جاسم محمد
محفلین
سعودی عرب: گوگل اور ایپل متنازع ایپ پر خاموش
گوگل کمپنی نے ان خبروں پر خاموشی اختیار کیے رکھنے کو ترجیج دی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ کمپنی نے امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن کو بتایا ہے کہ ایک متنازع ایپ اس کے قواعد و ضوابط سے متصادم ہے۔
سعودی عرب میں ابشیر ایپ کے ذریعے مرد حضرات خواتین کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں سفر کرنے سے روک سکتے ہیں۔
امریکی کانگریس کی خاتون جیکی سپیئر کے دفتر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کی کہ گوگل سے گفتگو کے بعد انھوں نے اس ایپ کے بارے میں تحریری شکایت کی ہے۔
دوسری جانب گوگل نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مذکورہ ایپ فی الوقت گوگل اور ایپل ایپ سٹور پر دستیاب ہے۔
یہ ایپ جو سرکاری اہلکاروں کو بھی دستیاب ہے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کی ہے۔
یہ ایپ جہاں یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ آپ نے اپنے ڈرائیونگ لائسنس کی کب تجدید کرانی ہے وہیں آپ کے زیر کفالت خواتین کا اندراج کرنے کو بھی کہتی ہے۔ اس کے بعد اس ایپ کو اس لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ اپ نے انفرادی سفر کی اجازت دینی ہے یا نہیں۔
گوگل ارتھ کی دنیا
سعودی عرب میں خواتین کو اپنے مرد سرپرست عام طور پر والد یا خاوند سے بیرون ملک سفر کرنے سے پہلے اجازت لینی ہوتی ہے۔ یہ ایپ اب تک لاکھوں مرتبہ ڈاؤن لوڈ کی جا چکی ہے۔
اس برس فروری میں ایپل کے سربراہ ٹم کک نے این پی آر کو بتایا تھا کہ اس کی کمپنی اس بارے میں تحقیقات کرے گی۔
امریکی رکن کانگریس نے کہا کہ انھیں ایپل اور گوگل سے اس بارے میں جو وضاحت دی گئی ہے وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر وہ یہ کہیں وہ ان کمپنیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پاسداری میں ناکامی سے مایوس ہوئی ہیں تو یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔
سعودی عرب میں اس ایپ کے بارے میں رائے بہت منقسم ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک صارف نے لکھا کہ سعودی عرب میں مرد خواتین کو قابو میں رکھتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ قانون انھیں اس بات کی اجازت دیتا ہے، وہ نہ صرف ایسا کر سکتے ہیں بلکہ انھیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں اس کے لیے خواتین کے معاملات میں مخل ہونا پڑتا ہے اور اجازت دینی پڑتی ہے گور یہ ایپ انھیں یہ کام کرنے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔

گوگل کمپنی نے ان خبروں پر خاموشی اختیار کیے رکھنے کو ترجیج دی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ کمپنی نے امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن کو بتایا ہے کہ ایک متنازع ایپ اس کے قواعد و ضوابط سے متصادم ہے۔
سعودی عرب میں ابشیر ایپ کے ذریعے مرد حضرات خواتین کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں سفر کرنے سے روک سکتے ہیں۔
امریکی کانگریس کی خاتون جیکی سپیئر کے دفتر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کی کہ گوگل سے گفتگو کے بعد انھوں نے اس ایپ کے بارے میں تحریری شکایت کی ہے۔
دوسری جانب گوگل نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مذکورہ ایپ فی الوقت گوگل اور ایپل ایپ سٹور پر دستیاب ہے۔
یہ ایپ جو سرکاری اہلکاروں کو بھی دستیاب ہے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کی ہے۔
یہ ایپ جہاں یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ آپ نے اپنے ڈرائیونگ لائسنس کی کب تجدید کرانی ہے وہیں آپ کے زیر کفالت خواتین کا اندراج کرنے کو بھی کہتی ہے۔ اس کے بعد اس ایپ کو اس لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ اپ نے انفرادی سفر کی اجازت دینی ہے یا نہیں۔

گوگل ارتھ کی دنیا
سعودی عرب میں خواتین کو اپنے مرد سرپرست عام طور پر والد یا خاوند سے بیرون ملک سفر کرنے سے پہلے اجازت لینی ہوتی ہے۔ یہ ایپ اب تک لاکھوں مرتبہ ڈاؤن لوڈ کی جا چکی ہے۔
اس برس فروری میں ایپل کے سربراہ ٹم کک نے این پی آر کو بتایا تھا کہ اس کی کمپنی اس بارے میں تحقیقات کرے گی۔
امریکی رکن کانگریس نے کہا کہ انھیں ایپل اور گوگل سے اس بارے میں جو وضاحت دی گئی ہے وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر وہ یہ کہیں وہ ان کمپنیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پاسداری میں ناکامی سے مایوس ہوئی ہیں تو یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔
سعودی عرب میں اس ایپ کے بارے میں رائے بہت منقسم ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک صارف نے لکھا کہ سعودی عرب میں مرد خواتین کو قابو میں رکھتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ قانون انھیں اس بات کی اجازت دیتا ہے، وہ نہ صرف ایسا کر سکتے ہیں بلکہ انھیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں اس کے لیے خواتین کے معاملات میں مخل ہونا پڑتا ہے اور اجازت دینی پڑتی ہے گور یہ ایپ انھیں یہ کام کرنے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔