اقتباسات سفال گر از بشریٰ سعید

عائشہ عزیز

لائبریرین
جب یوسف حکیم بیگم کو بارینہ کی موت کی خبر دے چکا تو ا س نے عمر سے بات کرنے کو کہا تھا۔ یوسف کے ہاتھ سے ریسیور لیتے ہوئے خدا جانے کیوں اس پر بدحواسی چھا رہی تھی۔ ان مانے جی سے اس نے سلام کیا۔
"بے جی! جو ہونا ہوتا ہے، وہ تو ہو کر رہتا ہے۔ تو بے حوصلہ نہ ہونا۔ جس کے بس میں جو تھا، وہ اس نے کر دیا، لیکن اللہ کی رضا تو ماننا پڑتی ہے۔"
دوسری جانب بوجھل خاموشی تھی۔ غالبا وہ رو رہی تھی، مگر عمر کو اس کے رونے کی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ممکن تھا اس نے ماؤتھ پیس اپنے منہ سے دور ہٹا دیا ہو۔ بہت دیر بعد حکیم بیگم نے ایک مختصر جملہ کہا جو عمر کو کسی چابک کی طرح لگا۔ وہ حیرت سے کنگ ہوگیا تھا۔ حکیم بیگم نے کہا تھا۔
"تو نے شک کیا نہ بیبا!"
وہ یہ کیسے کہہ سکتی تھی؟ وہ کیسے جانتی تھی کہ اس بار بھی وہ یقین کے امتحان میں ناکام رہا تھا۔ کیا حکیم بیگم کا یقین اتنا اٹل تھا کہ وہ بارینہ کے مرنے کی کوئی دوسری وجہ قبول کرنے پر تیار ہی نہیں تھی۔ پوچھے گچھے بنا ہی اس نے جان لیا تھا کہ عمر سے لغزش ہوگئی تھی۔ وہ منوں وزنی سل کے نیچے پسا جا رہا تھا۔
"پر بے جی! مہلت کتنی ہوگی یہ تو اس نے پہلے سے مقرر کر دیا ہے۔ اللہ ہی موت کو بھیجتا ہے اور اللہ اور اللہ نے ہی اس کا وقت طے کر رکھا ہے۔ موت کا تو کوئی علاج نہیں ہے۔"
"تو اللہ دی گل کرتا ہے تے فیر نئیں وی کہتا ہے۔ اللہ اگے 'نئیں' دا کی کم؟ (اللہ کے سامنے 'نہیں' کا کیا کام؟) یہ 'نئیں' تیرے میرے لئی ہے۔ تجھے تو بس یقین کرنا تھا، تجھ سے وہ بھی نہ ہوا۔"
وہ دونوں ہاتھوں میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر وہ حکیم بیگم اور اپنے یقین کا موازنہ کرنے لگا۔ حکیم بیگم نے جب بھی اللہ سے کچھ مانگا، کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہونا ممکن ہے یا ناممکن جبکہ وہ خود ہمیشہ اسی حساب کتاب میں الجھا رہتا تھا۔ اللہ سے وہ چیز کیوں مانگی جائے جو ہو ہی نہ سکتی ہو۔ وہ کبھی بھی ممکن اور ناممکن کے پھیرے سے آزاد نہیں ہو پایا تھا۔
"میرا یقین آدھا ادھورا کیوں ہے؟ وسوسوں سے ڈسا ہوا، راہ بھٹکا ہوا، سوتا جاگتا، میں نظر کے فریب میں کیوں آ جاتا ہوں؟ نظر آسمان تک دیکھ سکتی ہے، لیکن آسمان پر کائنات ختم نہیں ہوتی، کوئی حد ہےتو میری نظر کی ہے۔ کائنات کی کوئی حد نہیں، جو میری آنکھ سے اوجھل ہے وہ غیر موجود نہیں اور جو مجھے نظر آتا ہے وہ کُل نہیں۔ جہاں اوجھل اور ظاہر ملتے ہیں، جہاں وجود اور عدم وجود میں دوئی مٹتی ہے، جہاں کل اور جز ہم آغوش ہوتے ہیں، اس سرحد کو پار کرنے سے ہی بات بنتی ہے، بندھن وہیں ٹوٹتے ہیں، آزادی وہیں ہے۔"
بارینہ کے مرنے کے بعد کئی راتوں تک وہ پرسکون نیند نہیں سو سکا تھا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
"ہم تب خدا سے رجوع کرتے ہیں، جب دنیا ہمیں رد کر چکی ہوتی ہے۔تمام دروازوں سے دھتکارے جانے کے بعد ہم خدا کے در پر دستک دیتے ہیں۔ خدا ہمیشہ ہمارا سیکنڈ آپشن کیوں ہوتا ہے؟ ہماری اولین ترجیح ہمیشہ دنیا ہوتی ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ہم اس پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ترتیب کے رد و بدل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کتنی بڑی بھول ہے۔ ترتیب ہی تو اصل شے ہے۔ کون پہلے آتا ہے کون بعد میں، کھیل کا یہ بنیادی اصول ہی نظر انداز کر دیا تو باقی کیا رہ جاتا ہے، صرف بھگڈر اور بدحواسی۔"
 
Top