سرِ جادہ وہی منزل کا نشاں ہے کہ جو تھا

نیستی عالمِ کیفِ دل و جاں ہے کہ جو تھا
ہست سودائے سر و خوابِ گراں ہے کہ جو تھا

غازۂ راہ شناسی ہے کہ اترا جائے
سرِ جادہ وہی منزل کا نشاں ہے کہ جو تھا

پھر تخیل کسی طوفاں کی ہے موجوں پہ سوار
وردِ لب ریگِ رواں ریگِ رواں ہے کہ جو تھا

بارہا دہر نے اوقات دکھائی ہے مجھے
بارے اپنے مگر اک حسنِ گماں ہے کہ جو تھا

مشتری کی ہے خطا یا ہے فروشندہ کا سہو
جنسِ ہستی وہی سودائے زیاں ہے کہ جو تھا

کب سر و برگِ گل و برگ و شجر ہے مجھ کو؟
سایۂ شعر میں سب حال نہاں ہے کہ جو تھا

اپنے حالات کی مجھ کو ہی نہیں کوئی خبر
سارے عالم پہ مرا حال عیاں ہے کہ جو تھا

آب کہتے ہیں جسے ہے وہ گدازِ آتش
خاک میں شعلۂ آتش نفساں ہے کہ جو تھا

دو ہی موسم ہیں فقط گلشنِ عالم کا نصیب
خوفِ پاییز پئے فصلِ خزاں ہے کہ جو تھا
 
آخری تدوین:
بہت خوب ریحان بھائی
بارہا دہر نے اوقات دکھائی ہے مجھے
بارے اپنے مگر اک حسنِ گماں ہے کہ جو تھا

اپنے حالات کی مجھ کو ہی نہیں کوئی خبر
سارے عالم پہ مرا حال عیاں ہے کہ جو تھا
 

لاریب مرزا

محفلین
بہت خوب ریحان بھائی!! :)

بہت خوب ریحان بھائی
تابش بھائی، ہمیں بھی پوری غزل میں سے یہی دو اشعار آسانی سے سمجھ میں آ سکے ہیں۔ :)

ریحان بھائی، اتنے مشکل کام ابھی سر انجام دیں گے تو بڑے ہو کر کیا کریں گے؟؟ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریحان بھائی ، بہت اچھی کاوش ہے ۔ ایک دو اچھے شعر ہیں لیکن غزل مجموعی طور پر مؤثر نہیں لگی ۔ جابجا ابلاغ کا مسئلہ ہے ۔
پہلی بات تو یہ کہ ردیف ہر شعر میں بامعنی طور پر فِٹ نہیں ہورہی ۔ دوسری اور سب سے نمایاں بات یہ کہ اکثر اشعار میں رعایات کا کوئی التزام نہیں جس کی وجہ سے نہ صرف تشبیہات اور استعارے عجیب و غریب محسوس ہورہے ہیں بلکہ ابلاغ کو مشکل بنار ہے ہیں ۔

غازۂ راہ شناسی ہے کہ اترا جائے
سرِ جادہ وہی منزل کا نشاں ہے کہ جو تھا
غازۂ راہ شناسی؟!! یہاں غازہ کا کوئی سیاق و سباق ، کوئی تلازمہ کوئی اشارہ کنایہ سرے سے موجود نہیں ۔

بارہا دہر نے اوقات دکھائی ہے مجھے
بارے اپنے مگر اک حسنِ گماں ہے کہ جو تھا
یہ شعر صاف ہے ۔ پہلے مصرع میں اگر مجھے کے بجائے مری ہو تو زیادہ بہتر ہے ۔ ’’بارے اپنے ‘‘ محلِ نظر ہے ۔ شاید اپنے بارے میں کہنا چاہ رہے ہیں ۔

پھر تخیل کسی طوفاں کی ہے موجوں پہ سوار
وردِ لب ریگِ رواں ریگِ رواں ہے کہ جو تھا
ریگِ رواں وردِ لب ہے ؟! تھا کا صیغہ وردِ لب کے لئے ہی ہوسکتا ہے کیونکہ ریگِ رواں تو مونث ہے ۔ پھر دونوں مصرعوں کا ربط شعر میں واضح نہیں کیا گیا ۔

مشتری کی ہے خطا یا ہے فروشندہ کا سہو
جنسِ ہستی وہی سودائے زیاں ہے کہ جو تھا
ایک تو فروشندہ اردو میں مستعمل نہیں ۔ دوسرے مشتری بھی نسبتاً غیر معروف ہے ۔ ریحان بھائی ، غزل کی زبان نفاست اور نزاکت چاہتی ہے ۔ الفاظ کا چناؤ شعر کو ڈبو بھی سکتا ہے اور نکھار بھی سکتا ہے ۔ الفاظ ہی قاری کے ذہن میں تصویر بناتے ہیں اور شاعر کے تخیل کا ابلاغ کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ مصرع دیکھئے:
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
یہاں شبنم کی جگہ اوس رکھ کر دیکھئے ۔ ذہنی تصویر یکسر بگڑ جائے گی ۔

کب سر و برگِ گل و برگ و شجر ہے مجھ کو؟
سایۂ شعر میں سب حال نہاں ہے کہ جو تھا
پہلا مصرع چیستان بن گیا ہے ۔ یہ سر کے بعد واؤ عطف ہے یا یہ لفظ سرو (درخت) ہے؟!

آب کہتے ہیں جسے ہے وہ گدازِ آتش
خاک میں شعلۂ آتش نفساں ہے کہ جو تھا
خیال اچھا ہے لیکن ایک تو ردیف ساتھ نہیں دے رہی ۔ دوسرے محض گداز کہہ دینے سےبات نہیں بنے گی ۔ کوئی ایسی رعایت تو ہو کہ جو آتش اور آب کو مربوط کرسکے ۔

دو ہی موسم ہیں فقط گلشنِ عالم کا نصیب
خوفِ پاییز پئے فصلِ خزاں ہے کہ جو تھا
کیا پاییز اور خزاں ایک ہی چیز نہیں ؟ تو پھر خوفِ خزاں پئے فصلِ خزاں کیا معنی ؟ دوسرے یہ کہ پاییز اردو کا لفظ نہیں ۔

امید ہے کہ اس تبصرہ کو مثبت انداز میں لیں گے ۔ ریحان بھائی ، آپ کی شاعری میں بہت امکانات ہیں اور اچھی شاعری کی صلاحیت بھی ہے ۔ لیکن آپ خاص طور پر ابلاغ کے مسئلے پر توجہ دیں ۔ نیز غزل کی زبان و بیان جو سلاست اور نفاست مانگتے ہیں وہ غرابت لفظی اور تعقید کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اگر کوئی بات بری محسوس ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔
 
امید ہے کہ اس تبصرہ کو مثبت انداز میں لیں گے ۔ ریحان بھائی ، آپ کی شاعری میں بہت امکانات ہیں اور اچھی شاعری کی صلاحیت بھی ہے ۔ لیکن آپ خاص طور پر ابلاغ کے مسئلے پر توجہ دیں ۔ نیز غزل کی زبان و بیان جو سلاست اور نفاست مانگتے ہیں وہ غرابت لفظی اور تعقید کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اگر کوئی بات بری محسوس ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں
آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے اس حقیر کاوش پر توجہ فرمائی. دراصل مجھے خود بھی اندازہ ہے کہ یہ اشعار بہت اچھے نہیں مگر بہت عرصے بعد کچھ لکھا تو سوچا کہ پوسٹ بھی کر ہی دیتا ہوں.
 
آخری تدوین:
Top