سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا - عالم تاب تشنہ

راجہ صاحب

محفلین
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا

یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کو کوچ کر جانا

یہ انتقال ہے دشت بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا

تمہارا قرب بھئی دوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اتر جانا

ہر اک نفس پہ گزرتا ہے یہ گماں جیسے
چراغ لے کے ہواؤں سے جنگ پر جانا

عجب ہیں رزم کہ زندگی کے یہ انداز
اسی نے وار کیا جس نے بے سپر جانا

ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا

ہمارے دم سے ہی آوار گی شب تھی ہمیں
عجیب لگتا ہے اب شام سے ہی گھر جانا

زمانہ بیت گیا ترک عشق کو تشنہ
مگر گیا نہ ہمارا ادھر ادھر جانا
 

محمداحمد

لائبریرین
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا

یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کو کوچ کر جانا

بہت خوب۔۔۔۔!
 
Top