سلام اُس پر - احمد فراز

حسان خان

لائبریرین
حُسین!
اے میرے سربریدہ
بدن دریدہ
سدا تیرا نام برگزیدہ
میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے
دشمنوں کے نرغے میں
تیغ در دست دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
کہ تیرے سارے رفیق
سب ہمنوا
سبھی جانفروش
اپنے سروں کی فصلیں کٹا چکے ہیں
گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ہیں
ہوائے جانکاہ کے بگولے
چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ہیں
مسافرانِ رہِ وفا لُٹ لُٹا چکے ہیں
اور اب فقط تُو
زمین کے اس شفق کدے میں
ستارۂ صبح کی طرح
روشنی کا پرچم لیے کھڑا ہے
یہ ایک منظر نہیں ہے
اک داستاں کا حصہ نہیں ہے
اک واقعہ نہیں ہے
یہیں سے تاریخ
اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے
یہیں سے انسانیت
نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے
میں آج اسی کربلا میں
بے آبرو - نگوں سر
شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں
جہاں سے میرا عظیم ہادی
حُسین کل سرخرو گیا ہے
میں جاں بچا کر
فنا کے دلدل میں جاں بلب ہوں
زمین اور آسمان کے عزّ و فخر
سارے حرام مجھ پر
وہ جاں لُٹا کر
منارۂ عرش چھو گیا
سلام اُس پر
سلام اُس پر

(احمد فراز)
 
یہ ایک منظر نہیں ہے
اک داستاں کا حصہ نہیں ہے
اک واقعہ نہیں ہے
یہیں سے تاریخ
اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے
یہیں سے انسانیت
نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے
بےشک ۔۔۔کیا خوبصورت کہا ہے ۔
 
Top