سرِ تسلیم خم ہے از ڈاکٹر تصدق حسین راجا

فرحت کیانی

لائبریرین
'اطاعت و بندگی تک کا کٹھن سفر'
اس دور کے مسلمان کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ اسے قرآن کی قربت حاصل نہیں۔ اس نے اسے اب تک تو ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر رکھا تھا اب اسے ڈرائنگ روم میں رکھی ہوئی اس کی کتابوں میں بطورِ نمائش جگہ مل گئی ہے۔
قرآن بقول حضرت مفتی محمد شفیع مد ظلہ خود پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ " مجھے جشنوں، جوبلیوں سے بچاؤ کہ یہ میرے مزاج کے خلاف ہے۔۔۔۔۔ میں تو وہ سینے ڈھونڈتا ہوں جو میری یاد سے منور تھے، وہ زبانیں تلاش کرتا ہوں جو میری تلاوت سے حلاوت پاتی تھیں وہ آنکھیں چاہتا ہوں ہوں جو میری تلاوت سے پرنم ہو جایا کرتی تھیں؀"۔
اور قرآن نے اپنے نزول کی غرض و غایت یوں بیان کی ہے : " اے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کی طرف یہ با برکت کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور اربابِ عقل و فراست صحیح نتائج اخذ کر کے عبرت اور نصیحت حاصل کریں (29:38 )

مفکرِ قرآن حضرتِ اقبال نے فرمایا:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس قدر فقیہاںِ حرم بے توفیق​

علامہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے جا رہے تھے ، ہندوستان ٹائمز کے نمائندے نے سوال کیا کہ وہ اس کانفرنس میں کیا خاص شے لے کر شریک ہو رہے ہیں۔ اقبال نے جواب دیا :" میرے پاس اور کچھ نہیں لیکن قرآن ہے میں اس کو پیش کروں گا"۔
جس روز ہم نے اپنے آپ کو قرآن کے مطابق ڈھال لیا، جس روز مسمان کا یہ ٹوٹا ہوا رشتہ کلامِ ربانی سے دوبارہ جڑ گیا اس روز اس پوری اُمہ میں انقلاب آ جائے گا۔ جس انقلاب کے سامنے پھر کوئی عالمی نظام نہیں ٹھہر سکتا کہ یہ انہیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔

لینگ نے قرآنِ حکیم کی سورت 93 پہلی بار پڑھنے پر ان جذبات کا اظہار کیا:
"قرآنِ پاک کے صفحات میں میری ملاقات اپنے آپ سے ہوئی اور جو کچھ مجھے اپنے آپ میں نظر آیا میں اس سے خوف زدہ تھا، میری رہنمائی کرتے کرتے مجھے ایک ایسے کونے میں لا کھڑا کر دیا گیا جہاں منتخب کرنے کا صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہو"۔

سرِ تسلیم ِ خم ہے از ڈاکٹر تصدق حسین راجا کے دیباچہ 'اطاعت و بندگی تک کا کٹھن سفر' سے اقتباس ا
 
Top