سدھر جاؤ

Mehmal

محفلین
خوش حال زندگی کون گزارنا نہیں چاہتا۔ خوش حال زندگی کے لیے ہر کوئی کوشش اور محنت کرتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاتے سوچتا اور سو طرح کے منصوبے بناتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی کوشش اور سوچ کا ثمرہ محدود رہتا ہے اور ان حد دولت اس کے پاس آ نہیں پاتی۔ آنکھ کی سیری نہ ہونے کے باعث پریشانی بےسکونی اور گھر میں باہمی غلط فہمیوں کے سائے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ سب کچھ میسر ہونے کے باوجود مایوسی کی فضا طاری رہتی ہے۔ قناعت کا آئینہ اندھا ہو جاتا ہے اور شخص اپنی حقیقی صورت دیکھنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔

لالے کرم دین کے شریف اور بھلامانس ہونے میں قطعی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ زبردست مشقتی تھا۔ وہ میسر پر گزارا کرنے والا شخص تھا لیکن اس کے بیوی بچے اس قماش کے نہ تھے۔ وہ دنیا کی ساری دولت گرہ کر لینے کی ہوس رکھتے تھے۔ اس کا محنتانہ ان کی ہوس کے پاسنگ نہ تھا ۔ ان کی اس ہوس کے باعث گھر میں ہر وقت بےچینی اور بےسکونی کی کیفیت طاری رہتی۔

وہ اکثر سوچتا آخر اس کا جرم کیا ہے جو اس کے اپنے گھر والے اسے سزا دے رہے ہیں۔ فارغ تو نہیں رہتا۔۔۔۔ جوا نہیں کھلتا۔۔۔۔ شراب نہیں پیتا۔۔۔۔ عورتوں کے پیچھے نہیں جاتا۔۔۔۔ سارا دن مشقت کرتا ہے اور جو میسر آتا ہے ان لوگوں پر خرچ کر دیتا ہے۔ یہ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ خدمت تو دور رہی‘ ان کے پاس تو اس کے لیے ایک مسکراہٹ تک نہیں۔ جب دیکھو گلے شکوے‘ بول بولارا۔ آخر اس کا جرم کیا ہے۔ اس نے کیا کیا ہے جس کی یہ لوگ اسے سزا دے رہے ہیں۔

اس روز اس نے طے کر لیا کہ شیداں سے ضرور پوچھے گا کہ اس کا جرم کیا ہے اور وہ کیا کرے کہ اس کی زبان بند ہو جائے۔

قدرتی بات تھی کہ اس روز جانے کیوں شیداں کا موڈ خوشگوار تھا۔ اس نے موقع کو غنیمت جانا اور شیداں سے پوچھ ہی لیا کہ اس میں کیا پرائی اور خرابی ہے کہ وہ ہر وقت ٹکوا لے کر اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے اور وہ کیا کرے جس سے گھر میں سکھ اورشانتی کی فضا قائم ہو۔
شیداں نے جوابا کہا کہ وہ سدھر جائے اپنی ان حرکتوں سے باز آ جائے۔
اس نے کہا یہ ہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ کن حرکتوں سے باز آ جاؤں۔
اپنی کمائی غیروں پر خرچ کرنا بند کر دو۔ اپنے بچوں کا حق نہ مارو۔
تم کن غیروں کی بات کر رہی ہو جن پر میں اپنی کمائی ضائع کر رہا ہوں۔
کہنے لگی بڑے بھولے بنتے ہو۔ سب کچھ ماں اور اپنی بہن کو کھلا رہے ہو۔ ہمیں دیتے ہی کیا ہو۔

وہ جانتا تھا کہ شیداں کو کیا پیڑ ہے اور وہ کیوں رولا ڈالتی ہے۔ وہ ماں کو دیتا ہی کیا تھا۔ ہفتے عشرے بعد چند ٹکے اور بیوہ بہن اور اس کے بچوں کو عید شبرات پر سستے قسم کے کپُڑے بنا دیتا تھا اور بس۔ یہ ہی اسے کھٹکتے تھے۔ ماں اور بہن کا اس پر حق تھا۔

شیداں جب بھی بولتی اس کی ماں کو ففےکٹن کہتی جب کہ اپنی ماں کو ہمیشہ امی جان کہتی۔ جب اس کی ماں آتی تو بوتھا ٹیڑھا کر لیتی پانی تک نہ پوچھتی۔ جب اس کی ماں آتی تو امی جان امی جان کرتی اس کے آگے پیچھے ہوتی۔ خوب خدمت تواضح کرتی۔ یہ ہی نہیں اچھا پکا تک ان کے گھر بھجوا کر سانس لیتی۔ بچت کرکے اس کی چوری چھپے مٹھی بھی گرم کرتی رہتی تھی۔ بھائی کے بیٹے کا اسکول کا خرچا اٹھایا ہوا تھا۔ بھائی تھا کہ سیدھے منہ سے حضرت کا سلام بلانا پسند نہیں کرتا تھا۔

اگر کبھی کبھار ماں کو پنج دس روپے دے دیتا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کون سا روز روز دیتا ہے۔ رہ گئی بہن اس کو کیا دیتا ہے۔ عید شبرات پر تیسرے درجے کے کپڑے اور بس۔ وہ کہتی تو پھر اتنی کمائی کہاں جاتی ہے۔ اتنی پر اسے بڑا تاؤ آتا جیسے اس کے باپ نے دو مربعے زمین اس کے نام کر دی ہو یا جہیز میں ملیں لائی تھی۔

کمائی کیا تھی وہ ہی دن بھر کا محنتانہ جو وہ ان پر خرچ کر دیتا تھا۔

وہ سوچتا رہا کہ دنیا کوئی آرام دہ مقام نہیں ہے۔ باہر دنیا اور گھر میں اپنے لوگ زمین پر پاؤں نہیں آنے دیتے۔ کتنا بھی کچھ کر لو‘ خوش نہیں ہوتے۔ ایک اللہ ہی ہے جو معمولی سی اچھائی پر خوش ہو جاتا ہے۔ اس روز وہ بڑا ہی ڈس ہارٹ ہوا تھا۔ کچھ بھی کر لے‘ کتنی قسمیں کھا لے‘ گھر میں کوئی یقین کرنے والا نہیں تھا۔ اس کے سوچ کے حلقے گہرے ہوتے چلے گئے۔

اسے یاد آیا شیداں نے کہا تھا کہ سدھر جاؤ۔ اس نے سوچا یہ سدھرنا کیا ہے۔ اللہ کی طرف پھرنا ہی تو اپنی حقیقت میں سدھرنا ہے۔ اس نے پہلی بار اللہ کو دل سے پاد کیا اور درود پاک پڑھنے لگا۔ ابھی آدھا بھی نہیں پڑھ پایا ہو گا کہ گہری اور پرسکون نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

بےشک اللہ اور اس کے رسول کے ہاں ہی سکھ اور چین کی دنیا آباد ہے۔ اگر موت جو لمبی نیند ہے‘ میسر نہ ہوتی تو دنیا میں پاگلوں اور وحشیوں کے سوا کے سوا کچھ نہ ہوتا۔
 
Top