سرمد کو اس سے کیا۔۔۔ وسعت اللہ خان

سرمد کو اس سے کیا کہ اس کا ٹکٹ کس نے خریدا، کتنے میں خریدا، جہاز میں اس کی امی کو ملا کر کتنے لوگ سوار ہیں۔ وہ تو ابھی صرف بیس تک گننا جانتا ہے۔ وہ تو بس پاس بیٹھی امی کی گھورتی نگاہوں سے بچ بچ کر یہ سوچتے سوچتے سیٹ بیلٹ کے اندر سے بار بار نکلے جا رہا ہے کہ نانی امی اور خالہ اور خالہ کے دو بچوں سے ملنے اسلام آباد جا رہا ہے۔
سرمد کو اس سے کیا کہ وہ کس ساخت کے جہاز میں بیٹھا ہے، کس کمپنی کے جہاز میں بیٹھا ہے، کتنے نئے یا پرانے جہاز میں بیٹھا ہے، اس کا لائسنس کون دیتا ہے، زندہ رہنے کا لائسنس کون دیتا ہے، مارنے کا لائسنس کون دیتا ہے، پائلٹ کسے کہتے ہیں، کنٹرول ٹاور کیا بلا ہے، بادل کیسے قتل کرسکتے ہیں۔ سرمد تو بس آتے جاتے ٹرالی پر جوس لانے والی آنٹی کی مسکراہٹ پہچانتا ہے۔

وہ تو بس یہ تصور کرکے خوش ہے کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں اوروں کے علاوہ منگو سے ملاقات ہوگی جس نے پچھلی دفعہ سونڈ اٹھا کر سرمد کو سلام کیا تھا۔ سرمد نے اس سلام پر حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے خوب تالیاں بجائی تھیں۔ اور پھر سرمد نے منگو کی سونڈ سے ہاتھ ملا کر دوستی بھی کرلی تھی۔
سرمد کا تصورِ چینل تو بس اتنا ہے کہ ٹی وی پر چھوٹا بھیم، سپائیڈر مین اور ٹام اینڈ جیری آتے ہیں۔ اس کو تو یہ پتا ہے کہ کارٹون نیٹ ورک پر جہاز زوں کرکے اڑتا ہے۔ گرتا تھوڑی ہے۔۔۔
سرمد اسلام آباد پہنچ تو گیا مگر سرمد کو پتا بھی نہیں چلا کہ وہ اسلام آباد پہنچ گیا۔ صرف نانی امی، دو خالائیں اور ان کے دو بچے جانتے ہیں کہ سرمد آیا ضرور مگر ملے بغیر ہی چلا گیا۔
ٹکڑے ٹکڑے عمروں کی مسکان پڑی تھی
جان بدن سے دور کہیں انجان پڑی تھی
کسی کی آنکھوں میں پتھرائی حیرانی تھی
کہیں کہیں کوئی آنکھ بہت سنسان پڑی تھی
ایک طرف اک پرس پڑا تھا گڑیا کا
ایک طرف اک گڈے کی بنیان پڑی تھی
پتی پتی پھول ہوا میں بکھر گئے تھے
اور زمیں پہ جھلسی ہوئی پہچان پڑی تھی
کس چوڑی میں کس کے ہاتھوں کا ریشم تھا
کس جوتے میں کن پیروں کی شان پڑی تھی
کوئی جگر تھا، کوئی کلیجہ اپنی ماں کا
کس تابوت میں جانے کس کی جان پڑی تھی
(فاضل جمیلی)
 
Top