سقوط ڈھاکہ ۔۔۔۔۔ 1971 کی یاد میں ۔۔۔۔۔ مختصر کہانی

اس کہانی کے سارے کردار فرضی ہیں، یہ خیالات کی بنیاد پر تخلیق کی گئ ہے۔

دھرتی ماں

1971۔۔۔۔۔۔۔۔

بنگلہ دیش۔۔۔۔۔۔ جو اس وقت تک پاکستان میں شامل تھا۔

اس نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا، رات کے دو بج رہے تھے۔ مگر نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ اس نے اردگرد نظر دوڑٖائ،اس کے فوجی دوست گہری نیند سو رہے تھے، دن بھر کی تھکا دینے والی مشقت کے اثرات ان کے چہروں پر نمایاں تھے۔ اس کی نظر ایک فوجی پر ٹھہر گئ، اسے یاد آیا کہ کل وہ کیسے فخر سے بتا رہا تھا کہ اس نے ایک بنگالی لڑکی کی عزت لوٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جوان اس کی باتیں سن کر شرم سے سرجھکائے ہوئے تھے، کچھ اس کی باتوں میں ایسے دلچسپی لے رہے تھے جیسے بہت بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہو۔

کل تک ہم اس دھرتی کے لوگوں کے رکھوالے تھے، اور آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب جوان بے بس تھے۔ پاکستان کے دوسرے حصے میں بیٹھے ایک ہٹلرنماں شخص نے حکم جاری کردیا تھا، کہ بغاوت کو روکو، چاہے اس کے لیے آخری حد تک جانا پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے سنا تھا، کہ نازی آرمی، نے یہودیوں کو اور جو ان کی نظر میں ناکارہ انسان تھے انھیں چن چن کر اور اذیت دے کر قتل کیا تھا۔ ان کو اکٹھا کر کے بڑی' بڑی فیکڑیوں میں لے جا کر بند کردیا جاتا، اور زہریلی گیس چھوڑ کر انھیں اذیت دے کر قتل کیا جاتا، مرد ہو ، عورت ہو یا بچے ہوں، کسی پر رحم نہیں کیا جاتا تھا۔

اسے بچپن سے سکھایا گیا تھا، کہ یہ دھرتی ہماری ماں ہے، یہ ماں ہمیں پالتی ہے، ہمیں کھانا دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماں کھانا دیتی ہے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے یاد آگیا۔۔۔۔

وہ دس سال کا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک دن جب وہ صحن میں آیا تو اس نے زمین پر اپنی ماں کو سویا ہوا پایا، اسے بھوک لگی تھی، وہ ماں کا کندھا پکڑے اسے ہلا رہا تھا۔۔۔۔۔ ماں اٹھو! مجھے کھانا دو، مجھے بھوک لگی ہے!۔۔۔ مگر ماں نہیں اٹھی۔۔۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔

اسے بعد میں پتا چلا کہ اس کے باپ نے اسکی ماں کو قتل کردیا تھا۔

اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح۔۔۔۔۔۔۔ فوجی جوان آپریشن کرنے کو تیار تھے۔۔۔ سڑک کے کنارے بنگالیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ آج پھر نیاء آپریشن کرنا تھا۔

وہ اپنے ایک فوجی ساتھی کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوا، وہ پیچھے تھا، کیونکہ جانتا تھا کہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔

کسی انسان کا خون بہانے کا حوصلہ نہیں تھا، اس کے دوست اکثر طعنہ دیتے تھے، کہ وہ غلطی سے فوج میں بھرتی ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے ساتھی فوجی نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ وہ دیکھ رہا تھا، کہ سامنے ایک عورت تھی۔ فائرنگ روکو!!!۔۔۔ وہ چیخا۔۔ اس کے ساتھی نے فائرنگ روکی، حیرت سے اسے دیکھا، اور اسے چھوڑ کر نئ جگہ آپریشن کرنے کو نکل گیا۔

عورت کی لاش صحن میں پڑی تھی۔

اندر سے ایک بنگالی بچہ آیا۔۔۔۔۔ اس نے اپنی ماں کا کندھا پکڑ کر ہلایا۔ وہ کہہ رہا تھا، ماں مجھے بھوک لگی ہے، کھانا دو۔۔۔۔

اس نے اپنی بندوق کی سنگین ، دھرتی ماں کے سینے میں پیوست کردی، اپنی فوجی ٹوپی اس کے اوپر رکھ دی۔۔۔۔۔ وہ بے بسی سے کچی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے، چھوٹے لڑکے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ دھرتی ماں کے لیے، ایک بچے سے اسکی ماں چھین لی تھی۔

۔

۔

عبدالباسط
https://www.facebook.com/notes/میری-تحریر-عبدالباسط/دھرتی-ماں/330872596933315
 
Top