سعود عثمانی سعود عثمانی کی مسلسل غزل

میرے مہربان محترم سعود عثمانی صاحب کی مسلسل غزل

ہر ایک سے معرکہ پڑا تھا
کس عشق سے واسطہ پڑا تھا


وہ عشق' وہ شہرِ نارسائی
تھا سامنے اور چُھپا پڑا تھا


ہر راہ گذر میں خاک اڑائی
جا جا کر لَوٹنا پڑا تھا


جنگل ، صحرا ، پہاڑ ، دریا
اُس شہر کو ڈھونڈنا پڑا تھا


اک سبز ندی کے پار ، آخِر
وہ سرخ چمن سجا پڑا تھا


جیسے کسی برگِ مخملِیں پر
یاقوت کوئی کھلا پڑا تھا


اک خواب کو دیکھنے کی خاطر
برسوں مجھے جاگنا پڑا تھا




یہ شہر ِ طلسم دل کی صورت
ہمو ار تھا اور کُھدا پڑا تھا


کچھ میں بھی نیا نیا تھا اور کچھ
یہ بَوجھ نیا نیا پڑا تھا


آیا تھا تلاش میں کسی کی
اور خود کو ہی کھوجنا پڑا تھا


غربت کی کٹیلی ساعتوں میں
جو سچ تھا وہ ' جھیلنا پڑا تھا


یاں کوئی نہیں تھا کم کسی سے
یاں ایک سے اک بڑا پڑا تھا



ہر اک کا دوام نام کے ساتھ
تاریخ تھا ، اور لکھا پڑا تھا


دیکھو تو ذرا کہ تھا ہی کیا مَیں
اور کن سے مقابلہ پڑا تھا



سب مجھ سے نظر چرا رہے تھے
ایسا بھی میں کیا گِرا پڑا تھا ؟


کرتا بھی تو کس سے بات کرتا
ہر شخص یہاں دُکھا پڑا تھا


کُھلتا بھی تو کس طرح سے کُھلتا ؟
جب دل ہی الگ بَندھا پڑا تھا


تنہائی تھی اَو رایسی ویسی ؟
دل دوستوں سے بھرا پڑا تھا


خود سے بھی ٹَھنا ٹَھنی تھی میری
کیا جانے بجوگ کیا پڑا تھا


اب یاد نہیں کہ اُس نگر میں
کس کس سے معاملہ پڑا تھا


کہنے کو بس ایک دن تھا' لیکن
دل پر تو پہاڑ آ پڑا تھا


کیا خود کو بچاتا ٹوٹنے سے
یہ کام تو بس ہُوا پڑا تھا


جس سَمت کہیں کوئی نکل جائے
مَیں راہ میں جا بَہ جا پڑا تھا


ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ آخِر
خود کو مجھے جوڑنا پڑا تھا


اک اور سفر سے لَوٹ کر میں
اک اور سفر میں جا پڑا تھا


دونوں ہی تھکے ہوئے مسافر
یہ مَیں تھا، یہ راستہ پڑا تھا


تنہا تھا بہُت 'سو گھوم پھر کر
اک خواب کے دَر پہ آ پڑا تھا


میں ایسے پڑا تھا عشق کےپاؤں
جیسے کوئی آبلہ پڑا تھا


پھر زخم پرانے یاد آئے
دیکھا تو ہر اک ہَرا پڑا تھا


پھر گزرے زمانے یاد آئے
ہر پھول وہیں کِھلا پڑا تھا


جیسے تیسے گزر گیا دن
لیکن ابھی رَت جگا پڑا تھا


میں خرچ تو ہو رہا تھا 'لیکن
مجھ میں ابھی حوصلہ پڑا تھا


پہلو سے تھکن لپٹ رہی تھی
سینے سے یقیں لگا پڑا تھا


اشکوں کے الاو جل رہے تھے
صحراؤں میں قافلہ پڑا تھا


قطرہ قطرہ پگھلتا تھا مَیں
اور اپنے ہی زیرِ پا پڑا تھا

بجھتی ہوئی شمع جانتی تھی
جو کچھ تھا سبھی جلا پڑا تھا


میں راکھ تو ہوگیا تھا ' شاید
پھر بھی کہِیں کچھ بچا پڑا تھا


اک شعلہ ءخوش بدن کا پَرتَو
مجھ پر بھی ذرا ذرا پڑا تھا


جھونکا تھا ' بہار تھی کہ تُم تھے
چِھینٹا کسی لمس کا پڑا تھا


تکتا تھا مَیں اپنا عکس تم میں
اور سامنے آئنہ پڑا تھا


قربت بھی مٹا نہیں سکی تھی
جو بیچ میں فاصلہ پڑا تھا


رویا کئی بند توڑ کر میں
سیلاب کوئی رُکا پڑا تھا


بَرکھا کی برَستی بَرچھیوں میں
اس آگ کو بھیگنا پڑا تھا


وہ مِینہہ پڑا تھا پہلا پہلا
اور آخری مرتبہ پڑا تھا


بس ایک ہی دن بس ایک ہی رات
سب اس کے سِوا مٹا پڑا تھا


وہ دن تھا کہ وقت مُنجمِد تھا
جو مجھ کو گزارنا پڑا تھا


وہ شب تھی کہ تُند رَو ندی تھی
جس میں مجھے تَیرنا پڑا تھا


آسان تھا کیا ؟ سعُود صاحِب
جو کوہ تراشنا پڑا تھا


ویسے تو تمام عُمر ' لیکن
وہ ہجر بہت کڑا پڑا تھا

(سعُود عُثمانی)
 
Top