سردار عبدالرب نشتر

سردار عبدالرب نشتر13 جون1899 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔14 فروری1958 کو کراچی میں فوت ہوئے۔ 1918ءمیں مشن ہائی سکول میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ایڈورڈ کالج سے گریجویشن کی۔علی گڑھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری1925 میں حاصل کی۔1928 سے 1931ءتک انڈین نیشنل کانگرس کے رکن رہے۔1929ءسے 1938ء تک پشاور میونسپل کمیٹی کے کمشنر رہے۔1932ءمیں آل انڈین مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
سردار عبدالرب نشتر کی زندگی ایک باکردار زندگی تھی۔ ان کی سیاست پاکیزہ، بے لوث، بندگان خدا کی خدمت سے سرشار، اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہنے والی سیاست تھی۔ ان کے دوست دشمن سبھی کہتے ہیں کہ وہ دیانتدار تھے،ایثار پیشہ تھے،لسانی اور فرقہ بندی سے یکسر پاک اور آزاد تھے، غیر متعصب تھے،جمہوریت اور قانون پسند تھے، سردار عبدالرب نشتر عام لوگوں کے حالات معلوم کرنے کےلئے خود انہی کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔ شاہی قلعہ لاہور کا مرکزی دروازہ طویل عرصے سے بند پڑا تھا اور انگریز اسے اسلامی فن تعمیر سے تعصب کی بنا پر عام لوگوں کےلئے نہیں کھولتے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد سردار عبدالرب نشتر نے ہی اسے کھلوایا۔ سردار عبدالرب نشتر نے ہندوﺅں کی جانب سے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی شدھی اور سنگھٹن تحریکوں کے مقابلے کےلئے ادارہ تبلیغ اسلام بنایا۔ پنجاب مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سیالکوٹ میں قائداعظم محمد علی جناح نے انگریزی میں تقریر کی۔ اس کے بعد سردار عبدالرب نشتر کو اس کا اردو میں ترجمہ کرنے کی دعوت دی گئی چنانچہ آپ نے نہایت فصیح و بلیغ اردو میںاس کا ترجمہ کیا۔ بعد ازاں قائداعظم نے سردار عبدالرب نشتر کو بلوا کر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میری تقریر کا رواں ترجمہ کر کے اس کا حق ادا کر دیا۔ سردار عبدالرب نشتر کا اہم کردار قرارداد مقاصد کی منظوری ہے۔ یہ قرارداد پاکستان کے آئین کا حصہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سردار عبدالرب نشتر پہلی کابینہ میں وزیر مواصلات بنے۔ یہی وہ کا بینہ تھی جس نے میانوالی ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی منظوری دی تھی جو بعد ازاں کالا باغ ڈیم منصوبہ کہلایا۔ سردار عبدالرب نشتر پنجاب کے دوسرے گورنر تھے۔ بطور گورنر پنجاب آپ2 اگست 1949 تا24 نومبر1951ء فائز رہے۔ آپ کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے کہنے پر مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں سردار عبدالرب نشتر جیسے عظیم لوگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔
ہمارے ممدوح جناب ”عبدالرب“ نے شعر و سخن کیلئے اپنا تخلص ”نشتر“ تجویز کیا۔ یہ وہ نشتر تھا جو اصلاح معاشرہ کا کام دیتا تھا۔ یہ وہ نقد و نظر تھی جو اپنی آنکھ کے شہتیر دکھاتی تھی تاکہ پہلے خود احتسابی کی تربیت ہو جائے۔ ایسے ہی لوگ امن و سلامتی کے پیکر ہوا کرتے ہیں اور مر کر بھی نہیں مرتے۔ سلامتی ہو ان کے دنیا میں آنے پر اور سلامتی ہو رحمت ہو تاقیامت ان کی مرقد پر۔

تحریر جسٹس (ر) ڈاکٹر منیر احمد مغل ۔
 
Top