سفر بے منزل و بے انتہا کیا۔ اختر ضیائی

عمران خان

محفلین
سفر بے منزل و بے انتہا کیا
"نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا"

غرض مندی کے بازارِ ہوس میں
کسی کی بےوفائی کا گلہ کیا

خیالِ یار میں ہر دم پریشاں
مریضِ عشق پائے گا شفا کیا

الجھ کر عقل کے کارِ زیاں میں
دلِ ناداں تجھے آخر ملا کیا؟

توجہ ہے کبھی نہ ربط باہم
تعلق میں ہمارے اب رہا کیا

عمل میں گر نہ ہو اخلاص تو پھر
کہا کیا آپ نے، ہم نے سُنا کیا

سبھی محتاج ہیں اس در کے اختر
تونگر کیا، فقیرِ بےنوا کیا

اختر ضیائی
 
Top