ ماورا بنا فائل ۔ ماورا فائل بنانے لگتی ہے۔

فیصل : جی بہتر (کہہ کر بیڈ پر چلا جاتا ہے ۔ عبد الرؤوف اس کے ساتھ اسے بیڈ پر لیٹنے میں مدد کرتاہے۔ جبکہ شریف پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

شریف: جی صاحب جی ابھی میڈم آپ کی فائل لے آئے گی۔ خیر سے پھر ہمارے لائق کوئی اور حکم؟

فیصل : بہت شکریہ تمہارا بھائی ۔

شریف: جی صاحب جی رات براتی کوئی بھی مسئلہ ہو میں یہاں حاضر رہتا ہوں بس آواز دینی ہے۔

فیصل : (اشارہ سمجھ جاتا ہے اور جیب سے سو روپیہ نکال کر اسے دیتا ہے) اچھا اچھا ہاں تو یہ لو تمہاری بخشش ۔ کچھ ہوا تو بتاؤں گا ان شاء اللہ

شریف : مالکو جیتے رہو ۔ ہم غریبوں نے بھی یہیں سے کھانا ہوتا ہے نہیں تو ہماری تنخواہیں تو جناب اتنی کم ہیں کہ کوئی ان پر کام ہی قبول نہ کرے۔

ماوراء : جی فیصل صاحب بلڈ پریشر چیک کروائیں۔نبض ، بلڈ پریشر دیکھتے ہوئے پوچھا کوئی شوگر ۔ دل کا مسئلہ یا کچھ اور مسلہ وغیرہ؟

فیصل : جی نہیں ۔ بس یہ کندھے کا مسئلہ ہے ۔

ماوراء : ہوا کیا تھا؟

فیصل: وہ جی بارش میں موتر سائیکل سلپ ہو گئی تھی یہ مال کے پاس ۔ اللہ رکھ گیا ہیلمٹ پہنا ہوا تھا تو بچت ہو گئی نئیں تو ڈبہ پیک گھر جاتا۔

ماوراء: اچھا ۔ (ساتھ کے ساتھ کینولا لگا دیتی ہے) اور دو سرنجوں میں خون نکال کر اپنی ٹیبل پر لے جاتی ہے اور عبد الرؤوف کو اشارہ کرتی ہے کہ بات سنو۔

فیصل : عبد الرؤوف یار جاؤ سسٹر کی بات سنو کیا کہہ رہی ہے ۔

عبد الرؤوف: جی بھائی بہتر
(جاتا ہے اور چند لمحوں بعد واپس آتا ہے اس بار اس کے ہاتھ میں دو پرچیاں ہیں جن کے ساتھ سرنجیں لف ہیں )

عبد الرؤوف : یہ بلڈ سیمپل دیئے ہیں کہ جا کر اوپر لیبارٹری میں دے آؤ تاکہ بنیادی ٹسٹ ہو جائیں اور ساتھ یہ پرچی دی ہے کہ جا کر فارمیسی سے دوائیں لے آؤ۔

فیصل : (عبد الرؤوف کو پانچ ہزار کا نوٹ دیتے ہوئے) ٹھیک ہے ۔ جاؤ یہ پیسے بھی پاس رکھ لو شاید ضرورت پڑ جائے۔

عبد الرؤوف وہاں سے بلڈ سیمپل اور فارمیسی کی پرچی لے کر نکلتا ہے ۔ پوچھتا پاچھتا لیبارٹری پہنچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ اب بیٹھ کر انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ۔ کوئی پندرہ بیس منٹ انتظار کے بعد ایک سفید کوٹ پہنے ہوئے شخص لیبارٹری کی طرف آتا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ لیبارٹری ٹیکنیشن نبیل ہے ۔ آتے ہی بغیر کچھ پوچھے یا بتائے دونوں سیمپل عبد الرؤوف سے لیتا ہے اور اسے پرچی بنا کر دے دیتا ہے۔ ساتھ ہی اسے کہتا ہے تین گھنٹے بعد آنا رپورٹ لینے کے لئے ۔
وہاں سے نکل کر عبدالرؤوف سیدھا باہر فارمیسی پر جاتا ہے اور پرچی انہیں دے دیتا ہے ۔ وہ اسے رکو کہہ کر دوائیں نکال دیتے ہیں ۔ اس میں دو ڈرپس ، ایک کینیولا ، دو انجکشن ایک طرح کے ، ایک انجکشن دوسری طرح کا ہے ۔ بل کے دو ہزار روپے ادا کر کے عبد الرؤوف واپس وارڈ میں آ جاتا ہے ۔ اور آ کر تمام چیزیں سٹاف ماوراء کے حوالے کر دیتا ہے۔
5e8ea201d32d5.jpg

جاری ہے۔۔۔
 
Top