سردار آصف احمد علی پاکستان عوامی تحریک میں شامل ہو گئے

الف نظامی

لائبریرین
سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے جمعہ کو پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کی ۔اس موقع پر انہوں نے پاکستان عوامی تحریک میں شمولیت کا اعلان کیا ۔ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سردار آصف احمد علی نے کہا کہ جمہوریت چند خاندانوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں خونی نہیں، خوشبو کا انقلاب آئے گا۔
sardar-asif-ahmed-PAT_6-27-2014_152126_l.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین

Sardar-Asif-Ali-Join-PAT_2014-06-27_03.jpg


پاکستان میں جمہوریت دو چار خاندانوں کی لونڈی اور ریاست یر غمال بن چکی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دس نکات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے قافلہ انقلاب میں شامل ہو گیا ہوں۔ سانحہ ماڈل ٹاون میں جلیانوالا باغ کے قتل عام کو شرمندہ کر دیا۔ پنجاب پولیس شہریوں کی محافظ نہیں بلکہ شریف برادران کی ملیشیا بن گئی ہے۔ شہباز شریف پاکستان کیلئے خطرے کی علامت بن گئے۔ ساٹھ ہزار شہریوںاور فوجی جوانوں کو شہید کرنیوالے دہشت گردوں سے 8 ماہ مذاکرات کر کے ظلم کیا۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے گذشتہ روز ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء اور زخمیوں کے خاندانوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف پنجاب کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کیلئے خطرہ بن چکے ہیں کیونکہ انکا ہاتھ خون سے رنگ چکا ہے۔ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں جس طرح دہشت اور درندگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کی مثال انگریز دور میں ہونے والے جلیانوالا باغ میں بھی نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس اب فیصلہ کرے کہ شریف برادران کی میلشیا بن کر رہنا ہے یا عوام کی محافظ۔
 
سردار پہلے مشرف کے سات پھر عمران پھر قادری
تنزلی کی مثال بہترین ہے
مشرف صاحب کے ساتھ نہیں رہے۔
2 بار (1985 اور 1990) آزاد ممبر کے طور پر الیکشن جیتا، ایک بار مسلم لیگ میں شامل ہوئے پھر (1993) جونیجو لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور وزیر خارجہ رہے۔ 2008 میں پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا، وزیر بنے اور 2 سال بعد استعفی دے دیا۔ پھر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور الیکشن سے پہلے اپنے پرانے حلقے سے ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔

ایف سی کالج کے لیکچرر شپ سے عوامی سیاست میں آنے والے 74 سالہ آصف احمد علی کی خوبی یہ رہی کہ کسی فوجی آمر کا ساتھ نہیں دیا۔ 1985 کی اسمبلی میں بھی حزب مخالف کے رکن رہے اور 2002 میں الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا۔

آگے دیکھتے ہیں کہ کیا کرتے ہیں۔
 
مشرف صاحب کے ساتھ نہیں رہے۔
2 بار (1985 اور 1990) آزاد ممبر کے طور پر الیکشن جیتا، ایک بار مسلم لیگ میں شامل ہوئے پھر (1993) جونیجو لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور وزیر خارجہ رہے۔ 2008 میں پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا، وزیر بنے اور 2 سال بعد استعفی دے دیا۔ پھر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور الیکشن سے پہلے اپنے پرانے حلقے سے ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔

ایف سی کالج کے لیکچرر شپ سے عوامی سیاست میں آنے والے 74 سالہ آصف احمد علی کی خوبی یہ رہی کہ کسی فوجی آمر کا ساتھ نہیں دیا۔ 1985 کی اسمبلی میں بھی حزب مخالف کے رکن رہے اور 2002 میں الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا۔

آگے دیکھتے ہیں کہ کیا کرتے ہیں۔

فوجی امریت کا ساتھ نہ دینا تو قابل تعریف ہے مگر قادری کے ساتھ شامل ہوجانا اس کی پرانی پالیسی سے متضاد نہیں؟
ویسے اتنی بری کارکردگی نہیں ہے اسکی
 
سردار نے ایک دفعہ سود کے حق میں بھی بیان دیا تھا۔ غالباً نواز کے دور میں
کیا پتہ اسی بیان کو یاد رکھتے ہوئے محترم طاہر القادری صاحب نے انھیں عوامی تحریک میں خوش آمدید کہا ہو۔ موصوف بھی کینڈین مسلمانوں کے لیے سود کو جائز قرار دے چکے ہیں۔:sneaky:
 
یعنی سود کھانے کو یا سود دینے کو؟
کوئی 10 سال پہلے ایک خبر نظر سے گزری تھی کہ کچھ بھارتی علما (اب یاد نہیں کون سے فقہ کے تھے) بھی غیر مسلم ملکوں کے بینکوں (خصوصاً بھارت ) میں مسلمانوں کی جمع شدہ رقم پر سود لینے کو جائز قرار دے چکے ہیں۔ ان کی منطق یہ تھی کہ کہ اگر مسلمان یہ سود بینکوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو یہی رقم وہاں کی حکومتیں مسلمانوں کے خلاف (مثلاً کشمیر میں ) استعمال کر سکتی ہیں ۔
لیکن اس رقم کا استعمال پھر کہاںکیا جائے اس بارے کوئی وضاحت دستیاب نہیں تھی ۔
 
آخری تدوین:
Top