سر گزشت دل بے تاب سنا دی ۔ سرگزشت از عبدالمجید سالک ۔چوہدری لیاقت علی

سر گزشت دل بے تاب سنا دی ۔ سرگزشت از عبدالمجید سالک
چوہدری لیاقت علی

خرد میں مبتلا ہے سالک دیوانہ برسوں سے

صحافی، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، مزاح نگار، ادیب و شاعر عبد المجید جو قلمی نام عبدالمجید سالک کے نام سے اپنے قلم کا جادو بکھیرتے رہے؛ ۲۱ ستمبر 1893ءمیں مشرقی پنجاب کے ضلع بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ والد اور چچا دونوں کو شاعری سے شغف تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کیا کرتے تھے۔ اس علمی خانوادے کا اثر ان کی تحریر میں نظر آتا ہے۔ عبدالمجید سالک نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خاں کے اخبار ”زمیندار“ سے لیا۔ غلام رسول مہر کے ساتھ مل کر اپنا اخبار ”انقلاب“ جاری کیا جو برسوںآسمان صحافت پراپنی چھب دکھلاتا رہا۔ ان کی شہرت میں چار چاند ان کے مزاحیہ کالم ”افکار و حوادث“نے لگائے۔ عبدالمجید سالک ”زمیندار“ کے چیف ایڈیٹر تھے، لیکن بڑے بڑے سیاسی جلسوں کی رپورٹنگ خود کیا کرتے تھے۔ سالک بہت سے رسائل کے مدیر رہے جن میںماہنامہ "فانوسِ خیال" لاہور ، ماہنامہ "تہذیبِ نسواں" لاہور اور ماہنامہ "پھول" لاہور شامل ہیں ۔ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ وہ جس محفل میں ہوتے اسے اپنی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے باغ و بہار بنا دیتے، وہ ایک عمدہ شاعر بھی تھے ۔ عبدالمجید سالک نے بہت مختلف النوع مو ضوعات پر لکھا ۔ اپنے انداز تحریر سے انہوں نے اردو کا دامن بہت سے اہم پھولوں سے بھرا ۔ ان میں شاعری کا ایک مجموعہ راہ و ررسم منز لہا اور نثر کی بہت سی اہم کتابیں جن میں یاران کہن، ذکر اقبال، آئین حکومت ہند، قدیم تہذیبیں،مسلم ثقافت ہندوستان میں، تشکیل انسانیت اور دو تراجم بوڑھا بگولہ اور چترا شامل ہیں۔اس ہمہ جہت ادیب ، شاعر و صحافی نے 27 ستمبر1959ءمیں وفات پائی۔

وہ ہے حیرت فزائے چشم معنی ، سب نظاروں میں

زیر نظر کتاب سرگزشت جو عبدالمجید سالک کے ذاتی تاثرات اور یاد داشتوں پر مشمول ہے؛ قسظ وار پہلے امروز اور پھر نوائے وقت میں شائع ہوئی۔ عبدالمجید سالک کی اس لاجواب تحریر پر چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ”آبِ صافی کا ایک چشمہ ہے جو اپنی رو میں بہتا چلا جاتا ہے۔“ یہ کتاب ایک عہد کی داستان ہے جو 20 ویں صدی کی چار دہائیوں پر محیط ہے۔ اس داستان میں 1902ءسے لے کر 1947ءکے دوران پنجاب، تحریک پاکستان اور صحافت کی تاریخ میں ہونے والے اہم واقعات اورنامور لوگوں کا ذکر شامل ہے۔اپنی زندگی اور اس کے گرد رونما ہونے والے واقعے لکھنا بیک وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ آسان ہے دوسروں کے بارے میں لکھنا اور مشکل ہے اپنے بارے میں لکھنا۔ اپنے بارے میں لکھنا شدید دباﺅکا کام ہے ۔ بہت سارے دباﺅ، ضمیر، اولاد، رشتہ دار، دوست احباب غرض ایک نہایت ایم مرحلے ہے ۔ تاہم سالک صاحب نے اپنے بارے میں بھی ”سچ“لکھا۔ بقول چراغ حسن حسرت ”مصنف نے جو تحریکیں دیکھی ہیں، جن محفلوں میں بیٹھا ہے، جن لوگوں سے ملا ہے، ان کے حالات بڑے سیدھے سادے انداز میں بیان کرتا چلا گیا ہے، وہ اشارے کنائے کا سہارا بھی نہیں لیتا، جو کہتا ہے بڑی بے تکلفی سے کہتا ہے“۔

اس زمانے کی صحافت کے اسرار و رموزہوں یا مسلم لیگ و کانگریس کی تشکیل کے ابتدائی مراحل۔مسلم لیگ کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی کہانی ہو(جب میاں شفیع اور علامہ اقبال ایک دھڑے کے صدر و سیکرٹری تھے تو دوسری طرف قائد اعظم اور سیف الدین کچلو دوسرے مسلم لیگی دھڑے کے صدر و سیکرٹری تھے) یا کانگریس کے منقسم ہونے کی داستان ( جب ابو الکلام آزاد اور مہاتما گاندھی ایک طرف تھے تو سی آر داسی اور موتی لال نہرو جیسے لبرل راہنما دوسری طرف)اس کتاب میں بہت سی تحاریک کا احوال مفصل طور پر ملتا ہے۔ مولانا نے ہندو مہاسبھائیوں کے حمایتی اخبار ”پرتاب“ بارے دلچسپ جملہ لکھ کرہماری تاریخ کو کوزے میں بند کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا جب ”پرتاب “جاری ہوا تھا۔ اس کتاب میں بہت سے نامور لوگوں کا احوال ملتا ہے۔ حالی و شبلی، مولانا محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد، اقبال، حسرت موہانی، ابو لاکلام آزاد، سروجنی نائڈو، ٹیگور الغرض بہت سی اہم شخصیات اس داستان کے کناروں سے جھانکتی ملیں گی۔ شخصیات کے لحاظ سے اگر اعشاریہ بنایا جائے تو ایک اہم خدمت ہو گی۔ سالک کے دور کے پنجاب کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب ایک اہم حوالہ ہے۔ کتاب میں نا صرف سنجیدہ واقعات اور تاثرات نظر آتے ہیں؛ بلکہ چند حقیقی لطائف بھی سالک کے ذوق کی عکاسی کرتے ہیں۔ مولانا کا ایک کالم جو زمیندار اخبار میں چھپتا تھا؛ اردو صحافت میں ایک نئی طرز کا بانی بنا۔نومبر 1921ءمیں عبدالمجید سالک زمیندار اخبار میں ایک کالم لکھنے کی پاداش میں جیل پہنچ گئے ۔اپنی سر گزشت کے اختتام پر وہ فرماتے ہیں: ” 14اگست کو پاکستان قائم ہوگیا، اس کے بعد کی سرگزشت لکھنا بے حد دشوار ہے، میں ابھی اپنے دل و دماغ اور اپنے قلم میں اتنی صلاحیت نہیں پاتا کہ جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا اور بساط سیاست پر شاطرین نے جو چالیں چلیں ان کو قلم بند کرسکوں اور شاید اس سرگزشت کو فاش انداز سے لکھنا ممکن بھی نہیں“۔ اس فکر انگیز صحافی ، ادیب اور شاعر کو دنیا کی بے ثباتی کا اندازہ پہلے ہی ہو گیا تھا۔ تبھی تو وہ فرما گئے ہیں:

ہمارے بعد ہی خون شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہو ں گے
 
آخری تدوین:
Top